امن قائم کرنے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ کی سندھ حکومت کو ’’وارننگ‘‘
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بالآخر کراچی کے دورے کے لیے وقت نکال ہی لیا اور انہوں نے حکومت سندھ۔۔۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بالآخر کراچی کے دورے کے لیے وقت نکال ہی لیا اور انہوں نے حکومت سندھ کی یہ شکایت دور کردی کہ وہ کراچی نہیں آرہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ نے کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جو لب ولہجہ اختیار کیا ہے۔
اس کی وجہ سے ان کے دورے کے بارے میں عجیب وغریب تبصرے کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے اگرچہ سندھ حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دینے سے متعلق اپنے بیان کی تردید کی اور کہا کہ ان کی طرف سے اس طرح کی بات کبھی بھی نہیں کی گئی تھی لیکن دورہ کراچی میں صحافیوں سے ان کی گفتگو سے یہی تأثر ملتا ہے کہ وہ سندھ حکومت کو مہلت دینے آئے تھے۔ انہوںنے بارہا یہ بات کہی کہ امن وامان کی ذمہ داری سندھ حکومت کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک ہی سانس میں یہ بات بھی کہی کہ کراچی کی خراب صورت حال برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کو ہر طرح کا تعاون فراہم کرے گی لیکن ہمیں کراچی میں ہر حال میںامن چاہئے ۔
وفاقی وزیر داخلہ کے یہ الفاظ کہ ''کراچی کی خراب صورت حال برداشت نہیں کی جائے گی اور انہیں ہرحال میں امن چاہئے'' حکومت سندھ کے لیے ایک وارننگ تصور کئے جا رہے ہیں۔ ایک اسٹیٹس مین کی حیثیت سے چوہدری نثار علی خان نے سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے امکان کو بھی رد کیا اور کہا کہ گورنر راج کسی مسئلے کاحل نہیں ہے، اس کے باوجود انہوںنے بین السطور جو پیغام دیا ہے ، اس سے حکومت سندھ بھی محسوس کررہی ہے اور سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے حلقے بھی اس پیغام کو سمجھ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ سے یہ بھی سوالات کئے گئے تھے کہ اگر کراچی میں امن قائم نہ ہوا تو وفاقی حکومت کیا کرے گی؟ ان سوالوں کا جواب بھی انہوںنے سفارتی زبان میں دیا اور کہا کہ وفاقی حکومت صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی۔
انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔ بعض حلقے یہ بھی اندازے لگارہے ہیں کہ صورت حال کب وفاقی حکومت کی برداشت سے باہر ہوجائے گی۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ صدارتی انتخابات کے بعد وفاقی حکومت صوبہ سندھ خصوصاً کراچی میں بھی کوئی سرگرم کردار ادا کرسکتی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز کا دورہ بھی کیا ، جہاں انہیں ڈی جی رینجرز سندھ نے امن وامان کی صورت حال پر بریفنگ دی ۔ رینجرز چونکہ وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں لہذا وفاقی وزیر داخلہ کے رینجرزہیڈکوارٹرز کے اکیلے دورے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس دورے میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ساتھ کیوں نہیں رکھا گیا لیکن وفاقی وزیر داخلہ کے اس بیان پر اعتراض کیا جا رہا ہے ، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ''قانون نافذ کرنے والے ادارے چاہتے ہیں کہ سیاسی مداخلت کم ہو اور انہیں فری ہینڈ دیا جائے تو کراچی میں پائے دار امن کا قیام ممکن ہے ۔''
وفاقی وزیر داخلہ نے علیحدگی میں ملاقات صرف رینجرز کے حکام کے ساتھ کی ۔ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کسی دوسرے ادارے کے افسران سے انہوں نے ملاقات نہیں کی۔ اس طرح وفاقی وزیرداخلہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے ، وہ صرف رینجرز کی خواہش ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ رینجرز اپنی مرضی سے کراچی میںکارروائی کرنا چاہتی ہے اور یہ تأثر بھی مل رہا ہے کہ وہ سندھ حکومت کی کمان میں کام نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ سندھ خصوصاً کراچی میں امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی طرح درست عمل نہیں ہوگا اور وفاقی حکومت پر یہ الزام عائد ہوگا کہ وہ رینجرز کے ذریعہ سندھ میں براہ راست کارروائیاں کرناچاہتی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ کو نہ صرف اس تأثر کو ختم کرنا چاہئے بلکہ اس بات میں اگر کوئی حقیقت ہے تو اس پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنی چاہئے ۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو اس بات کا احساس ہے کہ بعض قوتیں کراچی میں دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں اور وہ اصل دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیںکرنے دیتی ہیں۔ دہشت گردوںکے خلاف کارروائی کی پاداش میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوںکو برطرف بھی کیا جاچکا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود بھی اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی مخالفت میں کراچی کے مسئلے کو کوئی سیاسی رنگ دینا چاہتی ہے تو اس مرحلے پر صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ سب کے لیے خطرناک کھیل ہوگا۔
کراچی میں بدامنی کا مسئلہ اس لیے حل نہیں ہوسکا ہے کہ بعض طاقت ور عناصر اس مسئلے کو حل ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں اور وہ کراچی کی بدامنی کو پاکستان میں جمہوریت ، جمہوری اداروں اور جمہوری قوتوں کے لیے مستقل خطرے کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ لیاری میں بدامنی کے حوالے سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی اپروچ میں جو فرق نظر آرہا ہے ، اس سے وہ طاقت ور عناصر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ کراچی کی صورت حال کو جواز بناکر مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کوئی مہم جوئی کرسکتی ہے ۔ چوہدری نثار علی خان کے دورہ کراچی سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین ہم آہنگی پیدا ہونے کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آئے ۔ یہ بات تشویش ناک ہے ۔
سندھ کی سیاست میں اس وقت غیر یقینی کی صورت حال ہے ۔ لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف مختلف الزامات کی تحقیقات ہورہی ہیں ۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے اس بات کو بین الاقوامی سازش قرار دیا ہے ۔ سندھ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ مذکورہ غیر یقینی صورت حال میں سندھ خصوصاً کراچی کے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔کیونکہ بہت سی قوتیں سندھ میں سیاسی توازن بگاڑنے اور نیا سیاسی توازن قائم کرنے کے لیے زیادہ متحرک ہوسکتی ہیں اور پرانی قوتیں اس کا ردعمل ظاہر کرسکتی ہیں۔ ایسے امکانی حالات میں وفاقی اور سندھ حکومتوں کے مابین امن وامان کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے یکساں اپروچ نہ پائی گئی تو معاملات زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔
کراچی کی بدامنی کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ سیاسی قوتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق ہو اور غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کو روکا جائے۔ بدامنی لوگوں کو بھی برداشت نہیں ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ کے بیان کو وارننگ تصور کیا جارہا ہے ۔ فرض کریں کہ سندھ حکومت کو ناکام قرار دے دیاجاتا ہے اور سندھ میں گورنر راج نافذ کردیا جاتا ہے ، اس کے باوجود امن قائم نہیں ہوتا ہے تو پھر وفاقی حکومت کہاں کھڑی ہوگی؟ دہشت گردی کے واقعات بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی ہورہے ہیں لیکن وہاں کے بارے میںیہ نہیں کہا گیا کہ ان صوبوں کی خراب صورت حال برداشت نہیں کی جائے گی اور ہرحال میں وہاں بھی امن چاہئے۔ لیکن سندھ کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ کے الفاظ سے کوئی معنی اور مطالب اخذ کئے جارہے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔
اس کی وجہ سے ان کے دورے کے بارے میں عجیب وغریب تبصرے کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے اگرچہ سندھ حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دینے سے متعلق اپنے بیان کی تردید کی اور کہا کہ ان کی طرف سے اس طرح کی بات کبھی بھی نہیں کی گئی تھی لیکن دورہ کراچی میں صحافیوں سے ان کی گفتگو سے یہی تأثر ملتا ہے کہ وہ سندھ حکومت کو مہلت دینے آئے تھے۔ انہوںنے بارہا یہ بات کہی کہ امن وامان کی ذمہ داری سندھ حکومت کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک ہی سانس میں یہ بات بھی کہی کہ کراچی کی خراب صورت حال برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کو ہر طرح کا تعاون فراہم کرے گی لیکن ہمیں کراچی میں ہر حال میںامن چاہئے ۔
وفاقی وزیر داخلہ کے یہ الفاظ کہ ''کراچی کی خراب صورت حال برداشت نہیں کی جائے گی اور انہیں ہرحال میں امن چاہئے'' حکومت سندھ کے لیے ایک وارننگ تصور کئے جا رہے ہیں۔ ایک اسٹیٹس مین کی حیثیت سے چوہدری نثار علی خان نے سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے امکان کو بھی رد کیا اور کہا کہ گورنر راج کسی مسئلے کاحل نہیں ہے، اس کے باوجود انہوںنے بین السطور جو پیغام دیا ہے ، اس سے حکومت سندھ بھی محسوس کررہی ہے اور سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے حلقے بھی اس پیغام کو سمجھ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ سے یہ بھی سوالات کئے گئے تھے کہ اگر کراچی میں امن قائم نہ ہوا تو وفاقی حکومت کیا کرے گی؟ ان سوالوں کا جواب بھی انہوںنے سفارتی زبان میں دیا اور کہا کہ وفاقی حکومت صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد کوئی فیصلہ کرے گی۔
انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔ بعض حلقے یہ بھی اندازے لگارہے ہیں کہ صورت حال کب وفاقی حکومت کی برداشت سے باہر ہوجائے گی۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ صدارتی انتخابات کے بعد وفاقی حکومت صوبہ سندھ خصوصاً کراچی میں بھی کوئی سرگرم کردار ادا کرسکتی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز کا دورہ بھی کیا ، جہاں انہیں ڈی جی رینجرز سندھ نے امن وامان کی صورت حال پر بریفنگ دی ۔ رینجرز چونکہ وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں لہذا وفاقی وزیر داخلہ کے رینجرزہیڈکوارٹرز کے اکیلے دورے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس دورے میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ساتھ کیوں نہیں رکھا گیا لیکن وفاقی وزیر داخلہ کے اس بیان پر اعتراض کیا جا رہا ہے ، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ''قانون نافذ کرنے والے ادارے چاہتے ہیں کہ سیاسی مداخلت کم ہو اور انہیں فری ہینڈ دیا جائے تو کراچی میں پائے دار امن کا قیام ممکن ہے ۔''
