لیاری کا مرثیہ

کراچی میں امن کی ردا شاید اتنی تنگ ہوچکی ہے کہ جانوں کے ضیاع کے خوف سے اب برسوں کے۔۔۔

کراچی میں امن کی ردا شاید اتنی تنگ ہوچکی ہے کہ جانوں کے ضیاع کے خوف سے اب برسوں کے مکین کراچی سے یوں لٹے پٹے ہجرت کر رہے ہیں جیسے اغیار کے ہاتھوں سے انھیں جان جانے کا خوف لاحق ہو۔ کراچی میں کون بستے ہیں؟ اپنے ہی کلمہ گو بھائی بند... اور کراچی کے مشہور علاقے لیاری سے کوچ کرنے والے کون ہیں؟ اپنے ہی کلمہ گو۔

کیا ووٹ دینا اور ووٹ لینا اور ووٹ نہ دینا اتنا بڑا سیاسی جرم ہے جس کی سزا لیاری اور اہل لیاری کو دی جارہی ہے۔ کبھی یہی لیاری سیاست کا اکھاڑا ہوا کرتا تھا۔ بڑے بڑے سیاسی پہلوان اسی سیاسی اکھاڑے کے پہلوان ہونے پر فخر کیا کرتے تھے۔ پی پی تو لیاری کو اپنے سر کا تاج گردانتی تھی، بے نظیر شہید کی لیاری سے مثالی محبت سے شاید ہی سیاست کا کوئی طالب علم ناواقف ہو۔ جب بھی الیکشن کا زور ہوتا لیاری، لیاری کی صدائیں ہر جانب سے گونجا کرتی تھیں، اور اب؟ اسی پیپلز پارٹی کے دور میں لیاری کے مکین لٹ رہے ہیں، اسی لیاری کے جوان مر رہے ہیں، لیکن ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے پی پی آ گے نہیں بڑھ رہی ہے۔ ایم کیو ایم جو خود کو کراچی کا وارث اور اہل کراچی کی نمایندہ جماعت کہلوانے کی دعوے دار ہے لیکن اس کی جانب سے بھی زبانی حملوں کے سوا کچھ سامنے نہیں آرہا ہے۔

مرکزی حکومت نے نوٹس لے لیا ہے لیکن بات فقط نوٹس تک ہی محدود ہے۔ لیاری میں آہ و فغاں ہے اور ہنوز ہے۔ لیاری میں بسنے والوں کی اکثریت ان کی ہے جنہیں ہم ''عوام'' کہتے ہیں۔ لیاری کے عوام کی اکثریت کی گزر اوقات محنت مزدوری اور ''بڑے گھروں'' میں چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرکے پیٹ پالنے والوں کی ہے۔ لیاری جیسی صورت حال خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں اور شہروں میں رہی ہے، اس کے بعد یہ مکروہ سلسلہ ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں اور شہروں تک پھیلا اور اب لیاری ظلم کی عملی تصویر بن کر حکومت وقت کے منہ کو چڑا رہی ہے۔

سیاست کے مکروہ کھیل اور اپنے مفادات کے ''پٹو گرم'' میں عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جانا اب سیاست دانوں کا مشغلہ بنتا جارہا ہے۔ ہماری سیاست میں یہ رسم اب ''غیر تحریری آئین'' کادرجہ پاچکی ہے کہ جس حلقے سے جس پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوجائے گا، اگر تو اس جیتنے والے امیدوار کی پارٹی کی حکومت بن جاتی ہے تو اس حلقے میں سطحی حد تک خوش نصیبی کی بتی پانچ سال تک ٹمٹماتی رہتی ہے، لیکن اگر وہ حلقہ اپوزیشن کی گود میں چلا جائے تو پانچ سال تک اس حلقے پر کم نصیبی کا سایہ فگن ہوجاتا ہے۔


