بلدیاتی انتخابات پیپلزپارٹی نے کمر کسنا شروع کردی
قائم علی شاہ کا وفاق سے اختیارات کی عدم منتقلی کا شکوہ
سپریم کورٹ کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ مقرر کر کے سپریم کورٹ کو آگاہ کرنے کے جاری کردہ احکامات سے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا ایک ریکارڈ ٹوٹنے والا ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے اقتدار میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔
شاید اسی لیے پی پی پی، متحدہ کو حکومت میں لانے کی بات تو کر رہی، وزیر اعلا سندھ جس نیم دلی سے متحدہ سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں پی پی پی کے بعض وزراء تو مختلف ٹی وی پروگرامز میں متحدہ پر نہایت سخت الزامات لگا رہے ہیں پھر مختلف قوانین جو پاس کیے گیے اس کے تحت کراچی کی سابقہ حیثیت کو ختم کر دیا گیا۔ بھٹو کا تختہ الٹنے والے ضیا الحق کو اتنا برا سمجھنے کے باوجود اسی کا بلدیاتی نظام بحال کر دیا گیا۔ پہلی بار حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد کو بلدیہ اعلا حیدرآباد سے باہر نکال کر الگ میونسپلٹی کا درجہ دے دیا گیا، حیدرآباد کے لیے یونیورسٹی لفظ کو مکروہ بنا دیا گیا، بلدیہ اعلا حیدرآباد کے او زی ٹی شیئر جس سے ملازمین کی تن خواہیں اور پینشنز دی جاتی ہیں، اس میں ساٹھ فیصد تک کٹوتی کرنے کا عمل سخت کر دیا گیا، حیدرآباد کے شہریوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے والے ادارے کے فنڈز روک لیے گیے۔
بہرحال عدالتی حکم کے بعد چاروناچار بلدیاتی انتخابات کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے دعوت افطار میں کارکنان کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری کرانے کی ہدایت کرنا شروع کر دی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر زاہد بھر گڑی کی جانب سے منعقدہ دعوت افطار میں وزیراعلا کے علاوہ پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوار رضا ربانی، شرجیل میمن، جام خان شورو اور دیگر بھی شریک تھے۔ اس موقع پر وزیراعلا کا کہنا تھا کہ کراچی کے حالات میں بہتری آئی ہے اور نشانہ وار قتل میں بھی کمی ہوئی ہے۔
کراچی میں رینجرز اہل کاروں کے ہاتھوں شہریوں کے قتل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی روکنے پر نہ رکے تو اس کے ملزم ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ایک شخص کے پاس سے پستول بھی برآمد ہوچکا۔ کراچی میں امن وامان کے حوالے رینجرز اور پولیس ہی ہماری قوت ہیں۔ دوکروڑ آبادی کے شہرمیں صرف سترہ سے بیس ہزار پولیس نفری ہے جوکہ کم ہے جبکہ ابھی پولیس کو تربیت دینے کے علاوہ جدیدآلات کی بھی ضرورت ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں رینجرز تربیت یافتہ فورس ہے اورجب تک پولیس نفری کی کمی دور اور ان کی جدید تربیت مکمل نہیں ہوجاتی ہمیں رینجرز کی سخت ضرورت ہے جبکہ یہ مناسب نہیں کہ چند ایک واقعات کو بنیاد بنا کر رینجرز پر تنقید کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جناح کورٹس تاریخی عمارت ہے اور اس سمیت دویا تین اور تاریخی عمارات ہیں جہاں رینجرز موجود ہے لیکن ہم نے انہیں کہا ہے کہ وہ یہ عمارات خالی کریں ہم انہیں متبادل عمارات دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ لیاری کے معاملے کو بہت زیادہ اچھالا جارہاہے جبکہ کراچی کے بعض علاقے ایسے بھی جہاں لیاری سے زیادہ حالات خراب رہے ہیں، کچھی برادری پیپلزپارٹی کے حامی اور ہمارے پرانے ووٹرز ہیں، ہم نے ان کی واپسی کے لیے کمیٹی بنائی ہے اوران سے رابطے کیے ہیں۔
