آتی ہے اردو زباں آتے آتے…
کل تراویح سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حسن ابدال سے مولانا اسماعیل ریحان کی کال آئی۔ خیر خیریت کے رسمی دور کے بعد...
ISLAMABAD:
کل تراویح سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حسن ابدال سے مولانا اسماعیل ریحان کی کال آئی۔ خیر خیریت کے رسمی دور کے بعد انھوں نے پوچھا کہ جاب کیسی چل رہی ہے؟ ہم نے انکساری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بس نَبھ رہی ہے۔ انھوں نے فوراً پکڑ کی کہ نَبھتی نہیں بلکہ نِبھتی ہے... ہم نے عرض کیا، تسلیم لیکن جب ہم نِبھ کہتے تھے تو آپ ہی کی طرح ایک صاحب نے ہماری ''تصحیح'' کی اور کہا کہ صحیح تلفظ ''ن'' پر فتح کے ساتھ نَبھتی ہے۔ اسماعیل ریحان جو کئی تاریخی کتابوں کے مصنف ہیں، نے کافی حیرت کا اظہار کیا۔
ایک اور صاحب نے (جو اکثر فخریہ کہتے ہیں کہ اردو تو ہمارے گھر کی لونڈی ہے) ہمیں تب تذبذب میں ڈال دیا جب انھوں نے ہمارے ''تذبذب'' کا تلفظ درست کرنے کی اپنی سی کوشش کی، اور کہا صحیح تلفظ ''تَذْ بَذُبْ'' ہے۔ ہم چونکہ ان کی دانشوری کے کافی قائل تھے، سو بلا حیل و حجت مان گئے، اور آیندہ اس لفظ کو اسی تلفظ کے ساتھ ادا کرنے لگے، تا آنکہ ایک دوسرے اردو دانی کے دعوے دار نے ہمارا تلفظ ایک زوردار ڈانٹ کے ساتھ دوبارہ سے وہی کر دیا، جو ہم پہلے سے ادا کیا کرتے تھے۔
ایسا پھر کئی بار ہوا، کبھی کوئی صاحب بڑے مدبرانہ انداز میں ہمارے کہے گئے کسی لفظ کے تلفظ کی تصحیح کرتے، ہم خوشی کا اظہار کرتے اور بسر و چشم قبول کر لیتے مگر کچھ ہی دنوں میں کوئی اور صاحب اس میں غلطی نکال دیتے اور کوئی اور تلفظ بتا دیتے... اس تصحیح در تصحیح کے عمل سے ہمیں یہ تو فائدہ ہوا کہ لفظوں سے تھوڑی بہت آشنائی کی ہمیں جو خوش فہمی تھی، وہ کم از کم تلفظ کے معاملے میں مشکوک ہو گئی، لیکن دوسری طرف ہم بری طرح ''پک'' بھی گئے۔ اب ہم نے سوچ لیا ہے کہ تصحیح کرنے والے سے پوچھیں گے کہ آپ کی اس تصحیح کی آخر دلیل کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ کوئی لغت دیکھنے کو کہے تو ہم پوچھیں گے کہ کون سی لغت معتبر ہے؟ کیوں کہ ہم لغت سے بھی استفادہ کر کے دیکھ چکے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ بیسیوں الفاظ ایسے ہیں، جن کا تلفظ اردو کی مختلف لغات میں مختلف ہے۔
دراصل آج کے ابلاغ کے دور میں زبان و بیان کی درستگی کا معاملہ شاید ثانوی درجہ اختیار کر گیا ہے۔ کسی زمانے میں ریڈیو اور ٹی وی پر زبان کی درستگی کے لیے بڑا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اردو کے ٹیچر باقاعدہ تنخواہ پر رکھے جاتے تھے جو نیوز کاسٹرز اور اداکاروں کونہ صرف اردو سکھاتے بلکہ ان کا لہجہ تک درست کروایا کرتے تھے۔ پاکستان میں تو یہ اہتمام ہوتا ہی تھا، پڑوسی ملک ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بھی اداکار اور اداکارائیں اسٹار بننے سے پہلے اردو باقاعدہ سیکھا کرتے تھے لیکن اب حال یہ ہے کہ پاکستان جس کی قومی زبان اردو ہے، یہاں اردو کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے کہ پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ٹی وی پر چوبیس گھنٹے چلنے والی نشریات اور ان کو عوام تک پہنچانے والے اکثر نیوز کاسٹر، اینکر اور میزبان غلط زبان بول رہے ہیں اور یوں لمحوں میں لاکھوں لوگوں کی زبان براہِ راست خراب کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
ہمارے ہاں مجموعی طور پر سہل انگاری کا جو رویہ ہے، غالباً اس کا سب سے زیادہ اظہار زبان کے معاملے میں ہی نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ اس ضمن میں کہتے ہیں کہ جناب اصل باطن ہوتا ہے، مفہوم اگر بخوبی منتقل ہو رہا ہے تو ظاہر کو سنوارنے کی زیادہ فکر چھوڑئیے، جب بات سمجھ میں آ گئی تو بس ٹھیک ہے۔ یہ کتنی بھونڈی دلیل ہے۔ اسی حوالے سے غالباً مسعود حسن رضوی ادیب نے ایک مثال کسی جگہ بیان کی ہے کہ ''اللہ کے بہت سے نام ہیں، مثلاً رحیم، رحمٰن، جبار، قہار۔ اب اگر کسی کو اپنے رب سے اپنے گناہوں سے معافی مانگنی ہو تو کیا وہ یہ کہے گا کہ اے جبار، اے قہار، مجھ پر رحم فرما!... نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء رحمٰن اور غفار کے طفیل معافی مانگے گا۔
اس لیے مانا کہ زبان کا اصل کام خیالات کی ترسیل ہے، جس طرح لباس کا اصل کام ستر چھپانا ہے مگر ان باطنیوں سے کوئی پوچھے کہ پھر صاف ستھرے خوشنما لباس کے لیے اتنے جتن کیوں کرتے ہیں اور اسی طرح خوراک کا اصل کام گو بھوک مٹانا ہے، مگر جب روٹی کچی رہ جائے یا سالن جل جائے تو یہ نہیں کہا جاتا کہ جناب پیٹ ہی تو بھرنا ہے، بس ٹھیک ہے۔ بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کھانا نہ صرف صحت بخش اور مزے دار ہو بلکہ خوش رنگ، خوشبودار اور نہایت سلیقے سے پیش کیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نفاست و لطافت، خوش رنگی و سجاوٹ پر پوری دنیا میں خاصا وقت اور پیسہ صَرف کیا جاتا ہے، کیوں کہ انھی لوازمات سے نہ صرف کھانے والے کی اشتہا بڑھتی ہے بلکہ لذتِ دہن کے ساتھ دیگر حواس بھی لطف اندوز ہوتے ہیں ... تو کیا ہمارے خیالات کی اہمیت کھانے جتنی بھی نہیں کہ ہم انھیں درست طریقے سے، سلیقے سے پیش کر سکیں محض شکم سیری کی طرح فقط بات سمجھ میں آ جانے پر اطمینان کا اظہار نہ کریں۔
بے شک لکھنا بھی ایک ہنر ہے مگر فی زمانہ درست زبان لکھنا آسان ہے، بولنا بہت مشکل۔ خوبصورت الفاظ کی حسین بُنت سے آپ اپنا مدعا بیان کر کے قاری کو اپنے سحر میں جکڑ سکتے ہیں کہ کیسا زبان و بیان پر عبور رکھنے والا رائٹر ہے لیکن اسی مضمون کو بیان کرنے کا کبھی موقع آ جائے تو ساری زبان دانی کا پول کھل جاتا ہے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ اب ہم خاص طور پر انتظار حسین اور رئیس فاطمہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں، کوئی ایسی لغت یا کوئی اور مستند کتاب ہمیں بتائیں جس میں اردو کے تمام الفاظ کے تلفظ درست ہوں اور جس کا حوالہ ہر ایک کے لیے معتبر ہو۔ تب تک ہم نے سوچا ہے کہ ان تصحیح کرنے والوں سے اپنی جان چھڑانے کے لیے اس شعر سے کام چلائیں گے ؎
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے