قاتل کی آخری خواہش
مدثر نے مجھے اور میں نے اسے پہچان لیا مجھے دیکھ کر وہ جوش جذبات میں روتا ہوا میرے گلے آ لگا
ہماری عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کی شکایات نئی نہیں خاص طور پر زر، زمین اور قتل کے مقدمات اپیل در اپیل چلتے ہیں۔ جتنا کوئی ملک اور معاشرہ اصول قانون ضابطے اور دیانت و امانت کے لحاظ سے برا اور بدکردار ہوتا ہے اتنا ہی وہاں کا عدالتی نظام متاثر ہوتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کی خرابی میں فریقین مقدمہ تفتیشی ایجنسی وکلاء اور عدلیہ سبھی حصہ دار ہوتے ہیں۔ فوجداری مقدمات میں سب سے بڑا اور برا جرم قتل کہلاتا ہے جس انسانی قتل میں فریقین کے درمیان اس جرم کی کوئی ہسٹری ہو ان کے مقدمات نئے جرائم کو جنم دیتے اور خاندانوں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ قتل کے مقدمات سیشن کورٹ میں سنے جاتے ہیں۔ کبھی تین ماہ اور کبھی 6 ماہ گزرنے کے بعد مقدمہ قتل کی باری آتی ہے۔
جن مقدمات قتل کی ہسٹری پرانی دشمنی ہو ان کی FIR میں مدعی اصل ملزم کے علاوہ کئی دیگر بے قصور مخالفین کو بھی نا مزد کر دیتے ہیں۔ ایسی غلطی متعلقہ پولیس کی جیب تو بھرتی ہے لیکن مقدمہ میں پراسیکیوشن کا کیس خراب اور کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔ پولیس کے پاس تفتیش التواء کا شکار ہونے کے علاوہ عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے دوران بھرتی کے بے قصور ملزم اپنی بے گناہی ثابت کر کے استغاثہ کا کیس کمزور کر دیتے ہیں جس کا فائدہ ملزم یا ملزمان کو پہنچ کر عدالت کا فیصلہ اصل ملزم کی طویل عرصہ کے بعد بریت کی شکل میں بھی نکل آتا ہے۔ ایک قابل وکیل ایسے مقدمات جیت کر فریقین مقدمہ کے لیے مزید مقدمہ بازی کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔ دو اپیلوں کی گنجائش کی وجہ سے قتل کے مقدمات کم از کم دس سال تک طول کھینچتے ہیں اور اگر دوران سماعت ایک دو مزید قتل ہو جائیں جیسا کہ پرانی دشمنیوں اور بے قصوروں کو قتلوں میں رگید نے کے نتیجہ میں ہوتا ہے تو پھر خدا کی پناہ۔
طاقتور اور با اثر ملزموں کے خلاف چشم دید گواہوں کا دوران تفتیش یا سماعت مقدمہ سچی گواہی دینا ہمارے ملک میں گویا مصائب کو دعوت دینا ہے۔ لوگوں نے ایسے بے شمار جرائم دیکھے ہیں اور اگر پولیس اور صاحبان اقتدار آپس میں گٹھ جوڑ کر لیں تو کوئی عدالت بھی مظلوم کی داد رسی نہیں کر سکتی۔ پولیس مقابلوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ملے گی۔مدت تک ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر کا ایک سینیئر مجسٹریٹ Commitment Magistrate ہوتا تھا جس کے پاس مقدمات قتل میں شہادتیں ہوتی تھیں پھر وہ کیس ٹرائل کے لیے سیشن سپرد کر دیا جاتا۔ وقوعہ کے فوراً بعد تفتیش مقدمہ ہو جانے پر چالان مجسٹریٹ کے پاس آ جانے پر بلا تاخیر گواہوں کے بیان قلمبند ہو جاتے تھے۔
