سیاسی جوڑ توڑ میں صحافیوں کا کردار

حکومت کی ’بیڈ گورننس‘ چھپانے اور سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کے حوالے سے صحافیوں کا کردار انتہائی افسوسناک ہے


کامران سرور February 06, 2019
بدقسمتی سے میڈیا نے کبھی اصل مسائل کی نشاندہی نہیں کی۔

طاقت ایک ایسا نشہ ہے جو کسی کو لگ جائے تو کبھی نہیں چھوٹتا اور اگر تھوڑی دیر کے لیے وہ انسان سے دور بھی ہوجائے تو وہ ہمہ وقت اس کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ یہی حال سیاست میں کرسی کی طاقت کا ہے جو کسی کو ایک بار مل جائے تو وہ ہمیشہ اس کی جستجو میں رہتا ہے۔ لیکن سیاست کے اس دنگل میں صحافت کے کردار پر اکثر سوال اٹھتے رہے ہیں اور حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری کے بیان نے اس بحث کو پھر سے تازہ کردیا ہے۔

سیاست بھی عجب کھیل ہے جہاں مفادات پل پل میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک طاقت ور حلقوں کی جانب سے نوازشریف کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو انتخابات سے لے کر وزیراعظم بننے تک آصف زرداری نے اپوزیشن کا ساتھ نہ دے کر پی ٹی آئی حکومت کی حمایت کی، لیکن جیسے ہی احتساب کے نام پر پیپلزپارٹی کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا تو خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہنے والی پارٹی کے بیانات اور ارادوں میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دور حکومت میں دھرنے کے دوران پیپلزپارٹی نے جمہوریت کو بچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا لیکن پارٹی قیادت کے حالیہ بیانات نے ان کے اقتدار کے حصول کے اصل مقاصد کو ظاہر کردیا۔ پہلے بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے یہ کہنا ''اگر آصف زرداری اجازت دیں تو ایک ہفتے میں عمران خان کی حکومت گراسکتے ہیں'' اور اب خود سابق صدر کا یہ کہنا ''میڈیا اگر ساتھ دے تو حکومت گراسکتے ہیں''، اس بات کی نشاندہی ہے کہ طاقتور حلقوں کی حالیہ پالیسیوں سے پیپلزپارٹی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا ہے۔

ویسے تو میڈیا کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن زرداری صاحب کی جانب سے ایسے کھلے عام بیان دینے کا مطلب سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ حکومتیں بنانے اور گرانے کا کام کب سے صحافیوں کے حصے میں آگیا۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا حکومتوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں ضرور پیش پیش رہا ہے لیکن حکومتیں گرانے کا کام تو میری ناقص معلومات کے مطابق ملک کے طاقتور حلقوں کا ہے جنہیں آصف زرداری صاحب بخوبی جانتے ہیں۔ ہاں! وہ بات الگ کہ ''اینٹ سے اینٹ بجانے والے'' بیان کے بعد سے نوازشریف کے طرح زرداری صاحب کی بھی ان حلقوں میں زیادہ سنوائی نہیں ہورہی اس لیے شاید انہیں ایسا بیان دینا پڑا۔ لیکن بدقسمتی سے زرداری صاحب جن صحافیوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنی آواز مقتدر قوتوں تک پہنچانا چاہتے ہیں، وہ تو خود دوسروں کے محتاج رہے ہیں اور جو بے پناہ صحافتی تنظیمیں ہونے کے باوجود اپنا معاشی قتل عام تک نہیں رکواسکے اور نہ ہی وہ تاریخ کے بدترین صحافتی دور میں اپنے حق میں آواز اٹھانے کی ہمت رکھتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ چند میڈیا گروپس اور صحافیوں نے اس پیشے کو بدنام ضرور کیا جس کی جھلک ہمیں جنرل ضیاء کے دور میں دکھائی دی۔ بعد ازاں صحافیوں نے آئی جے آئی کے قیام اور نوازشریف کو اقتدار میں لانے کےلیے ان کا ساتھ دے کر بھی اپنے پیشے کو داغدار کیا۔ اس کے بعد سے ہی 'لفافہ صحافت' کی اصطلاح عام ہوئی اور بدقسمتی سے چند صحافیوں کو چھوڑ کر اکثریت سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن چکے ہیں جس کی وجہ سے غیر جانبدارانہ صحافت بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود چند ایسے صحافی بھی ہیں جو آج کے دور میں بھی غیرجانبدار رہ کر اس پیشے سے اپنی وفاداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔

جناب آصف زرداری صاحب نے حکومت گرانے کی جو بات کی، یہی کچھ ہمیں پیپلزپارٹی کے خلاف ان کے دور حکومت میں بھی دکھائی دیا جب 'آزاد عدلیہ کے نام پر مہم' کے دوران ایک چینل نے آصف زرداری کی کردار کشی اور میاں صاحب کی سپورٹ میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس کے بعد سے ہی ہمیں میڈیا چینلز صحافت کا پرچار کرتے کم اور سیاسی ایجنڈے پر زیادہ دکھائی دیے جس کی جھلک نہ صرف نوازشریف کے دور حکومت میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران دکھائی دی بلکہ حالیہ انتخابات میں بھی صحافت میں سیاست کی جھلک دکھائی دی؛ جب مختلف میڈیا گروپس نوازشریف اور عمران خان کی ترجمانی کرتے نظر آئے۔

نوازشریف نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے دور حکومت میں 'لفافہ صحافت' کو پروان چڑھانے اور اپنی بیڈ گورننس کو چھپانے کےلیے صحافیوں کو سرکاری خرچے پر نہ صرف بیرون ملک سیرسپاٹے کروائے بلکہ انہیں پلاٹوں سے بھی نوازا گیا۔ یہی نہیں بلکہ صحافیوں کو میرٹ کے برخلاف ایم ڈی پی ٹی وی سمیت مختلف مناصب پر بھی بٹھایا گیا اور چند بے شرم صحافیوں نے تو حج جیسے مقدس فریضے بھی سرکاری خرچ سے ہی ادا کیے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا نے کبھی بھی اپنا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے حکومتوں نے کبھی 'گڈ گورننس' پر توجہ نہیں دی۔ ریاست کا چوتھا ستون ہونے کے ناتے میڈیا کی اصل ذمہ داری وقت کے حکمرانوں کا احتساب کرنا ہوتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا نے عوام کےلیے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی صحافیوں کی جانب سے کبھی اصل مسائل کی نشاندہی کی گئی، بلکہ ہمیشہ سیاسی مسائل ہی کو اجاگر کیا گیا۔

میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کی ان تمام حرکات کے باوجود میں نہیں سمجھتا ان میں اتنی ہمت وجرأت ہے کہ وہ کسی بھی حکومت کا تختہ الٹ سکیں۔ البتہ مختلف ادوار میں مخصوص ایجنڈے کے تحت جمہوریت کی بساط لپیٹنے، حکومت کی 'بیڈ گورننس' کو چھپانے اور سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کے حوالے سے چند صحافیوں کا کردار انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں