پاکستانی ٹیلر ماسٹر ارشد محمود

ایک خبر کے مطابق ارشد محمود لندن کے مہنگے ترین علاقے میں ٹیلرنگ شاپ چلا رہے ہیں۔


Saeed Parvez July 22, 2013

ایک خبر کے مطابق ارشد محمود لندن کے مہنگے ترین علاقے میں ٹیلرنگ شاپ چلا رہے ہیں۔ موصوف خود ٹیلر ماسٹر ہیں اور درزی کا کام انھوں نے کراچی میں سیکھا ہے۔ ارشد محمود پاکستان میں پیدا ہوئے یہیں پلے بڑھے، پھر قسمت نے یاوری کی اور لندن پہنچ گئے۔ ان کے سلے ہوئے کوٹ پینٹ اتنے اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں کہ جنھیں کئی بین الاقوامی مشہور شخصیات اور فلمی اداکار پہنتے ہیں۔

اس مشہور و معروف ٹیلرنگ شاپ کے سلے ہوئے کوٹ پینٹ ہمارے ملک کے امیر کبیر حضرات بھی پہننے کا شرف رکھتے ہیں، مگر ہمارے امیروں کبیروں نے ارشد محمود کو منع کررکھا ہے کہ کبھی ہمارے نام کہیں بھی ظاہر نہ کیجیے گا اور نہ ہی ہمارے سلے ہوئے سوٹ کی قیمت بتائیے گا۔

ہمارے پاکستانی ٹیلر ماسٹر ارشد محمود تازہ ترین خبر یوں بن گئے کہ حال ہی میں انھوں نے دنیا کا دوسرا مہنگا ترین سوٹ تیار کیا ہے۔ اس کوٹ پینٹ کا کپڑا 22 کریٹ سونے کے تاروں سے تیار کیا گیا ہے اور اس سوٹ میں بطور بٹن قیمتی ہیرے استعمال کیے گئے ہیں۔

ارشد محمود کا کاروبار انگلینڈ کے علاوہ ہانگ کانگ میں بھی ہے اور ان کا اپنا شمار بھی اب امیر کبیر لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے لیے بہت خوشی کی بات ہے کہ ایک پیدائشی پاکستانی جس نے درزی کا کام بھی پاکستان کے شہرکراچی میں سیکھا وہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت ترقی کرتا ہوا اس مقام تک پہنچ گیا کہ جہاں بین الاقوامی شخصیات اور ہالی وڈ، بالی وڈ کے مشہور اداکار بھی فخریہ ان کے تیارکردہ کوٹ پینٹ پہنتے ہیں۔ میں نے ہالی وڈ اور بالی وڈ کے اداکاروں کا حوالہ دیا ہے۔ اپنے لالی ووڈ کے بھی ایسے اداکار ہیں جو ارشد محمود کے کوٹ پینٹ پہننے کی استطاعت رکھتے ہیں مگر بقول ارشد محمود کے ان سے تمام پاکستانی گاہکوں نے نام صیغہ راز میں رکھنے کے لیے کہہ رکھا ہے۔ تو پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم بے چارے لالی ووڈ والوں کا ذکر کریں۔

اپنے وطن کے بارے میں کبھی کبھی کوئی اچھی خبر منظر عام پر آجاتی ہے تو فضا ذرا بدل سی جاتی ہے۔ ارشد محمود خوش رہیں۔ اللہ ان کے کاروبار میں اور برکت عطا فرمائے اور وہ دنیا کا مہنگا ترین کوٹ پینٹ تیار کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں اور ارشد محمود ذرا سی کوشش کریں تو اس مہنگے ترین سوٹ کا خریدار انھیں اپنے ہی وطن پاکستان سے مل سکتا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے پاکستان میں دنیا کے امیر کبیر ترین لوگ بھی رہتے ہیں۔ اور غریب ترین لوگ بھی رہتے ہیں۔ بہرحال اس وقت مجھے کوئی رونا دھونا نہیں ہے۔ بس میں اپنے پاکستانی ٹیلر ماسٹر ارشد محمود سے کہوں گا کہ دنیا کے دوسرے مہنگے ترین سوٹ کی تیاری کے بعد اب وہ مہنگا ترین سوٹ تیار کرنے میں لگ جائیں اور اس کے کپڑے میں 22 کریٹ سونے کی تاروں سے بھی بڑھ کر کچھ اور قیمتی مال لگائیں، سوٹ کے بٹنوں کی جگہ مہنگے ترین ہیرے لگائیں اور گھبرائیں نہیں، دنیا کے اس مہنگے ترین سوٹ کے خریدار انھیں اپنے وطن پاکستان سے ضرور مل جائیں گے اور ایک انار کے سو بیماروں کے درمیان انھیں قرعہ اندازی کروانا پڑے گی۔

اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک عجوبہ موجود ہے۔ ایک شخص پر اربوں کے فراڈ کا کیس چل رہا ہے۔ جب مناسب سمجھا پاکستان آگیا ہے اور بیان دیا ہے کہ ''پہلے عرب امارات کے قوانین سے کھیلتا رہا ہوں اب پاکستان کے قانون سے کھیلوں گا''۔ ''لو کرلوگل'' یعنی لو کرلو بات، عجوبے قدم قدم پر یہاں ملتے ہیں۔ چیئرمین نیب مقرر نہیں ہوپارہا۔ رانا بھگوان داس جیسے پاک صاف شخص کا نام بڑے زوروں سے لیا جارہا تھا۔ مگر قانونی معاملات آڑے آگئے اور اب وہ چیئرمین نیب نہیں بن سکیں گے اب اللہ ہی جانے کہ رانا بھگوان داس کسی ''پسوڑھی'' سے بچ گئے؟ یا کچھ اور معاملہ ہے۔ کہ ایک بے خوف بہادر قانون کا پاسدار نیب کا چیئرمین وارا نہیں کھاتا؟

تو جناب ٹیلر ماسٹر ارشد محمود ! آپ لاکھ صیغہ راز میں وہ تمام نام رکھیں کہ جو آپ کی دکان کے تیار کردہ مہنگے ترین سوٹ پہنتے ہیں اور ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ہم وہ سب نام خوب جانتے ہیں۔ مگر آپ ان ناموں کو چھپا کر ہی رکھیں۔ جب ایک پاکستانی ٹیلر ماسٹر دنیا کا دوسرا مہنگا ترین سوٹ بنا سکتا ہے تو اسے پہننے والے پاکستانی کیوں نہیں ہوسکتے؟

ارشد جی ! آپ نے فن جامہ تراشی کا سارا کام کراچی سے سیکھا، کراچی آپ کو یاد تو آتا ہوگا؟ آپ چلے گئے اور دنیا فتح کر ڈالی۔ یہاں آپ کے کراچی کو فتح کرنے کی لڑائی جاری ہے۔ باقاعدہ جنگ لڑی جارہی ہے، بم چل رہے ہیں، دیواروں کے آر پار ہونے والی گولیاں چل رہی ہیں، معصوم شہریوں کو بھرے گھر چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کردیا گیا ہے، گھروں والے کھلے آسمان تلے بے یارومددگار، دوسرے شہروں میں بیٹھے ہیں۔بھائی بھائی کو مار رہا ہے۔ غریب شہر کے تن پر جو لباس تھا وہ بھی غربت سے پارہ پارہ ہوچکا۔ بے ننگ ونام کراچی کی طرف بھی اک رحم کی نظر میرے بھائی۔

ارشد ! رمضان کا مہینہ چل رہا ہے، آپ بھی اپنے مسلمان Customers کے لیے سوٹ تیار کر رہے ہوں گے یہاں ''اصل کراچی'' کا علاقہ لیاری میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ صدیوں سے آباد لوگ نقل مکانی کرکے ٹھٹھہ بدین اور دیگر شہروں میں چلے گئے ہیں۔ یہاں نہ رمضان کا احترام باقی رہا ہے نہ مساجد میں تراویح کا خیال رہا ہے ۔شنید ہے کہ اسلحہ کی کھیپ کنٹینر میں لائی گئی ہے ۔کیا جنگ ہونے والی ہے۔اور عید تو کسے یاد ہوگی؟

شہر کراچی پاکستان کی اقتصادی بنیاد ہے جس پر پورا پاکستان کھڑا ہے اس شہر کی ذمے داری صوبہ سندھ کی حکومت پر عائد ہوتی ہے، حکومت کے پاس اپنی پولیس ہے۔ مدد کو ہر دم تیار رینجرز ہے مگر معصوم شہری اپنے بھرے پرے گھر چھوڑ کر جاچکے ہیں اور صوبے کی حکومت اپنے وزراء سمیت ابھی تک کچھ نہیں کرسکی۔

ارشد محمود! معاف کرنا میں نے تمہاری رنگ بھری دنیا میں بھنگ ڈال دی، بھلا اب تمہارا موجودہ کراچی سے کیا واسطہ، کیسا تعلق؟ چلو یوں ہی سہی، آپ سلامت رہیں، مزید ترقی کریں، ہمارا کیا ہے، ہمیں تو یہ سارے دکھ جھیلنے ہیں، یہ سارے صدمے سہنے ہیں۔ پیارے بھائی!آپ سوٹ سیتے رہیں اور پاکستانی امیر کبیر پہنتے رہیں، کراچی میں گولیاں چلتی رہیں، لاشیں گرتی رہیں، عدالتوں سے خطرناک قیدی بھاگتے رہیں۔

ارشد محمود! تمہاری رنگ بھری دنیا تمہیں مبارک، ہماری بھنگ بھری دنیا ہمیں۔اﷲ نگہبان!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