سمت بالکل درست ہے
کسی قسم کے تعصب کے بغیر پرکھا جائے تویہ خاندان جس نظام کو ’’جمہور‘‘ کہتا ہے
صاف نظرآرہاہے کہ مسلم لیگ ن کسی بھی صورت میں وفاقی اورپنجاب کی صوبائی اسمبلی کوچلنے نہیں دیگی۔مسلم لیگ ن کامطلب میرے نزدیک قطعاًکوئی سیاسی جماعت نہیں، بلکہ یہ ایک خاندان کاہی دوسرانام ہے۔پینتیس برس میں جس طرح اس خاندان نے سیاست کوکاروبارمیں تبدیل کیا، جس طرح اپنے اردگردذاتی مفادپرستوں کامضبوط گروہ اکٹھا کیا،وہ برصغیرمیں ایک انمول مثال ضرور ہے۔ مگراس ادنیٰ خطے کی ادنیٰ روایات کے عین مطابق ہے۔ان افرادکے نزدیک جمہوریت صرف مخصوص اَمرکانام ہے۔اپنا،ذاتی شخصی اقتدار،جس میں ان کی مرضی کے بغیرکوئی سانس نہ لے سکے۔
کسی قسم کے تعصب کے بغیر پرکھا جائے تویہ خاندان جس نظام کو ''جمہور'' کہتا ہے، دنیامیں اسے انتہائی بے فیض ڈکٹیٹر شپ کہا جاتا ہے۔عجوبہ یہ ہے کہ یہ لوگ،کمال صفائی سے اپنے مالی معاملات کو جھوٹ کی زنبیل میں چھپاکر"عوامی خدمت" کا کبوترنکال کرلوگوں کو بیوقوف بنارہے ہیں۔ ویسے یہ اپنے اس عمل میں مکمل تونہیں مگرکافی حدتک کامیاب ہیں۔یہی حال سندھ کا ہے۔"آل زردار"اپنی خوفناک ترین مالی بے ضابطگیاں،اٹھارویں ترمیم کے دھواں میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ویسے معروضی طورپریہ سیاسی خاندان ابھی تک ناکام ہورہے ہیں۔ان کی کامیابی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت انھیں سیاسی "واک اوور" دے ڈالے۔جسکی فی الحال کوئی توقع نظر نہیں آرہی۔
یہ بات بالکل سچ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں تمام لوگ کم فہم یاسوجھ بوجھ سے عاری نہیں ہیں۔اس جماعت میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنکاکرپشن سے کوئی لینادینا نہیںہے۔جودس برس کی شخصی حکومت کے دسترخوان کے خوشہ چیں بھی نہیں ہیں۔مگرمسئلہ یہ ہے کہ تمام لوگ،ایک خاندان کے سامنے جاکرسوائے خاموشی کے، کوئی اورزبان روا نہیں رکھ سکتے۔جس نے ذراسی بھی زبان کھولی، راندہ درگاہ گرداناگیا۔ ''آل شریف'' نے آج تک اپنے سیاسی مخالفوں کو نہیں بخشا۔ اگرکوئی ساتھی بھی معمولی سی نکتہ چینی کربیٹھاتواسکامعاملہ ہمیشہ کے لیے خراب ہوگیا۔ دو سال پہلے،ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ایک ایم این اے پرعتاب شاہی کا نزول ہوا۔ اس نے جناب کوصرف یہ کہنے کاجرم کیاتھاکہ اگرآپ لیگی ایم این اے صاحبان سے رابطے میں رہتے، تو آج سیاسی مسائل اتنے بڑھ نہ جاتے۔اس کے بعد پنجاب اور وفاق کے تمام سرکاری دفاترکے دروازے اس ایم این اے پر بندکردیے گئے۔ آپ،کسی بھی غیرجانبدارحوالے سے اس کی تصدیق فرماسکتے ہیں۔ان لوگوں نے پنتیس سال، پنجاب کے صوبے اوردس سے بارہ سال،وفاق کوبالکل ایک راج واڑے کی طرح چلایاہے۔
تمہیدکورہنے دیجیے۔گزشتہ چارماہ میں قومی اسمبلی میں محترم شہبازشریف کی تقاریر پر غور فرمائیے۔یہ بات درست ہے کہ اپوزیشن کاجمہوری حق ہے کہ لیڈرآف اپوزیشن ان کا ہونا چاہیے۔ مگر کیایہ دیکھنابھی ضروری نہیں ہے کہ "لیڈر آف اپوزیشن"اس عہدہ کی آڑمیں اپنے آپکواحتساب سے بچانے کے لیے کوشاں تونہیں ہیں۔ شہبازشریف نے قومی اسمبلی میں گھنٹوں اپنے آپکوبے گناہ ثابت کرنے کے لیے دھواں دھار تقاریرکیں۔کیاواقعی یہ ایک انتہائی ذمے دار عہدے کا جائز استعمال ہے؟ اس کے بعد،پروڈکشن آرڈر کو پیہم جاری کروانا، صرف ایک حربہ ہے کہ کسی بھی طرح عقوبت خانے یعنی جیل میں رہنے سے گریز کیا جائے۔ خیر اب تویہ معاملہ ہی قصہ پارینہ ہوچکا۔