گواہوں اور ملزم کے بیانات قلمبند ہو جانے کی وجہ سے جب بھی مقدمہ قتل کا باقاعدہ ٹرائل سیشن کورٹ میں شروع ہوتا تو گواہان مقدمہ نہ منحرف ہوتے نہ Win Over ہوتے نہ لالچ یا خوف کی وجہ سے اپنا کمٹمنٹ مجسٹریٹ کے پاس ریکارڈ کروایا ہوا بیان تبدیل کر سکتے، یوں سیشن جج کو درست اور جلد فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔ لیکن بعد میں کمٹمنٹ مجسٹریٹ والی پالیسی ختم کر دی گئی۔ اگر مجسٹریٹ کے پاس دیئے گئے بیانات میں زیرو Evidence ہوتا تو مجسٹریٹ ملزم کو ڈسچارج کرنے کا اختیار رکھتا تھا۔ اس پالیسی کو ختم کرنے سے مقدمات قتل نہ صرف Delay کا شکار ہوئے بلکہ Conviction Rate بھی کم ہوا۔
مقدمات قتل کے فیصلے جلداور مبنی بر انصاف نہ ہونے سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس کی ایک مثال کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ میری گجرات تعیناتی کے دنوں ایک محمد حسین نامی شخص دیرینہ دشمنی کی وجہ سے دن دیہاڑے قتل ہو گیا۔ بہت سے لوگوں نے وقوعہ دیکھا۔ مدثر نامی شخص مقتول کا رشتہ دار وقوعہ کا عینی شاہد اور مدعی مقدمہ تھا۔ ایک مقامی با اثر MPA اکبر نامی قتل کا محرک بتایا گیا، لیکن وہ قتل کے فوراً بعد موٹر کار میں دوڑ کر سیکریٹریٹ لاہور پہنچا اور چیف سیکریٹری افضل آغا سے ملاقات کر لی تا کہ وہ ملزم نامزد ہونے کے باوجود Plea of alibi لے کر بوقت ٹرائیل یہ ثابت کرنے کی پوزیشن لے سکے کہ وہ تو وقوعہ کے وقت موقع پر موجود ہی نہ تھا بلکہ پنجاب کے چیف سیکریٹری کے پاس لاہور میں تھا۔ یہ مقدمہ جس میں متعدد چشم دید گواہ تھے طویل عرصہ تک چلتا رہا۔
میرا گجرات سے جلد ہی راولپنڈی تبادلہ ہو گیا، محمد حسین کے وقوعہ قتل کے کئی سال بعد راولپنڈی سے میری صوبائی سطح سے ڈیوٹی لگی کہ میں گجرات جیل جاؤں وہاں اگلی صبح قتل کے ایک ملزم کو پھانسی دی جانی تھی مجھے قاتل کا بیان قلمبند کرنے کے علاوہ اگر اس کی کوئی قابل عمل آخری خواہش ہو تو اس کا انتظام کرنا تھا۔
میں دوپہر تک گجرات جیل پہنچ کر سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں گیا اسے آرڈر دکھا کر ملزم کو بلانے کا کہا۔ چائے پی چکا تو میں نے سزا یافتہ قاتل کو آفس میں بلوایا۔ یہ تو وہی محمد حسین قتل کا مدعی مدثر تھا میں نے جس کا کئی سال قبل گجرات تعیناتی کے دنوں بیان قلمبند کیا تھا۔
مدثر نے مجھے اور میں نے اسے پہچان لیا مجھے دیکھ کر وہ جوش جذبات میں روتا ہوا میرے گلے آ لگا، میں نے وہاں اس کا بیان قلمبند کیا تو معلوم ہوا کہ اسے مقدمہ قتل میں بری ہونے والے اکبر MPA کو قتل کرنے پر سزائے موت ہوئی تھی اس کی آخری خواہش اسپتال میں داخل بیمار ماں سے ملاقات تھی۔ میں نے ایمبولینس پر اس کی ماں کو منگوایا اور مدثر کو اجازت دی کہ وہ بھی ایمبولینس کے اندر چلا جائے اور ماں سے آخری ملاقات کر لے۔