ورا سٹائل اداکار قلمکار قادر خان

پروڈکشن آفس میں بیٹھے ان کی فلم ’’روٹی‘‘ کے مکالمے لکھ رہے تھے۔

hamdam.younus@gmail.com

انڈین فلم انڈسٹری میں یوں تو کئی باصلاحیت مزاحیہ اداکار آئے جیسے یعقوب اور جانی واکر جنھوں نے اپنے آپ کو منوایا اور فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا مگر مزاحیہ اداکار قادر خان نے تو بمبئی فلم انڈسٹری کی کایا پلٹ دی تھی۔ وہ جتنا اچھا مزاحیہ اداکار تھا اس سے کہیں اچھا رائٹر اور مکالمہ نگار تھا۔ اس کی لکھی ہوئی فلموں نے انڈین فلم انڈسٹری میں ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ قادر خان کے مکالموں پر فلم بین سینما ہالوں میں اٹھ اٹھ کر داد دیتے اور تالیاں بجاتے تھے۔

فلمی دنیا کا لیجنڈ ہیرو امیتابھ بچن جسے فلمی دنیا میں سب سر کہہ کر مخاطب کرتے تھے مگر وہ امیتابھ بچن جب فلم کے سیٹ پر آتا تھا اور وہ فلم قادر خان کی لکھی ہوتی تھی تو امیتابھ بچن سر کہہ کر قادر خان کے سامنے ادب سے کھڑا ہو جاتا تھا۔ قادر خان کے لکھنے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ اس کے مکالمے دلوں میں اترتے چلے جاتے تھے۔ قادر خان وہ واحد رائٹر تھا جس نے بمبئی کی سب سے زیادہ فلمیں لکھیں اور ان کی تعداد تین سو تک چلی گئی تھی ان کے لکھے ہوئے مکالموں میں دلچسپی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی۔ مزاح لکھتے فلم بینوں کے دل لوٹ لیتے تھے اور جب طنزیہ مکالمے اور درد بھرے کردار لکھتے تھے تو لوگوں کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں اور یہ کمال قادر خان کے قلم کو حاصل تھا۔ قادر خان کی لکھی ہوئی فلموں سے بہت سے آرٹسٹوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔ اس کی پہلی مثال اداکار گووندا ہے۔ اور دوسری مثال اداکار امیتابھ بچن ہے۔ جو فلم شعلے کے بعد رائٹر سلیم جاوید کی جوڑی ٹوٹنے سے خود بھی کچھ کچھ ٹوٹتا چلا جا رہا تھا مگر قدرت نے قادر خان کو بھیج دیا اور اس کی لکھی ہوئی فلموں نے امیتابھ بچن کو پھر سے سہارا دیا۔

قادر خان کی ابتدائی کہانی کچھ یوں ہے۔ کابل میں قادر خان سے پہلے اس کے تین بھائی آٹھ سال کی عمر ہوتے ہی مر جاتے تھے۔ تین بیٹے یکے بعد دیگرے آٹھ آٹھ سال کی عمر میں جب انتقال کرگئے اور چوتھا بیٹا قادر خان پیدا ہوا تو اس کی ماں نے اصرار کیا کہ ہمیں کابل کی یہ زمین راس نہیں آرہی ہے تو کیوں نہ ہم یہ ملک ہی چھوڑ دیں، پہلے تو قادر خان کے والد تیار نہ ہوئے مگر پھر بیوی کی منت سماجت کے بعد تیار ہوئے اور ہندوستان کے شہر بمبئی آگئے ۔ یہ انتہائی غربت کے دن اور پردیس کا ماحول تھا، پھر ایک بدقسمتی اور اس کی زندگی میں داخل ہوئی کہ قادر خان کے باپ نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی، اس وقت قادر خان کی عمر دو سال تھی۔ پھر قادر خان کے چند قریبی رشتے داروں نے قادر خان کی ماں کی دوسری شادی کرا دی کیونکہ جوان عورت تنہا کیسے زندگی گزارتی۔ اس طرح دوسرے باپ کی موجودگی میں ماں نے ہی اپنے بیٹے کی پرورش کی ذمے داری سنبھال لی تھی۔