وفاقی وزیر داخلہ نے علیحدگی میں ملاقات صرف رینجرز کے حکام کے ساتھ کی ۔ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کسی دوسرے ادارے کے افسران سے انہوں نے ملاقات نہیں کی۔ اس طرح وفاقی وزیرداخلہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے ، وہ صرف رینجرز کی خواہش ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ رینجرز اپنی مرضی سے کراچی میںکارروائی کرنا چاہتی ہے اور یہ تأثر بھی مل رہا ہے کہ وہ سندھ حکومت کی کمان میں کام نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ سندھ خصوصاً کراچی میں امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بھی طرح درست عمل نہیں ہوگا اور وفاقی حکومت پر یہ الزام عائد ہوگا کہ وہ رینجرز کے ذریعہ سندھ میں براہ راست کارروائیاں کرناچاہتی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ کو نہ صرف اس تأثر کو ختم کرنا چاہئے بلکہ اس بات میں اگر کوئی حقیقت ہے تو اس پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنی چاہئے ۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو اس بات کا احساس ہے کہ بعض قوتیں کراچی میں دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں اور وہ اصل دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیںکرنے دیتی ہیں۔ دہشت گردوںکے خلاف کارروائی کی پاداش میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوںکو برطرف بھی کیا جاچکا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود بھی اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی مخالفت میں کراچی کے مسئلے کو کوئی سیاسی رنگ دینا چاہتی ہے تو اس مرحلے پر صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ سب کے لیے خطرناک کھیل ہوگا۔
کراچی میں بدامنی کا مسئلہ اس لیے حل نہیں ہوسکا ہے کہ بعض طاقت ور عناصر اس مسئلے کو حل ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں اور وہ کراچی کی بدامنی کو پاکستان میں جمہوریت ، جمہوری اداروں اور جمہوری قوتوں کے لیے مستقل خطرے کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ لیاری میں بدامنی کے حوالے سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی اپروچ میں جو فرق نظر آرہا ہے ، اس سے وہ طاقت ور عناصر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ کراچی کی صورت حال کو جواز بناکر مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کوئی مہم جوئی کرسکتی ہے ۔ چوہدری نثار علی خان کے دورہ کراچی سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین ہم آہنگی پیدا ہونے کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آئے ۔ یہ بات تشویش ناک ہے ۔
سندھ کی سیاست میں اس وقت غیر یقینی کی صورت حال ہے ۔ لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف مختلف الزامات کی تحقیقات ہورہی ہیں ۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے اس بات کو بین الاقوامی سازش قرار دیا ہے ۔ سندھ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ مذکورہ غیر یقینی صورت حال میں سندھ خصوصاً کراچی کے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔کیونکہ بہت سی قوتیں سندھ میں سیاسی توازن بگاڑنے اور نیا سیاسی توازن قائم کرنے کے لیے زیادہ متحرک ہوسکتی ہیں اور پرانی قوتیں اس کا ردعمل ظاہر کرسکتی ہیں۔ ایسے امکانی حالات میں وفاقی اور سندھ حکومتوں کے مابین امن وامان کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے یکساں اپروچ نہ پائی گئی تو معاملات زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔
کراچی کی بدامنی کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ سیاسی قوتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق ہو اور غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کو روکا جائے۔ بدامنی لوگوں کو بھی برداشت نہیں ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ کے بیان کو وارننگ تصور کیا جارہا ہے ۔ فرض کریں کہ سندھ حکومت کو ناکام قرار دے دیاجاتا ہے اور سندھ میں گورنر راج نافذ کردیا جاتا ہے ، اس کے باوجود امن قائم نہیں ہوتا ہے تو پھر وفاقی حکومت کہاں کھڑی ہوگی؟ دہشت گردی کے واقعات بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی ہورہے ہیں لیکن وہاں کے بارے میںیہ نہیں کہا گیا کہ ان صوبوں کی خراب صورت حال برداشت نہیں کی جائے گی اور ہرحال میں وہاں بھی امن چاہئے۔ لیکن سندھ کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ کے الفاظ سے کوئی معنی اور مطالب اخذ کئے جارہے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