بڑھتی ہوئی مایوسی
پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے اپنے پانچ سالوں میں ملک میں کرپشن، اقربا پروری، بد امنی، مہنگائی، بادشاہوں جیسے...
پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے اپنے پانچ سالوں میں ملک میں کرپشن، اقربا پروری، بد امنی، مہنگائی، بادشاہوں جیسے اخراجات کا جو ریکارڈ قائم کیا تھا اس کی وجہ سے حکومت سے بیزار ملک کے عوام شدت سے نئے انتخابات کا انتظار کر رہے تھے۔ جو آخر11 مئی کو منعقد ہوئے اور عوام نے پیپلز پارٹی کو ملکی اقتدار کے لیے ناموزوں قرار دیکر مسترد کر دیا اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سے اپنی امیدیں وابستہ کر لی تھیں اور نتائج آنے کے بعد ملک کے عوام کے فیصلے کے مطابق مسلم لیگ ن کو وفاق، پنجاب اور بلوچستان، سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کو حق حکمرانی مل گیا اور بلوچستان میں مسلم لیگ نے وزیر اعلیٰ اپنا نہیں بنایا اور گورنری تک نہیں لی تا کہ بلوچستان کی دو قوم پرست پارٹیاں اپنے صوبے کی حالت سنوار سکیں۔
ملک بھر کے عوام پیپلز پارٹی سے مایوس تھے اور ان کی توقعات مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے وابستہ تھیں۔ سندھ کی انتخابی صورت حال اس لیے حیران کن تھی کہ پیپلز پارٹی نے اپنی مرضی کی نگران حکومت کی مدد سے سندھ میں اکثریت حاصل کر لی تھی اور اندرون سندھ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑی تعداد میں حاصل کر لی تھی۔ یہ اکثریت ملنے پر خود پیپلز پارٹی بھی حیران تھی کیونکہ پی پی امید وار تو اپنے حلقوں میں منہ دکھانے جیسے بھی نہیں تھے اور عوام سے دور رہنے پر مجبور تھے مگر پھر بھی سندھ میں پی پی اکثریت لے گئی اور یہ کیسے ہوا۔
یہ تو اکثریت لینے والے ہی بہتر جان سکتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اندرون سندھ کے پی پی سے مایوس عوام نے اتنی بڑی تعداد میں پی پی کو ووٹ نہیں دیے تھے اور پی پی کی اس کامیابی پر اندرون سندھ والے حیران اور مایوس ہیں کیونکہ سندھ میں تبدیلی نہیں آئی سابق وفاقی حکومت سے عوام کی مایوسی کی اہم وجوہات میں بجلی اور گیس شامل تھی۔ وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات مہنگی کر کے نوٹ چھاپ چھاپ کر مہنگائی بڑھائی تھی اور مزید ستم لوڈ شیڈنگ سے کیا تھا جس سے بیروزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ قتل و غارت اور دہشت گردی سے نمٹنے میں مکمل ناکامی بھی پی پی کو لے ڈوبی۔ جس کی وجہ سے عوام حکومت سے بیزار تھے اور انھوں نے پی پی کو مسترد کر کے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا اور دونوں سے از حد توقعات وابستہ کر لیں۔
میاں نواز شریف سے عوام کو عمران خان کے مقابلے میں زیادہ توقعات تھیں۔ کیونکہ وہ دو بار وزیر اعظم رہے تھے اور انھوں نے عوام کو خواب بھی بہت دکھائے تھے اور (ن) لیگ کے کسی رہنماء نے نہیں کہا تھا کہ ن لیگ اقتدار میں آ کر5 سالوں میں لوڈ شیڈنگ پر قابو پائے گی۔ میاں نواز شریف نے جلد توانائی بحران پر قابو پانے، مہنگائی، غربت، بیروزگاری ختم کرنے کے وعدے کیے تھے جس کی وجہ سے قوم نے شریف برادران پر اعتماد کر کے تبدیلی کی امید پر انھیں اکثریت دلائی تھی۔ جو نئی حکومت کے قیام کے چالیس دنوں میں تو کہیں نظر نہیں آئی البتہ عوام نے یہ ضرور دیکھا کہ نئی حکومت کو مہنگائی بڑھانے اور پہلے سے پسے ہوئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کی اتنی جلدی تھی کہ اس نے 3 جون تک مالی سال ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا اور نئے وزیر خزانہ نے وزیر بننے کے تین چار روز ہی میں اپنے نئے بجٹ کے پیش ہوتے ہی 13جون سے مہنگائی میں اضافہ کر کے عوام کو نئی حکومت کا تحفہ دیا اور عوام کے خواب چکنا چور کر دیے۔