قادر خان کا پہلا والد کبھی کبھی اپنے بیٹے کو دیکھنے آتا تھا اور کچھ مدد کر جاتا تھا وہ بمبئی میں کسی مسجد کا پیش امام تھا اور بچوں کو بھی پڑھاتا تھا ماں نے اپنی ساری توجہ اپنے بیٹے پر مرکوز کر دی تھی اور اس کو اسکول میں داخل کرایا۔ پھر اسکول سے کالج تک پہنچایا۔ قادر خان نے لکھنے کی ابتدا کالج کے ڈراموں سے کی اس کی تحریروں کو کالج میں بڑا پسند کیا گیا۔ پھر کالج میں بڑے پیمانے پر ایک ڈرامہ فیسٹیول ہوا جس میں اس نے کام بھی کیا اور ڈرامے کی ڈائریکشن بھی دی۔ اس ڈرامے کو دیکھنے جیوری کے طور پر نامور رائٹر راجندر سنگھ بیدی اداکارہ کامنی کوشل اور فلم ساز نریندر بھی آئے ہوئے تھے۔ قادر خان کے ڈرامے کو دو ایوارڈز دیے گئے اور 1500 روپے کا کیش ایوارڈ بھی شامل تھا۔ یہ تھی قادر خان کی پہلی کامیابی۔ ڈرامے کے اسکرپٹ اور مکالموں سے فلمساز نریندر جو ان دنوں ایک فلم بنانے کی تیاری کر رہے تھے انھوں نے قادر خان کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ تمہارا قلم بڑا تیکھا ہے، تمہارے اندر ایک اچھا رائٹر بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ اور پھر اپنا پتہ دیتے ہوئے کہا دو چار دنوں میں مجھ سے رابطہ کرو، میں اپنی فلم کے مکالمے تم سے لکھوانا چاہتا ہوں۔


یہ سن کر قادر خان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور پھر جب نریندر صاحب سے اگلی ملاقات ہوئی تو وہ ان کی فلم ''جوانی دیوانی'' کے مکالمہ نگار منتخب ہوچکے تھے۔ یہ 1971ء کی بات ہے ''جوانی دیوانی'' قادر خان کے کیریئر کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں جیہ بہادری ہیروئن تھی اور آج کی دو مشہور ہیروئنوں کرشمہ کپور اور کرینہ کپور کا باپ رندھیر کپور فلم کا ہیرو تھا۔ یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ قادر خان نے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا تھا مگر وہ انجینئر بننے کے بجائے فلم رائٹر بن گئے تھے۔ ''جوانی دیوانی'' ابھی سیٹ پر ہی تھی کہ قادر خان کے مکالموں کی شہرت فلم انڈسٹری میں پھیلتی چلی گئی تھی۔ اسی دوران ''جوانی دیوانی'' کے سیٹ پر ایک صاحب آئے اور قادر خان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھماتے ہوئے کہا آپ کو ایک مشہور ڈائریکٹر نے یہ سائننگ اماؤنٹ بھیجا ہے۔ من موہن ڈیسائی کا نام سن کر قادر خان بھی کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگیا تھا۔ چند روز کے بعد قادر خان من موہن ڈیسائی کے پروڈکشن آفس میں بیٹھے ان کی فلم ''روٹی'' کے مکالمے لکھ رہے تھے۔

