نواز شریف پالیسی سازی میں فوج کے کردار کو باضابطہ شکل دینا چاہتے ہیں
موجودہ مسائل عسکری اور سویلین قیادت میں پالیسی سازی پر برق رفتار اتفاق رائے کے متقاضی ہیں.
لاہور:
نوازشریف حکومت نے دہشت گردی کے گھمبیر مسئلے سے نمٹنے کیلیے جہاں سابق جنرل کی سربراہی میں قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی(نیکٹا) کی تنظیم نوکا فیصلہ کیا ہے وہاں ایک علیحدہ اسپیشلائزڈ فورس کا قیام اور فیصلہ سازی کیلیے قومی سلامتی کونسل کی تشکیل بھی زیرغورہے۔
لگتا ہے کہ نوازشریف پالیسی سازی میں فوج کے کردارکوباضابطہ شکل دینا چاہتے ہیں۔ سنیئرسیاسی اور بیوروکریٹک ذرائع نے انسداد دہشت گرد پالیسی کے ان تینوں عناصر کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان اداروں کے قیام کا عمل ہفتوں میں مکمل ہوجائے گا۔ اس مجوزہ پالیسی کا بنیادی پہلو اندرونی منظم دہشت گردی پر توجہ مرکوز کرنا ہے جبکہ غیرملکی عوامل سے اگلے مرحلے میں آنے والے مہینوں کے دوران نمٹا جائیگا۔ وزارت داخلہ کے ماتحت نیکٹا کو ایک ایسا ادارہ بنایا جارہا ہے جہاں عسکری اور سویلین انٹیلی جنس اداروں کی معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا۔
مقصد یہ ہوگا کہ دہشت گردی کے خطرے کا جامع پروفائل تیار کرکے درپیش چیلنجوں میں سے زیادہ اہم معاملات سے نمٹنے کے آپریشنل تقاضوں کا تعین کیا جائے۔ اگرچہ نیکٹا پالیسی سازی کا ادارہ نہیں ہوگا لیکن پالیسی گائیڈ لائنز کے نفاذ کیلئے اسے کافی زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے۔ فی الوقت کسی بھی سطح پر معلومات کا کوئی اجتماعی مرکز موجود نہیں ہے جو پالیسی رہنما اصولوں کی تشکیل کرسکے یا پھر واضح خطرات کے سدباب کا فیصلہ کرسکے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی جو نئی پالیسی کی تیاری میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں کو وزارت کا چارج سنبھالنے کے بعد ابتدائی چند ہفتوں میں اندازہ ہوگیا کہ معاملات میں کافی بدنظمی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر انھیں کچھ عرصہ قبل آئی ایس آئی سے ایک اطلاع ملی کہ اسلام آباد میں2دہشت گرد داخل ہوگئے ہیں جس پر وزیرداخلہ نے ریڈ الرٹ جاری کردیا لیکن کئی گھنٹے بعد انھیں پتہ چلا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے اس پر سرموکوئی عملدرآمد نہیں کیا۔ شہر کے داخلی راستوں یا چیک پوائنٹوں پر ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے کوئی خصوصی تدبیر نہیں کی گئی۔
جب وہ خود لاہور سے اسلام آباد میں داخل ہوئے تو چیک پوسٹوں پر صورتحال معمول کے مطابق نظر آئی۔کچھ پولیس اہلکار فون پرگپیں لگارہے تھے اور کچھ گرین بیلٹ پر مزے سے بیٹھے تھے اور محض گزرنے والی گاڑیوں پر ٹارچ کی روشنی پھینک رہے تھے۔ دوسری مثال اس سے بھی زیادہ پریشان کن تھی۔ چوہدری نثار کو ٹھوس انٹیلی جنس اطلاع ملی کہ بینظیرایئرپورٹ اورملحقہ نورخان ایئربیس پر حملے کا خطرہ موجود ہے چنانچہ ریڈالرٹ جاری کردیا گیا مگر اگلے روز انکشاف ہوا کہ عام راستوں پر نیم دلانہ انداز میں اضافی دستے تعینات کرنے کے سوا کوئی غیرمعمولی اقدامات نہیں کیے گئے۔ چوہدری نثار نے انٹرویو میں کہا ''مجھے بتایاگیا کہ ایئرپورٹ کی حفاظت کیلیے اضافی نفری دستیاب نہیں، یوں بہترین انتظامی کاوشوں کے باوجود ایئرپورٹ تین اطراف سے غیرمحفوظ رہا''۔ وزیرداخلہ نے یہ بھی شکوہ کیا کہ اعلیٰ سطح سے جاری احکامات پر آپریشنل سطح پر مئوثر کارروائی نہیں کی جاتی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ دارالحکومت میں داخل ہونے والے دہشت گردکہاں گئے تو انھوں نے جواب دیا کہ ''کوئی نہیں جانتا۔
