تُو ان زُلفوں کو کٹوا کر جو بھجواتی تو اچھا تھا

بالوں کی برآمد کا انکشاف وزارت تجارت نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفۂ سوالات کیا ہے


Muhammad Usman Jami February 03, 2019
بالوں کی برآمد کا انکشاف وزارت تجارت نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفۂ سوالات کیا ہے

ہمیں بال برابر بھی گمان نہیں تھا کہ بال اتنے قیمتی ہیں۔ جب سے یہ پتا چلا ہے کہ پاکستان بال برآمد کرتا ہے اور گذشتہ پانچ سال کے دوران 16لاکھ ڈالر مالیت کے بالر دوسرے ممالک کو فروخت کیے جاچکے ہیں، تو ہمیں رہ رہ کر اپنے نائی پر غصہ آرہا ہے، جو ہم سے پیسوں کا ساتھ بال بھی اینٹھتا رہا ہے۔ اب تک ہم نہ جانے کتنے ہزار روپے کے بال حجام کی دکان پر گنوا چکے ہیں۔

بالوں کی برآمد کا انکشاف وزارت تجارت نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفۂ سوالات کیا ہے۔ پارلیمانی سیکریٹری نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ پاکستان نے گذشتہ پانچ برس کے دوران صرف چین کو پانچ سال میں ایک لاکھ 5 ہزار 461 کلوگرام انسانی بال برآمد کیے، جن کی مالیت 1 لاکھ 32 ہزار ڈالر ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری کا کہنا تھا کہ انسانی بالوں کا استعمال وگز بنانے میں ہوتا ہے۔ پاکستان چین، امریکا اور عرب امارات سمیت کئی ممالک کو بال برآمد کرتا ہے۔

افسوس کے ہم بال کی کھال نہیں نکالتے ورنہ اداکار علاء الدین کے جھمکے والے مشہور مکالمے کی نقالی کرتے ہوئے حجام سے ضرور پوچھتے ''کہاں جاتے ہیں یہ بال، کون لے جاتا ہے یہ بال، کس کام آتے ہیں یہ بال۔'' اور پھر اس سے تقاضا کرتے کہ بھیے! بال کاٹنے کے پیسے لینے کے بہ جائے بال کٹوانے کے پیسے دو۔

بتائیے بھلا! پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے، حالات بہتر بنانے کے لیے حکومت بے چاری ''اک پیسہ دے دے ۔۔۔او مائی، او بابا'' گاتی ملکوں ملکوں پھر کر قرضے اور امداد مانگ رہی ہے، اور ہم پاکستانی اپنے سَروں پر بال جیسی قیمتی ''برآمدی شئے'' اُگائے پھر رہے ہیں۔ ہمیں تو چاہیے کہ من حیث القوم گنجے ہوکر اپنے بال حکومت کے حوالے کردیں۔ اس طرح ہمیں اس بال بال سے بھی نجات مل جائے گی جو قرض میں جکڑا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جب سب ہی گنجے ہوں گے تو قدرت کے ہاتھوں بالوں سے محروم ہوجانے والوں کا احساسِ محرومی خود بہ خود ختم ہوجائے گا، جب وہ دیکھیں گے۔۔۔جس طرف آنکھ اٹھاؤں ''مِری'' تصویراں ہیں، تو خوشی سے نہال ہوجائیں گے۔

ہمارے شاعروں نے محبوب کے گیسوؤں اور زلفوں کی شان میں اشعار کے ڈھیر لگادیے ہیں، لیکن آج کے محب وطن پاکستانی شاعر کا فرض ہے کہ قینچی لے کر محبوبہ کے بالوں کا ڈھیر لگائے اور تھیلے میں بھر کر قومی خزانے میں جمع کروا آئے۔ مجاز لکھنوی نے کہا تھا، ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا

آج خواتین میں جذبۂ حُب الوطنی کے تحت بال کھال تک کٹوادینے کا جذبہ اس طرح کے شعروں سے ابھارا جاسکتا ہے:

ترے ماتھے پہ یہ گیسو بہت ہی خوب ہیں لیکن

تو ان زلفوں کو کٹواکر جو بھجواتی تو اچھا تھا

مردوخواتین اپنے بال کٹوا کٹوا کر وزارت تجارت کے حوالے کرتے رہیں گے تو یوں گنجی مساوات کی صورت میں صنفی مساوات چندیا کی طرح صاف نظر آئے گی۔ خواتین کے ہونے سے یہ سمجھنے میں تو مشکل پیش آئے گی کہ وہ ''آرہا ہے'' یا ''آرہی ہے''، ''جارہا ہے'' یا ''جارہی ہے'' مگر ان کے آنے جانے کے دورانیے میں بالوں کی بناوٹ اور سجاوٹ جو اضافہ کرتی ہے وہ دور ہوجائے گی، یوں شوہروں اور قوم کا بہت سا قیمتی وقت بچے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں