محاذآرائی پر مبنی سیاست کے ممکنہ نتائج
شخصی پوجا پرستی میں پورا سیاسی و جماعتی نظام چند لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن گیا ہے
ایک مشہور مورخ کا قول ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اس سے کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ یہ بات پاکستان کی سیاست کے کلچر پر برملا کہی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی قوت، جماعت یا قیادت اپنی ماضی کی سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں اہم قومی مسائل کی بنیاد پر سیاست کو تقویت دینے کے بجائے غیر اہم مسائل اوربالخصوص الزام تراشیوں، ذاتیات، خاندان، کردار کشی اور عورتوں پر سنگین نوعیت کے الزامات کی بنیاد پر سیاست کی جارہی ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا سیاسی کلچر غیر جمہوری مزاج، عدم برداشت اور غیرسیاسی اخلاقیات کا شکار ہوگیا ہے۔اس عمل نے سیاست، جمہوریت اور اخلاقی اصولوں کو پامال کیا ہے۔
سیاسی طور پر تنقید کرنا ہر سیاسی فریق کا حق ہوتا ہے لیکن تنقید اور تضحیک میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے اور ہماری سیاست میں تنقید کے نام پر تضحیک کو بالادستی حاصل ہوگئی ہے۔ہم سیاسی شخصیات کی تضحیک اس انداز سے کرتے ہیں کہ سیاسی ماحول میں تلخی پیدا ہوتی ہے جو سیاسی اور جمہوری سیاست کے مقدمے کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ہماری سیاست بنیادی طور پر شخصیات کے گرد گھومتی ہے اورشخصی پوجا پرستی میں پورا سیاسی و جماعتی نظام چند لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن گیا ہے۔
انتخابات کے بعد جو نئی پارلیمنٹ بنی ہے اس میں ابتدا ہی سے سیاسی تقسیم گہری ہے، اس کی واضح شکلیں ہمیں پارلیمنٹ کی سیاست میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ پارلیمنٹ کو جس انداز سے چلایا جارہا ہے وہ سوالیہ نشان ہے۔جو سیاسی فریقین میں سیاسی تناؤ غالب ہے، اس نے عملی طور پر اسپیکر کو بھی بے بس کردیا ہے کہ وہ معمول کے مطابق پارلیمانی کارروائی کو چلاسکیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ اسپیکر اسد قیصر کو سیاسی اور قومی اسمبلی کا ماحول بہتر رکھنے اور ایوان کی کارروائی خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے پارلیمانی قیادت کی زیر نگرانی 13رکنی نگران کمیٹی قائم کرنا پڑی ہے۔ اس کمیٹی میں وزیر اعظم عمران خان، حزب اختلاف کے قائد شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری، شیخ رشید، طارق بشیر چیمہ، خالد مقبول صدیقی، اختر مینگل، مولانا سعد محمود، خالد حسین مگسی ,غوث بخش خان مہر، شاہ زین بگٹی اورامیر حیدر خان شامل ہیں۔
اس کمیٹی کی خاص بات یہ ہے کہ اگرچہ اس کی سربراہی اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کریں گے لیکن وزیر اعظم عمران خان، حزب اختلاف کے سربراہ شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ایک میز پر اکھٹے ہوںگے۔کمیٹی کا بننا کوئی بری بات نہیں کیونکہ دنیا کے نظام میں پارلیمنٹ کو موثر انداز میں چلانے اورماحول کو بہتر بنانے کے لیے اس طرز کی نگران کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہاں یہ تجربہ کوئی بہتر نتیجہ دے سکے گا۔ کیونکہ جو پارلیمنٹ میں گندی مہم اور الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں وہ سیاسی قیادت کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ کہنا کہ جو کچھ ارکان اسمبلی ایک دوسرے کے خلاف گندی سطح پر جاتے ہیں اس کو قیادت کی حمایت حاصل نہیں تو یہ غلط ہو گا۔ہمارے ارکان اسمبلی قیادت کی خوشنودی کے حصول کے لیے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرز کی منفی سیاست سے قیادت خوش ہوتی ہے کہ سیاسی کارکن جائز و ناجائز ان کی ہر فورم پر دفاع کرتے ہیں۔جب کہ حالت یہ ہے کہ یہ سیاسی کارکن اورارکان پارلیمنٹ نجی مجالس میں اپنی ہی قیادت کے خلاف جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ کافی منفی بھی ہوتی ہے۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ محض پارلیمنٹ کا ماحو ل ہی گندا نہیں بنتا بلکہ اس کے اثرات پورے سیاسی سماج میں لوگوں پر پڑتے ہیں۔ یہ جو ہمیں بڑی شدت کے ساتھ نچلی سطح پر عام لوگوں اور سیاسی کارکنوں کے درمیان عدم برداشت اورالزام تراشیوں کا کلچر غالب نظر آتا ہے وہ اسی اہل سیاست اور پارلیمان کی وجہ سے ہوتا ہے۔کیونکہ جو ماحول اوپر کی قیادت پارلیمنٹ سمیت دیگر فورم پر اختیار کرتی ہے اس کا اثر سیاسی ماحول اور سیاسی کارکن کے مجموعی مزاج میں نظر آتا ہے۔یہ جو ہمارے ٹی وی ٹاک شوز ہیں اس میں جو کچھ سیاستدان کرتے ہیں یا دکھاتے ہیں اس سے کیسے سیاست اپنی ساکھ بناسکے گی، سوالیہ نشان ہے۔بعض اوقات خود سیاسی قیادت اپنی زبان بند رکھتی ہے اور دیگر لوگوں کو بدزبانی کے لیے پیش کردیتی ہے۔ہر سیاسی جماعت میں قیادت نے کچھ ایسے لوگوں کو اپنے قریب کیا ہوتا ہے جن کا عملی استعمال مخالفین کو گالیاں دینا ہے۔
ہمارے ہاں کچھ اہل دانش یہ دلیل دیتے ہیں کہ دنیا بھر کی پارلیمنٹ میں ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ بعض ملکوں کی پارلیمنٹ کا حال ہم سے بھی برا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں ہونے والی خرابیوں کو جواز بنا کر ہم اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں۔اگر ہم دنیا کی عملی غلطیوں کا جوازبناتے ہیں تو وہاں جو پارلیمنٹ اچھا کام کرتی ہے، وہ اچھا کام ہماری پارلیمنٹ میں کیونکر نہیں ہوتا۔ اصل میں اس طرز پر مبنی جواز کا فائدہ وہی سیاسی قیادتیں اٹھاتی ہیں جو منفی اور گھٹیا زبان پر مبنی سیاست کرتی ہیں۔ اسی طرح ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ کیونکہ یہاں فوجی مداخلتیں بہت رہی ہیں، اس لیے ابھی ہمارا سیاسی کلچر پنپ نہیں سکا۔ جن ملکوں میں سیاسی مداخلت نہیں ہے وہاں کی پارلیمانی سیاست میں وہ ساری خرابیاں کیونکر ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ماضی میں میثاق جمہوریت کے معاہدے کی بنیاد پر یہ دعویٰ دو بڑی جماعتوں نے کیا تھا کہ وہ مستقبل میں سیاسی کلچر کو بہتر طور پر پیش کریں گے۔ لیکن پچھلے چند برسوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کے خلاف جو منفی زبان استعمال کی، وہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں میثاق جمہوریت کے معاہدے پر کس حد تک سنجیدہ تھیں۔
ایک اوردلیل تحریک انصاف کے بارے میں دی جاتی ہے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کے بقول یہ سارا گند تحریک انصاف نے ڈالا ہے اور یہ ہی سیاست میں بدتہذیبی کو پھیلانے کی ذمے دار ہے۔ لیکن ملک کی دو بڑی اہم اور تجربہ کار سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کا اپنا طرز عمل کافی مایوس کن ہے جو عورتوںپر کیچڑ اچھالنے کی سیاست سے گریز نہیں کرتے۔کہا جاتا ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے سیاسی کارکنوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ کارکن کو تو چھوڑیں یہاں جو سیاسی قیادتیں ہیں یا ارکان اسمبلی ہیں ان کی اخلاقی تربیت کون کرے گا؟ مسئلہ ایک جماعت کا نہیں پورے سیاسی نظام کا ہے جو زوال پذیر ہے اوراپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کو ذمے دار قرار دے کر اپنا دامن بچاتا ہے۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہاں جو سیاسی نظام میں تعطل پیدا ہوتا ہے اورجمہوری بساط کو لپیٹا جاتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ خود اہل سیاست کا باہمی ٹکراؤ اورالزام تراشیوں پر مبنی سیاست ہے۔ اس وقت بھی ایک پوری سیاسی کھیپ احتساب سے بچنے کے لیے بھی الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کو بنیاد بنا کر سیاسی ماحول کو خراب کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ اس لیے کمیٹی کا بننا اچھی بات مگر کیا ہماری سیاسی قیادت واقعی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرسکے گی؟ جب تک سیاسی قیادت خود اپنا منفی رویہ ترک نہیں کرے گی ان کی اپنی جماعتوں میں موجود اس منفی کلچر کی سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں۔ہمارے اہل دانش کو سیاسی پسند و ناپسند سے ہٹ کر ان سب سیاسی فریقین کی حوصلہ شکنی اور ان کے خلاف مزاحمت کرنی ہوگی جو سیاست اورجمہوریت کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ہی حقیقی جمہوریت کے مفاد میں ہے اور یہ ہی ہماری سیاست کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