پاکستان کوارٹرز کو ایک بار پھر خالی کرانے کی تیاری
زمین خالی کرانے کے بعد نجی سرمایہ کاروں کو دیے جانے کا امکان
وزرات ہاؤسنگ نے ایک بار پھر پاکستان کوارٹرز کو خالی کرانے کے لیے تیاریاں شروع کردیں جس کے لیے گیس، بجلی اور پانی کے کنکشن منقطع کیے جانے کی تجویز بھی زیر غور ہے جب کہ زمین خالی کرانے کے بعد نجی سرمایہ کاروں کی مدد سے کثیر المنزلہ عمارات بنانے کا امکان ہے۔
ایکسپریس کے مطابق وفاقی حکومت نے کراچی میں پاکستان کوارٹرز سے غیر قانونی قابضین کو بے دخل کرنے کے لیے دوبارہ آپریشن کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر کام شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزارت ہاؤسنگ کے سیکریٹری نے بھی پاکستان کوارٹرز کا دورہ کیا اور سندھ حکومت کی اہم شخصیات سے بھی ملاقات کی۔
پاکستان کوارٹرز خالی کرانے سے متعلق دستیاب دستاویز کے مطابق 9 جنوری 2019ء کو گورنر سندھ عمران اسماعیل کی زیر صدارت بھی پاکستان کوارٹرز اور دیگر وفاقی کالونیوں سے متعلق اہم اجلاس ہوا جس میں آباد کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ کراچی میں 32 ایکڑ رقبے پر پھیلے وفاقی حکومت کے پاکستان کوارٹرز کو خالی کرانے سمیت دیگر متبادل آپشنز کا جائزہ لیا گیا۔
دستاویز کے مطابق پاکستان کوارٹرز کراچی میں 394 رہائشی یونٹس ہیں جن میں 202 کوارٹرز ڈی ٹائپ اور اور 192 ای کلاس کے ہیں۔ پاکستان کوارٹرز میں 254 رہائشی یونٹس میں غیرقانونی طورپر افراد مقیم ہیں، 66 رہائشی یونٹس سندھ حکومت کے پاس ہیں۔ پاکستان کوارٹرز میں وسیع رقبہ خالی میدان بھی ہے جہاں وفاقی حکومت کثیر المنزلہ عمارتیں قائم کرنا چاہتی ہے۔
پاکستان کوارٹرز کو غیرقانونی قابضین سے خالی کرانے کے لیے ایک بار پھر آپریشن کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور اس ضمن میں تجویز دی گئی ہے کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کوارٹرز میں بجلی، پانی اور گیس کے کنکشن منقطع کیے جائیں اور کالونی کی سیکیورٹی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کی جائے جبکہ پاکستان کوارٹرز کا ازسرنو سروے کرکے متبادل تجاویز پر بھی کام جاری ہے۔
دستیاب دستاویز کے مطابق گورنر ہاؤس اور وفاقی وزارت ہاؤسنگ کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت پاکستان کوارٹرز کو غیرقانونی قابضین سے خالی کراکر اس جگہ پر نجی سرمایہ کاروں کی مدد سے کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرانا چاہتی ہے جس کے لیے متعلقہ حکام کے رابطے بھی جاری ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کوارٹرز کے غیرقانونی قابضین پر مختلف مد میں مجموعی طور پر 28 کروڑ روپے سے زائد کے واجبات ہیں، پاکستان کوارٹرز کو خالی کرانے کے لیے 24 اکتوبر 2018ء کو بھی پولیس کی مدد سے آپریشن ہوا تھا تاہم عوامی احتجاج اور عدالت عظمی کی جانب سے دوماہ کی مہلت پر معاملہ رک گیا تھا۔
ایکسپریس کے مطابق وفاقی حکومت نے کراچی میں پاکستان کوارٹرز سے غیر قانونی قابضین کو بے دخل کرنے کے لیے دوبارہ آپریشن کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر کام شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزارت ہاؤسنگ کے سیکریٹری نے بھی پاکستان کوارٹرز کا دورہ کیا اور سندھ حکومت کی اہم شخصیات سے بھی ملاقات کی۔
پاکستان کوارٹرز خالی کرانے سے متعلق دستیاب دستاویز کے مطابق 9 جنوری 2019ء کو گورنر سندھ عمران اسماعیل کی زیر صدارت بھی پاکستان کوارٹرز اور دیگر وفاقی کالونیوں سے متعلق اہم اجلاس ہوا جس میں آباد کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ کراچی میں 32 ایکڑ رقبے پر پھیلے وفاقی حکومت کے پاکستان کوارٹرز کو خالی کرانے سمیت دیگر متبادل آپشنز کا جائزہ لیا گیا۔
دستاویز کے مطابق پاکستان کوارٹرز کراچی میں 394 رہائشی یونٹس ہیں جن میں 202 کوارٹرز ڈی ٹائپ اور اور 192 ای کلاس کے ہیں۔ پاکستان کوارٹرز میں 254 رہائشی یونٹس میں غیرقانونی طورپر افراد مقیم ہیں، 66 رہائشی یونٹس سندھ حکومت کے پاس ہیں۔ پاکستان کوارٹرز میں وسیع رقبہ خالی میدان بھی ہے جہاں وفاقی حکومت کثیر المنزلہ عمارتیں قائم کرنا چاہتی ہے۔
پاکستان کوارٹرز کو غیرقانونی قابضین سے خالی کرانے کے لیے ایک بار پھر آپریشن کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور اس ضمن میں تجویز دی گئی ہے کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کوارٹرز میں بجلی، پانی اور گیس کے کنکشن منقطع کیے جائیں اور کالونی کی سیکیورٹی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کی جائے جبکہ پاکستان کوارٹرز کا ازسرنو سروے کرکے متبادل تجاویز پر بھی کام جاری ہے۔
دستیاب دستاویز کے مطابق گورنر ہاؤس اور وفاقی وزارت ہاؤسنگ کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت پاکستان کوارٹرز کو غیرقانونی قابضین سے خالی کراکر اس جگہ پر نجی سرمایہ کاروں کی مدد سے کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرانا چاہتی ہے جس کے لیے متعلقہ حکام کے رابطے بھی جاری ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کوارٹرز کے غیرقانونی قابضین پر مختلف مد میں مجموعی طور پر 28 کروڑ روپے سے زائد کے واجبات ہیں، پاکستان کوارٹرز کو خالی کرانے کے لیے 24 اکتوبر 2018ء کو بھی پولیس کی مدد سے آپریشن ہوا تھا تاہم عوامی احتجاج اور عدالت عظمی کی جانب سے دوماہ کی مہلت پر معاملہ رک گیا تھا۔