خیبر پختونخوا میں تبدیلی کے لئے تحریک انصاف کا سات نکاتی روڈ میپ

صدارتی الیکشن کے حوالے سے ابتدائی طورپر اکثریتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جن چھ امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ۔۔۔

مسلم لیگ(ن)کی جانب سے صدارت کے عہدہ کے لیے امیدوار کوئی سا بھی ہو اسے خیبرپختونخوا اسمبلی سے اپنے 17 ارکان کے 8.9 الیکٹورل ووٹ ملیں گے فوٹو: فائل

صدارتی الیکشن کے حوالے سے ابتدائی طورپر اکثریتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جن چھ امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ کی گئی تھی ان میں سندھ اور خیبرپختونخوا دونوں سے تین، تین امیدوار شامل تھے اور یہ امید ہوچلی تھی کہ قرعہ فال ممکنہ طور پر خارجہ امور کے لیے وزیراعظم کے خصوصی معاون سرتاج عزیز کے نام نکلے گا اور وہ ملک کے معمر ترین صدر کے طور پر کرسی صدارت سنبھال لیں گے۔

تاہم پہلے مزید شارٹ لسٹنگ میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سردار مہتاب احمد خان اور اقبال ظفرجھگڑا کا نام باہر کیا گیا اور اب لگ یہی رہا ہے کہ یہ قرعہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین کے نام نکلے گا اور خیبرپختونخوا جس کا بیس سالوں کے بعد ایک مرتبہ پھر صدارت کے عہدہ تک پہنچنے کا امکان پیدا ہواتھا وہ محروم رہ جائیگا، حالانکہ اس سے پہلے کے دونوں صدور حادثاتی طور پر صدارت کے عہدہ تک پہنچے،ایوب خان مارشل لاء کے نفاذ جبکہ غلام اسحاق خان ،جنرل ضیاء الحق کی اچانک موت کی وجہ سے اس عہدہ تک پہنچ گئے اور اب پہلی مرتبہ اگر خیبرپختونخوا سے کسی شخصیت کا انتخاب کیاجاتا تووہ آئینی طریقہ سے صدارت کے عہدہ تک پہنچتے، تاہم قرائن یہی بتارہے ہیں کہ سرتاج عزیز کے سرپر اقتدار کا ہما بیٹھتا ہوا نظر نہیں آرہا اور صدارت کا عہدہ ایک مرتبہ پھر سندھ ہی کے پاس رہے گا۔

مسلم لیگ(ن)کی جانب سے صدارت کے عہدہ کے لیے امیدوار کوئی سا بھی ہو اسے خیبرپختونخوا اسمبلی سے اپنے 17 ارکان کے 8.9 الیکٹورل ووٹ ملیں گے، تاہم اگر جمیعت علماء اسلام (ف)کے 16 ارکان کے ووٹ بھی مسلم لیگ(ن)کے صدارتی امیدوار کو پڑتے ہیں تو یہ ووٹ بڑھ کر 17.3 ہوجائیں گے جبکہ ایک آزاد رکن جاوید اکبر اگر (ن)لیگ کے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں تو اس صورت میں یہ ووٹ 17.8 ہوجائیں گے جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف جسے جماعت اسلامی ،قومی وطن پارٹی اور عوامی جمہوری اتحاد کے ارکان کے ساتھ ایوان میں 76 ارکان کی حمایت حاصل ہے اس کا امیدوار خیبرپختونخوا اسمبلی سے 40 ووٹ لے سکتا ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے ایک رکن کے ساتھ یہ الیکٹورل ووٹ 40.5 تک پہنچ جائیں گے ۔

