بے شرم
لرزتے ہونٹوں اور اشکبار آنکھوں سے وہ مجھے بتا رہے تھے: ’’دمشق کے بازارِ حمیدیہ میں داخل ہوتے ہی مجھے یوں محسوس ہوا...
لرزتے ہونٹوں اور اشکبار آنکھوں سے وہ مجھے بتا رہے تھے: ''دمشق کے بازارِ حمیدیہ میں داخل ہوتے ہی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دل سینے سے اُچھل کر میرے گلے میں آ پھنسا ہو۔ میَں نے جوتے اتار دیے اور پلکوں سے صدیوں پرانی اینٹوں کو جھاڑو دیتے اور اُنھیں ہونٹوں سے چُومتا آگے بڑھنے لگا۔ یہی وہ تاریخی بازار تھا جہاں ڈیڑھ ہزار سال قبل آلِ رسولؐ کا لُٹا ہوا قافلہ مسجدِ اموی کی جانب آہستہ آہستہ بڑھا تھا۔ یزید نے مقدس ترین نفوس پر مشتمل اُس قافلے کو آہستہ چلنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ اِس قافلے کی قیادت حضرت سیدہ زینبؓ کر رہی تھیں۔
بہادر، غیور اور اولوالعزم حضرت زینبؓ جنہوں نے اپنے سگے بھائی (سیدنا حضرت حسینؓ) کو اپنے سامنے یزیدی لشکر کے ہاتھوں اللہ کی راہ میں شہید ہوتے دیکھا۔ بازارِ حمیدیہ میں چلتے ہوئے دل پر صدیوں کا بوجھ پڑ جاتا ہے۔'' میرے دوست نے توقف کیا اور کہا ''دمشق کا یہ تاریخی بازارِ حمیدیہ جہاں ختم ہوتا ہے، وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر مسجدِ اموی کے داخلی دروازے کا آغاز ہوتا ہے۔ اِس مقام پر سیّدہ زینبؓ کو یزید نے دانستہ کئی گھنٹے، اور بعض روایات کے مطابق ایک ہفتہ، انتظار میں کھڑا کیے رکھا۔ اِس دوران اِس ظالم اور غاصب حکمران نے مسجد کے اندر اپنے لیے چبوترہ بنایا جو مسجد کے صحن سے تقریباً بیس فٹ بلند ہے۔
آج بھی مسجدِ اموی کے اندر وہ مقام پوری شان سے موجود ہے جہاں حضرتِ سیدہ زینبؓ، جو اللہ کے آخری نبیؐ کی نواسی ہیں، نے کھڑے ہو کر چبوترے پر بیٹھے یزید کو مخاطب ہو کر وہ طویل خطاب ارشاد فرمایا جس کے ایک ایک حرف سے بادشاہِ وقت کا دل کانپ کانپ جاتا تھا لیکن وہ کوئی جواب نہ دے سکا تھا۔ مسجدِ اُموی کے اندر واقع وہ مقام جہاں حضرت سیدہ زینبؓ کے قدم مبارک لگے تھے، آج اُسے سنہرے جنگلے میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ عقیدت و محبت کی شدت سے مغلوب زائرین یہاں آتے ہیں اور تاریخ کے جَلو میں اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔'' راوی میرے نہایت قریبی عزیز ہیں۔ وہ دمشق گئے تو بازارِ حمیدیہ، مسجد اموی اور سیدہ زینبؓ کے مزارِ مبارک کی ویڈیو فلم بھی بنا لائے۔
ہم سب گھر والوں نے اس ویڈیو فلم کو محویت و محبت اور آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب تھامے دیکھا۔ میرے عزیز بتا رہے تھے: ''دمشق کی تاریخی جامعہ مسجد اُموی اور بازارِ حمیدیہ سے تقریباً دس بارہ منٹ کی ڈرائیو پر تاریخِ اسلام کی اِس محترم و مکرم خاتون سیدہ زینبؓ کا مزار مبارک ہے جہاں ہر وقت عربی و فارسی میں نواسی رسولؐ اور سیدنا حضرت علیؓ کی اِس بلند عزم صاحبزادی کا ذکر بلند ہوتا رہتا ہے۔ اُس قطعۂ ارضی پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کی بارش تو ہمہ وقت برستی ہے۔ ظالم اور ملعون حکمران تاریخ کی خاک میں دفن ہو چکا اور جو مظلومین تھے، اللہ نے اُنھیں سرخرو کیا۔ اُن کا عَلم آج بھی بلند ہے اور تاقیامت بلند رہے گا۔''
نشست تمام ہوئی تو ہم سب خاموش تھے۔ آج سیدہ زینبؓ، جو سیدنا حضرت امام حسینؓ کی سگی ہمشیرہ محترمہ ہیں، کا مزار شہید ہوا ہے تو عالمِ اسلام بھی خاموش ہے۔ نہ جانے کیوں؟ پاکستان میں کہیں کہیں احتجاجی جلسے جلوس نکلے ہیں لیکن باقی سب خاموش۔ امریکا کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالنے والی ''دفاع پاکستان کونسل'' کہاں چلی گئی؟ جماعت الدعوہ بھی خاموش ہے اور جمعیتِ اہلِ حدیث بھی۔ اِس ظلم کے خلاف جماعتِ اہلِ سنت و الجماعت کا جلوس بھی کسی گلی سے برآمد نہیں ہوا۔
اُن ہونٹوں پر بھی تالے پڑ گئے ہیں جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آسمان سر پر اُٹھاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اور عالمِ اسلام کا کونسا ملعون گروہ ہے جو یہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ اُنھیں سیدہ ؓ کے مزارِ اقدس کی طرف بم اور میزائل چلاتے ہوئے ذرا سی شرم و حیا بھی نہ آئی؟ طالبان کا وہ خونخوار گروہ بھی مہر بہ لب ہے جس نے عافیہ صدیقی کا بدلہ لینے کے لیے ایک بار قسم بھی اُٹھائی تھی؟ کیا حضرت سیدہ زینبؓ کے مزارِ مبارک کو شہید کرنے پر احتجاج کرنا صرف ایک دو مسالک کا مسئلہ ہے؟ پھر یہ خامشی چہ معنی دارد؟ جس ظالم اور بے حیا گروہ نے مُلکِ شام میں واقع اِس پاک قطعۂ زمین کی بندوق و بارُود سے بے حُرمتی کی ہے، یہی وہ رُوسیاہ ہیں جنہوں نے گزشتہ روز حمص میں حضرت خالدؓ بن ولید کے مزارِ شریف پر بھی حملہ کیا ہے۔
وہ عظیم المرتبت صحابی رسولؐ جنھیں خدا کے آخری نبیؐ نے ''سیف اللہ'' کے قابلِ فخر خطاب سے نوازا، آج اُن کی آخری آرامگاہ میں بارُود کا دھواں بھرا جا رہا ہے۔ اِس ظالمانہ اقدام پر بھی عالمِ اسلام خاموش ہے اور ظالموں کے خلاف ہم صف آرا ہیں نہ ہم نوا۔ شام میں بروئے کار یہی وہ قابلِ نفرت اور اسلام دشمن گروہ ہے جس نے چند ماہ قبل تاریخِ اسلام کی ایک اور مقدس ہستی حضرت حجر بن عدیؒ کے مزار کو شہید کر کے اپنے متعصبانہ دل و نظر کی تسکین کی تھی۔ پاکستان میں کہیں سے بھی اِس نفرت انگیز اقدام کے خلاف آوازنہ اُٹھی، بعض اطراف سے مذمت میں چند الفاظ کہے گئے لیکن اکثر زبانیں اور لب خاموش ہی رہے۔ کیا ایسی قوم پر اللہ کا غضب نازل نہ ہو گا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی حُرمت کا جھنڈا بلند کرنے والے جناب محمد احمد لدھیانوی صاحب خاموش کیوں ہیں؟
حضرت حجر بن عدیؒ کے مزار پر حملہ آور ہونے والے شامی سفاک گروہ نے دراصل ٹیسٹ کیا تھا، یہ دیکھنے کے لیے کہ اُن کی اِس سیاہ کاری پر عالمِ اسلام کے اندر سے کتنا اور کس شدت کا ردِ عمل اُٹھتا ہے۔ جب اِس قابلِ مذمت اقدام کے خلاف پورے عالمِ اسلام میں ردِ عمل کی کوئی طاقتور لہر نہ اُٹھی تو حملہ آوروں کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ اِس کے بعد وہ سیدہ زینبؓ کے مزارِ اقدس کی جانب لپکے اور اب وہ اللہ کے آخری رسولؐ کے جیّد صحابی جنرل خالد بن ولیدؓ کے مزارِ مقدس پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ یہ مکروہ اقدامات ہیں۔