گردشی قرضہ سابق حکومت نے بڑھایا تھا عوام نے نہیں مگر نئی حکومت نے سزا بے گناہ عوام کو اقتدار میں آتے ہی دیدی اور پڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا۔ عوام نئے وزیر خزانہ کی جلد بازی پر ابھی حیران ہی تھے کہ رمضان سے قبل ہی ملک میں مہنگائی کا طوفان آ گیا ہے اور باقی کسر رمضان کی آمد نے پوری کر دی اور عوام اپنی نئی حکومت کا منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔
حکومت نے اپنے پہلے40 روز میں عوام کو جس طرح مایوس کیا ہے اسی وجہ سے ملک کو موجودہ حالت میں پہنچانے کی ذمے دار پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور موجودہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ یہ کہنے لگے ہیں کہ جو ہم نے سالوں میں نہیں کیا تھا وہ نئی حکومت نے دنوں میں کر دکھایا ہے اور لوگ ابھی سے پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کو یاد کرنے لگے ہیں۔ نئی حکومت نے آتے ہی مایوس عوام کو مہنگائی کا جو تحفہ دیا ہے اس پر تمام سیاسی جماعتیں تنقید کر رہی ہیں اور سید منور حسن اور شیخ رشید کو بھی نئی حکومت سال ڈیڑھ سال سے زیادہ چلتی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ درست ہے کہ نئی حکومت کو سارے مسائل ورثے میں ملے ہیں اور وہ عوام کو بھی سابق حکومت کی اس وراثت میں شامل کر رہی ہے اور اسی لیے اقتدار ملنے سے قبل قومی لباس میں نظر آنے والے وزیر خزانہ اور وزیر پانی و بجلی سوٹوں میں ملبوس ہو کر عوام کو مہنگائی کا بوجھ اور لوڈ شیڈنگ مزید برداشت کرنے کا مشورہ دینے والوں سے قطعی امید نہیں تھی کہ وہ وزیر بنکر اتنے بدل جائیں گے اور عوام کو نئی حکومت سے اتنی جلد مایوس و بددل کر دیں گے۔
میاں نواز شریف اور شہباز شریف موجودہ حالات میں اپنی اپنی کابینہ چھوٹی رکھ کر حکومتی اخراجات بچا سکتے تھے۔ عوام کو کم بجلی استعمال کرانے والے وزیر اپنے وزیر اعظم کو سرکاری دفاتر میں اے سی بند کرانے کی تجویز دے سکتے تھے۔ چاروں صوبائی حکومتیں بھی اس پر عمل کرتیں اور کاروباری مراکز جلد کھولنے اور رات کو جلد بند کرنے، چراغاں پر پابندی کے احکامات پر عمل کرا سکتی تھیں مگر ایسا نہیں ہوا اب تک کسی صوبائی حکومت نے عوام کو کوئی اچھی مثال پیش نہیں کہ، امن و امان اور مہنگائی پر قابو پانا اب صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے مگر کسی صوبائی حکومت کو دہشت گردی تو کیا مہنگائی بڑھانے والے گراں فروشوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی، کراچی میں بھتہ کلچر بڑھ رہا ہے تو پنجاب میں پولیس راجن پور میں ''چھوٹو گینگ'' کو بھتہ دے رہی ہے، کے پی کے حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کی بجائے لوڈ شیڈنگ پر سیاست کرتی نظر آ رہی ہے اور بلوچستان حکومت محدود سے شہر کوئٹہ میں دہشت گردی نہیں روک پائی۔
مہنگائی عوام کا اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے جس کے حل کے لیے صوبائی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا اور خاموش ہیں اور صرف دکھاوے کے لیے گراں فروشوں پر جرمانے ہو رہے ہیں، انھیں گرفتار کر کے دوسروں کے لیے عبرت نہیں بنایا جا رہا اور عوام مایوس ہو کر حکومتوں کی بے بسی اور گراں فروشوں کی من مانی دیکھ کر کڑھ رہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت اہم اعلان کرے اور جو ورثے اسے پچھلی حکومت سے ملے ہیں وہ اس کا ڈھنڈھورا نہ پیٹے بلکہ ٹھوس اقدامات کر کے ملک میں امن، انصاف اور ترقی کو یقینی بنائے۔
ملک بھر کے عوام پیپلز پارٹی سے مایوس تھے اور ان کی توقعات مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے وابستہ تھیں۔ سندھ کی انتخابی صورت حال اس لیے حیران کن تھی کہ پیپلز پارٹی نے اپنی مرضی کی نگران حکومت کی مدد سے سندھ میں اکثریت حاصل کر لی تھی اور اندرون سندھ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑی تعداد میں حاصل کر لی تھی۔ یہ اکثریت ملنے پر خود پیپلز پارٹی بھی حیران تھی کیونکہ پی پی امید وار تو اپنے حلقوں میں منہ دکھانے جیسے بھی نہیں تھے اور عوام سے دور رہنے پر مجبور تھے مگر پھر بھی سندھ میں پی پی اکثریت لے گئی اور یہ کیسے ہوا۔
یہ تو اکثریت لینے والے ہی بہتر جان سکتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اندرون سندھ کے پی پی سے مایوس عوام نے اتنی بڑی تعداد میں پی پی کو ووٹ نہیں دیے تھے اور پی پی کی اس کامیابی پر اندرون سندھ والے حیران اور مایوس ہیں کیونکہ سندھ میں تبدیلی نہیں آئی سابق وفاقی حکومت سے عوام کی مایوسی کی اہم وجوہات میں بجلی اور گیس شامل تھی۔ وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات مہنگی کر کے نوٹ چھاپ چھاپ کر مہنگائی بڑھائی تھی اور مزید ستم لوڈ شیڈنگ سے کیا تھا جس سے بیروزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ قتل و غارت اور دہشت گردی سے نمٹنے میں مکمل ناکامی بھی پی پی کو لے ڈوبی۔ جس کی وجہ سے عوام حکومت سے بیزار تھے اور انھوں نے پی پی کو مسترد کر کے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا اور دونوں سے از حد توقعات وابستہ کر لیں۔
میاں نواز شریف سے عوام کو عمران خان کے مقابلے میں زیادہ توقعات تھیں۔ کیونکہ وہ دو بار وزیر اعظم رہے تھے اور انھوں نے عوام کو خواب بھی بہت دکھائے تھے اور (ن) لیگ کے کسی رہنماء نے نہیں کہا تھا کہ ن لیگ اقتدار میں آ کر5 سالوں میں لوڈ شیڈنگ پر قابو پائے گی۔ میاں نواز شریف نے جلد توانائی بحران پر قابو پانے، مہنگائی، غربت، بیروزگاری ختم کرنے کے وعدے کیے تھے جس کی وجہ سے قوم نے شریف برادران پر اعتماد کر کے تبدیلی کی امید پر انھیں اکثریت دلائی تھی۔ جو نئی حکومت کے قیام کے چالیس دنوں میں تو کہیں نظر نہیں آئی البتہ عوام نے یہ ضرور دیکھا کہ نئی حکومت کو مہنگائی بڑھانے اور پہلے سے پسے ہوئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کی اتنی جلدی تھی کہ اس نے 3 جون تک مالی سال ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا اور نئے وزیر خزانہ نے وزیر بننے کے تین چار روز ہی میں اپنے نئے بجٹ کے پیش ہوتے ہی 13جون سے مہنگائی میں اضافہ کر کے عوام کو نئی حکومت کا تحفہ دیا اور عوام کے خواب چکنا چور کر دیے۔
گردشی قرضہ سابق حکومت نے بڑھایا تھا عوام نے نہیں مگر نئی حکومت نے سزا بے گناہ عوام کو اقتدار میں آتے ہی دیدی اور پڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا۔ عوام نئے وزیر خزانہ کی جلد بازی پر ابھی حیران ہی تھے کہ رمضان سے قبل ہی ملک میں مہنگائی کا طوفان آ گیا ہے اور باقی کسر رمضان کی آمد نے پوری کر دی اور عوام اپنی نئی حکومت کا منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔
حکومت نے اپنے پہلے40 روز میں عوام کو جس طرح مایوس کیا ہے اسی وجہ سے ملک کو موجودہ حالت میں پہنچانے کی ذمے دار پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور موجودہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ یہ کہنے لگے ہیں کہ جو ہم نے سالوں میں نہیں کیا تھا وہ نئی حکومت نے دنوں میں کر دکھایا ہے اور لوگ ابھی سے پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کو یاد کرنے لگے ہیں۔ نئی حکومت نے آتے ہی مایوس عوام کو مہنگائی کا جو تحفہ دیا ہے اس پر تمام سیاسی جماعتیں تنقید کر رہی ہیں اور سید منور حسن اور شیخ رشید کو بھی نئی حکومت سال ڈیڑھ سال سے زیادہ چلتی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ درست ہے کہ نئی حکومت کو سارے مسائل ورثے میں ملے ہیں اور وہ عوام کو بھی سابق حکومت کی اس وراثت میں شامل کر رہی ہے اور اسی لیے اقتدار ملنے سے قبل قومی لباس میں نظر آنے والے وزیر خزانہ اور وزیر پانی و بجلی سوٹوں میں ملبوس ہو کر عوام کو مہنگائی کا بوجھ اور لوڈ شیڈنگ مزید برداشت کرنے کا مشورہ دینے والوں سے قطعی امید نہیں تھی کہ وہ وزیر بنکر اتنے بدل جائیں گے اور عوام کو نئی حکومت سے اتنی جلد مایوس و بددل کر دیں گے۔
میاں نواز شریف اور شہباز شریف موجودہ حالات میں اپنی اپنی کابینہ چھوٹی رکھ کر حکومتی اخراجات بچا سکتے تھے۔ عوام کو کم بجلی استعمال کرانے والے وزیر اپنے وزیر اعظم کو سرکاری دفاتر میں اے سی بند کرانے کی تجویز دے سکتے تھے۔ چاروں صوبائی حکومتیں بھی اس پر عمل کرتیں اور کاروباری مراکز جلد کھولنے اور رات کو جلد بند کرنے، چراغاں پر پابندی کے احکامات پر عمل کرا سکتی تھیں مگر ایسا نہیں ہوا اب تک کسی صوبائی حکومت نے عوام کو کوئی اچھی مثال پیش نہیں کہ، امن و امان اور مہنگائی پر قابو پانا اب صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے مگر کسی صوبائی حکومت کو دہشت گردی تو کیا مہنگائی بڑھانے والے گراں فروشوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی، کراچی میں بھتہ کلچر بڑھ رہا ہے تو پنجاب میں پولیس راجن پور میں ''چھوٹو گینگ'' کو بھتہ دے رہی ہے، کے پی کے حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کی بجائے لوڈ شیڈنگ پر سیاست کرتی نظر آ رہی ہے اور بلوچستان حکومت محدود سے شہر کوئٹہ میں دہشت گردی نہیں روک پائی۔
مہنگائی عوام کا اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے جس کے حل کے لیے صوبائی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا اور خاموش ہیں اور صرف دکھاوے کے لیے گراں فروشوں پر جرمانے ہو رہے ہیں، انھیں گرفتار کر کے دوسروں کے لیے عبرت نہیں بنایا جا رہا اور عوام مایوس ہو کر حکومتوں کی بے بسی اور گراں فروشوں کی من مانی دیکھ کر کڑھ رہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت اہم اعلان کرے اور جو ورثے اسے پچھلی حکومت سے ملے ہیں وہ اس کا ڈھنڈھورا نہ پیٹے بلکہ ٹھوس اقدامات کر کے ملک میں امن، انصاف اور ترقی کو یقینی بنائے۔