شاید انہیں تلاش کیا جارہاہولیکن ہمیں کچھ علم نہیں، ممکن ہے وہ اب بھی یہیں کہیں ہوں''۔ امکان ہے کہ نیکٹا ''آج اس مسئلے کو دیکھیں گے، کل کا پتہ نہیں'' جیسے اس تکنیکی سقم کو دور کرے گا۔ وہاں ہفتے کے ساتوں ایام میں24گھنٹے کا نظام ہوگا جہاں خفیہ اطلاعات موصول ہونے کے بعد انھیں باضابطہ شکل دی جائے گی اور قابل عمل سانچے میں ڈھالنے کے بعد اطلاعات کو برق رفتار کارروائی کیلیے متعلقہ ادارے تک پہنچایا جائے گا اور فالواپ کا بھی خیال رکھا جائیگا۔ یہ بات ابھی واضح نہیں ہوئی کہ ان خفیہ اطلاعات (بالخصوص سویلین انٹیلی جنس اداروں سے ملنے والی) کو کیسے سسٹم میں داخل کیا جائیگا اور دہشت گردوں کی کارروائیوں کو کچلنے کیلیے اقدامات کی قیادت کون کرے گا۔ اس ضمن میں درمیانے درجے کے افسروں کے روزانہ اجلاس کی تجویز زیرغور ہے۔ عام طور پر خفیہ ادارے آپس میں رقابت کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے زیراثر معاملات کی خود نگرانی کرتے ہیں اور کسی دوسرے ادارے کے ساتھ مل کر کام کرنے کو یکسر ناپسند کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خفیہ ادارے آپریشنل سطح پر اکثر اوقات غیرموثر، بسا اوقات متوازی اور کبھی کبھار متصادم کارروائی کرتے ہیں۔ سویلین اور فوجی انٹیلی جنس اداروں میں دائرہ کار کی لڑائی اکثر تلخ صورتحال اختیار کرلیتی ہے۔ اول الذکر کو شکایت ہے کہ فوجی حکام کا رویہ حاکمانہ اور ناقابل برداشت ہوتا ہے جبکہ مئوالذکر کے خیال میں سویلین خفیہ حکام نااہل اور ہر لحاظ سے ناقابل اعتبار ہوتے ہیں۔ نیکٹا کا مقصد یہ ہے کہ افعال کار کا یہ سقم دور کیا جائے اور عدم اعتماد کی یہ سوچ تبدیل کی جائے۔ یہ ایک مشکل ٹاسک ہیں کیونکہ تمام انٹلی جنس نیٹ ورک اپنے اپنے دائرہ کار میں کم کرتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کو نیٹ ورک کے سلسلے کی کمزور ترین کڑی قرار دیتا ہے۔ تاہم اس نکتے پر کام کا آغاز حوصلہ افزا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے اس موضوع پر پہلی بار سویلین قیادت کیلیے اپنے دروازے کھولے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم اپنے سیاسی رفقائے کار اور سویلین افسروں کی ٹیم کے ساتھ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرگئے تو بات چیت کا محور ''انٹیلی جنس شیئرنگ'' ہی رہا۔
وہاں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہر خفیہ ادارہ ٹیکٹیکل سطح پر خودمختار ہوگا جبکہ اسٹرٹیجک درجے کی انٹیلی جنس شیئرنگ زیادہ کھل کر اور موثر انداز میں کی جائے گی۔ اس اجلاس کی کارروائی سے باخبر ایک اعلیٰ سول افسر نے بتایا کہ '' انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی کو بہترین انداز میں فعال بنانے کیلیے عسکری اور سویلین کے نکتہ نظر میں ہم آہنگی کے حوالے سے یہ بریفنگ نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے طاقتور قومی ڈھانچے کی تخلیق کے باب میں سویلین قیادت کو ہرممکن تجربے اور معاونت کی فراہمی کا یقین دلایا''۔