رہی بات پیپلزپارٹی کے امیدوار کی تو اسے خیبرپختونخوا اسمبلی سے 4.2 ووٹ حاصل ہوجائیں گے کیونکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار سینیٹر رضاربانی کی اے این پی نے بھی حمایت کردی ہے جس کی بدولت یہ ووٹ 4.2 تک پہنچ گئے ہیں بصورت دیگر یہ ووٹ 2.10 تک ہی محدود رہتے تاہم اے این پی،اب بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے کیونکہ صدر آصف علی زرداری نے پانچ سالوں تک اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے ساتھ دوستی نبھائی اور انھیں صوبہ کا نام دینے کے علاوہ ان کی منشاء کے مطابق صوبائی خود مختاری بھی دی ، یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ پیپلزپارٹی کی نائو ڈوب رہی ہے اور کوئی امید نہیں کہ پیپلزپارٹی کا امیدوار صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوگا ،اس موقع پر بھی اے این پی ،پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑی اور اس کو سپورٹ کررہی ہے، بصورت دیگر اس بات کا امکان موجود تھا کہ اے این پی صدارتی الیکشن میں مسلم لیگ(ن)کے امیدوار کی حمایت کرتے ہوئے اسے ووٹ دے گی تاہم اے این پی نے اپنا اصولی موقف برقراررکھا اور پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنا ناطہ نہیں توڑا ۔

صدارتی الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوتے ہی ضمنی الیکشن کا میدان سج جائے گا جس کے لیے اب تک خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی نہیں ہوسکیں ،اگرچہ اے این پی اور جے یو آئی بھی ایک دوسرے کی محبت میں نہیں بلکہ تحریک انصاف کو مشترکہ دشمن پارٹی گردانتے ہوئے ایک ہوئی ہیں اور یہی توقع کی جارہی تھی کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)بھی ان کے ساتھ اکھٹی ہوجائیں گی اور وہ ان کے ساتھ اکھٹے ہونے کے لیے تیار بھی ہیں تاہم وہ اپنا حصہ مانگ رہی ہیں جبکہ اے این پی اور جے یو آئی ،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو کوئی حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ اے این پی اورجے یو آئی کا موقف ہے کہ ضمنی الیکشن کے لئے نشستوں کی تقسیم ایک فارمولے کے تحت ہی کی جاسکتی ہے اور وہ فارمولا بڑا واضح ہے کہ جس پارٹی نے اپنی جیتی ہوئی نشست چھوڑی ہو یا جس نشست پر جس سیاسی پارٹی کا امیدوار رنر اپ رہا ہو وہ نشست اس پارٹی کو دی جائے گی اور اسی بنیاد پر جے یو آئی اور اے این پی نے نو میں سے سات نشستوں کی تقسیم کی ہے جبکہ دو پر جے یو آئی اکیلے میدان میں اترے گی جس پر اسے اے این پی کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔


تاہم اس فارمولے سے ہٹ کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)ایک ،ایک نشست مانگ رہی ہے جن میں پیپلزپارٹی نے تو کھل کر این اے پانچ انھیں دینے کا مطالبہ کر بھی دیا ہے اور ایسا ہی مطالبہ مسلم لیگ(ن)کی جانب سے بھی متوقع ہے تاہم مسلم لیگ(ن) تاحال ضمنی الیکشن میں اس دلچسپی کا اظہار نہیں کررہی جس کی اس سے توقع کی جارہی تھی ۔ اگر (ن)لیگ نے آخری لمحا ت میں دلچسپی کا اظہار کیا بھی تو اس کا نتیجہ وہی ہونا ہے جس کی توقع ہے کہ اے این پی اور جے یو آئی ان کے ساتھ کیک تقسیم کرکے نہیں کھائے گی اور اس کا نقصان یہ ہوگا کہ اپوزیشن جماعتیں منقسم انداز میں میدان میں اتریں گی جس کا فائدہ حکمران جماعتیں لے سکتی ہیں تاہم حکمران جماعتوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان میں بھی پی کے 27 مردان کی نشست کے حوالے سے تحریک انصاف کی مقامی تنظیم اور وہاں پر جنرل الیکشن میں ہارے ہوئے پی ٹی آئی کے امیدوار مذکورہ نشست جماعت اسلامی کو دیئے جانے کی مخالفت کررہے ہیں تاہم اس مخالفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بصورت دیگر جماعت اسلامی بھی کئی نشستوں پر بغاوت کرسکتی ہے ۔