جس کے نتیجے میں اسی فیصد لوگ واپس آگئے ہیں، بھرتیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی سطح پر آسامیاں نہ ہونے کے باجود غیرقانونی طورپر بے انتہا بھرتیاں کر لی گئیں، ایڈمنسٹریٹرز اور ٹی ایم اوز نے اپنے مرضی سے اتنے لوگ بھرتی کر لیے کہ سندھ حکومت کا پورا بجٹ ہی تن خواہوں کی مد میں خرچ ہو جائے گا، ان محکموںمیں قوائد و ضوابط سے ہٹ کر ہونے والی تمام بھرتیاں غیرقانونی ہیں جنہیں قانونی قرارنہیں دیا جا سکتا۔
حیدرآباد شہر اور قاسم آبادمیں صفائی ستھرائی کی خراب صورت حال کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ میں نے ایڈمسٹریٹر اور ڈپٹی کمشنر سے پوچھ گچھ کی ہے، ایڈمنسٹریٹر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ بلدیہ اعلا حیدرآباد کو اس کا پورا مالی حصہ نہیں مل رہا، جو کہ درست نہیں بلکہ بلدیہ اعلا حیدرآؓباد کو اس کا پورا مالی حصہ مل رہاہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ بلدیہ میں اضافی غیر قانونی بھرتی کر لی گئی ہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی وزارتوں اور اختیارات کی صوبوں کو منتقلی نہیں کی گئی۔
وزیر اعلا سندھ نے اعلان کیا کہ بلدیاتی انتخابات میں اہلیت کی بنیاد پر کارکنان کو ٹکٹ دیے جائیں گے۔ قبل ازیں صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی پی پی پی کی حکومت بنتی ہے تو سازشی عناصر حکومت کے خلاف سرگرم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ گورنر راج کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے کارکنان نے عہد کیا ہے کہ وہ جمہوری حکومت کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے۔
پیپلز پارٹی نے تو بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں تاہم ابھی تک کسی اور جماعت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی اطلاعات نہیں ملی ہیں ابھی تو تمام جماعتیں، بائیس اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں جس کے فوراً دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں شروع کریں گی اب دیکھنا ہوگا کہ عام انتخابات میں قوم پرست تنظیمیں بھی میدان میں اتریں گی یا نہیں۔
شاید اسی لیے پی پی پی، متحدہ کو حکومت میں لانے کی بات تو کر رہی، وزیر اعلا سندھ جس نیم دلی سے متحدہ سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں پی پی پی کے بعض وزراء تو مختلف ٹی وی پروگرامز میں متحدہ پر نہایت سخت الزامات لگا رہے ہیں پھر مختلف قوانین جو پاس کیے گیے اس کے تحت کراچی کی سابقہ حیثیت کو ختم کر دیا گیا۔ بھٹو کا تختہ الٹنے والے ضیا الحق کو اتنا برا سمجھنے کے باوجود اسی کا بلدیاتی نظام بحال کر دیا گیا۔ پہلی بار حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد کو بلدیہ اعلا حیدرآباد سے باہر نکال کر الگ میونسپلٹی کا درجہ دے دیا گیا، حیدرآباد کے لیے یونیورسٹی لفظ کو مکروہ بنا دیا گیا، بلدیہ اعلا حیدرآباد کے او زی ٹی شیئر جس سے ملازمین کی تن خواہیں اور پینشنز دی جاتی ہیں، اس میں ساٹھ فیصد تک کٹوتی کرنے کا عمل سخت کر دیا گیا، حیدرآباد کے شہریوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے والے ادارے کے فنڈز روک لیے گیے۔
بہرحال عدالتی حکم کے بعد چاروناچار بلدیاتی انتخابات کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے دعوت افطار میں کارکنان کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری کرانے کی ہدایت کرنا شروع کر دی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر زاہد بھر گڑی کی جانب سے منعقدہ دعوت افطار میں وزیراعلا کے علاوہ پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوار رضا ربانی، شرجیل میمن، جام خان شورو اور دیگر بھی شریک تھے۔ اس موقع پر وزیراعلا کا کہنا تھا کہ کراچی کے حالات میں بہتری آئی ہے اور نشانہ وار قتل میں بھی کمی ہوئی ہے۔
