بوسنیا نام تھا بھوک‘ تشدد اور موت کا
گزشتہ دنوں بوسنیا مسلمانوں کے قتل عام کی 18 ویں برسی کے موقعے پر مزید 409 شہداء کی شناخت کے بعد باقاعدہ طور پر۔۔۔
KARACHI:
گزشتہ دنوں بوسنیا مسلمانوں کے قتل عام کی 18 ویں برسی کے موقعے پر مزید 409 شہداء کی شناخت کے بعد باقاعدہ طور پر تدفین کی گئی، اجتماعی قبر سے ملنے والے ان شہداء کی شناخت کے بعد سربرنیتزا کے پوٹوکاری قبرستان میں تدفین ہوئی، 43 لڑکے بھی دفن کیے گئے، ایک نوزائیدہ بچہ والد حجرالدین کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا، تمام تابوت سبز رنگ کے کپڑے میں لپیٹ دیے گئے تھے، مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دینے والے سرب رہنما رادون کرادووچ کی دی ہیگ میں جنگی جرائم کی عدالت میں پیش ہوئی جہاں انھوں نے الزام سے انکار کیا اور اپیل دائر کردی، واضح رہے کہ سرب فوج کے 38 اہلکاروں پر سربرنیتزا میں قتل عام کا الزام ثابت ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ اس قتل عام میں مارے جانے والے 6 ہزار 66 افراد اب تک دفن کیے جاچکے ہیں جب کہ 2206 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
سربرنیتزا کو 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے خاتمے کے وقت اقوام متحدہ نے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا۔ 1995 میں 6 سے 8 جولائی کے درمیان بوسنیائی سرب افواج نے اس غیر محفوظ علاقے کا محاصرہ کیا جہاں پر شمال مشرقی بوسنیا میں سرب افواج کے حملے سے بچنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں بوسنیائی شہریوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ سربرنیتزا کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بوسنیائی سرب فوجیوں نے وہاں موجود8 ہزار سے زیادہ مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کردیا تھا۔ اس قتل عام کو یورپ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد تشدد کا سب سے بڑا واقعہ بھی کہا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ سربرنیتزا کے قتل عام کو جرائم کی عالمی عدالت اور سابق یوگو سلاویہ کا جرائم ٹریبونل انسانی نسل کشی قرار دے چکا ہے اور اس سلسلے میں بوسنیائی سرب فوج کے سابق سربراہ رادون کرادووچ اور ان کے اہم کمانڈر رادکو ملا دووچ پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے۔ خیال رہے کہ حکام نے کرادووچ کو 2008 جب کہ ملاددوچ کو 2011 میں گرفتار کیا۔
ہاں! مجھے یاد ہے بوسنیا نام تھا ہولناک خواب کا، بوسنیا نام تھا اسٹیج کا جہاں دہشت محو رقص تھی، بوسنیا مسلمان بے کسوں اور بے بسوں کی قتل گاہ تھا، بوسنیا نام تھا ماؤں کی ان چیخوں کا جو آسمانوں کو دہلاتی ہیں، بوسنیا نام تھا اس مقام کا جہاں عزیزوں کی لاشوں کا انبار لگا رہتا تھا، بوسنیا نام تھا بہو بیٹیوں کی لٹی ہوئی آبروؤں کا، بوسنیا نام تھا کھانے کو غم اور پینے کے لیے آنسوؤں کا، بوسنیا نام تھا بموں کے دھماکے، اڑتے ہوئے لہو کا جہاں شہر اور گاؤں تباہ و برباد ہوچکے تھے، بوسنیا اس خطے کا نام تھا جہاں سربیا کے فوجی روٹی میں کیڑے ڈال کر مسلمانوں کو کھانے پر مجبور کرتے رہے ہیں،