ہم سب اِن کی مذمت کرتے ہیں لیکن افسوس کہ عالمِ اسلام کا حکمران طبقہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے اپنے اپنے مفادات کی اُلجھنوں میں اُلجھا ہوا ہے۔ ہم اِس تجربے سے بُری طرح گزر رہے ہیں کہ گروہ بندی اور مسلک پرستی ہمارے لیے لعنت و شکست کا سبب بن رہی ہے۔ پہلے لیبیا میں یہ کھیل کھیلا گیا اور اب اِس آگ نے شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے درست کہا ہے کہ شام کے اندرونی خلفشار کو مسلکی جنگ اور فرقہ واریت میں ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، خدارا اِس سے باز رہا جائے لیکن بدقسمتی سے تین کروڑ آبادی رکھنے والے شام کے تمام ہمسایہ مسلمان ممالک (عراق، اُردن، لبنان، ترکی) اِس آتشیں مسئلے سے لاتعلق بن کر بیٹھے ہیں۔
اِس بدقسمت ملک کا ایک ہمسایہ اسرائیل ہے اور وہ اِس آگ سے خوب خوب لُطف اندوز ہو رہا ہے۔ عالمِ عرب کے سینے میں پیوست اِس ''خنجر'' کو دلی خوشی محسوس ہو رہی ہو گی جب وہ یہ سُنتا ہو گا کہ شام کے اندر حضرت حجر بن عدی، حضرت سیدہ زینب اور حضرت خالد بن ولید کی آخری آرامگاہوں کو میزائلوں اور بموں سے اُڑایا جا رہا ہے اور اِس بارُود سے مسلمانوں کے کئی گروہ آپس میں مزید باہم دست و گریباں ہو رہے ہیں۔ ہم مسلکی اور فرقہ وارانہ عناد میں اتنے پُختہ ہو چکے ہیں کہ اوّلین خلیج جنگ میں جب امریکی سرکردگی میں اتحادی فوجوں نے بغداد میں واقع حضرت سید عبدالقادر گیلانیؒ کے مزار کو ہدف بنا کر اِسے شدید نقصان پہنچایا تو ہمارے ہاں ایک گروہ کے ہونٹوں پر طنزیہ اور استہزایہ مسکراہٹ چھا گئی۔
آج اپنے اپنے فقہی تعصبات کی آگ میں جلتی ہوئی اِس قوم کے بارے میں صدیوں قبل اللہ کے آخری رسولؐ پر اُترنے والی آخری کتاب، قرآنِ مجید میں حکم نازل ہوا تھا: ''اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو'' ۔ اِس قوم نے اتحاد یگانگت کا درس دینے والی اِس ''رسی'' کو خود ہی چھوڑ دیا۔ اب ذلت اورزبوں حالی اِس کا مقدر بن چکی ہے۔ حضرت سیدہ زینبؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے مزاراتِ مقدسہ کو شہید کرنے والے یہ بے شرم گروہ اپنی ذلت کا خود سامان فراہم کر رہے ہیں۔
بہادر، غیور اور اولوالعزم حضرت زینبؓ جنہوں نے اپنے سگے بھائی (سیدنا حضرت حسینؓ) کو اپنے سامنے یزیدی لشکر کے ہاتھوں اللہ کی راہ میں شہید ہوتے دیکھا۔ بازارِ حمیدیہ میں چلتے ہوئے دل پر صدیوں کا بوجھ پڑ جاتا ہے۔'' میرے دوست نے توقف کیا اور کہا ''دمشق کا یہ تاریخی بازارِ حمیدیہ جہاں ختم ہوتا ہے، وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر مسجدِ اموی کے داخلی دروازے کا آغاز ہوتا ہے۔ اِس مقام پر سیّدہ زینبؓ کو یزید نے دانستہ کئی گھنٹے، اور بعض روایات کے مطابق ایک ہفتہ، انتظار میں کھڑا کیے رکھا۔ اِس دوران اِس ظالم اور غاصب حکمران نے مسجد کے اندر اپنے لیے چبوترہ بنایا جو مسجد کے صحن سے تقریباً بیس فٹ بلند ہے۔
آج بھی مسجدِ اموی کے اندر وہ مقام پوری شان سے موجود ہے جہاں حضرتِ سیدہ زینبؓ، جو اللہ کے آخری نبیؐ کی نواسی ہیں، نے کھڑے ہو کر چبوترے پر بیٹھے یزید کو مخاطب ہو کر وہ طویل خطاب ارشاد فرمایا جس کے ایک ایک حرف سے بادشاہِ وقت کا دل کانپ کانپ جاتا تھا لیکن وہ کوئی جواب نہ دے سکا تھا۔ مسجدِ اُموی کے اندر واقع وہ مقام جہاں حضرت سیدہ زینبؓ کے قدم مبارک لگے تھے، آج اُسے سنہرے جنگلے میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ عقیدت و محبت کی شدت سے مغلوب زائرین یہاں آتے ہیں اور تاریخ کے جَلو میں اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔'' راوی میرے نہایت قریبی عزیز ہیں۔ وہ دمشق گئے تو بازارِ حمیدیہ، مسجد اموی اور سیدہ زینبؓ کے مزارِ مبارک کی ویڈیو فلم بھی بنا لائے۔