کراچی میں رینجرز اہل کاروں کے ہاتھوں شہریوں کے قتل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی روکنے پر نہ رکے تو اس کے ملزم ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ایک شخص کے پاس سے پستول بھی برآمد ہوچکا۔ کراچی میں امن وامان کے حوالے رینجرز اور پولیس ہی ہماری قوت ہیں۔ دوکروڑ آبادی کے شہرمیں صرف سترہ سے بیس ہزار پولیس نفری ہے جوکہ کم ہے جبکہ ابھی پولیس کو تربیت دینے کے علاوہ جدیدآلات کی بھی ضرورت ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں رینجرز تربیت یافتہ فورس ہے اورجب تک پولیس نفری کی کمی دور اور ان کی جدید تربیت مکمل نہیں ہوجاتی ہمیں رینجرز کی سخت ضرورت ہے جبکہ یہ مناسب نہیں کہ چند ایک واقعات کو بنیاد بنا کر رینجرز پر تنقید کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جناح کورٹس تاریخی عمارت ہے اور اس سمیت دویا تین اور تاریخی عمارات ہیں جہاں رینجرز موجود ہے لیکن ہم نے انہیں کہا ہے کہ وہ یہ عمارات خالی کریں ہم انہیں متبادل عمارات دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ لیاری کے معاملے کو بہت زیادہ اچھالا جارہاہے جبکہ کراچی کے بعض علاقے ایسے بھی جہاں لیاری سے زیادہ حالات خراب رہے ہیں، کچھی برادری پیپلزپارٹی کے حامی اور ہمارے پرانے ووٹرز ہیں، ہم نے ان کی واپسی کے لیے کمیٹی بنائی ہے اوران سے رابطے کیے ہیں۔
جس کے نتیجے میں اسی فیصد لوگ واپس آگئے ہیں، بھرتیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی سطح پر آسامیاں نہ ہونے کے باجود غیرقانونی طورپر بے انتہا بھرتیاں کر لی گئیں، ایڈمنسٹریٹرز اور ٹی ایم اوز نے اپنے مرضی سے اتنے لوگ بھرتی کر لیے کہ سندھ حکومت کا پورا بجٹ ہی تن خواہوں کی مد میں خرچ ہو جائے گا، ان محکموںمیں قوائد و ضوابط سے ہٹ کر ہونے والی تمام بھرتیاں غیرقانونی ہیں جنہیں قانونی قرارنہیں دیا جا سکتا۔
حیدرآباد شہر اور قاسم آبادمیں صفائی ستھرائی کی خراب صورت حال کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ میں نے ایڈمسٹریٹر اور ڈپٹی کمشنر سے پوچھ گچھ کی ہے، ایڈمنسٹریٹر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ بلدیہ اعلا حیدرآباد کو اس کا پورا مالی حصہ نہیں مل رہا، جو کہ درست نہیں بلکہ بلدیہ اعلا حیدرآؓباد کو اس کا پورا مالی حصہ مل رہاہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ بلدیہ میں اضافی غیر قانونی بھرتی کر لی گئی ہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی وزارتوں اور اختیارات کی صوبوں کو منتقلی نہیں کی گئی۔
وزیر اعلا سندھ نے اعلان کیا کہ بلدیاتی انتخابات میں اہلیت کی بنیاد پر کارکنان کو ٹکٹ دیے جائیں گے۔ قبل ازیں صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی پی پی پی کی حکومت بنتی ہے تو سازشی عناصر حکومت کے خلاف سرگرم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ گورنر راج کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کے کارکنان نے عہد کیا ہے کہ وہ جمہوری حکومت کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے۔
پیپلز پارٹی نے تو بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں تاہم ابھی تک کسی اور جماعت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی اطلاعات نہیں ملی ہیں ابھی تو تمام جماعتیں، بائیس اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں جس کے فوراً دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں شروع کریں گی اب دیکھنا ہوگا کہ عام انتخابات میں قوم پرست تنظیمیں بھی میدان میں اتریں گی یا نہیں۔