اس لیے کہ موصوف، منسٹرزکالونی میں ایک سرکاری محل میں قیام پذیر ہیں۔ برادر خوردکی پکی عادت ہے کہ اپنے کسی معاملہ پرہلکی سی تنقیدبھی برداشت نہیں کرتے۔ ایک دن، قومی اسمبلی میں،اپنے ارشادات فرمانے کے بعد، جب کسی حکومتی رکن نے ان کے نکات کاجواب دینا چاہا۔ تو فوراً اسمبلی سے اس وجہ سے باہر چلے گئے کہ کسی نے پیچھے سے ان پرکوئی جملہ کسا ہے۔ اسپیکر نے جب علی الاعلان کہاکہ کسی نے بھی کوئی ہلکی سی بات بھی نہیں کی،تب بھی موصوف واپس نہیں آئے۔ بلکہ ایک ایسے واقعے پرناراضگی کااظہارکرتے رہے جوہواہی نہیں تھا۔ یعنی اگروہ حکومت کے متعلق ہرمنفی بات کریں،تووہ بالکل درست۔مگرکوئی حکومتی رُکن، جواب دیناچاہے تووہ بالکل غلط۔یہ شخصی رویہ، قطعاً قطعاًجمہوری نہیں ہے۔مگران لوگوں سے اعلیٰ جمہوری روایات کی توقع رکھنابذات خودایک بے معنی سی بات ہے۔اس کے مقابل، پیپلز پارٹی کا رویہ کافی بہتراورمنجھاہواہے۔
آپکی توجہ،قومی اسمبلی کے حالیہ بجٹ سیشن کی طرف مبذول کرواناچاہتاہوں۔اسپیکرنے اس اہم ترین اجلاس سے پہلے"کوڈآف کنڈکٹ"متعین کیا تھا۔اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت شامل تھی۔یہ اجلاس مالیاتی اُمورپرحددرجہ اہم بحث کے لیے بلایاگیاتھا۔"لیڈرآف اپوزیشن"نے بذات خودکوڈ آف کنڈکٹ کوپامال کرکے،ساہیوال کے سانحے پر تقریرفرمادی۔اس میں انھوں نے کوشش کی کہ"ماڈل ٹاؤن" واقعے پراپنی اعلیٰ کارکردگی کی مثال دے سکیں۔مگرصاحبان، الزام ہے کہ ماڈل ٹاؤن کاسانحہ توہوا ہی ان کے حکم پر تھا۔ فلورآف دی ہاؤس پروہ ایسی باتیں کرتے رہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔پھروہی ہوا،جونہیں ہونا چاہیے تھا۔حکومتی وزیرنے بھی ان کی باتوں کاجواب دیا۔ مگر بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس وقت، یہ بات کرنا ہرگز ہرگزمناسب نہیں تھا۔ہاں،ایک اور وجہ بھی تھی۔ سانحہ ساہیوال پرقومی اسمبلی پرڈبیٹ اور تقاریر اس اجلاس سے پہلے بھی ہوتی رہیں اوربعدمیں بھی۔ انصاف کی بات ہے،کہ ماڈل ٹاؤن کے ہولناک واقعے کواس فورم میں اس طرح پیش کرناکہ صرف اور صرف ذاتی صفائی دی جاسکے۔
مناسب نہیں تھا۔ مگر شہباز شریف کادعویٰ ہے کہ وہ کبھی غلطی نہیں کرتے۔وہ ہمیشہ میرٹ پریقین رکھتے ہیں۔وہ عقل ِ کُل ہیں۔انکارویہ مثالی ہے۔ہوسکتاہے کہ چند خوشامدی ان کی باتیں تسلیم کر لیں۔ مگر ہرباخبرانسان کومعلوم ہے کہ اصل معاملات کیاہیں۔کیاوہ کسی جگہ بھی ذکرکرتے ہیں،کہ انکا بیٹا اورداماد،پاکستان سے کیوں باہرچلے گئے ہیں۔کیاواقعی انھوں نے،محترم شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کاکوئی مالی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ ہر شخص جانتاہے کہ لاہورکی حدتک تمام انتظامی اختیارات ان کے صاحبزادے کے پاس تھے۔وفاقی وزراء اوردیگر اہم ترین لیڈربھی ان کی خوشامدکرنے میں عافیت سمجھتے تھے۔آج یہ کہاجارہاہے کہ ان کا دور سو فیصد جمہوری تھا۔ خیراب یہ تمام بحث بے معنی سی لگتی ہے۔
جمہوریت جس ملک سے ہماری طرف روانہ ہوئی،وہ انگلستان ہے۔ڈھائی تین ہزاربرس سے برصغیرمیں انسانی حقوق یامساوات کاہلکاساسایہ تک نہیں تھا۔ہاؤس آف کا منزوہ جگہ ہے جس سے ہم کسی بھی جمہوری قدرکوپرکھ سکتے ہیں۔کیالندن میں یہ ممکن ہے کہ ایک شخص پر کھربوں کی چوری کا الزام ہو،جس پرقتل تک الزامات ہوں،جسکی بیرون ملک جائیدادہو۔اوروہ لیڈرآف دی اپوزیشن ہو۔کیامغربی جمہوریت میں اتنے بڑے تضادکاتصورتک کیاجاسکتا ہے۔ وہاں تومعمولی سی خبرآنے پروزیراعظم اوروزراء استعفیٰ دیکر گھرچلے جاتے ہیں۔قوم سے معافیاں مانگتے ہیں۔ہاؤس آف کامنزکے کئی ممبران صرف ٹی اے،ڈی اے میں زیادہ پیسے لینے پراستعفیٰ دینے پرمجبورہوجاتے ہیں۔انھیں کسی نے استعفیٰ دینے کے لیے نہیں کہا۔جیسے ہی انھیں احساس ہوا کہ ان سے معمولی سی بے ضابطگی ہوئی ہے،وہ سیاسی میدان سے خودباہرنکل گئے۔سیاست کوخیربادکہہ ڈالا۔ ہمارے ہاں، جمہوریت کانام تولیاجاتاہے۔مگراس کی روح اور جوہری خوبیوں سے بھرپورپرہیزکیاجاتاہے۔
پرکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے اکابرین میں اتنااضطراب کیوں ہے۔بلکہ اب تو یہ صورتحال اشتعال کی سی ہے۔قائدین اوران کے حواری اتنے بے چین کیوں ہیں۔یہ نکتہ ہی اصل نکتہ ہے۔اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔نوازشریف اوران کی ٹیم کواپنے دورِ حکومت میں اندازہ ہوگیاتھاکہ اگلی حکومت سازی میں وہ ناکام رہینگے۔ لہٰذا انھوں نے مختلف عجیب و غریب کام کیے۔ سب سے پہلے، دانستہ طورپراتنی مشکل شرائط پر بھاری قرضہ حاصل کیا،جسکی مثال نہیں ملتی۔انھیں معلوم تھاکہ کوئی بھی یہ قرضہ واپس نہیں کر سکتا۔اگلی حکومت قرضہ واپس کرتے کرتے دیوالیہ ہوجائیگی۔ یہ حکمتِ عملی سوچی سمجھی تھی۔اسحق ڈار،ورلڈبینک کی ہرسخت ترین شرط مان کرواپس آجاتے تھے۔انھیں یقین تھا کہ آنے والی حکومت کو ناکام بنانے کی یہ بہترین اسٹرٹیجی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دانستہ طورپر ایسے مہیب ترین ترقیاتی منصوبے شروع کیے جنکاکوئی جوازنہیں تھا۔کمیشن وغیرہ کے معاملات توتھے ہی، مگر سابقہ حکمرانوں کو اندازہ تھاکہ مستقبل کی حکومت ان منصوبوں کومکمل کرنے پر مجبور ہوگی۔انھیں اُدھورا چھوڑنے سے ساراسرمایہ ضایع ہوجائیگا۔ اورنج ٹرین اس کی ایک بھرپورمثال ہے۔اس پراجیکٹ سے نہ جان چھڑواسکتے ہیں نہ اسے مکمل کرواسکتے ہیں۔
میٹروبس کی سبسڈی اس کی دوسری مثال ہے۔یہی صورتحال کوئلے سے بجلی بنانے والے کارخانوں کی ہے۔پوری دنیاان کارخانوں کوبندکررہی ہے۔ جرمنی کی حکومت نے تواعلان کر دیا ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے،اگلے دس سال میں بندکردیے جائینگے۔ مگر ہمارے سر پر، ساہیوال پلانٹ لاد دیا گیا۔ سیکڑوں ایکٹر بہترین زرعی اراضی برباد ہوگئی۔ ماحولیاتی نقصان اس کے علاوہ ہوا۔مگرپانی کے ڈیم بنانے پرکوئی توجہ نہ دی گئی۔جس سے سستی اور صاف بجلی پیدا کی جاسکتی تھی۔تحریک انصاف کی حکومت آہستہ آہستہ معاملات کوسمجھ رہی ہے۔عمران خان اپنی بساط سے بڑھ کرکام کر رہاہے۔پوری دنیامیں ہمارے ملک کی ساکھ بہتر ہورہی ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت،فیصلہ سازی میں اتنی مستعدنہیں ہے،جسکی توقع تھی۔انھیں بھرپورطریقے سے اُمورِ حکومت سیکھنے کی ضرورت ہے۔تمام ترکوتاہیوں کے باوجود عمران خان کی سمت درست ہے۔اس کی حکومت کا مذاق اُڑانے سے پہلے فوراًان سیاسی خاندانوں کے تیس پنتیس سالوں کی حکومتوں کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔یہ تو اپنے دورِاقتدارمیں ملک کی کسی سمت کا تعین نہیں کر پائے۔ ابھی تواس حکومت کو صرف پانچ ماہ ہوئے ہیں اور بہتری کے آثار،سب کے سامنے ہیں۔ صاحبان! اس حکومت کووقت دیجیے۔ معاملات بہتر ہوجائینگے۔