پروفیسر غلام اعظم اور سیاپا گروپ
91 برس کےپروفیسرغلام اعظم کوعمر قیدکی سزاسنائےجانےکامجھےبھی دُکھ ہوا۔یہ دُکھ مگرسیاسی سےزیادہ انسانی حوالوں سےتھا۔
91 برس کے پروفیسر غلام اعظم کو عمر قید کی سزا سنائے جانے کا مجھے بھی دُکھ ہوا۔ یہ دُکھ مگر سیاسی سے زیادہ انسانی حوالوں سے تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی اس بات پر ہوئے چلی جا رہی ہے کہ 42 برس گزر جانے کے بعد بھی حسینہ واجد 1971 کو بھول جانے پر تیار نہیں۔ ان کا اس وحشت کے ساتھ ماضی سے چپکے رہنا ایک حوالے سے سمجھا جا سکتا تھا، اگر ان کے ملک کی فوج میں ان دنوں مارشل لاء لگانے کی خواہشات اُبھر رہی ہوتیں۔ تھوڑی تحقیق کے بعد میں لیکن یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں ایسے کوئی حالات نہیں ہیں۔
وہاں کی فوج نے 1975میں یقیناً شیخ مجیب الرحمٰن کو اور ان کے گھر موجود تمام افراد کو قتل کر دینے کے بعد کئی برسوں تک ریاستی اور حکومتی امور کو اپنے مکمل اختیار میں رکھا ہوا تھا۔ مگر بنگلہ دیش کی تمام سیاسی جماعتوں نے بالآخر یک جا ہو کر اپنا حقِ حکمرانی بحال کرا لیا ہے۔ فوج کی بالا دستی کے خلاف کی جانے والی اس جدوجہد میں وہاں کی جماعت ِاسلامی نے بھی اپنی حیثیت کے مطابق بھر پور حصہ لیا۔ اس جماعت کے پرانے لوگوں کے خلاف ماضی کے بدلے چکانے کا اب کوئی جواز نظر نہیں آ رہا۔
میری بڑی خواہش تھی کہ پاکستان کا کوئی صحافی یا لکھاری ٹھوس معلومات کے ذریعے مجھے سمجھاتا کہ حسینہ واجد کی حکومت یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے۔ ہم مگر تحقیق کے عادی نہیں۔ سرسری معلومات کی بنیاد پر صرف سیاپے کرتے ہیں۔ ہمارے فکری کھوکھلے پن کی وجہ سے ان دنوں انٹرنیٹ پر غلط سلط زبان میں پاکستان کی ''نظریاتی بنیادوں'' کی حفاظت کرنے والے بھی بڑے زور شور سے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی ملامت کر رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کی ہفت روزہ بریفنگ کے دوران چند صحافیوں نے پروفسر غلام اعظم کو عمر قید کی سزا سنائے جانے پر حکومتِ پاکستان کا رد عمل معلوم کرنا چاہا۔ ترجمان نے اسے بنگلہ دیش کا ''اندرونی معاملہ'' قرار دے کر جان چھڑا لی اور نظریہ پاکستان کے خود ساختہ محافظ چراغ پا ہو گئے۔
خالصتاً انسانی بنیادوں پر شاید میں ان کے غصے کو برحق گردانتا۔ مگر جب ان کی جذباتی تحریریں اور پیغامات پڑھتا ہوں تو چند سوالات ذہن میں آ جاتے ہیں۔ ان کا جواب نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر مان لیتے ہیں کہ ''اِدھر ہم اُدھر تم''کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے جرم میں برابر کے شریک تھے۔ 5 جولائی 1977 کو مگر غازی ضیاء الحق شہید نے ان کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ اقتدار پر پوری طرح قابض ہو جانے کے بعد جنرل ضیاء اور ان کے فکری مجاہدین نے پوری قوت کے ساتھ ہمارے ذہنوں میں یہ خیال بٹھایا کہ پاکستان ایک ''نظریاتی مملکت''ہے۔
دو قومی نظریے کی اصل منزل برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسے ملک کا قیام تھا جہاں اسلامی نظام بھر پور انداز میں متعارف کرایا جا سکے۔ میں ذاتی طور پر اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتا۔ مگر اس نظریے کے دعوے داروں کو یہ بات بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ کوئی بھی مسلمان جو 14 اگست 1947 تک ''برٹش انڈیا'' کے کسی بھی حصے کا شہری تھا پاکستان بن جانے کے بعد اس بات کا پیدائشی حق رکھتا تھا کہ وہ جب چاہے اس ملک آئے اور یہاں کا شہری بن جائے۔ اسرائیل بھی ہماری طرح ایک ''نظریاتی مملکت'' ہے۔ آج بھی کوئی امریکی، روسی یا یورپی شہری، اگر اس کی ماں یہودی ہو، یہ حق رکھتا ہے کہ کسی بھی وقت اپنا ملک چھوڑ کر اسرائیل منتقل ہو جائے اور وہاں کی شہریت حاصل کر لے۔
1972کے آغاز میں جب بنگلہ دیش ایک آزاد ملک بن گیا تو وہاں رہ جانے والے اُردو بولنے والوں نے خود کو وہاں کا شہری ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ وہاں کی حکومت نے انھیں ''غیر ملکی'' قرار دے کر جیل نما کیمپوں میں محصور کر دیا۔ پاکستان کو ''نظریاتی مملکت'' کہنے پر بضد مجاہدوں کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ بنگلہ دیش میں پھنسے ان ''پاکستانیوں'' کو یہاں لا کر آباد کراتے۔ انھوں نے کبھی سنجیدگی سے کوشش نہ کی۔ بس سیاپے کرتے رہے۔
سوویت یونین نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تو 1980کی پوری دہائی کے دوران وہاں کے لوگ لاکھوں کی تعداد میں پاکستان منتقل ہوتے رہے۔ ہم نے اپنے ''مسلمان بھائیوں'' کو بڑی گرم جوشی سے گلے لگایا۔امریکی اور سعودی امداد سے ان کی دیکھ بھال کرتے اور خود کو رسول پاک ﷺ کے مدینہ والے ''انصار'' سمجھتے رہے۔ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی تعداد افغان مہاجرین کی کل تعداد کا پانچ فیصد بھی نہ ہو گی۔ ہم مگر انھیں پاکستان لانے سے گھبراتے رہے۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ بنگلہ دیش سے ''پاکستانی'' لا کر یہاں کہیں بھی بسائیں ان کی کثیر تعداد بالآخر کراچی، حیدر آباد اور سکھر چلی جائے گی۔ یہ بات سندھ کے لوگ برداشت نہ کر پائیں گے۔ پاکستان کی ریاست اور اس کی ''نظریاتی اساس'' کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔
آج کے کراچی پر ذرا نظر ڈال لیں۔ ''مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی'' ہونے کی دعوے دار ریاست کو عرصہ ہوا اس ملک میں مردم شماری کرانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ مگر چند روز کراچی میں گزارنے کے بعد آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ اس شہر میں افغان ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں رہ رہے ہیں۔ سندھ کے قدیم باشندوں نے ان کی موجودگی کو برداشت کر ہی لیا ہے۔ پریشان ہیں تو وہ لوگ جن کے بزرگ 1947کے بعد بھارت سے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
بنگلہ دیش کے قیام سے لے کر آج تک اپنے تئیں ''نظریہ پاکستان''کے پر چارک و محافظ بنے افراد نے اس ملک میں رہ جانے والے ''پاکستانیوں''کے ساتھ جو بے اعتنائی برتی ہے اس کے تناظر میں آج کل پروفیسر غلام اعظم کو سنائی جانے والی عمر قید پر مچایا جانے والا واویلا مجھے کافی عجیب محسوس ہوتا ہے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ''عجیب'' کے بجائے ایک اور لفظ لکھ سکتا۔ مگر مجبوری ہے۔ یہ کالم ایک اخبار کے لیے لکھتا ہوں اور یہاں لکھتے وقت کچھ آداب بہر صورت ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتے ہیں۔