دِھیرے بہو…
ذرا سنبھل کے اور دھیرے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے
ہماری ملکی معیشت پر جو ایک جمود طاری تھا وہ کم تو ہونے لگا ہے مگر مندی کا رجحان کچھ مزید چلے گا، ہماری معیشت بنیادی طور پر ڈاکو مینٹیڈ اور نان ڈاکو مینٹیڈ کا ملاپ ہے۔
ایک ایسی معیشت جتنی بظاہر ہے،اتنی ہی چھپی ہوئی۔ جب بھی بلیک اکانومی کو چھیڑا گیا ، جس کے زمرے میں نان ڈاکومینٹیڈ اکانومی بھی آتی ہے،اس نے ہمیشہ فارمل اور ڈاکومینٹیڈ اکانومی پر منفی اثرات چھوڑے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ٹیکس کی آمدنی مجموئی پیداوار کے10.5% حصے کے برابر ہے اور اس طرح ہم دنیا کے چند بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ نان ڈاکیومینٹیڈ اکانومی کا مطلب وہ اکانومی ہے جو ٹیکس چراتی ہے اور یوں بلیک اکانومی، انڈر ورلڈ اور بہت سے مفروضے اور بہت سی باتیں ہمیں سننے کو ملتی ہیں ۔
ہمارے اخراجات بڑھ چکے ہیں۔ ہماری شرح نمو بھی بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم انسانی وسیلوں میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں اور اگر جوکچھ کر بھی رہے ہیں وہ صحیح نتائج دینے سے قاصر اس لیے ہے کہ implementation میں یا یوں کہیے کہ ہماری بیوروکریسی بہت politicized ہوگئی ہے، میرٹ پر تبادلہ وتعیناتی کہیں ماضی کی بات ہوچکی ۔معاملہ اگر یہاں تک بھی ہو تو بھی کہنے کو اتنا برا نہیں، جو آمدنی ٹیکس کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے اور جوآمدنی قرضوں کے وسیلے اور ٹیکسوں سے کچھ نکال کر ترقیاتی کاموں میں صرف کی جاتی ہے توایسے ترقیاتی کام ، ترقیاتی روح کے برعکس ہوتے ہیں۔
راستوں کے جال کو ہم ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک جیسے ائیرپورٹس کے ہونے کو، بلٹ ٹرین وغیرہ جیسے منصوبوں کو ترقی سمجھتے ہیں ۔ یوں تو ہمارے راستے سب سے اچھے ہیں مگرکیا وجہ ہے کہ برصغیرمیں شرح نموکی حوالے سے ہم سب سے پیچھے ہیں؟ جو بجٹ ترقیاتی کاموں کے لیے رکھا جاتا ہے،اس میں خورد برد اورکمیشن کے عناصر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ قرض دینے والوں کا کیا انھوں نے اپنا قرضہ بمع سود واپس لینا ہوتا ہے۔
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ساؤتھ امریکا خصوصا پیراگوئے میں جو ڈیم چین کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ اس میں اب سیکڑوں نقائص نکل پڑے ہیں،اس ڈیم کو بناتے وقت اس بات کو بھی نظر اندازکیا گیا کہ اس کے قریب آتش فشاں ہے اورکسی بھی وقت کوئی اندوہناک واقعہ پیش آسکتا ہے۔ چین سے درآمدکی ہوئی مشینری میں پائیدار میٹریل نہیں تھا، یعنی لینے کے دینے پڑگئے۔ ملک کی 80% در آمدات کی آمدنی اب قرضوں کی واپسی اور سود میں صرف ہوتی ہے جو انھوں نے ترقی کے نام پر لیے تھے۔
یہاں تک کہ ایسے شواہدات بھی مل رہے ہیں کہ بہت سے وزیروں نے کمیشن لیے، ان کمپنیوں سے جن کو یہ ٹھیکے دیے گئے۔ ہم کوئی مختلف نہیں کہ یہی کام یہاں نہ ہوتے ہوں ، چین کی کمپنیاں بھی ٹھیکے لینے کے لیے تیسری دنیاکی کمپنیوں کو رشوت دے سکتی ہیں ۔ چین جو اس وقت دنیا کی بڑی طاقت بننے جا رہا ہے وہ بھی الگ نہیں کہ اس عمل سے نہ گزرے جس سے دنیا کی دوسری بڑی طاقتیں گزری ہیں ۔ پرانے زمانے میں ان کو امپیریل طاقتیں کہا جاتا تھا ۔ کل برطانیہ تھا پھر امریکا۔ بڑی طاقتیں، بڑی طاقتیں ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے وہ اپنے مفادات کو مد نظر رکھتی ہیں پھر یہ کہ ہمارے مفادات ان کے مفادات سے مماثلت رکھتے ہیں کہ نہیں ، ہم پھر ان کو پرکھتے ہیں لیکن اس بات کا تعین ہم میں سے کون کرے گا ؟بیوروکریسی کرے گی یا سیاستدان؟ ایسے سیاستدان جو بیساکھیوں کا سہارا لیتے ہوں اور جمہوریت جو کبھی آدھی ہے توکبھی ملے جلےhybrid اور ادارے کمزور ہوں تو وہ اپنے مفادات کا صحیح تعین کیسے کر سکتے ہیں۔ ایسے فیصلے ذوالفقارعلی بھٹو یا نہرو جیسے لیڈران کا تقاضہ کرتے ہیں۔
قصہ مختصرکہ ہم نے قرضوں پر اور خاص طور پر بیرونی قرضوں پر ایسے منصوبے باندھے، جن کا براہ راست انسانی فلاح سے تعلق نہیں اور وہ پروجیکٹ جن سے آمدنی میں اضافہ نہ ہو اور جن سے شرح نمو میں اضافہ نہ ہو اور جوکہ کمیشن کی نظر ہوجائیں ، توکیا مقروض ہم ہوئے اور اب قرضوں کی واپسی کا بوجھ بھی امیروں پر نہیں بلکہ غریبوں پر ٹیکس کی صورت میں، یعنی ان ڈائریکٹ ٹیکس ۔اب حالات یہ ہیں کہ جو غریب کل چار روٹی کماتا تھا اب وہ دو روٹی کماتا ہے۔اس حوالے سے مثال اپنے سندھ کی دینا چاہوں گا کہ دوسرے صوبوں پر میری تحقیق تھوڑی کمزور ہے ۔ سندھ رورل کی 80% آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ دنیا میں Stunted بچے (غیرکامل نمو) میں سندھ سب سے آگے ہے ۔ سندھ غیر صحت مند پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں (water born diseases)میں گھرا ہوا ہے کہ یہاں 80% آبادی صاف پینے کے پانی سے محروم ہے۔
یہ بحث بہت طویل ہوجائے گی مگر لب لباب یہ ہے کہ جو مرض ہمیں لاحق ہے اس کی بنیادی وجہ ہماری کشیدگیوں میں گھری سیاست ہے۔ ہم اس بات کا تعین ہی نہ کر پائے کہ ہمیں سب کو ساتھ لے کرکیسے چلنا ہے ۔ افہام وتفہیم سے ہر مسئلے کا حل کیسے نکالنا ہے۔ یہ ملک کسی مکینکل سوچ کے ساتھ نہیں ٹھیک کیا جاسکتا یا کسی بڑے آپریشنل سوچ کے ساتھ بھی نہیں یا جس طرح حال ہی میں ہم تجاوزات کے نام پر یا پھر جوڈیشل ایکٹو ازم کے نام یا پھر کسی Hybrid ڈیموکریسی کے نام پر ۔ یہ ملک اب اپنی فطری ارتقا کی راہ سے بھٹک چکا ہے۔ مخصوص مفادات کے تناظر میں ایک بیانیے کو جنم دیا جاتا ہے اور وہ بیانیہ خود ملک کے لیے وبال جان بن جاتا ہے اور پھر دو دہائیاں اس بات میں گزرگئیں کہ اس بیانیے سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔ وہ vision جو بانی پاکستان کا تخیل تھا اس کو ہم برسوں پہلے خیر آباد کر چکے۔
اب ایک بہت بڑے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے ایک وسیع سوچ کے ساتھ ۔ یہ جو بیماری balance of payment کے نام سے ہمارے ملک کی جڑوں میں بیٹھتی جا رہی ہے یہ ان تمام عوامل کا مظہر ہے ۔اس ملک کے فطری حوالے سے کم ازکم پچاس ارب ڈالرکے بیرونی ذخائر ہوتے۔ سو ارب ڈالرکے لگ بھگ ایکسپورٹ ہوتی، پھرکہیں جا کے ہم اپنے ایٹمی قوت ہونے پر دنیا میں اپنا اثر رسوخ پیدا کرینگے، برابری کی بنیاد پر سمجھوتہ کرینگے اور بحیثیت ذمے دار ملک ورلڈکمیونٹی میں جانے پہچانے جائینگے۔
یہ ملک خدا کی نعمت ہے ، بائیس کروڑ عوام پر مشتمل ہے۔ مختلف زبانیں اور مختلف ثقافتیں ہیں اور بنیادی طور پر نوجوانوں کا ملک ہے، ہم بہت آگے جاسکتے ہیں۔ ہمیں ایک ایسی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ تمام لوگ جو مختلف سوچوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ سب ایک محور میں رہ کر، ایک ساتھ پاکستان کے شانہ بشانہ چلیں اورکس طرح ہم ان تمام سوچوں اور ثقافتوں کے بیانیہ کو ملک کے مجموعی بیانیہ سے جوڑیں ۔ یہ ہے وہ بنیادی نکتہ جس کے گرد ہماری پالیسی و حکمت عملی کو چلنا ہے۔
آزاد صحافت اس ملک کی امین ہے۔ اس سے انحراف ہمارے ملک کو کسی لیبیا، عراق اور نیمبیا بنانے کے برابر ہے۔ ایک طرف غصہ سنو اور دوسری طرف سے نفرت بھی۔کیونکہ سننے سے بہت سی باتیں ٹھہرجاتی ہیں نہ کہ دبانے سے۔
ہماری ان فارمل معشیت ہو یا نان ڈاکومینٹیڈ اکانومی ان کو ٹیکس کے زمرے میں لانے کے لیے بھی ایک جامع وقت درکار ہے۔ اس کو ایک دن میں ٹھیک نہیں کیا جاسکتا، جس طرح تجاوزات کو ایک دن میں نہیں ہٹایا جاسکتاکیونکہ اس سے مجموعی معیشت بیٹھ جائے گی، روزگارکم ہوگا، بھوک وافلاس بڑھے گی وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں روزگارکے مواقعے پہلے سے ہی کم ہیں۔ ہم اپنے مخصوص مذہبی بیانیہ میں الجھے ہوئے تھے لیکن اب شایدکسی حد تک ہم نکل بھی چکے ہیں ۔تمام مذاہب کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ ہمارا آئین بتاتا ہے ۔ انسانی چیلنجزکا سامنا کرنے کے لیے ہمیں اسی آئین کی ضرورت ہے جو 1973 ء میں بنا تھا۔
جب تک اس کا وجود نہ تھا ہم واقف ہیں کہ ہم پر کیا گزری۔ آئین اپنی روح میں عضوی Organic ہوتا ہے وہ مختلف حالات میں مختلف چیلنجزکو بنیادی اصولوں کے پس منظر میں اپنی تشریح خود دیتا ہے ۔ پاکستان کا آئین پاکستان کے مجموعی معاشرے کا عکاس ہے اور یہی معاشرہ اس آئین کو وجود میں لایا۔ پاکستان کا یہ سماج ایک پلیورل اور انکلیوزو سماج ہے اس لیے اس گوناگوں پاکستان میں اورگھمبیر صورتحال میں تیزی دکھانے سے معاملے اور خراب ہونگے ۔ یہ سیاسی ادارے ہم نے دہائیوں میں بنائے ہیں ان کو پلک جھپکتے میں زمین پر گرانے، محض اس لیے ان کی قیادت کرپٹ ہے، ملک کے لیے نقصان دہ ہوگی، اس لیے ذرا سنبھل کے اور دھیرے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