البتہ اجلاس میں ہر معاملے پر مصالحت نہیں ہوئی۔ دہشت گردی کے سدباب کیلئے سویلین اداروں کی استعداد کار بڑھانے کیلیے اختلاف رائے بدستور قائم رہا۔ چوہدری نثار نے یہ اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا کہ ایسے افسروں کا تقریباً مکمل ''قحط '' ہے جو احکام کا موثر نفاذ یقینی بناسکیں ۔ انتظامی سطح پر بے حسی نہایت خوفناک حد تک پائی جاتی ہے۔ میں نے وزیراعظم سے کہہ دیا ہے کہ یہ خداکا معجزہ ہی ہوسکتا ہے کہ ہمارے بڑے شہر دہشت گردوں کے حملوں میں محفوظ ہیں وگرنہ ہماری پولیس آنکھیں بندکیے کبوتر جیسی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پیٹ پرکھجلی کرتے پولیس اہلکار جو ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزور صورتحال کے واضح عکاس ہیں۔ وہ ہرگز دہشت گردی سے نمٹنے کی اہلیت نہں رکھتے، حتیٰ کہ ایلیٹ فورس جو کبھی اچھی کارکردگی دکھاتی تھی اب بری حالت کا شکار ہے اور اس سے صرف پروٹوکول کی ڈیوٹی لی جارہی ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف فوری کارروائی کی صلاحیت رکھنے والی ایسی فورس کے قیام میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں جس کا علیٰحدہ کمانڈ اسٹرکچر ہو، جو عوامی سطح پر کم ہی نظر نہ آئے اور صرف اسی وقت منظرعام پر آئے جب اسے کسی گھمبیر صورتحال والے علاقے میں تعینات کیاجائے۔ عسکری ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ فوج کی اعلیٰ کمان جہاں اس نئی فورس کے قیام سے اصولی اتفاق کرتی ہے اور اس کیلیے افرادی قوت اور تربیت کی فراہمی پر تیار ہے وہ سمجھتی ہے کہ یہ ''وسط مدتی سے طویل مدتی '' حل ہے جبکہ ملک کو جس مسئلے کا اس وقت سامنا ہے وہ فوری حل کا متقاضی ہے۔ فوج کا اپنا ایس ایس جی کی ''ضرار'' اور ''کرار'' کمپنیوں کے ساتھ اسپیشل یونٹ تیار کرنے کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسی فورس کیلیے غیرمعمولی مساعی درکار ہیں۔
اس کے باوجود یہ موجودہ نظام کو مضبوط تو کرسکتا ہے مگر مکمل طور پر اسکی جگہ نہیں لے سکتا لیکن وزیراعظم اور ان کی ٹیم بہر صورت انسداد دہشتگردی کی خصوصی فورس قائم کرنے میں پرعزم ہے جس کا آغاز اسلام آباد میں چھوٹے یونٹ کے قیام سے ہوگا۔ البتہ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس فورس کی مالی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی اور چاروں صوبائی حکومتوں میں سے کتنی اس معاملے میں شریک ہونگی۔ اس فورس کے متوازی دہشت گردوں کے خلاف قانونی کارروائی کیلیے موثر نظام کی موجودگی بھی ازحد ضروری ہے کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے اس بارے میں نتیجہ خیز پیشرفت نہیں ہوسکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دراصل سب سے پیچیدہ پہلو ہے جو اس حقیقت سے مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ وفاقی کابینہ میں تاحال کوئی وزیرقانون نہیں ہے۔