صدارتی اور ضمنی الیکشن کے بعد گورنرکی تبدیلی بھی ایک اہم مرحلہ کے طور پر لی جا رہی ہے کیونکہ صدارتی الیکشن کے انعقاد تک گورنر خیبرپختونخوا کی تبدیلی روک دی گئی ہے، تاہم جونہی صدارتی الیکشن کا مرحلہ ختم ہوگا اس کے بعد خیبرپختونخوا کے گورنر انجنیئر شوکت اللہ کی تبدیلی بھی عمل میں لائی جائے گی، بعض حلقے اس بات کا پتا دے رہے ہیں کہ انجینئر شوکت اللہ اور ان کے والد نے میاں نواز شریف کے ساتھ معاملات درست کرلیے ہیں اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ انجینئر شوکت اللہ ہی خیبرپختونخوا کے گورنر رہیں تاہم لیگی حلقے اس بات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور وہ اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ جونہی صدارتی اور ضمنی الیکشن کے مراحل اپنے اختتام کو پہنچیں گے۔

اس کے بعد گورنر خیبرپختونخوا کی تبدیلی عمل میں لائی جائے گی اور صدارت کے عہدہ کے لیے ابتدائی شارٹ لسٹڈ امیدواروں میں شامل سردار مہتاب احمد خان اور اقبال ظفر جھگڑا میں سے کسی ایک کو صوبہ کا گورنر تعینات کردیاجائے گا جن میں سے سردار مہتاب احمد خان کا پلڑا بھاری قراردیاجا رہا ہے ،کیونکہ اقبال ظفر جھگڑا پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں، اتنے اہم پارٹی عہدیدار کو اگر حکومتی عہدیدار بنایاجاتا ہے تو اس صورت میں پارٹی معاملات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور یہ بات بھی سب کے سامنے ہے کہ گزشتہ دور میں جن پارٹیوں نے حکومتی عہدوں کو پارٹی عہدوں پر ترجیح دی ان پارٹیوں کے ساتھ عام انتخابات میں کیا ہوا اور وہ پارٹیاں آج کہاں کھڑی ہیں اس لیے شاید ہی مسلم لیگ (ن) کوئی ویسی غلطی کرے جیسی دیگر پارٹیوں نے کی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے ''نیا خیبر پختونخوا'' کے نام سے صوبہ کے لیے سات نکاتی ایجنڈے پر مشتمل روڈ میپ تیار کرلیا ہے جو تحریک انصاف کے منشور پر ہی مبنی ہے جسے عملی شکل دینے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے بنائے گئے مختلف ورکنگ گروپ کام کررہے ہیں جو جولائی کے مہینہ کے اختتام تک اپنی رپورٹیں تیار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کو پیش کردیں گے جس کے بعد ان رپورٹوں میں سے جن کے حوالے سے ضرور ی ہوا ان پر قانون سازی شروع کردی جائے گی جبکہ دیگر پر ایگزیکٹو احکامات کا اجراء کیاجائے گا۔

بظاہر تو یہ صرف سات نکات ہیں تاہم اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت پورے نظام کو تبدیل کرنا چاہتی ہے جس کے لیے اسے ''جمود''کو توڑنا ہوگا اور جب جمود کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی ملتی ہیں اور ایسی ہی صورت حال پی ٹی آئی کو بھی درپیش ہے جسے نہایت ہی تکنیکی انداز میں سارے معاملات کو سنبھالنا ہوگا تاکہ سیاسی سیٹ اپ بھی چلتا رہے اور بیوروکریسی بھی حکومت سے نالاں ہوکر ایک سائیڈ پر نہ بیٹھ جائے کیونکہ اگر بیوروکریسی نے حکومتی ایجنڈے سے اپنے لیے زیادہ مشکلات یا مسائل سامنے آنے کے حوالے سے سن گن لے لی تو بیوروکریسی ہی اس ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرسکتی ہے اور بیوروکریسی کسی نظام کو جہاں کامیاب بناسکتی ہے وہیں ناکامی سے بھی دوچار کرسکتی ہے۔
Load Next Story