بوسنیا نام تھا بھوک، تشدد اور موت کا، بوسنیا نام تھا اس کیمپ کا جہاں 50 افراد کو روزانہ گھٹنوں کے بل کھڑا کرکے رائفلوں کے بٹوں سے مارا جاتا تھا اور سینے تک موجود پانی کے ٹینک میں قیدیوں کو کھڑا کرکے اس میں ہلکی بجلی چھوڑ دی جاتی تھی، بوسنیا نام تھا ان 94 کیمپوں کا جہاں زندگی عذاب تھی ان میں اتنی بھی جگہ نہیں تھی کہ آدمی زندہ ہل سکے اور ہاتھ منہ دھونے یا بات کرنے کی بالکل اجازت نہیں تھی نہ ہی ان کیمپوں میں باتھ روم کا انتظام تھا۔ مشرقی بوسنیا میں تزلہ کے قریب تین نوجوان مسلم خواتین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور تشدد کے بعد انھیں زندہ جلادیا گیا تھا، ظالموں نے اس پر بس نہیں کیا تھا سیکڑوں لڑکیوں کو مہینوں قید میں رکھنے کے بعد انھیں اس انداز میں آزاد کیا جاتا کہ ان کی اکثریت حاملہ ہوچکی تھی اور ایک چوتھائی تعداد اپنا ذہنی توازن کھو چکی تھی۔
بوسنیا میں مسلم کشی کا یہ دردناک عمل موسم بہار میں اس وقت شروع ہوا جب بوسنیا اور ہرزیگوینا نے آزاد مملکت کے روپ میں نیا جنم لیا تھا اس دوران سربیا کی فوج نے ایک ملین مسلمانوں اور کروش باشندوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا اور وحشت کا وہ رقص شروع کیا گیا جس نے چنگیز خان کی یاد تازہ کردی تھی۔ سربیا کا واحد مقصد ہر طرح سے اپنی مملکت کی وسعت تھا۔
سربیا نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ بہاک کے 70 ہزار مسلمان جب تک علاقہ نہیں چھوڑ جائیں گے مسلمانوں پر بمباری جاری رہے گی۔ سربیا اس وقت ایک ملین سے زائد مسلمانوں اور کروش باشندوں کو ملک سے نکال چکا تھا اور یوں اسے بلغراد سے بہاک تک 200 میل کا علاقہ حاصل ہوچکا تھا جس نے وسیع و عظیم سربیا کے خواب کو تقریباً حقیقت بنادیا تھا۔
بوسنیا کی فوجوں نے دارالحکومت سرائیووکے مغرب میں فوجی اہمیت کے ان علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا جن پر سربیا کی فوجوں نے 3 ماہ قبل قبضہ کرلیا تھا۔ اس دوران بوسنیا سے ایک ہزار سے زیادہ بچے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پہنچا دیے گئے تھے جہاں لیبیا کے لیڈرکرنل معمر قذافی نے خود ان بچوں کا خیرمقدم کیا تھا۔
بوسنیا میں انسانوں کا یہ قتل عام کوئی نئی بات نہیں تھی ازل سے انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کا قتل ہوتا رہا ہے۔ ایک طرف تو انسانوں نے اپنے حقوق کے لیے اپنے سر کٹوائے تو دوسری طرف انسانی حقوق کی بحالی کے لیے تنظیمیں بھی وجود میں آتی رہیں جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بحالی کے لیے بے شمار قوانین پاس کیے گئے۔ 1986 کا قانون حقوق، 1789 کا انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے امریکی بل اور 1789 میں فرانس ڈیکلیئریشن آف سین، 1898 میں فرانس کے شہر پیرس میں ہیومن رائٹس لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اتنی ڈھیر ساری تنظیموں کے قیام اور قانون بنانے کے باوجود تین عالمی جنگیں لڑی گئیں جس میں کئی لاکھ انسان ہلاک ہوئے اور آج بھی کشمیر، عراق، مصر، فلسطین، افغانستان اور شام میں مسلم کشی جاری ہے۔
