وزیر اعظم میاں نواز شریف اور نئی خارجہ پالیسی
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کئی وزارتوں کے قلم دان بوجوہ اپنے پاس ہی رکھے ہوئے ہیں جن۔۔۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کئی وزارتوں کے قلم دان بوجوہ اپنے پاس ہی رکھے ہوئے ہیں جن میں انتہائی اہمیت کی حامل وزارت خارجہ کا قلم دان بھی ان ہی کے پاس ہے۔ البتہ ان کے دو معاونین سرتاج عزیز اور طارق فاطمی ان کے دائیں بائیں معاونت کے لیے موجود ہیں ۔ وزارت خارجہ دیگر تمام وزارتوں سے زیادہ اہم اور مسلسل توجہ کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ بیرونی دنیا کے ساتھ ملک کے تعلقات کا تمام تر دارومدار اسی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ جزوقتی سلوک قطعی نامناسب ہے کیونکہ یہ ایک Full Time Job ہے۔
اس کے لیے پوری توجہ اور بروقت عملی کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ اس وزارت کا قلمدان بلا تاخیر کسی وزیر باتدبیر کے حوالے کردیا جائے تاکہ امور خارجہ کو مکمل یک سوئی کے ساتھ انجام دیا جاسکے۔تاہم یہ امر قابل ستائش ہے کہ میاں محمد نواز شریف اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود وزارت خارجہ کے جملہ امور کے لیے بھی کسی نہ کسی طرح وقت نکال رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے دفتر خارجہ کا پہلا دورہ کیا اور موقعے پر ہی چند ہدایات بھی جاری کیں، وزیر اعظم کے اس دورے کا بنیادی مقصد دفتر خارجہ کے اہلکاروں کو خارجہ پالیسی کے بارے میں سیر حاصل بریفنگ دینا تھا۔
قارئین کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی میاں صاحب نے پاکستانی سفارت کاروں کو باقاعدہ خطوط تحریرکیے تھے جن میں اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات بیان کی گئی تھیں۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا تھا کہ دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر سے بہتر بنایا جائے اور پاکستان کے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر خصوصی توجہ دی جائے۔ جہاں تک چین کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ تعلقات ہمالیہ سے بھی بلند اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرے ہیں۔
تاہم وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ تزویراتی ساجھے داری کو مزید فروغ دیا جائے تاکہ نوعیت یک جان دو قالب والی ہوجائے۔ رہی بات ایران کی، جس نے قیام پاکستان کے بعد مملکت نوزائیدہ کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا، وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ یہ تعلقات برادرانہ بنیاد پر نارمل رہیں۔ سب سے مشکل معاملہ پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کا ہے جس نے مسلم ملک ہونے کے باوجود پاکستان کو سب سے آخر میں تسلیم کیا تھا اور جس کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور جسے روسی جارحیت اور قبضے سے چھٹکارا دلانے کے لیے جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں پاکستان نے اپنے وجود کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد افغانستان میں جتنے بھی حکمراں آئے وہ تمام ہی پاکستان کے دشمنوں کے اشارے پر ناچتے رہے اور پاکستان کو آنکھیں دکھاتے رہے جن میں افغانستان کے موجودہ صدر پیش پیش ہیں۔ صرف طالبان کا مختصر سا عبوری دور ایسا تھا جب دونوں برادر ممالک کے باہمی تعلقات حقیقتاً برادرانہ تھے اور ان تعلقات کی بدولت تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کو افغانستان کی صورت میں تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) میسر آئی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی دلی خواہش ہے کہ افغانستان کے ساتھ وطن عزیز کے تعلقات بہتر ہوں۔ مشیر برائے امور خارجہ وقومی سلامتی جناب سرتاج عزیز کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے ذریعے میاں صاحب نے صدر کرزئی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔
وزیر اعظم اس خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مشرقی پڑوسی بھارت کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات پرامن اور اطمینان بخش ہوں تاکہ یہاں استحکام قائم ہیں جس کے نتیجے میں تمام ممالک کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور اپنی ساری توانائیاں اپنی اقتصادی حالت کو بہتر سے بہتر بنانے پر صرف کرسکیں۔ چناں چہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالتے ہی انہوں نے بھارت کو خیرسگالی کا پیغام ارسال کیا تھا۔
اس ارفع اور نیک مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے out of the wayجاکر بھارت کو خصوصی امن پیشکش بھی کی اور اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ بھارت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ان کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوں۔ اس طرح بال کو بھارت کے کورٹ میں پھینک کر انہوں نے پوری دنیا کو باور کرادیا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور وہ اپنے پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصول پر عمل کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔
پچھلی مرتبہ 1999 میں بھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں میاں نواز شریف نے لاہور میں بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا پرجوش اور والہانہ استقبال کرکے بیرونی دنیا کو یہ باور کرادیا تھا کہ پاکستان درحقیقت ایک امن پسند ملک ہے جو اپنے پڑوسیوں سمیت تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہشمند ہے۔ اس مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی میاں صاحب نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ خیرسگالی کا آغاز وہیں سے کیا جائے جہاں پچھلی مرتبہ یہ سلسلہ ٹوٹ گیا تھا۔
ایک کاروباری پس منظر رکھنے والے صنعت کار کی حیثیت سے میاں صاحب فری مارکیٹ پالیسی کے حامی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک باہمی تجارت کے ذریعے ایک دوسرے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھائیں۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری جوکہ پاکستان کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں جب گزشتہ دنوں دورہ بھارت پر گئے تھے تو انہوں نے بھارتی حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں۔ جان کیری کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔
ادھر برطانیہ کے وزیر اعظم ولیم ہیگ نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہشمند ہیں اور پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کو بھی بہتر تعلقات کے فروغ کے لیے روابط بڑھانا چاہئیں۔ یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان معاملات پر ہم آہنگی موجود ہے۔ پاکستان اور برطانیہ کی تاریخ چند برسوں پرانی نہیں بلکہ یہ نصف صدی سے بھی زیادہ پرانا قصہ ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے لاکھوں شہری برطانیہ میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ اعلیٰ مناصب پر فائز ہوکر وطن عزیز کا نام بھی روشن کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ برطانیہ پاکستان کے ساتھ تجارت، توانائی اور ثقافت کے شعبوں میں قریبی تعاون بڑھانے کے لیے پرعزم ہے اور برطانیہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے عمل کا دوبارہ آغاز کرے گا ۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے یہ اطلاعات بھی خوش آیند ہیں کہ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ممالک نے باہمی مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کرلیا ہے۔ یہ اتفاق رائے وزرائے خارجہ اور بیک چینل ڈپلومیسی کے روابط کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔
جہاں تک پاک بھارت مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور اس میں وقتاً فوقتاً نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، بلکہ نشیب زیادہ اور فراز کم۔ یہ سلسلہ سانپ سیڑھی کے کھیل کے مماثل ہے۔ آخر مذاکرات ممبئی حملے کی وجہ سے ٹوٹے تھے جس کا بھانڈا ابھی حال ہی میں بھارت ہی کے ایک اہم افسر نے اپنے اس سنسنی خیز انکشافی بیان میں کیا ہے کہ بھارتی پارلیمان اور ممبئی حملے کا ناٹک خود بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے ہی رچایا تھا۔ اس انکشاف کے نتیجے میں عالمی برادری میں بھارت کے امیج کو بڑا زبردست دھچکا لگا ہے اور وہ اب فرنٹ فٹ سے بیک فٹ پر چلا گیا ہے جس کا بھرپور فائدہ حکومت پاکستان اور پاکستانی میڈیا دونوں کو ہی اٹھانا چاہیے۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ آیندہ ستمبر میں نیو یارک میں میاں صاحب کا ٹاکرا بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ہوگا۔ اس کے بعد بہت جلد دونوں وزرائے اعظم کی اگلی ملاقات 9 نومبر کو کولمبو میں دولت مشترکہ کے سربراہی اجلاس کے موقعے پر ہوگی۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کے بارے میں بھارت میں بھی یہ تاثر موجود ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہشمند ہے۔
دونوں ملکوں کی قیادت کو دونوں ممالک کے افلاس زدہ عوام کی بھلائی کی خاطر موجودہ سازگار ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ممالک میں ایسی طاقت ور اور موثر لابیاں موجود اور سرگرم ہیں جو دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کے حق میں نہیں ہیں حالانکہ دونوں ممالک کے بانیوں قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی جی کی خواہش تھی کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد دونوں ممالک کو جیو اور جینے دو کی پالیسی پر گامزن ہونا چاہیے۔ اب جبکہ دونوں ممالک ایٹمی قوت بن چکے ہیں، دونوں میں سے کوئی بھی ملک کسی مہم جوئی یا باہمی تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا دونوں ملکوں اور ان کے عوام کا مشترکہ اور مجموعی مفاد پرامن بقائے باہمی میں مضمر ہے۔