ایسے حلقوں کو سیاسی زبان میں یتیم حلقے کہا جاتا ہے۔ لیاری بھی شاید اسی کم نصیبی کا شکار ہے کہ اس کے سیاست کے دعوے داروں میں کوئی بھی لیاری کو اپنا ''لاڈلا بچہ'' بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ملال کا مقام یہ ہے کہ لیاری میں خون بہہ رہا ہے، روز ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں، آئے روز جنازے لیاری کا مقدر بن چکے ہیں، ماتم لیاری میں معمول کی رسم بنتا جارہا ہے۔ لیکن اقتدار کے محلات میں بیٹھے آقا اب بھی لیاری پر اپنی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ مرکز لیاری کو صوبائی حکومت کے سر تھوپ رہا ہے، صوبائی حکومت لیاری کے مسئلے کو وہاں کی اپوزیشن کے کھاتے میں ڈال رہی ہے اور یوں اس سیاسی تکون کے خواہ مخواہ رویے کے نتیجے میں لیاری میدان ظلم کا فٹ بال بن چکا ہے۔

لیاری میں بدامنی کا ذمے دار کون ہے؟ لیاری میں کون بھائی کو بھائی سے لڑا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے؟ لیاری کے بل پر کون اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے؟ قانون کے رکھوالے کہاں ہیں اور کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں؟ دن کی روشنی میں لیاری پر ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں مگر کوئی ذمے داری اور لیاری کے امن کی بحالی کے لیے کوشاں نہیں؟ مرکز کسی حد تک لاتعلق ہے، صوبائی حکومت لیاری کے سنگین انسانی مسئلے کو محض ''بیانی حد'' تک دیکھ رہی ہے۔

اس سوال کو ایک طرف رکھیے کہ لیاری میں جو کوئی سرگرم ہے، جو کوئی خون بہا رہا ہے لیکن اس کو ڈھونڈنے اور اسے کیفر کردار تک پہنچانے کا فریضہ بہرطور مرکزی اور صوبائی حکومت پر عائد ہوتا ہے کہ ریاست اور ریاستی اکائیوں میں بسنے والی رعایا کی جان و مال کی حفاظت مرکز اور صوبے میں براجمان حکومتوں کا کام ہے۔ سیاسی جماعتیں اسی سلوگن اور اسی نعرے کے بل پر عوام سے ووٹ سمیٹ کر حکمران بنی ہیں۔ اب ذمے داری بھی ان کے کندھوں پر عائد ہو تی ہے کہ وہ لیاری کے عوام کو امن اور جان و مال کی ضمانت دیں۔ لیاری کی کہانی کے بارے میں مرکز، صوبائی حکومت اور کراچی کی نمایندہ سیاسی جماعتیں بھلا کتنے ہی ''ڈائیلاگ'' ادا کریں، لیکن لیاری اور کراچی کے مسائل کے حل کی ذمے داری انھی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو کراچی میں سیاست کرتی ہیں، جو کراچی پر حکومت کررہی ہیں اور جو وفاق کے اقتدار پر براجمان ہیں۔

ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاست دان اگر سیاست کو میدان سیاست تک ہی محدود رکھیں تو شاید ملک میں لیاری جیسے سنگین مسائل جنم نہ لیں۔ مسائل کا آغاز اسی سیاست کے گود سے ہوتا ہے جب ہم سیاست کو سیاست نہیں بلکہ اسے ''مخالفت'' اور دشمنی کا لبادا چڑھا دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں کراچی کا امن مشہور تھا اور کسی زمانے میں کراچی کو غریب پرور شہر کا درجہ حاصل تھا اور اب کراچی اپنے سینے میں رہنے والوں کے لیے اجنبی بنتا جا رہا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ کراچی کے ہر معاملے کو اور ہر مسئلے کو ہماری سیاسی جماعتوں نے ''سیاست زدہ'' کردیا ہے، اور لیاری اس کی بدتر مثال ہے۔
Load Next Story