پھر ان تمام تنظیموں کی مرکب تنظیم (اقوام متحدہ) وجود میں آئی۔ اس تنظیم نے (ویٹو کے استعمال) کا قانون پاس کرکے غریب اور کمزور ملکوں کی آواز دبا دی۔ یہ وہی اقوام متحدہ ہے جو بوسنیا ہرزیگوینا میں 50 ہزار سے زائد انسانوں کے قتل عام کے بعد بھی خاموش تماشائی بنی رہی تھی اور مختلف حیلے بہانوں سے اس جنگ کو مختلف اشکال دینے میں مصروف رہی تاکہ اس جنگ کی تباہیوں کا تذکرہ کوئی نہ کرسکے اور اس سرزمین پر سارے مسلمان ختم ہوجائیں۔ یہ سوال آج بھی کیا جاسکتا ہے کہ سربیا کے خلاف اس وقت طاقت کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ اس لیے کہ یہ طاقت ور اور غاصب ملکوں کے مفاد میں نہیں تھا اس لیے بوسنیا میں کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی تھی جب کہ بوسنیا میں شہر شہر، گاؤں گاؤں لاتعداد قبرستان بن چکے تھے اس کے باوجود انسانی حقوق کی حفاظت کرنے والی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔
بل کلنٹن نے اس وقت کے صدر بش کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ہوائی طاقت کے استعمال سے سربیا کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا تاکہ بوسنیا میں کم ازکم بنیادی انسانی حقوق تو بحال ہوتے۔ اس وقت مسٹر جارج بش سینئر یہ کہہ چکے تھے کہ ہمیں اس سلسلے میں فیصلہ کرنا ہے کہ آگ میں کسی اور کے بچوں کو جلنے بھیج دیں قدرے غلط ہوگا۔
اس وقت امریکا کے ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ بورنس ایگل برڈ جوکہ 1977 سے 1981 تک بلغراد میں امریکی سفیر بھی رہے ہیں نے اگست 1992 کو کہا تھا کہ امریکی حکام سربیا کے صدر سلوبوڈان مائیلو سیووک کو سمجھنے میں قدرے ناکام ہوئے ہیں اور میں اسے مارکسسٹ سمجھتا تھا مگر وہ ایک شدید قوم پرست لیڈر بن کر سامنے آیا ہے۔ اگرچہ امریکا نے یوگو سلاویہ کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کی تھی مگر اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ میں 1990 سے یہ محسوس کر رہا تھا کہ کوئی سانحہ رونما ہونے والا ہے جس میں مائیلو سیووک کا ہاتھ ہوگا میں نے دو سال پہلے کہا تھا کہ یہ عظیم سربیا کی بات کر رہا ہے مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہم اس وقت یا اب اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
اس طرح سربیا کے صدر سلو بوڈان مائیلو سیووک کی حکمت عملی کامیاب رہی اور دوسری طرف ساری دنیا خاص کر مسلم ممالک بوسنیا سے اٹھنے والے دھوئیں کا تماشا دیکھتے رہے اور عالمی امن کا دعویدار امریکا بھی سربیا کے خلاف خاطر خواہ کارروائی کرنے سے قاصر رہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت بوسنیا کے لیے ہتھیاروں کے حصول پر پابندی عائد کی گئی تھی جب کہ بوسنیا کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ تھا کہ ''بوسنیا میں امداد بھیجنے والو سنو! اگر تمہیں امداد کرنی ہے تو اسلحے کی امداد کرو کیونکہ بوسنیا کے نوجوانوں کو روٹی کی نہیں اسلحے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، انشاء اللہ آپ دیکھ لیں گے کہ ایک نہ ایک دن آنسوؤں کی آگ آتش فشاں لاوا بن جائے گا''۔ آج بھی اگر پوری امت مسلمہ نے متحد ہوکر کوئی قدم نہ اٹھایا تو ان کو مزید سانحات کا شکار ہونا پڑے گا۔