رشوت اور مالِ حرام

رشوت ایک ایسا ناسور ہے جس سے اخلاقی اقدار برباد ہوجاتی ہیں


اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس نے انسان کو ہر وہ کام جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتا ہو کے کرنے سے سختی سے منع کیا ہے فوٹو : فائل

اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس نے انسان کو ہر وہ کام جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتا ہو کے کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ رشوت لینا اور دینا بھی ایسے ہی عوامل میں شامل ہے جو معاشرے کی تباہی اور بگاڑ کا سبب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ رشوت معاشرے کے خون میں زہر کی طرح سرایت کرکے اس میں اس طرح شامل ہوجاتی ہے کہ پورے نظام کو جڑوں تک ہلا کر رکھ دیتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کا راستہ صاف صا ف دکھایا ہے، اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ بدی کے راستے پر چل کر خود کو دنیا و آخرت میں رسوا کرتا ہے یا نیکی کو اختیار کرکے اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رشوت بدترین دینی اور معاشرتی جرم ہے ، یہ انصاف کے راستے میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لیے تو حضور اکرم ﷺ نے رشوت لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور دونوں کو جہنم کی آگ کا حق دار ٹھہرایا ہے۔

رشوت ایک ایسا ناسور ہے جس سے حق دار اپنے حق سے محروم کردیا جاتا ہے اور پھر وہ حق دار اپنے حق کو لینے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتا ہے، جس سے معاشرہ بدامنی اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ اخلاقی اقدار تباہ و برباد ہوجاتی ہیں، ایک دوسرے کا احترام دلوں سے نکل جاتا ہے اور نفرتیں، کدورتیں، کینہ اور بغض جیسی برائیاں عام ہوجاتی ہیں۔ اس لیے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے معاشرے سے رشوت جیسی لعنت کا خاتمہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ اﷲ تعالی کا حکم ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: '' اور تمہیں جو مصیبت پہنچی، وہ اس کے سبب سے ہے، جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا''۔(سورہ الشوریٰ)

حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اے لوگو! اﷲ کی نافرمانی سے ڈرتے رہنا اور روزی کی تلاش میں غلط طریقہ مت اختیار کرنا، اس لیے کہ کو ئی شخص اس وقت تک مر نہیں سکتا جب تک کہ اسے پورا رزق نہ مل جائے اگرچہ اس کے ملنے میں کچھ تاخیر ہوسکتی ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور روزی کی تلاش میں اچھا طریقہ اختیار کرنا، حلال روزی حاصل کرو اور حرام روزی کے قریب نہ جاؤ ۔'' (ابن ماجہ)

سیدنا حضرت حسنؓ سے منقول ہے کہ بنی اسرائیل کے حکام کا یہ حال تھا کہ فریقین میں سے جب کوئی ان کے پاس آتا تو رشوت کو اپنی آستین میں رکھ لیتا وہ حاکم کی توجہ اپنی آستین کی طرف مبذول کراتا پھر اپنی ضرورت کا اظہار کرتا، حاکم وقت رشوت پر فریفتہ ہوجاتا اور اس کی طرف مائل ہوکر اس کی باتیں غور سے سنتا اور دوسرے فریق کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا اس طرح حکام رشوت کھاتے تھے اور جھوٹی باتیں سنتے تھے۔ (تفسیر کشاف)

بعض برائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کی رائے مختلف ہوسکتی ہے مگر رشوت ایک ایسی برائی ہے جس کے بُرے ہونے پر پوری دنیا متفق ہے۔ کوئی مذہب، فرقہ اور کوئی طبقہ ایسا نہیں ہے جو رشوت کو بدترین گناہ یا جرم نہ سمجھتا ہو۔ آج ہمارے معاشرے میں لوگ دن رات دفاتر میں بڑے دھڑلے کے ساتھ رشوت لے رہے ہیں، لوگوں کے سامنے یہ کوئی عیب ہی نہیں ہے، کسی کو کوئی شرم محسوس ہی نہیں ہوتی، اگر کسی کو کہا جائے کہ ایسا نہ کرو تو ڈھٹائی اور بے شرمی سے سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ساری دنیا رشوت لے رہی ہے۔

اس میں کیا حرج ہے۔ لیکن یہ ظاہری دولت اور ٹھاٹ باٹھ سب کچھ دنیا میں رہ جائے گا۔ اے انسان تجھے کس چیز نے دھوکے میں رکھا ہوا ہے تُو آج اپنی آخرت سے کیوں اتنا غافل ہے۔ تجھے جہنم کی آگ کا کوئی خوف نہیں ہے، تجھے اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے وہاں کیا جواب دے گا۔ آ ج تو لوگوں پر اپنا رعب جمانے کے لیے ہر ناجائز ذرایع سے دولت اکٹھی کر رہا ہے لیکن یہ سب کچھ تیرے کام نہیں آئے گا۔ اس کے لیے تو اپنے آپ کو کیوں تباہ کر رہا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں تو رشوت اتنی عام ہوچکی ہے کہ ایک چھوٹے سے کام کے لیے عام آدمی کو رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ معاشرے سے رشوت کے ناسور کو ختم کردیا جائے تو معاشرہ سیدھی اور سچی راہ پر گام زن رہے گا اور معاشرے سے بہت سی برائیاں ختم ہوجائیں گی۔ بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر تنہا میں نے رشوت ترک کردی تو اس سے پورے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا ؟ لیکن یہی وہ شیطان کا دھوکا ہے جو معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب ہر شخص دوسرے کا انتظار کرے گا تو معاشرہ کبھی بھی اس لعنت سے پاک نہیں ہوگا، آپ رشوت ترک کرکے کم از کم خود اس کے دنیوی اور آخرت کے نقصانات سے خود کو محفوظ کرلیں اس کے بعد آپ کی زندگی دوسروں کے لیے نمونہ بن جائے گی۔ کیا بعید کہ آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس سے توبہ کرلیں، تاریکی میں ایک چراغ جل اٹھے تو پھر چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ چل نکلے گا کہ اس سے پورا ماحول بقعہ ٔ نو ر بن جاتا ہے۔

پھر جب کوئی شخص اﷲ کے لیے اپنے نفس کے کسی تقاضے کو چھوڑتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ اس کا م کو مشکل سمجھنے کے بہ جائے اسے کرکے دیکھیے۔ اﷲ تعالیٰ سے اس کی آسانی کی دعا مانگیں، اﷲ کی مدد ضرور بالضرور شاملِ حال ہوگی اور کیا عجب ہے کہ معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لیے اﷲ پاک نے آپ ہی کو منتخب فرما لیا ہو۔

اﷲ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو اور پیارے پاکستان کو رشوت سے پاک صاف کرنے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنے کی طاقت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں