ڈر گئی ہوں میں
رشتوں کا احترام باقی رہے اور سوسائٹی میں در کر آنے والی برائیوں کا خاتمہ ہوسکے
'' تمہیں کہا تھا کہ کوئی ایسی پیاری سی پڑھی لکھی لڑکی بتاؤجس کے کوئی آگے ہو نہ پیچھے... '' فون پر بات کرتے ہوئے میرے دوسرے کان میں آواز پڑی، '' چھ ماہ ہو گئے ہیں لیکن تم نے میرے اکلوتے بیٹے کے لیے کچھ نہیں کیا! ''
'' ابھی تک کوئی لڑکی نہیں ملی تمہیں ؟ '' جواب میں آواز آئی، '' میں تو سمجھی تھی کہ پلٹ کر دوبارہ فو ن نہیں کیا تو یقینا تم نے اپنے بیٹے کا رشتہ طے کر لیا ہو گا! ''
'' تمہار ا فون نمبر کہیں گم ہو گیا مجھ سے، دوبارہ ملاقات ہونے کے علاوہ تم سے پوچھنے کا کوئی اور راستہ نہ تھا! '' وضاحت دی گئی۔
'' چلو اب میرا نمبر اپنے فون میں محفوط کر لو اور کل مجھے کال کر کے یاد کروا دینا ! ''
'' ٹھیک ہے!! '' نمبروں کا تبادلہ ہوا اور فون میں آیندہ رابطے کے لیے نمبر محفوظ کر لیے گئے ۔ میں اپنی دوست کے ساتھ کافی شاپ میں بیٹھی تھی کہ قریب کی میز سے اٹھ کر ایک خاتون آئیں اور ان دونوں کے بیچ مندرجہ بالا گفتگو ہوئی۔
'' میں پوچھ سکتی ہوں کہ انھیں ایسی لاوارث لڑکی کیوں چاہیے اپنے بیٹے کے لیے... کوئی انسانی ہمدردی کے جذبے کا چکر ہے یا؟ '' میں نے اپنی دوست سے پوچھا کیونکہ وہ خاتون دکھنے میں تو ایسی نہ لگی تھیں کہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کے لیے وہ کسی لاوارث بچی کو سہارا دینے کے لیے ڈھونڈ رہی ہوتیں ۔
'' اصل میں آج کل مائیں اپنی بیٹیوں کی تربیت کچھ اس طرح سے منفی انداز میں کر رہی ہیں کہ ان کا مطالبہ ہے کہ کوئی ایسی لڑکی ہو جسے اپنے میکے کا زعم نہ ہو، اس کی تربیت ماں نے اس طرح نہ کی ہو کہ جب سسرال میں کانٹا بھی چبھے تو فورا میکے کا فون کھڑکا دینا! '' میری دوست نے وضاحت کی ۔'' اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جس بچی کی ماں نہیں ہو گی اس کی تربیت میں کوئی سقم نہیں ہو گا؟ ''
'' جب وہ میکے سے کسی کمی کجی کے ساتھ آئے گی تو سسرال میں آسرا ڈھونڈے گی اور اپنی ساس کو ماں سمجھے گی!''
'' اچھا... میں تو اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ اس دور کی ہر ماں اپنی بیٹیوں کی منفی تربیت کرتی ہے!! ''
'' اصل میں بچیوں کی تربیت آج کل مائیں کر ہی نہیں رہی ہیں ، سسرال جانے سے پہلے، سسرال والوں کو تگنی کا ناچ نچانے کے سارے گر تو آج کل ہمارے ہاں کا ڈرامہ سکھا رہا ہے!! '' میری دوست نے بتایا، '' تم کوئی بھی چینل لگاؤ، کسی بھی لکھاری کا لکھا ہوا ڈرامہ دیکھو، ہر ڈرامے میں کوئی نہ کوئی ایسی بہو ہے جس نے ساری سسرال کے خلاف سازشوں کا جال بن رکھا ہے۔
شادی ہوتی ہے تو بیٹا کاٹھ کا الو بن جاتا ہے... ماں مٹی کی مادھو اور نندیں اور دیور اس کے رعب میں دبے ہوئے۔ چھٹانک چھٹانک بھر کی لڑکیوں کو اتنا تگڑا دکھایا گیا ہے کہ وہ اپنی شکل و صورت اور اداؤں کے بل بوتے پر نہ صرف اپنے شوہربلکہ اپنی پوری سسرال کو اپنی انگلیوں پر نچاتی ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا!! ''
' ' اچھا... ایسے ڈرامے دیکھنے کے لیے کس کے پاس فارغ وقت ہوتا ہے، آج کل کی لڑکیاں پڑھی لکھی اور پریکٹیکل سوچ کی حامل ہیں۔ اپنی عزت کروانے کے لیے سسرال والوں کی عزت کرنا چاہیے، اس کا انھیں علم ہے !! ''
'' ہاں ایسی مثبت سوچ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے!!''
'' میں توسمجھتی تھی کہ ہر ڈرامے میں سسرال کو لڑکیوں کے لیے برا دکھایا جاتا ہے... یہ تو تم نے نئی سنائی! ''
'' ہیں ایسے ڈرامے بھی جن میں سسرال کو جہنم جیسا دکھایا جاتا ہے مگر اس وقت کثرت ایسے ڈراموں کی ہے جن میں لڑکیوں کو سسرال پر راج کرنے کے گر سکھائے جاتے ہیں ! ''
'' لگتا ہے کہ تم چن چن کر ایسے ڈرامے دیکھتی ہو جن میں بہوئیں بری دکھائی جاتی ہیں ؟ '' میں نے ہنس کرکہا۔
'' لڑکوں کی مائیں کہتی ہیں کہ لاوارث اور کمزور میکے والی لڑکیاں ڈھونڈ کر دیں اور لڑکیوں کی مائیں چاہتی ہیں کہ انھیں گلاب تو ملے مگر کانٹا کوئی ساتھ نہ ہو!! '' میری دوست نے بتایا، '' نہ ساس ہو نہ سسر، نہ دیور نہ نند اور لڑکا اکلوتا بھی ہو اور کماؤ بھی!! ''
'' ایسا کیسے ممکن ہے کہ ہر لڑکے کا کوئی خاندان نہ ہو؟ '' میرا منہ حیرت سے کھلا۔'' واقعی، اسی کے باعث آج کل لڑکیوں کی عمریں نکلتی جا رہی ہیں اور والدین ان کے ہاتھ پیلے نہیں کر پا رہے! ''
'' تو کیا جو لڑکا پسند آئے اس کے خاندان کو بم دھماکہ کر کے ختم کر دیا جائے؟؟ '' میرا لہجہ تلخ ہو گیا۔...'' کچھ ایسے ہی حالات لگتے ہیں... '' وہ ہنسی۔اس بات کو اتنی اہمیت دینے کا ارادہ نہ تھا مگر پھر بھی میں نے مختلف چینلز پر چلنے والے چند ڈراموں کی چند اقساط دیکھیں اور اپنی دوست کی بات پر یقین آیا۔ نہ تو ڈراموں کے نام لیے جا سکتے ہیں نہ لکھاریوں کے مگر آپ سب کے گھروں میں بھی ڈرامہ دیکھا جاتا ہے اور آپ خود بھی دیکھتے ہوں گے، آپ کو میری دوست کی بات سے قطعی اتفاق ہو گیا ہو گا کہ واقعی ایسا ہی ہے۔
شادی سے پہلے لڑکیوں کو معصوم دکھایا جاتا ہے، ان کی سہیلیوں کی مائیں ان کی سادگی اور معصومیت سے متاثر ہوتی ہیں اور شادی ہوتے ہی اس معصومیت کی قلعی اترنے لگتی ہے ۔ شادی ہوتے ہی اختلافات، روٹھنے منانے کے ڈرامے، طلاقیں اور خلع... نہ صرف غیر شادی شدہ لوگوں کے ناجائز تعلقات بلکہ شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے غلط تعلقات۔ چھٹانک بھر کی لڑکی میں اتنی صلاحیتیں شادی ہوتے ہی پیدا ہو جاتی ہیںکہ وہ اپنے شوہر پر ساس کو مکاراور نندوں کو بدکردار ثابت کر دیتی ہے۔
اپنے سسرال میں دیوروں اور جیٹھوں اور میکے میں بھائیوں بھابیوں کے بیچ تعلقات کو اس حد تک منفی کر دیتی ہے کہ طلاق ہونا تو لازم ہے، اس سے بڑھ کر بیویاں قتل تک کر دی جاتی ہیں ۔ سب چیزوں کو اتنا نارمل دکھایا جا رہا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس دنیا ، کس مذہب، کس ملک اورکس معاشرے کے حالات کی عکاسی کی جارہی ہے؟آپ کے گھروں میں بچیاں ڈرامے دیکھتی ہیں اور ان کے کچے ذہن ان سے متاثر ہو جاتے ہیں ۔
وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ شادی ہونا اور اس کا ختم ہو جانا گڑیا اور گڈے کا کھیل ہے۔ جن اداؤں کے تیر چلاکر انھیں ہر بات منوانا آسان لگتا ہے، جب شادی ہوتی ہے اور حقیقی سسرال اور شوہر سے واسطہ پڑتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ گائے جیسی ساس، ڈری سہمی نندیں اور گھامڑ اور بدھو شوہر صرف ڈراموں میں ہی پائے جاتے ہیں... زندگی کی اصل حقیقتیں کچھ اور ہی ہیں ۔ حقیقی دنیا کے، مضبوط رشتوں کی ڈور میں بندھے ہوئے مرد کی فطری انا کو توڑنے کی کوشش میں وہ اپنے گھر توڑ بیٹھتی ہیں۔ میڈیا کو قابو کرنا... اس کا قبلہ درست کرنا تو شاید ہم لوگوں یا حکومت کے بس کی بات نہیں مگر اپنے گھروں میں ڈرامے دیکھنے والیوں کے قبلے درست کرنا کسی حد تک اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔
انتیس قسطوں تک ماں جیسی ساس سمیت اپنے شوہر کے گھر کے ہر رشتے کو قدموں تلے روندنے والی، ایک ایک کر کے سب کو موت سے ہمکنار کروانیوالی اور جو زندہ بچ جاتے ہیں انھیں پاگل پن میں مبتلا کرنے والی ایک ڈائن نما بہو کا انجام آخری قسط میں دکھایا جاتا ہے... بہت سی بچیاں وہ آخری قسط بھی نہیں دیکھتیں یا دیکھتی بھی ہیں تو سمجھتی ہیں کہ ضروری نہیں کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہو ... یوں بھی اس انجام کا کیا فائدہ جس میں سسرال والے تو ختم ہو چکے ہوتے ہیں ؟
انتیس قسطوں میں بہو کی ہر سازش کامیاب ہوتی چلی جاتی ہے تو دیکھنے والیوں کو لگتا ہے کہ عمر کا بیشتر حصہ تو ان کے لیے کامیابیوں کا دور رہے گا اگر وہ اسی طرح اپنے سسرال پر قابو پا لیں تو... یوں پہلے دن سے لڑکی اپنے سسرال والوں کو دشمن سمجھ کر بابل کی دہلیز پار کرتی ہے ۔انھیں کوئی سمجھانیوالا نہیں ہوتا کہ میکے میں چھوڑ کر جانے والے رشتوں جیسے نئے رشتے مل رہے ہیں اور انھیں ان کی اچھائیوں اور برائیوں سمیت قبول کرنا ہے۔ انھیں متاثر کرنے کے لیے سازشوں کی بجائے اپنی اچھائیوں کے ہتھیار استعمال کریں ۔
میں اس سے قبل ہمیشہ یہ کہتی تھی کہ آج کل کی ماؤں نے اپنے چھوٹے بچوں کی تربیت کی ذمے داری میڈیا کو سونپ دی ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ اب موجودہ حالات میں جب میں نے چند ڈرامے دیکھے ہیں تو اندازہ ہوا ہے کہ بچپن سے بڑھ کر خطرناک لڑکپن اور اوائل جوانی کی عمر ہوتی ہے۔ یہی وہ عمر ہے جب لڑکیاں خود کو کہانیوں، ناولوں ، ڈراموں اور فلموں کی ہیروئین اور لڑکے خود کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ ان کی تربیت میں یہ دور بہت اہم ہے، اس میں انھیں اپنے ماں باپ کی طرف سے راہنمائی کی زیادہ ضرورت ہے۔
اگر آپ باپ ہیں، ماں ، بھائی، بہن یا دوست... آپ اپنے گھر میں اپنے نوجوان بچوں کی مصروفیات، ان کی دوستیاں، ان کے فون، کمپیوٹرچیک کریں ۔ ان کا آنا جانا کن جگہوں پر ہے، کس طرح کے دوست ہیں، کس طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں، کس طرح کے فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں اور ان سے ان کا ذہن کس نوعیت سے متاثر ہوتا ہے۔ ان کی مثبت سمت میں رہنمائی آپ کا اولین فریضہ ہے نہ کہ اس معاشرے کی مرتی ہوئی اقدار زندہ رہیں، رشتوں کا احترام باقی رہے اور سوسائٹی میں در کر آنے والی برائیوں کا خاتمہ ہو سکے۔