ہم سب گھر والوں نے اس ویڈیو فلم کو محویت و محبت اور آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب تھامے دیکھا۔ میرے عزیز بتا رہے تھے: ''دمشق کی تاریخی جامعہ مسجد اُموی اور بازارِ حمیدیہ سے تقریباً دس بارہ منٹ کی ڈرائیو پر تاریخِ اسلام کی اِس محترم و مکرم خاتون سیدہ زینبؓ کا مزار مبارک ہے جہاں ہر وقت عربی و فارسی میں نواسی رسولؐ اور سیدنا حضرت علیؓ کی اِس بلند عزم صاحبزادی کا ذکر بلند ہوتا رہتا ہے۔ اُس قطعۂ ارضی پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کی بارش تو ہمہ وقت برستی ہے۔ ظالم اور ملعون حکمران تاریخ کی خاک میں دفن ہو چکا اور جو مظلومین تھے، اللہ نے اُنھیں سرخرو کیا۔ اُن کا عَلم آج بھی بلند ہے اور تاقیامت بلند رہے گا۔''
نشست تمام ہوئی تو ہم سب خاموش تھے۔ آج سیدہ زینبؓ، جو سیدنا حضرت امام حسینؓ کی سگی ہمشیرہ محترمہ ہیں، کا مزار شہید ہوا ہے تو عالمِ اسلام بھی خاموش ہے۔ نہ جانے کیوں؟ پاکستان میں کہیں کہیں احتجاجی جلسے جلوس نکلے ہیں لیکن باقی سب خاموش۔ امریکا کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالنے والی ''دفاع پاکستان کونسل'' کہاں چلی گئی؟ جماعت الدعوہ بھی خاموش ہے اور جمعیتِ اہلِ حدیث بھی۔ اِس ظلم کے خلاف جماعتِ اہلِ سنت و الجماعت کا جلوس بھی کسی گلی سے برآمد نہیں ہوا۔
اُن ہونٹوں پر بھی تالے پڑ گئے ہیں جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آسمان سر پر اُٹھاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اور عالمِ اسلام کا کونسا ملعون گروہ ہے جو یہ ظلم ڈھا رہا ہے۔ اُنھیں سیدہ ؓ کے مزارِ اقدس کی طرف بم اور میزائل چلاتے ہوئے ذرا سی شرم و حیا بھی نہ آئی؟ طالبان کا وہ خونخوار گروہ بھی مہر بہ لب ہے جس نے عافیہ صدیقی کا بدلہ لینے کے لیے ایک بار قسم بھی اُٹھائی تھی؟ کیا حضرت سیدہ زینبؓ کے مزارِ مبارک کو شہید کرنے پر احتجاج کرنا صرف ایک دو مسالک کا مسئلہ ہے؟ پھر یہ خامشی چہ معنی دارد؟ جس ظالم اور بے حیا گروہ نے مُلکِ شام میں واقع اِس پاک قطعۂ زمین کی بندوق و بارُود سے بے حُرمتی کی ہے، یہی وہ رُوسیاہ ہیں جنہوں نے گزشتہ روز حمص میں حضرت خالدؓ بن ولید کے مزارِ شریف پر بھی حملہ کیا ہے۔
وہ عظیم المرتبت صحابی رسولؐ جنھیں خدا کے آخری نبیؐ نے ''سیف اللہ'' کے قابلِ فخر خطاب سے نوازا، آج اُن کی آخری آرامگاہ میں بارُود کا دھواں بھرا جا رہا ہے۔ اِس ظالمانہ اقدام پر بھی عالمِ اسلام خاموش ہے اور ظالموں کے خلاف ہم صف آرا ہیں نہ ہم نوا۔ شام میں بروئے کار یہی وہ قابلِ نفرت اور اسلام دشمن گروہ ہے جس نے چند ماہ قبل تاریخِ اسلام کی ایک اور مقدس ہستی حضرت حجر بن عدیؒ کے مزار کو شہید کر کے اپنے متعصبانہ دل و نظر کی تسکین کی تھی۔ پاکستان میں کہیں سے بھی اِس نفرت انگیز اقدام کے خلاف آوازنہ اُٹھی، بعض اطراف سے مذمت میں چند الفاظ کہے گئے لیکن اکثر زبانیں اور لب خاموش ہی رہے۔ کیا ایسی قوم پر اللہ کا غضب نازل نہ ہو گا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی حُرمت کا جھنڈا بلند کرنے والے جناب محمد احمد لدھیانوی صاحب خاموش کیوں ہیں؟