بہرحال قومی سلامتی پالیسی کے اس قسم کے معاملات قومی سلامتی کونسل جیسے کسی سیٹ اپ میں حل کرلئے جائیں گے جس کے مینڈیٹ، افعال کار اور مستقبل کے بارے میں فوجی اور سویلین حلقوں میں بحث جاری ہے۔ اس وقت کوئی بھی ایسا ادارہ موجود نہیں جس میں تمام پالیسی ساز ایک میز پر بیٹھ کر صرف دہشت گردی نہیں بلکہ قومی مفاد کے دیگر امور پر اجتماعی فیصلے کرسکیں۔ فوجی اور سویلین قیادت میں جو بھی ملاقاتیں ہوتی ہیں وہ غیررسمی یا موقع کی مناسبت سے ہوتی ہیں۔ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے پاس محدود مینڈیٹ ہے اور اسے غیرمعمولی صورتحال کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ موجودہ مسائل عسکری اور سویلین قیادت کے درمیان پالیسی سازی پر برق رفتار اتفاق رائے کے متقاضی ہیں لیکن اس کیلیے کوئی میکانزم موجود نہیں۔
اس خلا کا نتیجے حالیہ برسوں میں قومی معاملات پر بے ربط ردعمل کی صورت میں نکلا ہے۔2مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکا کے آپریشن کے بعد ایک ہفتے کے دوران6 مختلف نوعیت کے ردعمل سامنے آئے جن میں امریکی کارروائی پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا اعادہ نہ کرنے کی بات کی گئی۔ اگرچہ مجوزہ اعلیٰ اختیاراتی ادارے کے قیام کا ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم سنیئر سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ اس میں ان تمام اداروں کے افراد شریک ہوں گے جو اندرونی اور بیرونی خطرات سے براہ راست نمٹتے ہیں اور وزیراعظم اس کے سربراہ ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہ، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور خفیہ اداروں کے سربراہ بھی اس میں شریک ہوں گے۔ ابھی یہ غیرواضح ہے کہ اس میں وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہوں گے یا نہیں لیکن قومی سطح کے ہر اجلاس میں وزیراعظم کے بھائی وزیراعلیٰ شہبازشریف کی موجودگی کے پیش نظر یہ بمشکل تصورکیا جاسکتا ہے کہ مجوزہ ادارے میں شہبازشریف یا دیگر وزرائے اعلیٰ شریک نہیں ہوں گے۔
نوازشریف حکومت نے دہشت گردی کے گھمبیر مسئلے سے نمٹنے کیلیے جہاں سابق جنرل کی سربراہی میں قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی(نیکٹا) کی تنظیم نوکا فیصلہ کیا ہے وہاں ایک علیحدہ اسپیشلائزڈ فورس کا قیام اور فیصلہ سازی کیلیے قومی سلامتی کونسل کی تشکیل بھی زیرغورہے۔
لگتا ہے کہ نوازشریف پالیسی سازی میں فوج کے کردارکوباضابطہ شکل دینا چاہتے ہیں۔ سنیئرسیاسی اور بیوروکریٹک ذرائع نے انسداد دہشت گرد پالیسی کے ان تینوں عناصر کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان اداروں کے قیام کا عمل ہفتوں میں مکمل ہوجائے گا۔ اس مجوزہ پالیسی کا بنیادی پہلو اندرونی منظم دہشت گردی پر توجہ مرکوز کرنا ہے جبکہ غیرملکی عوامل سے اگلے مرحلے میں آنے والے مہینوں کے دوران نمٹا جائیگا۔ وزارت داخلہ کے ماتحت نیکٹا کو ایک ایسا ادارہ بنایا جارہا ہے جہاں عسکری اور سویلین انٹیلی جنس اداروں کی معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا۔
مقصد یہ ہوگا کہ دہشت گردی کے خطرے کا جامع پروفائل تیار کرکے درپیش چیلنجوں میں سے زیادہ اہم معاملات سے نمٹنے کے آپریشنل تقاضوں کا تعین کیا جائے۔ اگرچہ نیکٹا پالیسی سازی کا ادارہ نہیں ہوگا لیکن پالیسی گائیڈ لائنز کے نفاذ کیلئے اسے کافی زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے۔ فی الوقت کسی بھی سطح پر معلومات کا کوئی اجتماعی مرکز موجود نہیں ہے جو پالیسی رہنما اصولوں کی تشکیل کرسکے یا پھر واضح خطرات کے سدباب کا فیصلہ کرسکے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی جو نئی پالیسی کی تیاری میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں کو وزارت کا چارج سنبھالنے کے بعد ابتدائی چند ہفتوں میں اندازہ ہوگیا کہ معاملات میں کافی بدنظمی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر انھیں کچھ عرصہ قبل آئی ایس آئی سے ایک اطلاع ملی کہ اسلام آباد میں2دہشت گرد داخل ہوگئے ہیں جس پر وزیرداخلہ نے ریڈ الرٹ جاری کردیا لیکن کئی گھنٹے بعد انھیں پتہ چلا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے اس پر سرموکوئی عملدرآمد نہیں کیا۔ شہر کے داخلی راستوں یا چیک پوائنٹوں پر ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے کوئی خصوصی تدبیر نہیں کی گئی۔
جب وہ خود لاہور سے اسلام آباد میں داخل ہوئے تو چیک پوسٹوں پر صورتحال معمول کے مطابق نظر آئی۔کچھ پولیس اہلکار فون پرگپیں لگارہے تھے اور کچھ گرین بیلٹ پر مزے سے بیٹھے تھے اور محض گزرنے والی گاڑیوں پر ٹارچ کی روشنی پھینک رہے تھے۔ دوسری مثال اس سے بھی زیادہ پریشان کن تھی۔ چوہدری نثار کو ٹھوس انٹیلی جنس اطلاع ملی کہ بینظیرایئرپورٹ اورملحقہ نورخان ایئربیس پر حملے کا خطرہ موجود ہے چنانچہ ریڈالرٹ جاری کردیا گیا مگر اگلے روز انکشاف ہوا کہ عام راستوں پر نیم دلانہ انداز میں اضافی دستے تعینات کرنے کے سوا کوئی غیرمعمولی اقدامات نہیں کیے گئے۔ چوہدری نثار نے انٹرویو میں کہا ''مجھے بتایاگیا کہ ایئرپورٹ کی حفاظت کیلیے اضافی نفری دستیاب نہیں، یوں بہترین انتظامی کاوشوں کے باوجود ایئرپورٹ تین اطراف سے غیرمحفوظ رہا''۔ وزیرداخلہ نے یہ بھی شکوہ کیا کہ اعلیٰ سطح سے جاری احکامات پر آپریشنل سطح پر مئوثر کارروائی نہیں کی جاتی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ دارالحکومت میں داخل ہونے والے دہشت گردکہاں گئے تو انھوں نے جواب دیا کہ ''کوئی نہیں جانتا۔
شاید انہیں تلاش کیا جارہاہولیکن ہمیں کچھ علم نہیں، ممکن ہے وہ اب بھی یہیں کہیں ہوں''۔ امکان ہے کہ نیکٹا ''آج اس مسئلے کو دیکھیں گے، کل کا پتہ نہیں'' جیسے اس تکنیکی سقم کو دور کرے گا۔ وہاں ہفتے کے ساتوں ایام میں24گھنٹے کا نظام ہوگا جہاں خفیہ اطلاعات موصول ہونے کے بعد انھیں باضابطہ شکل دی جائے گی اور قابل عمل سانچے میں ڈھالنے کے بعد اطلاعات کو برق رفتار کارروائی کیلیے متعلقہ ادارے تک پہنچایا جائے گا اور فالواپ کا بھی خیال رکھا جائیگا۔ یہ بات ابھی واضح نہیں ہوئی کہ ان خفیہ اطلاعات (بالخصوص سویلین انٹیلی جنس اداروں سے ملنے والی) کو کیسے سسٹم میں داخل کیا جائیگا اور دہشت گردوں کی کارروائیوں کو کچلنے کیلیے اقدامات کی قیادت کون کرے گا۔ اس ضمن میں درمیانے درجے کے افسروں کے روزانہ اجلاس کی تجویز زیرغور ہے۔ عام طور پر خفیہ ادارے آپس میں رقابت کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے زیراثر معاملات کی خود نگرانی کرتے ہیں اور کسی دوسرے ادارے کے ساتھ مل کر کام کرنے کو یکسر ناپسند کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خفیہ ادارے آپریشنل سطح پر اکثر اوقات غیرموثر، بسا اوقات متوازی اور کبھی کبھار متصادم کارروائی کرتے ہیں۔ سویلین اور فوجی انٹیلی جنس اداروں میں دائرہ کار کی لڑائی اکثر تلخ صورتحال اختیار کرلیتی ہے۔ اول الذکر کو شکایت ہے کہ فوجی حکام کا رویہ حاکمانہ اور ناقابل برداشت ہوتا ہے جبکہ مئوالذکر کے خیال میں سویلین خفیہ حکام نااہل اور ہر لحاظ سے ناقابل اعتبار ہوتے ہیں۔ نیکٹا کا مقصد یہ ہے کہ افعال کار کا یہ سقم دور کیا جائے اور عدم اعتماد کی یہ سوچ تبدیل کی جائے۔ یہ ایک مشکل ٹاسک ہیں کیونکہ تمام انٹلی جنس نیٹ ورک اپنے اپنے دائرہ کار میں کم کرتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کو نیٹ ورک کے سلسلے کی کمزور ترین کڑی قرار دیتا ہے۔ تاہم اس نکتے پر کام کا آغاز حوصلہ افزا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے اس موضوع پر پہلی بار سویلین قیادت کیلیے اپنے دروازے کھولے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم اپنے سیاسی رفقائے کار اور سویلین افسروں کی ٹیم کے ساتھ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرگئے تو بات چیت کا محور ''انٹیلی جنس شیئرنگ'' ہی رہا۔
وہاں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہر خفیہ ادارہ ٹیکٹیکل سطح پر خودمختار ہوگا جبکہ اسٹرٹیجک درجے کی انٹیلی جنس شیئرنگ زیادہ کھل کر اور موثر انداز میں کی جائے گی۔ اس اجلاس کی کارروائی سے باخبر ایک اعلیٰ سول افسر نے بتایا کہ '' انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی کو بہترین انداز میں فعال بنانے کیلیے عسکری اور سویلین کے نکتہ نظر میں ہم آہنگی کے حوالے سے یہ بریفنگ نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے طاقتور قومی ڈھانچے کی تخلیق کے باب میں سویلین قیادت کو ہرممکن تجربے اور معاونت کی فراہمی کا یقین دلایا''۔
البتہ اجلاس میں ہر معاملے پر مصالحت نہیں ہوئی۔ دہشت گردی کے سدباب کیلئے سویلین اداروں کی استعداد کار بڑھانے کیلیے اختلاف رائے بدستور قائم رہا۔ چوہدری نثار نے یہ اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا کہ ایسے افسروں کا تقریباً مکمل ''قحط '' ہے جو احکام کا موثر نفاذ یقینی بناسکیں ۔ انتظامی سطح پر بے حسی نہایت خوفناک حد تک پائی جاتی ہے۔ میں نے وزیراعظم سے کہہ دیا ہے کہ یہ خداکا معجزہ ہی ہوسکتا ہے کہ ہمارے بڑے شہر دہشت گردوں کے حملوں میں محفوظ ہیں وگرنہ ہماری پولیس آنکھیں بندکیے کبوتر جیسی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پیٹ پرکھجلی کرتے پولیس اہلکار جو ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزور صورتحال کے واضح عکاس ہیں۔ وہ ہرگز دہشت گردی سے نمٹنے کی اہلیت نہں رکھتے، حتیٰ کہ ایلیٹ فورس جو کبھی اچھی کارکردگی دکھاتی تھی اب بری حالت کا شکار ہے اور اس سے صرف پروٹوکول کی ڈیوٹی لی جارہی ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف فوری کارروائی کی صلاحیت رکھنے والی ایسی فورس کے قیام میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں جس کا علیٰحدہ کمانڈ اسٹرکچر ہو، جو عوامی سطح پر کم ہی نظر نہ آئے اور صرف اسی وقت منظرعام پر آئے جب اسے کسی گھمبیر صورتحال والے علاقے میں تعینات کیاجائے۔ عسکری ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ فوج کی اعلیٰ کمان جہاں اس نئی فورس کے قیام سے اصولی اتفاق کرتی ہے اور اس کیلیے افرادی قوت اور تربیت کی فراہمی پر تیار ہے وہ سمجھتی ہے کہ یہ ''وسط مدتی سے طویل مدتی '' حل ہے جبکہ ملک کو جس مسئلے کا اس وقت سامنا ہے وہ فوری حل کا متقاضی ہے۔ فوج کا اپنا ایس ایس جی کی ''ضرار'' اور ''کرار'' کمپنیوں کے ساتھ اسپیشل یونٹ تیار کرنے کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسی فورس کیلیے غیرمعمولی مساعی درکار ہیں۔
