خالق ِ کائنات
مومنوں کو اﷲ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے
ISLAMABAD:
قرآنکریم فرقان مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔'' یہ سورۂ فاتحہ کی آیت ہے جس میں اﷲ رب العزت کے حضور اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف ایک اور واحد رب کی ذات ہے ۔ اہل ایمان اسی کے حضور سر جھکاتے ہیں، اسی کو اپنا ملجا اور ماویٰ سمجھتے ہیں اور ہر مشکل اور پریشانی میں اسی سے مدد مانگتے ہیں، یہاں تک کہ اگر حالات اچھے ہوں، امن و امان ہو اور مشکل و پریشانی کا ماحول نہ ہو تب بھی صرف اسی سے دل کا حال کہتے ہیں اور اسی سے آگے کی خیر اور بھلائی طلب کرتے ہیں۔ تمام اہل ایمان کو یہ معلوم ہے اور ہونا چاہیے کہ ہم صرف ایک اﷲ کی عبادت کرتے ہیں جس کا نہ کوئی شریک ہے، نہ رشتے دار یا خاندان اور نہ ہی اس کے اولاد (بچے) وغیرہ ہیں۔ اور ہمیں ہمیشہ اسی سے مدد طلب کرنی چاہیے، اسی سے مانگنا چاہیے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کے اکثر مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ ان کا رویہ اور سلوک اس بنیادی تعلیم کے خلاف ہوتا ہے۔ عام طور سے لوگ گمراہی اور شرک کی طرف چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک اﷲ سے مدد مانگنے کے بجائے نجومیوں، جیوتشیوں اور پیش گوئیاں کرنے والوں کے پاس جاکر ان سے اپنی قسمت کا حال پوچھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے جنہیں اپنے مستقبل کا کوئی علم نہیں ہوتا، یہ پوچھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا، ہمارے پاس کتنی دولت ہوگی، ہمارے کتنے محل ہوں گے اور ہماری زندگی کیسی گزرے گی۔
پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ ایسی خرافات میں پڑجاتے ہیں کہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسے ایسے کام کرتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی نجومی یا جیوتشی کسی کو اس کی قسمت کا حال نہیں بتاسکتا اور نہ ہی اس کے آنے والے وقت کے بارے میں کچھ جان سکتا ہے۔ یہ نجومی اور پیش گوئیاں کرنے والے ہماری طرح عام انسان ہوتے ہیں۔ یہ ہماری طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ہم جیسے انسانوں کی طرح ان کی بھی شادیاں ہوتی ہیں، یہ بھی صاحب اولاد ہوتے ہیں اور ہماری طرح ہی یہ لوگ بھی مرجاتے ہیں۔ ان میں اور ہم میں کسی بھی طرح کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔
بے شک! ہر ذی روح کو اﷲ رب العزت نے ہی پیدا فرمایا ہے۔ تمام مخلوقات اسی کے حکم سے وجود میں آئی ہیں اور وہ جب چاہے گا، انہیں فنا کردے گا یا اپنے دنیا سے واپس بھیج دے گا۔ وہ بڑے اختیارات کا مالک ہے اور سب کچھ کرنے پر قادر ہے، اس لیے کہ وہ مالک کل ہے۔ سب کچھ اسی کا ہے۔ اسی کے حکم سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور اسی کے حکم سے یہ دنیا تخلیق ہوئی ہے، اس پر انسان کو آباد کیا گیا ہے اور اسی کے حکم سے یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی، کیوں کہ وہ ہر چیز کا خالق، مالک اور آقا ہے۔
اسلامی ہدایات اور رسول کریم ﷺ کی دی ہوئی تعلیمات پوری کائنات کے لیے نعمت عظیم بھی ہیں اور دنیا اور آخرت میں آسان کام یابی حاصل کرنے کا ایک عمدہ اور پرنور ذریعہ بھی۔ یہ تمام اسلامی ہدایات اور تعلیمات نبویؐ قیامت تک کے لیے زندگی گزارنے کا ایک عظیم ضابطہ ہیں اور ان میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ جو بھی ایمان لایا اور اسے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کی سعادت و توفیق حاصل ہوئی، وہ اس بات کو اچھی طرح جان لے اور سمجھ لے کہ اب اس کا سب کچھ اﷲ ہی ہے۔ اﷲ رب العزت کی پناہ میں آنے اور اس ذات واحد پر ایمان لانے کے بعد کسی اور طرف جانے یا کسی اور سے مدد حاصل کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔ ایمان والوں کو ہمیشہ اﷲ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے اور اسی کی نظر کرم کی دعا کرنی چاہیے۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور اگر اﷲ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟ پس مومنوں کو اﷲ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔''
(سورۂ آل عمران آیت160)
مذکورہ بالا آیت میں کس قدر کھل کر اور واضح انداز سے بتادیا گیا ہے کہ تمہارے لیے اﷲ رب العزت کی مدد کی کتنی اہمیت ہے اور یہ حاصل ہونے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ بالکل صریح انداز سے کہا جارہا ہے کہ ''اور اگر اﷲ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا'' یعنی ساری مدد اسی کی ہے، کس کی مجال ہے کہ اﷲ کی مدد کے ہوتے ہوئے کوئی دشمن اہل ایمان پر غالب آسکے؟ جب رب العالمین کی مدد شامل ہوگئی تو سمجھ لو کہ سب کچھ مل گیا، اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا ہے؟ آج کل یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ بعض لوگ یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ اﷲ سب سے بڑا کارساز ہے، ادھر ادھر بھاگتے ہیں اور نہ جانے کون کون سے ہتھکنڈے استعمال کرکے اپنی دنیاوی خواہشات کے حصول کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور اہل علم حضرات بھی یہ جانتے ہیں کہ اگر ان کے ساتھ اﷲ ہے تو پھر انہیں کسی سے ڈرنے یا خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مگر وہ پھر بھی دوسرے در تلاش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی ہر من چاہی چیز فوری طور پر مل جائے۔ ان میں سے صبر اور شکر کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اگر یہ چیز ان میں ہے تو بہت کم رہ گئی ہے۔ بہرحال وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرکے اپنی آرزو پوری کرلیں، چاہے اس کے لیے انہیں وہ راستہ کیوں نہ اختیار کرنا پڑے جس پر رب کائنات نے چلنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ یہ نادانی کا طریقہ ہے اور بڑے خسارے کی بات ہے۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے حکم کے مطابق صرف اﷲ پر بھروسا کریں اور یقین رکھیں کہ اگر اﷲ ان کے ساتھ ہے تو پھر انہیں کوئی نہ نقصان پہنچاسکتا ہے اور نہ شکست دے سکتا ہے۔
اسی آیت مبارکہ میں آگے چل کر مزید ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ ''اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟ پس مومنوں کو اﷲ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔''
ہمارے بزرگ اور دوست اس ہدایت ربانی پر ذرا غور فرمائیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس میں ایک طرح کی وارننگ اور تنبیہہ ہے۔ اہل عقل و خرد سے کہا جارہا ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ ہی تمہارا ساتھ چھوڑدے تو تم کیا کروگے؟ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر کام یابی ان کی ذاتی محنت اور لگن کی مرہون منت ہے۔ اس ضمن میں ان کے ذہن میں یہ بات نہیں سماتی کہ یہ اﷲ کی عطا اور اس کا فضل و کرم ہے۔
وہ چاہے تو مہربان ہوجائے اور چاہے تو نامہربان! اس کے حکم کے خلاف کون سرتابی کرسکتا ہے؟ کس میں اتنی ہمت ہے کہ اس کے سامنے دم مارسکے۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اسے کسی سے پوچھنے یا اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو اس کا کرم اور فضل ہے کہ جو ہم نہ صرف دنیا میں زندہ ہیں بلکہ اس کی دی ہوئی طرح طرح کی نعمتوں سے مستفید ہورہے ہیں۔ وہ چاہے تو یہ تمام نعمتیں ان سے چھین سکتا ہے۔ ان پر بھوک اور خوف مسلط کرسکتا ہے۔ اور کوئی بھی اس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ ہمارے نادان دوست پروردگار عالم کے سامنے اس وقت خوب شکوے اور شکایات کرتے ہیں جب ان کی سہولیات اور آسانیوں میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور جب وہ عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں تو انہیں سجدۂ شکر ادا کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ یہ تو سراسر ناشکری اور احسان ناشناسی ہے۔
