یہ کون سا پاکستان ہے
ذرامبالغہ کرنےکی اجازت دیں توتحریک پاکستان والےپاکستانی آج صرف نصف صدی بعدہی اس پاکستان کوپہچان نہیں پارہےجواس خطےکے..
اصحاب کہف برسہا برس بعد اپنے غار سے باہر نکلے تو اہل شہر ظاہر ہے کہ انھیں پہچان نہ سکے۔ بازار میں انھوں نے اپنی جیب سے سکے نکال کر دکاندار کو دیے تو وہ ان کا منہ تکنے لگا کہ یہ کس ملک اور کس زمانے کے سکے ہیں۔ ذرا مبالغہ کرنے کی اجازت دیں تو تحریک پاکستان والے پاکستانی آج صرف نصف صدی بعد ہی اس پاکستان کو پہچان نہیں پا رہے جو اس خطے کے مسلمانوں نے اپنے مذہب، اپنی شناخت اور اپنی ثقافت کی بقا اور فروغ کے لیے بنایا تھا۔
ان کے لیے کسی پاکستان کا دفتر خارجہ اپنے لیے جانیں دینے والے اور اپنے کل کے حصے کے باشندوں کا مسئلہ کسی دوسرے ملک کا مسئلہ تصور کرتا ہے تو پھر وہ کسی جعلی پاکستان کا دفتر خارجہ ہے، پاکستان کا ہر گز نہیں ہے۔ اگر کسی ملک کا وزیر اعظم پاکستان کے جدی پشتی دشمن اور دشمنی پر سختی کے ساتھ ڈٹے رہنے والے ملک کی محبت اور دوستی کے لیے بے تاب ہے تو وہ نہ جانے کس پاکستان کا وزیر اعظم ہے۔
حالات کے ساتھ سمجھوتے اور مصلحت کی یوں کوئی گنجائش نہیں کہ یہ تو ایک ایسے ملک کے شہری بننے پر جبری رضا مندی ہے جو ملک تحریک پاکستان کے لیے اجنبی ہے اور کسی بنگلہ دیش کو ایک الگ ملک (اس کے پاکستانیوں کے حوالے سے) تسلیم کرنے کی دفتر خارجہ کی جسارت ہے، جب پاکستانیوں پر مر مٹنے والوں کا مسئلہ پاکستان کا نہیں کسی دوسرے ملک کا مسئلہ ہے تو پھر اپنوں کی غداریوں اور انتہائی خود غرضیوں کے نتیجے میں اپنے کسی ٹکڑے کو الگ کر دینے پر رضا مندی کیا ہے۔
یہ سب ہر گز پاکستانیت نہیں ہے اور لازم ہے کہ نئی نسل کو کم از کم علمی اور تاریخی طور پر بتا دیا جائے کہ ان کا اصل پاکستان کیا تھا اور اسے کیا بنا دیا گیا ہے۔ ایک کشمیری شاعر کے ایک شعر کا مشہور مصرع ہے ع یہ کون سا دیار ہے کہ ہر طرف غبار ہی غبار ہے۔ آج نہ جانے کتنے پاکستانی یہ پوچھتے ہیں کہ ہم جس ملک کے شہری ہیں یہ کسی غبار میں گم کون سا دیار ہے اور یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بات کسی قسم کے اختلاف یا نظریاتی تنازع کی نہیں صاف بات یہ ہے کہ آج کے اس پاکستان کو اگر اپنی بقا مطلوب ہے تو پھر اسے وہی پاکستان بننا ہو گا اور وہی پاکستان بن کر رہنا ہو گا جس کا خواب کھلی آنکھوں سے ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے دیکھا تھا۔
اس خواب کی ایک صحیح تعبیر بھارت کی ہندو اندرا گاندھی نے یہ کہہ کر بیان کی تھی کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار برس کا انتقام لے لیا ہے، اصل اور صحیح پاکستانیوں کے اس دور کو اس نے اپنے لیے انتقام کہا تھا۔ آج ہم یہ کہہ کر کہ 'بنگلہ دیش' میں مقیم پاکستان کا نام لینے والوں کا مسئلہ ہمارا نہیں ان کے 'ملک' بنگلہ دیش کا مسئلہ ہے مقام عبرت ہے۔ اگر حقیقی پاکستان موجود ہوتا تو اس وزارت خارجہ کو قرار واقعی سزا ملتی۔
