پولیس اصلاحات نہیں سیاست اہم
قومی اسمبلی میں میاں شہباز شریف پر جعلی پولیس مقابلوں کی سرپرستی کا الزام دہرایا گیا ہے
پنجاب پولیس تو پہلے ہی ملک میں دہشت کی علامت اور ظلم و بربریت، بے گناہوں کو جعلی مقابلوں میں پھڑکانے، غیر قانونی کاموں میں سرفہرست اور رشوت وصولی کے لیے سب کچھ کر گزرنے میں بدنام تھی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں گلو بٹ کے ساتھ مل کر لاہور پولیس نے جو کیا تھا وہ دنیا میں دیکھا گیا مگر ساڑھے چار سال بعد بھی سانحہ کے ذمے داروں کا تعین ہوا نہ کسی کو سزا ملی اور اہم کیس وہیں کا وہیں ہے جہاں پہلے تھا اور اب نئی جے آئی ٹی ضرور وجود میں آ چکی ہے۔
کراچی ملیر ضلع میں سالوں تعینات رہنے والے ایس ایس پی راؤ انوار جو اب نقیب اللہ کو جعلی مقابلے میں مارنے کا آخری معرکہ کر چکے تھے جو کئی سو افراد کو جعلی مقابلوں میں مار کر نہیں پھنسے تھے مگر نقیب اللہ محسود کا خون رنگ لے آیا اور سابق صدر زرداری نے جس بدنام زمانہ خونخوار ایس ایس پی کو '' بہادر بچہ'' قرار دیا تھا وہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے سوموٹو ایکشن کے باعث گرفت میں تو آیا مگر اپنے گھر میں ٹھاٹ باٹ سے برائے نام قید رہا اور عدلیہ سے ضمانت پر رہا ہوا مگر سپریم کورٹ نے اسے ملک سے فرار ہونے نہیں دیا اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں باہر بھاگنے کے لیے پھڑپھڑا کر اپنے سرپرستوں کی مدد کا منتظر ہے جو خود جے آئی ٹی کی زد میں آچکے ہیں اور ان کے مشیر قانون یہ کہہ کر بری الذمہ ہوچکے ہیں کہ راؤ انوار کو حکومت نے نہیں عدلیہ نے ضمانت پر رہا کیا تھا۔
نقیب اللہ محسود کا والد اب عدلیہ سے نہیں فوج سے انصاف کا متمنی ہے جن کی عدالتوں سے دو سو سے زائد دہشت گرد کیفر کردار تک پہنچ چکے ہیں اور اکثر بے گناہوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنے والا پولیس کا اپنا دہشت گرد اب تک محفوظ مگر کھلا پھر رہا ہے اگر ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی دہشت گردی میں بے گناہ خلیل کا خاندان دن دہاڑے شہید نہ ہوتا تو سی ٹی ڈی کا جعلی مقابلوں میں ایک اور اضافہ ہو جاتا اور یہ نہ کہا جاتا کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن اور راؤ انوار کو سزا مل جاتی تو سانحہ ساہیوال رونما نہ ہوتا۔
جرائم پیشہ عناصر کو جعلی پولیس مقابلوں میں مروانے کا الزام سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پر بھی ہے مگر 50 سال قبل صحافت میں جب راقم نیا نیا آیا تھا تب ایک ایسا ہی پولیس مقابلہ اس وقت کے ڈی ایس پی شکارپور نے بھی دکھایا تھا اور پولیس کے مطابق ڈاکو فرار ہوتے ہوئے پولیس فائرنگ میں مرا تھا مگر پولیس گولی فرار ہونے والے ڈاکو کی پیٹھ پر نہیں سینے پر لگی تھی جس کا پوچھنے پر ڈی ایس پی نے رازدارانہ طور پر بتایا تھا کہ مرنے والا ڈاکو عدالت سے ضمانت پر چھوٹ جاتا تھا جس پر پولیس کو اس طرح مارنا پڑا تھا۔
قومی اسمبلی میں میاں شہباز شریف پر جعلی پولیس مقابلوں کی سرپرستی کا الزام دہرایا گیا ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں میں بدنام مجرموں و ڈاکوؤں کو مارنے کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ راقم گزشتہ 50 سال سے یہ سلسلہ دیکھتا آ رہا ہے جس میں کبھی کمی کبھی اضافہ بھی ہوا۔ بعض پولیس مقابلے حقیقی بھی ہوئے جن میں بدنام ڈاکو درست مارے گئے اور ایسے مقابلوں میں پولیس کا بھی جانی نقصان ہوا مگر سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ہی واحد قاتل ثابت ہوا جس کے جعلی مقابلوں میں پانچ سے دس تک ایسے لوگ مارے جاتے تھے جو ملیر پولیس کے مطابق دہشت گرد ہوتے تھے اور ''بہادر بچہ'' پولیس افسر میڈیا کو بڑے فخر سے مقابلے کی تفصیل بتایا کرتا تھا اور محکمے سے انعام اور ترقی لے کر ایس ایس پی کے عہدے تک پہنچا تھا۔
میڈیا میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق راؤ انوار جعلی مقابلوں کا عادی اور بے گناہوں کو پکڑ کر بھی بند کمروں میں اور کبھی کھلے میدانوں میں دوڑا کر مرواتا تھا اور خود بھی مارتا تھا۔ نقیب اللہ کو بھی اس کے ساتھیوں یا نامعلوم افراد کے ہمراہ بند کمرے اور راؤ انوار کی موجودگی میں شہید کیا گیا اور آخر ان بے گناہوں کی ہلاکت میں راؤ انوار پھنس ہی گیا اور ثابت ہوگیا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے جو کسی بھی وقت حرکت میں آجاتی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ساہیوال کے چار بے گناہوں کے قتل عمد کی تفتیش وہی پولیس افسر کر رہا ہے جو خود اس معاملے میں ملوث اور ذمے دار ہیں۔
سانحہ ساہیوال کے بعد پنجاب پولیس جس طرح بدنام ہوئی اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو پولیس میں اصلاحات لانے کا پانچ ماہ کے اقتدار میں دوبارہ خیال آگیا جب کہ وہ خود پولیس میں اصلاحات کو سیاست کی نظر کرچکے ہیں۔ کے پی کے سابق آئی جی ناصر درانی جب تک اہم تھے جب تک پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت نہیں بنی تھی۔ پنجاب پولیس میں سیاست ختم کرنے کی بجائے سیاست مزید بڑھی تو ایک اچھے آئی جی کو تبدیل کر کے پسندیدہ آئی جی لایا گیا اور اصلاحات لانے والے ناصر درانی کو پوچھا تک نہ گیا تو با اصول ناصر درانی مستعفی ہو گئے مگر وزیر اعظم نے پرواہ نہ کی اور اپنے گورنر کو خوش رکھا ۔ سیاسی وجوہات پرکبھی آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا کبھی ڈی پی او پاکپتن کو ۔
پنجاب سمیت ملک بھر میں پولیس کو سیاست میں ملوث کیا گیا جس کی ذمے دار موجودہ ہی نہیں بلکہ ماضی کی تمام حکومتیں ہیں جو اپنے ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیداران کی خوشنودی، اپنے مخالفین کو تنگ کرنے، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے اور غیرقانونی کاموں کے لیے پولیس میں تقرریاں و تبادلے کرتی رہی ہوں وہ کیوں چاہیں گی کہ پولیس کو غیر سیاسی کر کے حکومت جاری رکھ سکیں۔