کچھ کر کے دکھائیں
خدارا قوم کو مخصمے سے نکالیں اسے پورے اعتماد میں لیں تا کہ حکومت بھی اپنی پوری توجہ معیشت کی بہتری کے لیے مرکوز کرسکے
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزیر خزانہ اسد عمر کے بیانات نظر سے گزرے ہیں انھوں نے ایک ہی سانس میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی توقع سے زیادہ ملک کی معیشت کی حالت خراب ہے۔
ان کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ملک کی معاشی حالت اس قدر دگرگوں ہو چکی ہے جس کو سنبھالنے کے وقت چاہیئے۔ گو کہ انھوں نے یہ بھی یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ملک اب معاشی گرداب سے نکلتا جا رہا ہے اور پریشانی والی کو ئی بات نہیں ۔ انھوں نے بہت سی اچھی باتیں بھی کہنے کی کوشش کی ہے ۔
یہ بات بھی درست ہے کہ عوام یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کی نیت ٹھیک ہے اور وہ درست سمت میں کام کر رہے ہیں ان کی نیک نیتی پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا مگر ماضی میں سبز باغ دکھانے والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی خوش بیانیوں کے ڈسے ہوئے عوام اب پھر سے کوئی وعدہ سننے کے موڈ میں نہیں کیونکہ ''یہ کر دیا جائے گا وہ کر دیا جائے گا'' ماضی میں بہت سنا جا چکا ہے جب کہ ہوا کچھ بھی نہیں اس لیے نئے حکمران جو کہ عوام کی امیدوں کا آخری سہارابھی کہے جا رہے ہیں ان سے صدق دلانہ گزارش ہے کہ اب ان کو 'گا' اور' گے' کے گنبد سے باہر نکل کر کچھ کر کے دکھانا ہو گا اور عوام کو ٹھوس اعداد و شمار کی مدد یہ سے یہ بتانا ہو گا کہ آپ نے یہ کر دیا ہے اور یہ کرنے جا رہے ہیں۔
یعنی آپ عوام کو مسلسل اپنی کار کردگی سے آگاہ کرتے رہیں تا کہ عوام مطمئن رہیں کہ ان کے منتخب نمائندے ان کے لیے کچھ کر رہے ہیں اور اچھے دنوں کے بر آنے کی امید ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری قوم میں بڑی جان ہے یہ ہر طرح کابوجھ اور صدمہ برادشت کر سکتی ہے اس لیے اس پر اتنا ہی بوجھ ڈالیے جتنا بوجھ یہ برداشت کر سکے اور یہ بات ہمارے حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوم کی برداشت کی طاقت کتنی ہے۔ ماضی کے ہر حکمران نے احتساب کا نعرہ لگایا مگر نہ ڈھنگ کا احتساب ہوا اور نہ ہی کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنائی گئی۔
اب تو عوام سچ مچ کرپشن کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں اور انھیں اس کا اعتبار تبھی آئے گا جب سرکاری دفاتر میں ان کے کام رشوت کے بغیر ہونے لگیں گے۔ لاتعداد محرمیوں کے ستائے ہوئے عوام اب اس ضمن میں ٹھوس اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں۔آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی پور ی قوم کو اس امر کا گہرا ملال ہے کہ ان کا کوئی مسئلہ بھی ڈھنگ سے حل نہیں ہوا۔ سیاستدانوں کی کئی ٹولیوں نے حکمرانی کے مزے لوٹے ان کے ساتھ ساتھ خاکی وردی والے بھی وقتاً فوقتاً اپنا حصہ لینے آتے رہے۔ وعدے سب نے بہت کیے مگر یہ خالی خولی باتیں عام لوگوں کی زندگی میںکسی حقیقی تبدیلی کا باعث نہ بن سکیں۔ عزائم حکمرانوں کے علاوہ عوام کے پاس بھی ہیں اب تک سارا وقت مختلف قسم کی سفارشات اور اعلانات میں ہی ضایع ہوتا رہا ۔
عوام اب مزید کوئی اعلان سننے کے موڈ میں نہیں ہیں اور نہ ہمارے پاس اتنا وقت ہے کہ پہلے سے تشخیص کردہ مسائل کی دوبارہ تشخیص میں لگ جائیں۔ قوم کو لاحق مسائل اور امراض کی تشخیص بار بار ہو چکی ہے اس جاں بلب قوم کی حالت بھی سب کے سامنے ہے اس لیے اب تشخیص شدہ امراض کے نسخوں کو دوبارہ لکھنے سے بہتر ہے کہ سرجری شروع کر دی جائے یعنی کچھ کر کے دکھایا جائے اور یہی وقت ہے جب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کو ہر طرح کا تعاون حاصل ہے عوام ان کے ساتھ ہیں، عدلیہ انصاف کی فراہمی کے لیے ان کے ساتھ کھڑی ہے اور افواج پاکستان بھی حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کر رہی بلکہ حکومت کو ان کا مکمل تعاون حاصل ہے۔
قوم کی حالت سدھارنے کے لیے کئی نامور لوگوں نے بڑی بڑی رپورٹیں تیار کیں، معیشت ٹھیک کرنے کے دعوے کیے گئے۔ میری حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ بے شک ایک مقررہ مدت میں معیشت کو درست کرنے کے دعوے نہ کریں کیونکہ پاکستانی معیشت کی درستگی کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہم نے سات دہائیوں سے اس کو سنوارنے کی بجائے بگاڑا ہی ہے اس لیے اب چند برسوں میں اس کو ٹھیک کرنے کے دعوے مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ عوام بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں وہ بخوبی جان گئے ہیں کہ ان کے ملک اور اس کی معیشت کا کیا حشر ہو چکا ہے اور یہ سب کس کس کا کیا دھرا ہے۔ہر آنے والے حکمران نے آئی ایم ایف کا کشکول توڑنے کی بات کی لیکن پھر کشکول لے کر ان کے دربار پر ہی حاضر ہو گئے۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہمیں ایک دن کے لیے بھی آئی ایم ایف ے شکنجے سے نجات نہیں ملی۔ آئی ایم ایف کے علاوہ دوسرے عالمی ساہوکاروں نے بھی پاکستانی معیشت کو اپنے مضبوط پنچوںمیں جکڑ رکھا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ موجود بھی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ حکومت ابھی تک یہ سمجھ نہیں پا رہی کہ اس نے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان کو وفا کیسے کیا جائے۔ اس کا بہتریں حل یہ ہے کہ قوم کو کھل کر بتائیں کہ آپ اپنی خوشی اور نیک نیتی سے کیا کر رہے ہیں اور کیا آپ کو مجبوراً کرنا پڑ رہا ہے۔
خدارا قوم کو اس مخصمے سے نکالیں اسے پورے اعتماد میں لیں تا کہ حکومت بھی اپنی پوری توجہ معیشت کی بہتری کے لیے مرکوز کرسکے اور عوام کو بھی علم ہو کہ ان کی حکومت ان کے لیے کیا کر رہی ہے اور اس کے نتائج کب تک برآمد ہوں گے۔ قوم کا خوش کن باتوں اور نعروں پر سے اعتبارمجروح ہو گیا ہے یوں بھی خالی وعدوں کی گردان کا کوئی فائدہ نہیں اچھے کام خود بولتے ہیں۔ عوام صرف اس بات کے آرزو مند ہیں کہ حکمران آیندہ انھیں صرف وہ بتائیں جو انھوں نے سچ مچ حاصل کر لیا ہو کیونکہ اب حکمرانوں کے کچھ کہنے پر نہیں کچھ کرنے پر ہی عوام میں ان کا اعتبار قائم ہوگا۔