امریکا افغان طالبان امن معاہدہ پر اتفاق

قطر میں جاری مذاکرات میں میزبان ملک کے علاوہ پاکستان کے نمایندے بھی موجود تھے

www.facebook.com/shah Naqvi

امریکا اور طالبان کے درمیان قطر (دوحہ) میں 6روزہ مذاکرات کے بعد امن معاہدے کے مجوزہ مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے جس کے بعد 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ مذاکرات میں18ماہ کے اند ر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر اتفاق ہوا ہے۔طالبان ذرایع نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ قیدیوں کا تبادلہ ہوگا جب کہ طالبان رہنماؤں کو بلیک لسٹ سے نکال کر ان پر عائد سفری پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔ عبوری حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات ہوںگے۔معاہدے کے تحت فوجی انخلا کے عوض طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ داعش یا القاعدہ سمیت کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کو مستقبل میں امریکا یا کسی دوسرے ملک کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ طالبان ترجمان نے جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایشوز حساس نوعیت کے ہیں جنھیں حل کرنے کے لیے جامع مذاکرات کی ضرورت ہے۔

ادھر امریکا کے نمایندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ ہم نے افغان امن سے متعلق اہم معاملات پر خاطر خواہ پیشرفت کی ہے لیکن ''تمام امور پر اتفاق رائے تک کچھ حتمی نہیں ہوگا''

طالبان کے ایک سنیئر کمانڈر نے مذاکرات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے بہت سے مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں اور فریقین کئی اہم نکات پر متفق ہوگئے ہیں تاہم کئی معاملات اب بھی زیر بحث ہیں۔ طالبان کمانڈر نے بتایا کہ باقی ماندہ متنازعہ ایشوز کو حل کرنے کے لیے راستہ تلاش کیا جارہا ہے۔ افغان حکومت کا مسئلہ انھیں میں سے ایک ہے۔طالبان ذرایع کے مطابق غیر ملکی فوجی انخلا، طالبان قیادت پر پابندیوںکے خاتمے اور قیدیوںکے تبادلے کے بعد افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے جس میں طالبان بھی شامل ہوںگے۔ یہ عبوری حکومت تین سال کے لیے ہوگی۔

قطر میں جاری مذاکرات میں میزبان ملک کے علاوہ پاکستان کے نمایندے بھی موجود تھے۔ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت زلمے خلیل زاد نے کی جب کہ طالبان کی نمایندگی سنیئر کمانڈر ملا عبدالغنی برادر نے کی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر طالبان سے مذاکرات کامیاب ہوئے تو امریکا اپنی فورسز واپس بلائے گا۔ گارنٹی دیتا ہوں کہ ہم جنگ کے خاتمے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ امریکا اور طالبان کے درمیان پہلی بار بات ہورہی ہے۔

افغانستان میں سابق امریکی سفیر ریان سی کرو نے کہا ہے کہ افغان حکومت کو مذاکرات میں شریک نہ کرنے کا طالبان کا مطالبہ مان کر امریکا نے اپنی ہی حمایت یافتہ افغان حکومت کا جواز ختم کردیا۔ امریکا طالبان مذاکرات کا یہ عمل ویت نام جنگ کے دوران پیرس میں ہونے والے امن مذاکرات سے مشابہ ہے۔ اس وقت کی طرح اب بھی ہم مذاکرات کی صورت میں سرنڈر کررہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا اس موقعے پر طالبان کئی وعدے کریںگے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ افغانستان سے جانے کے بعد امریکا ان وعدوں پر عمل کرانے پر انھیں مجبور نہیں کرسکتا۔ سابق امریکی سفیر نے کہا کہ ایسا ضروری نہیں کہ حالیہ طرز پر ہی بات چیت چلتی رہے بلکہ امریکا اعلان کرسکتا ہے کہ بنیادی شرط کے طور پر افغان حکومت کو شامل کیے بغیر مذاکرات آگے نہیں چل سکتے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک امریکی سیکیورٹی اور افغانستان میں متعارف کرائے گئے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے حل سامنے نہیں آتا، امریکی فوج حالیہ افغان حکومت کی خواہش پر افغانستان میں رہے گی۔


انھوں نے سابق امریکی صدر بارک اوباما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں انھوں نے عراق سے فوجوں کو بلا کر ثابت کیا کہ امریکا اپنی فوجوں کو واپس بلا کر جنگ ختم نہیںکرسکتا بلکہ اس سے صرف دشمنوں کے لیے میدان جنگ کھلا چھوڑدیا جاتاہے۔ افغانستان میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس دو اختیارات ہیں کہ وہ بارک اوباما کی طرح افغانستان کو طالبان کے لیے چھوڑ دیں یا یہ وہ واضح کریں کہ امریکا کے مفاد اقدار اور اتحادی موجود ہیں اورامریکا ان کے پیچھے کھڑا ہے۔

امریکا طالبان مذاکرات میں ابھی مشکل مقام آنے ہیں جس کا اندازہ امریکی نمایندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ امن کا راستہ سیدھا نہیں ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ ابھی افغان حکومت سیز فائر سمیت کئی معاملات رہتے ہیں۔بعض لوگ صر ف ابتدائی باتوں سے سمجھتے ہیں کہ ہم کسی معاہدے پر پہنچ گئے ہیں ،کسی ہاتھی کو ایک نوالے میں نہیں کھایا جا سکتا۔40 سال سے جاری جنگ ایک اجلاس میں ختم نہیں ہو سکتی، اس معاملے میں کئی کھلاڑی اور بہت سے مسائل ہیں۔

اب تک امریکا طالبان مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ رہی کہ امریکا کا مطالبہ تھا کہ طالبان افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں جب کہ طالبان اس سے انکاری تھے۔ وہ امریکا سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے تھے جو افغانستان میں اصل طاقت ہے چنانچہ جیسے ہی امریکا نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی معاملات میں بہت تیزی سے پیشرفت ہوئی۔ وجہ اس کی یہ بنی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے امریکی انتخاب سے پہلے افغانستان کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ ایران خوش ہے کہ اس کے بارڈر سے امریکی موجودگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔

ویسے بھی ایران افغان طالبان کی امریکا سے جنگ میں اس کا ہرطرح سے مدد گار ہے۔ ماضی کے برعکس ایران اور افغان طالبان میں خوشگوار تعلقات اور اعتماد کا رشتہ قائم ہوگیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغان جنگ کے خاتمے کے نتیجے میں خطے میں استحکام آئے گا جو نئے دور کے آغاز کا سبب بنے گا جس کے لیے روس،چین،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات سب ہی اس کے خواہشمند ہیں جب کہ پاکستان کا اس میں کلیدی کردار ہے۔اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ملابردار جنھیں پاکستان میں 8 سال قید رکھنے کے بعد گزشتہ سال رہا کیا گیا۔ امریکا سے مذاکرات میں افغان طالبان وفد کی قیادت کررہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان تحفظات کا شکار ہے کہیں اسے ماضی کی طرح استعمال کرنے کی کوشش تو نہیں کی جارہی۔

٭ گزشتہ سال میں نے پیش گوئی کی تھی کہ 2019ء افغان جنگ کے خاتمے کے آغاز کا سال ہوگا، ایسا ہی ہوا...سفر لمبا ہے۔ اہم مہینے اپریل،مئی ہیں۔
Load Next Story