جب آرام اور سہولت حاصل ہوتی ہے تو اس موقع پر یہ نادان لوگ دعوے کرتے ہیں کہ یہ سب ان کے دست و بازو کی دین ہے۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور ذہانتوں سے یہ سب حاصل کیا ہے۔ اس وقت یہ لوگ اس حقیقت کو بالکل فراموش کردیتے ہیں کہ یہ خصوصی ذہانت اور یہ بے مثال صلاحیت انہیں کس نے عطا کی ہے؟ ظاہر ہے یہ بھی تو خالق کائنات کی ہی دین ہے۔ اگر وہ انہیں ان نعمتوں سے سرفراز نہ فرماتا تو وہ زندگی میں جدوجہد کے قابل ہی نہ ہوتے اور محرومیاں ان کا مقدر ہوتیں۔
بہرحال اسی لیے اہل فکر و نظر سے یہ کہا جارہا ہے کہ ہر حال میں اور ہر صورت میں اﷲ کی رضا اور اس کے احکام پر نظر رکھیں اور کسی بھی صورت اﷲ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹنے کی کوشش نہ کریں۔ ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ ''اور اگر وہ (اﷲ) تمہارا ساتھ چھوڑدے تو ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟ پس مومنوں کو اﷲ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔'' تمام بات کی وضاحت کرنے کے بعد یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ اہل ایمان کو صرف اﷲ پر ہی بھروسا کرنا چاہیے اور اسی سے نجات کی امید رکھنی چاہیے۔
اﷲ ہمارا خالق، مالک اور آقا ہے۔ اس کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اسی نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا اور اسی کے حکم سے اس کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ وہ اس کا مالک ہے۔ تمام دنیا اور آسمانوں پر اسی کی حکومت ہے۔ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے اور نہ کسی کی یہ مجال ہے کہ وہ اس میں دخل دے سکے۔
قرآن کریم میں بار بار رب العالمین کی بادشاہی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:
''آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود چیزوں کی سلطنت اﷲ ہی کی ہے اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔'' (سورۃ المائدہ آیت120)
اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ چاہے وہ آسمان ہوں یا زمین، یا ان میں پائے جانے والی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی بات ہو، ان سب کا مالک اﷲ تعالیٰ ہی ہے، کیوں کہ یہ اسی کی سلطنت ہے۔ وہ اس سلطنت میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وہ چاہے تو کسی بھی صورت کو کسی اور صورت میں بدل دے، چاہے تو کسی چیز کو مٹادے اور چاہے تو کسی نئی چیز کو پیدا کردے۔ تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں اور اس کی حکومت میں کسی کو کسی بھی طرح کا کوئی دخل نہیں ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور بے نیاز اور عظیم ہستی ہے۔ دنیا کے سبھی انسان اور جان دار اس کے محتاج اور اس کی دست نگر ہیں، اس لیے ہر چیز اسی سے مانگی جائے چاہے وہ رزق ہو یا ہدایت، سب وہی دینے والا ہے۔ وہ تمام خزانوں کا مالک ہے، ایسے خزانے جن کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی حساب۔ ان خزانوں میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس کی حکمرانی بھی اتنی مضبوط ہے کہ کسی کی مخالفت سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چاہے پوری کائنات مل کر اس کی مخالفت کرے یا ساری دنیا مل کر اس کی حمایت کرے، وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔
قرآنکریم فرقان مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔'' یہ سورۂ فاتحہ کی آیت ہے جس میں اﷲ رب العزت کے حضور اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف ایک اور واحد رب کی ذات ہے ۔ اہل ایمان اسی کے حضور سر جھکاتے ہیں، اسی کو اپنا ملجا اور ماویٰ سمجھتے ہیں اور ہر مشکل اور پریشانی میں اسی سے مدد مانگتے ہیں، یہاں تک کہ اگر حالات اچھے ہوں، امن و امان ہو اور مشکل و پریشانی کا ماحول نہ ہو تب بھی صرف اسی سے دل کا حال کہتے ہیں اور اسی سے آگے کی خیر اور بھلائی طلب کرتے ہیں۔ تمام اہل ایمان کو یہ معلوم ہے اور ہونا چاہیے کہ ہم صرف ایک اﷲ کی عبادت کرتے ہیں جس کا نہ کوئی شریک ہے، نہ رشتے دار یا خاندان اور نہ ہی اس کے اولاد (بچے) وغیرہ ہیں۔ اور ہمیں ہمیشہ اسی سے مدد طلب کرنی چاہیے، اسی سے مانگنا چاہیے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کے اکثر مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ ان کا رویہ اور سلوک اس بنیادی تعلیم کے خلاف ہوتا ہے۔ عام طور سے لوگ گمراہی اور شرک کی طرف چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک اﷲ سے مدد مانگنے کے بجائے نجومیوں، جیوتشیوں اور پیش گوئیاں کرنے والوں کے پاس جاکر ان سے اپنی قسمت کا حال پوچھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے جنہیں اپنے مستقبل کا کوئی علم نہیں ہوتا، یہ پوچھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا، ہمارے پاس کتنی دولت ہوگی، ہمارے کتنے محل ہوں گے اور ہماری زندگی کیسی گزرے گی۔
پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ ایسی خرافات میں پڑجاتے ہیں کہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسے ایسے کام کرتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی نجومی یا جیوتشی کسی کو اس کی قسمت کا حال نہیں بتاسکتا اور نہ ہی اس کے آنے والے وقت کے بارے میں کچھ جان سکتا ہے۔ یہ نجومی اور پیش گوئیاں کرنے والے ہماری طرح عام انسان ہوتے ہیں۔ یہ ہماری طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ہم جیسے انسانوں کی طرح ان کی بھی شادیاں ہوتی ہیں، یہ بھی صاحب اولاد ہوتے ہیں اور ہماری طرح ہی یہ لوگ بھی مرجاتے ہیں۔ ان میں اور ہم میں کسی بھی طرح کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔
بے شک! ہر ذی روح کو اﷲ رب العزت نے ہی پیدا فرمایا ہے۔ تمام مخلوقات اسی کے حکم سے وجود میں آئی ہیں اور وہ جب چاہے گا، انہیں فنا کردے گا یا اپنے دنیا سے واپس بھیج دے گا۔ وہ بڑے اختیارات کا مالک ہے اور سب کچھ کرنے پر قادر ہے، اس لیے کہ وہ مالک کل ہے۔ سب کچھ اسی کا ہے۔ اسی کے حکم سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور اسی کے حکم سے یہ دنیا تخلیق ہوئی ہے، اس پر انسان کو آباد کیا گیا ہے اور اسی کے حکم سے یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی، کیوں کہ وہ ہر چیز کا خالق، مالک اور آقا ہے۔
اسلامی ہدایات اور رسول کریم ﷺ کی دی ہوئی تعلیمات پوری کائنات کے لیے نعمت عظیم بھی ہیں اور دنیا اور آخرت میں آسان کام یابی حاصل کرنے کا ایک عمدہ اور پرنور ذریعہ بھی۔ یہ تمام اسلامی ہدایات اور تعلیمات نبویؐ قیامت تک کے لیے زندگی گزارنے کا ایک عظیم ضابطہ ہیں اور ان میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ جو بھی ایمان لایا اور اسے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کی سعادت و توفیق حاصل ہوئی، وہ اس بات کو اچھی طرح جان لے اور سمجھ لے کہ اب اس کا سب کچھ اﷲ ہی ہے۔ اﷲ رب العزت کی پناہ میں آنے اور اس ذات واحد پر ایمان لانے کے بعد کسی اور طرف جانے یا کسی اور سے مدد حاصل کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔ ایمان والوں کو ہمیشہ اﷲ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے اور اسی کی نظر کرم کی دعا کرنی چاہیے۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور اگر اﷲ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟ پس مومنوں کو اﷲ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔''