اب قادر خان کے لکھنے کا سفر تیزی سے کامیابی کی طرف رواں دواں تھا۔ اب قادر خان بمبئی فلم انڈسٹری کا معروف ترین رائٹر تھا۔ فلم ''شعلے'' اور ''دیوار'' کے بعد چند فلمیں لکھ کر سلیم جاوید رائٹر میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ قادر خان کے لیے میدان صاف ہوگیا تھا۔ امیتابھ بچن کو اب ایسے رائٹر کی ضرورت تھی جو اس کے کرداروں کو ہیروں کی سی تراش دے سکے۔ پھر قادر خان نے چند ایسی فلمیں لکھیں جن فلموں کو لازوال شہرت حاصل ہوئی ان میں فلمساز و ہدایت پرکاش مہرہ کی فلموں مقدر کا سمندر، لاوارث اور شرابی تھیں۔ مقدر کا سکندر میں امیتابھ بچن کی ہیروئن راکھی گلزار تھی۔ فلم لاوارث میں ہیروئن زینت امان تھی اور فلم شرابی میں امیتابھ کے ساتھ جیہ پرادا ہیروئن تھی۔ فلم شرابی میں امیتابھ بچن پران جو فلم میں باپ بیٹے تھے ان کے شاندار مکالموں نے شرابی کو بے تحاشا شہرت دی تھی اور اس شہرت کا صحیح حقدار فلم کا رائٹر قادر خان تھا ۔ یہاں ہندوستان فلم انڈسٹری کے ایک اور ہٹ ہیرو گووندا کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو قادر خان کی لکھی ہوئی فلموں باپ نمبری بیٹا دس نمبر، ہیرا پھیری، قلی نمبر1، تقدیر والا، دولہا راجہ، کے ساتھ خاص طور پر ایک اور فلم جس کا نام تھا ''کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی'' اس فلم میں گووندا اور قادر خان کی جوڑی نے بڑا غضب ڈھایا تھا۔

دونوں پر ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا جو فلم کے نام سے منسوب تھا۔ قادر خان کی وجہ سے اداکار گووندا فلمی دنیا پر چھایا رہا ایک دلچسپ واقعہ اور بتاتا چلوں فلم لاوارث میں کئی صفحات پر پھیلا ہوا ایک سین تھا اور وہ سارے مکالمے ایک بار ہی ادا کرنے تھے امیتابھ بچن نے وہ سین پڑھا گھبرا گیا۔ وہ بولا یہ تو ناممکن ہے۔ سیٹ پر قادر خان کو بلایا گیا۔ اس نے کہا ہر چیز ممکن ہے۔ پھر قادر خان نے وہ طویل ترین مکالمے خود ادا کرکے سیٹ پر سب کو حیران کردیا۔ سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ امیتابھ بچن نے قادر خان کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا آپ گریٹ ہو سر۔ اور پھر امیتابھ بچن نے چند ریہرسل کے بعد وہ سارے مکالمے ایک شاٹ میں اوکے کرکے دیے تھے۔ قادر خان نے سیکڑوں فلمیں لکھیں۔ ان سب کا تذکرہ تو ناممکن ہے چند سپرہٹ فلموں کے نام درج کر رہا ہوں جن کے مکالموں نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ وہ فلمیں تھیں اکبر، امر انتھونی، دریا دل، جیسی کرنی ویسی بھرنی، ہمت والا، شرابی، انگار، تقدیر والا، ہیرا پھیری، ہم ہیں کمال کے، سہاگ، ساجن چلے سسرال، دھرم ویر، نٹ ور لال،داغ، میں کھلاڑی تو اناڑی اور بے شمار فلمیں۔ قادر خان نے کامیاب فلموں کا ڈھیر لگا دیا تھا۔ انڈین فلم انڈسٹری میں یہ اعزاز صرف ایک ہی اداکار اور رائٹر قادر خان کو حاصل ہے۔ قادر خان کی فلمی خدمات پر ہندوستان سرکار کی طرف سے 70 ویں یوم آزادی کے موقع پر پدما بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ قادر خان فلمی دنیا سے خود ہی کنارہ کش ہوتے چلے گئے اور اسلامی تعلیمات کا درس دینے لگے تھے۔ اب ان کے نزدیک دنیا کی دولت، شہرت سب بے معنی تھی۔ وہ اسلام کی اصل روح کو اپنی روح میں سمانے میں مصروف ہوگئے تھے پھر وہ بیمار رہنے لگے اور بیماری ہی کی حالت میں کینیڈا میں اپنے بچوں کے پاس چلے گئے مگر بیماری طویل ہوتی چلی گئی اور 31 دسمبر کی سرد ترین رات میں زندگی کی گرمی نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اور 2019ء کا سورج نکلنے سے پہلے وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے انھیں سی ساگا کے قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔
Load Next Story