ہندوستان کے ایک حصہ میں جب پاکستان بن رہا تھا اور کروڑوں مسلمان اس سے باہر تھے تو ان کے اندیشوں کے جواب میں ان سے وعدہ کیا گیا کہ ایک آزاد اور طاقت ور پاکستان ان کے تحفظ کا ذمے دار ہو گا، تحریر و تقریر میں یہ بات بار بار دہرائی گئی۔ اس وقت جو پاکستانی تھے ان کو معلوم تھا کہ ان کے کندھوں پر اپنے ان بھائیوں کی حفاظت کا بوجھ لدا ہوا ہے جو آج ان کے نہیں کسی دوسرے ملک کے شہری ہیں چنانچہ ہمارے پہلے پاکستانیوں نے اور ان کی پاکستانی قیادت نے اس بھاری ذمے داری کے ساتھ اپنی آزادی کا سفر شروع کیا لیکن ہماری بدقسمتی یا کڑی آزمائش کہ ہمارے قافلے کے سردار اور رہنما جلد ہی ہم سے بچھڑ گئے اور ہم نو آزاد اور نو آموز نہ جانے کن لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے۔
یہ لوگ ایک نارمل عام سا ملک بھی ہمیں نہ دے سکے جب کہ یہ ایک نظریاتی ملک کے قائد تھے اور ان سے توقعات بہت اونچی تھیں۔ یہ خطر ناک نظریاتی حکومتوں کا دور تھا۔ جس میں ہمیں زندہ رہنا تھا۔ اشتراکیت پھیلتی جا رہی تھی، روس امریکا کے مد مقابل تھا اور یورپ اس سے خوفزدہ تھا۔ اسلام اور کمیونزم میں جو واضح اختلاف تھا وہ دنیا کو معلوم تھا اور خصوصاً روسیوں جو وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں کو ہڑپ کر چکے تھے، جب پاکستان بنا تو انھوں نے اس کے لیے بھی ایک پالیسی وضع کر لی جو ان کی افغانستان سے 14 فروری 1989 کو دریائے آمو کے پل حیرتان سے واپس جاتے ہوئے ختم ہو گئی۔ حالات کی بددعا نے پاکستان کی بری نظروں سے دیکھنے کو کڑی سزا دی اور سویت یونین ایک داستان بن گئی، تاریخ کے عبرت ناک صفحات پر درج ہونے کے لیے تھی۔
یوں پاکستان ایک طاقت ور دشمن سے تو بچ گیا لیکن اس کے بعد اپنے اندر کے طاقت ور سازشی دشمنوں سے نہ بچ سکا۔ دو ٹکڑے ہو گیا، بھارت تو تھا ہی اس کو روسی حکومت کی بھی پس پردہ حمایت حاصل تھی جو سوویت یونین کی سمادھی پر بیٹھ کر اس کی یادوں میں گم تھی۔ شہید جنرل ضیاء الحق کی فراست حکمت عملی اور جرات نے افغانستان کے محاذ پر سوویت یونین کی کمر توڑ دی تھی۔ اس میں امریکا کو استعمال کیا گیا اور افغانوں کی آزادی پسند زندگی نے روس کا غلام بننے سے انکار کر دیا۔
تاریخ کے ان انقلابات سے گزرنے کے باوجود پاکستانی قیادت کو تحریک پاکستان یاد نہ آئی ایک کمیونسٹ دانشور نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ نظریہ پاکستان ایک سامراج ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ بلاشبہ
ایک سامراج تھا جو ان کی سوویت یونین کو خواب و خیال بنا گیا۔ کالم میں ایک مختصر بات اتنی ہی کہی جا سکتی ہے کہ خدا کے لیے بھارت جیسے آزمودہ اور تاریخی دشمن سے محبت اور پیار کی تمنا ترک کر دیں اور وزارت خارجہ کے خارجی بابوؤں کو بھی لگام دیں۔ ہمارے پاس تو اب درخت کا سایہ بھی باقی نہیں رہنے دیا جا رہا جس کو سر سبز رکھنے کے لیے بھارت ہمارا پانی بھی ہم سے چھین رہا ہے۔ پیاسے کھیت پیاسی قوم ہمارے حکمرانوں کو یہ مستقبل قریب کیوں یاد نہیں آ رہا۔