(سورۂ آل عمران آیت160)
مذکورہ بالا آیت میں کس قدر کھل کر اور واضح انداز سے بتادیا گیا ہے کہ تمہارے لیے اﷲ رب العزت کی مدد کی کتنی اہمیت ہے اور یہ حاصل ہونے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ بالکل صریح انداز سے کہا جارہا ہے کہ ''اور اگر اﷲ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا'' یعنی ساری مدد اسی کی ہے، کس کی مجال ہے کہ اﷲ کی مدد کے ہوتے ہوئے کوئی دشمن اہل ایمان پر غالب آسکے؟ جب رب العالمین کی مدد شامل ہوگئی تو سمجھ لو کہ سب کچھ مل گیا، اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا ہے؟ آج کل یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ بعض لوگ یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ اﷲ سب سے بڑا کارساز ہے، ادھر ادھر بھاگتے ہیں اور نہ جانے کون کون سے ہتھکنڈے استعمال کرکے اپنی دنیاوی خواہشات کے حصول کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور اہل علم حضرات بھی یہ جانتے ہیں کہ اگر ان کے ساتھ اﷲ ہے تو پھر انہیں کسی سے ڈرنے یا خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مگر وہ پھر بھی دوسرے در تلاش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی ہر من چاہی چیز فوری طور پر مل جائے۔ ان میں سے صبر اور شکر کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اگر یہ چیز ان میں ہے تو بہت کم رہ گئی ہے۔ بہرحال وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرکے اپنی آرزو پوری کرلیں، چاہے اس کے لیے انہیں وہ راستہ کیوں نہ اختیار کرنا پڑے جس پر رب کائنات نے چلنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ یہ نادانی کا طریقہ ہے اور بڑے خسارے کی بات ہے۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے حکم کے مطابق صرف اﷲ پر بھروسا کریں اور یقین رکھیں کہ اگر اﷲ ان کے ساتھ ہے تو پھر انہیں کوئی نہ نقصان پہنچاسکتا ہے اور نہ شکست دے سکتا ہے۔
اسی آیت مبارکہ میں آگے چل کر مزید ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ ''اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟ پس مومنوں کو اﷲ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔''
ہمارے بزرگ اور دوست اس ہدایت ربانی پر ذرا غور فرمائیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس میں ایک طرح کی وارننگ اور تنبیہہ ہے۔ اہل عقل و خرد سے کہا جارہا ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ ہی تمہارا ساتھ چھوڑدے تو تم کیا کروگے؟ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر کام یابی ان کی ذاتی محنت اور لگن کی مرہون منت ہے۔ اس ضمن میں ان کے ذہن میں یہ بات نہیں سماتی کہ یہ اﷲ کی عطا اور اس کا فضل و کرم ہے۔
وہ چاہے تو مہربان ہوجائے اور چاہے تو نامہربان! اس کے حکم کے خلاف کون سرتابی کرسکتا ہے؟ کس میں اتنی ہمت ہے کہ اس کے سامنے دم مارسکے۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اسے کسی سے پوچھنے یا اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو اس کا کرم اور فضل ہے کہ جو ہم نہ صرف دنیا میں زندہ ہیں بلکہ اس کی دی ہوئی طرح طرح کی نعمتوں سے مستفید ہورہے ہیں۔ وہ چاہے تو یہ تمام نعمتیں ان سے چھین سکتا ہے۔ ان پر بھوک اور خوف مسلط کرسکتا ہے۔ اور کوئی بھی اس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ ہمارے نادان دوست پروردگار عالم کے سامنے اس وقت خوب شکوے اور شکایات کرتے ہیں جب ان کی سہولیات اور آسانیوں میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور جب وہ عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں تو انہیں سجدۂ شکر ادا کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ یہ تو سراسر ناشکری اور احسان ناشناسی ہے۔
