مہرآباد میں عیسائی لڑکی کی توہین رسالت پرگرفتاری کے بعد عیسائی خوف زدہ

رمشا کی عمر11 سے 16 کے درمیان ہے، رمشا کو توہین رسالت کے الزام میں 14 دنوں کےلئے پولیس نے حراست میں لے لیا۔

مہر آباد دارالحکومت کا مضافاتی علاقہ ہے جو 20 سال سےایک عیسائی برادری کےلئے گھربنا ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد میں ایک ہفتہ بعد ایک غریب مضافاتی علاقے کی نوجوان مسیحی لڑکی کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، اس کے ساتھی مومنوں کو یہ ڈر ہے کہ ہو سکتا ہے اس علاقے میں ان کی اس بار آخری رسومات منائی گئی ہو۔

مہر آباد دارالحکومت کا مضافاتی علاقہ ہے جو 20 سال سےایک عیسائی برادری کےلئے گھربنا ہوا ہے، مسلمانوں نے ایک سال پہلے ایک سادہ چرچ کی تعمیرکرنے میں تھوڑی مدد کی تھی۔


لیکن پچھلی جمرات کو مقامی مسلمان رمشا پر شدید غُصّہ سے بھڑک اُٹھے ہیں، ایک نوجوان عیسائی لڑکی جو مبینہ طور پردماغی مریض ہے،اس پر قرآن مجید کے آیات پر مشتمل بچوں کی مذہبی ہدایات کے کتاب کے صفحات جلانے کے الزام عائد کیا ہے۔


پڑوسی نے اس پر توہین رسالت کا الزام لگایاجواسلامی جمہوریہ میں ایک سنگین جرم ہے، یہاں 97 فیصد آبادی مسلمان کی ہے اور عیسائی اقلیت کو طویل عرصے سے غربت اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔


گواہ نے کہا کہ مقامی مسجد کے امام نے اُسی دن واقعہ کے بارے میں سنا اور لڑکی کے خاندان کے گھر پر مسلمانوں کی درجنوں غصے سے بھری ہوئی ہجوم کی قیادت کی تھی۔ پولیس نے مداخلت کی اور رمشا کو لے گئے، رمشا کی عمر11 سے 16 کے درمیان ہے، رمشا کو توہین رسالت کے الزام میں 14 دنوں کےلئے حراست میں لے لیا۔


2009 میں گوجرہ اورصوبہ پنجاب کے واقعات کی یادیں اب بھی تازہ ہیں، جب نوجوان مسلمان انتہا پسند لوگوں نے 7 افراد کو قتل کرکے عنقریب 40 عیسائی گھروں کے جلا ڈالا تھا، ایک شادی کے دوران قرآن کی ایک صفحے کی بے حرمتی کا افوا پھیلنے کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔


گزشتہ جمعرات کے واقعات نے مہرآباد میں رہنے والے 500 عیسائی خاندانوں میں خوف و حراس پھیلا دیا ہے۔


42 سالہ رفاقت مسیح، نے کہا کہ بہت سارے لوگ اس واقعے کے بعد مسلمانوں انتہا پسندوں کے گوجرہ جیسے حالات پیدا کرنے پہلے بھاگ گئے ہیں،اس کی اپنی بیوی اور 5 بچے بھی بھاگ گئے ہیں۔



مہرآباد میں کشیدگی کے چند اشارے بھڑک اٹھے تھے، جہاں صرف سات ماہ پہلے مسلمانوں نے مقامی عیسائیوں کی چرچ تعمیر کرنے میں مدد کیا تھا جو عام عمارتوں سے تھوڑا دورچھوٹا سا عمارت بنا ہوا ہے۔


مومنوں کو عمارت میں رسومات منعقد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جو عبادت خانہ کی طرح نہیں لگتا، انکی عبادات صرف اتوار کے روز ہوتی ہیں۔


لیکن ایک اوقات میں عبادات کے دوران اندر سے آنے والی موسیقی کی آواز مسلمانوں کو نماز میں تنگ کرنا شروع کر دیا ہے، رمشا کے ساتھ رونما ہونے والی واقعہ سے ایک ہفتہ پہلے ہی مسلمانوں نے رسومات کو بند کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔


عیسائیوں نے عبادت خانے میں جمع ہونا جاری رکھا ہے لیکن آپس میں کشیدگیوں کو بڑھنے سے روکنے کےلئے اتوار کے روز کی رسومات ادا کرنا بند کر دیا ہے،یہ فیصلہ آپس میں بات چیت کے ذریعے طے کیا۔


اشرف مسیح نے اپنے گھر کے دروازے پہ اے ایف پی کو بتایا کہ اگر ہم یہاں عبادت نہیں کر سکتے ہیں تو ہمیں یہ علاقہ چھوڑنا پڑے گا۔


کچھ مسلمان اردگرد رونما ہوئی حالات سے خود کو دور رکھنے کے خواہاں ہیں اور عیسائیوں سے علاقہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہیں ہیں۔


عیسائیوں نے اپنے گھراوروہ عمارت جو چرچ کے طور پر استعمال کرتے ہیں مسلم جاگھیرداروں سے کرایے پر لیا ہوا ہے، اور اُن کے جانے سے اُنہیں بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔


محمد میحتاب ایوان جو 30 ہزار تک کرایہ لیتا ہے، اس نے کہا کہ میں یہ نہں چاہتا کہ وہ یہ علاقہ چھوڑ دیں، رمشا کے گھر کے مالک ملک امجد نے بھی محمد میحتاب کی بات پر حامی بھر لی۔


 

رمشا کے کیس نے مغربی حکومتوں سے تشویش کی حوصلہ افزائی کو خطرے میں ڈالا ہے، جن کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو ذاتی تنازعات کے ساتھ لانا زیادتی ہےاور اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔

Recommended Stories

Load Next Story