اس کے باوجود یہ موجودہ نظام کو مضبوط تو کرسکتا ہے مگر مکمل طور پر اسکی جگہ نہیں لے سکتا لیکن وزیراعظم اور ان کی ٹیم بہر صورت انسداد دہشتگردی کی خصوصی فورس قائم کرنے میں پرعزم ہے جس کا آغاز اسلام آباد میں چھوٹے یونٹ کے قیام سے ہوگا۔ البتہ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس فورس کی مالی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی اور چاروں صوبائی حکومتوں میں سے کتنی اس معاملے میں شریک ہونگی۔ اس فورس کے متوازی دہشت گردوں کے خلاف قانونی کارروائی کیلیے موثر نظام کی موجودگی بھی ازحد ضروری ہے کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے اس بارے میں نتیجہ خیز پیشرفت نہیں ہوسکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دراصل سب سے پیچیدہ پہلو ہے جو اس حقیقت سے مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ وفاقی کابینہ میں تاحال کوئی وزیرقانون نہیں ہے۔
بہرحال قومی سلامتی پالیسی کے اس قسم کے معاملات قومی سلامتی کونسل جیسے کسی سیٹ اپ میں حل کرلئے جائیں گے جس کے مینڈیٹ، افعال کار اور مستقبل کے بارے میں فوجی اور سویلین حلقوں میں بحث جاری ہے۔ اس وقت کوئی بھی ایسا ادارہ موجود نہیں جس میں تمام پالیسی ساز ایک میز پر بیٹھ کر صرف دہشت گردی نہیں بلکہ قومی مفاد کے دیگر امور پر اجتماعی فیصلے کرسکیں۔ فوجی اور سویلین قیادت میں جو بھی ملاقاتیں ہوتی ہیں وہ غیررسمی یا موقع کی مناسبت سے ہوتی ہیں۔ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے پاس محدود مینڈیٹ ہے اور اسے غیرمعمولی صورتحال کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ موجودہ مسائل عسکری اور سویلین قیادت کے درمیان پالیسی سازی پر برق رفتار اتفاق رائے کے متقاضی ہیں لیکن اس کیلیے کوئی میکانزم موجود نہیں۔
اس خلا کا نتیجے حالیہ برسوں میں قومی معاملات پر بے ربط ردعمل کی صورت میں نکلا ہے۔2مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکا کے آپریشن کے بعد ایک ہفتے کے دوران6 مختلف نوعیت کے ردعمل سامنے آئے جن میں امریکی کارروائی پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا اعادہ نہ کرنے کی بات کی گئی۔ اگرچہ مجوزہ اعلیٰ اختیاراتی ادارے کے قیام کا ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم سنیئر سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ اس میں ان تمام اداروں کے افراد شریک ہوں گے جو اندرونی اور بیرونی خطرات سے براہ راست نمٹتے ہیں اور وزیراعظم اس کے سربراہ ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہ، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور خفیہ اداروں کے سربراہ بھی اس میں شریک ہوں گے۔ ابھی یہ غیرواضح ہے کہ اس میں وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہوں گے یا نہیں لیکن قومی سطح کے ہر اجلاس میں وزیراعظم کے بھائی وزیراعلیٰ شہبازشریف کی موجودگی کے پیش نظر یہ بمشکل تصورکیا جاسکتا ہے کہ مجوزہ ادارے میں شہبازشریف یا دیگر وزرائے اعلیٰ شریک نہیں ہوں گے۔