جب آرام اور سہولت حاصل ہوتی ہے تو اس موقع پر یہ نادان لوگ دعوے کرتے ہیں کہ یہ سب ان کے دست و بازو کی دین ہے۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور ذہانتوں سے یہ سب حاصل کیا ہے۔ اس وقت یہ لوگ اس حقیقت کو بالکل فراموش کردیتے ہیں کہ یہ خصوصی ذہانت اور یہ بے مثال صلاحیت انہیں کس نے عطا کی ہے؟ ظاہر ہے یہ بھی تو خالق کائنات کی ہی دین ہے۔ اگر وہ انہیں ان نعمتوں سے سرفراز نہ فرماتا تو وہ زندگی میں جدوجہد کے قابل ہی نہ ہوتے اور محرومیاں ان کا مقدر ہوتیں۔
بہرحال اسی لیے اہل فکر و نظر سے یہ کہا جارہا ہے کہ ہر حال میں اور ہر صورت میں اﷲ کی رضا اور اس کے احکام پر نظر رکھیں اور کسی بھی صورت اﷲ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹنے کی کوشش نہ کریں۔ ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ ''اور اگر وہ (اﷲ) تمہارا ساتھ چھوڑدے تو ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟ پس مومنوں کو اﷲ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔'' تمام بات کی وضاحت کرنے کے بعد یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ اہل ایمان کو صرف اﷲ پر ہی بھروسا کرنا چاہیے اور اسی سے نجات کی امید رکھنی چاہیے۔
اﷲ ہمارا خالق، مالک اور آقا ہے۔ اس کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اسی نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا اور اسی کے حکم سے اس کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ وہ اس کا مالک ہے۔ تمام دنیا اور آسمانوں پر اسی کی حکومت ہے۔ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے اور نہ کسی کی یہ مجال ہے کہ وہ اس میں دخل دے سکے۔
قرآن کریم میں بار بار رب العالمین کی بادشاہی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:
''آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود چیزوں کی سلطنت اﷲ ہی کی ہے اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔'' (سورۃ المائدہ آیت120)
اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ چاہے وہ آسمان ہوں یا زمین، یا ان میں پائے جانے والی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی بات ہو، ان سب کا مالک اﷲ تعالیٰ ہی ہے، کیوں کہ یہ اسی کی سلطنت ہے۔ وہ اس سلطنت میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وہ چاہے تو کسی بھی صورت کو کسی اور صورت میں بدل دے، چاہے تو کسی چیز کو مٹادے اور چاہے تو کسی نئی چیز کو پیدا کردے۔ تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں اور اس کی حکومت میں کسی کو کسی بھی طرح کا کوئی دخل نہیں ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور بے نیاز اور عظیم ہستی ہے۔ دنیا کے سبھی انسان اور جان دار اس کے محتاج اور اس کی دست نگر ہیں، اس لیے ہر چیز اسی سے مانگی جائے چاہے وہ رزق ہو یا ہدایت، سب وہی دینے والا ہے۔ وہ تمام خزانوں کا مالک ہے، ایسے خزانے جن کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی حساب۔ ان خزانوں میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس کی حکمرانی بھی اتنی مضبوط ہے کہ کسی کی مخالفت سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چاہے پوری کائنات مل کر اس کی مخالفت کرے یا ساری دنیا مل کر اس کی حمایت کرے، وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