حضرت حجر بن عدیؒ کے مزار پر حملہ آور ہونے والے شامی سفاک گروہ نے دراصل ٹیسٹ کیا تھا، یہ دیکھنے کے لیے کہ اُن کی اِس سیاہ کاری پر عالمِ اسلام کے اندر سے کتنا اور کس شدت کا ردِ عمل اُٹھتا ہے۔ جب اِس قابلِ مذمت اقدام کے خلاف پورے عالمِ اسلام میں ردِ عمل کی کوئی طاقتور لہر نہ اُٹھی تو حملہ آوروں کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ اِس کے بعد وہ سیدہ زینبؓ کے مزارِ اقدس کی جانب لپکے اور اب وہ اللہ کے آخری رسولؐ کے جیّد صحابی جنرل خالد بن ولیدؓ کے مزارِ مقدس پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ یہ مکروہ اقدامات ہیں۔
ہم سب اِن کی مذمت کرتے ہیں لیکن افسوس کہ عالمِ اسلام کا حکمران طبقہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے اپنے اپنے مفادات کی اُلجھنوں میں اُلجھا ہوا ہے۔ ہم اِس تجربے سے بُری طرح گزر رہے ہیں کہ گروہ بندی اور مسلک پرستی ہمارے لیے لعنت و شکست کا سبب بن رہی ہے۔ پہلے لیبیا میں یہ کھیل کھیلا گیا اور اب اِس آگ نے شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے درست کہا ہے کہ شام کے اندرونی خلفشار کو مسلکی جنگ اور فرقہ واریت میں ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، خدارا اِس سے باز رہا جائے لیکن بدقسمتی سے تین کروڑ آبادی رکھنے والے شام کے تمام ہمسایہ مسلمان ممالک (عراق، اُردن، لبنان، ترکی) اِس آتشیں مسئلے سے لاتعلق بن کر بیٹھے ہیں۔
اِس بدقسمت ملک کا ایک ہمسایہ اسرائیل ہے اور وہ اِس آگ سے خوب خوب لُطف اندوز ہو رہا ہے۔ عالمِ عرب کے سینے میں پیوست اِس ''خنجر'' کو دلی خوشی محسوس ہو رہی ہو گی جب وہ یہ سُنتا ہو گا کہ شام کے اندر حضرت حجر بن عدی، حضرت سیدہ زینب اور حضرت خالد بن ولید کی آخری آرامگاہوں کو میزائلوں اور بموں سے اُڑایا جا رہا ہے اور اِس بارُود سے مسلمانوں کے کئی گروہ آپس میں مزید باہم دست و گریباں ہو رہے ہیں۔ ہم مسلکی اور فرقہ وارانہ عناد میں اتنے پُختہ ہو چکے ہیں کہ اوّلین خلیج جنگ میں جب امریکی سرکردگی میں اتحادی فوجوں نے بغداد میں واقع حضرت سید عبدالقادر گیلانیؒ کے مزار کو ہدف بنا کر اِسے شدید نقصان پہنچایا تو ہمارے ہاں ایک گروہ کے ہونٹوں پر طنزیہ اور استہزایہ مسکراہٹ چھا گئی۔
آج اپنے اپنے فقہی تعصبات کی آگ میں جلتی ہوئی اِس قوم کے بارے میں صدیوں قبل اللہ کے آخری رسولؐ پر اُترنے والی آخری کتاب، قرآنِ مجید میں حکم نازل ہوا تھا: ''اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو'' ۔ اِس قوم نے اتحاد یگانگت کا درس دینے والی اِس ''رسی'' کو خود ہی چھوڑ دیا۔ اب ذلت اورزبوں حالی اِس کا مقدر بن چکی ہے۔ حضرت سیدہ زینبؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے مزاراتِ مقدسہ کو شہید کرنے والے یہ بے شرم گروہ اپنی ذلت کا خود سامان فراہم کر رہے ہیں۔