جانوروں کوپانی کی سہولت فراہم کرنیوالے ’’پیاؤ‘‘ کھنڈر بن گئے
گھوڑوں اور باربرداری کے دیگر جانوروں کو سیراب کرنے کے لیے بنائے گئے بیشتر پیاؤ اب معدوم ہوچکے ہیں
کراچی کے درخشاں ماضی کی جھلک پیش کرنے والے جانوروں کے لیے پانی کی سہولت فراہم کرنے والے 100سال پرانے اسٹرکچر جنھیں اصطلاحاً پیاؤ کہا جاتا ہے نامناسب دیکھ بھال اور بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کی وجہ سے کھنڈر میں تبدیل ہو گئے ہیں، گھوڑوں اور باربرداری کے دیگر جانوروں کو سیراب کرنے کیلیے بنائے گئے بیشتر پیاؤ اب معدوم ہوچکے ہیں۔
پانی کی قلت سے دوچار شہر قائدکے مصروف مقاما ت پر اب ان کے آثار ہی باقی بچے ہیں جو تجاوزات کی زد میں ہیں، پارسی کمیونٹی کی شہر کیلیے بے مثال خدمات کی علامت یہ پیاؤ دہائیوں سے خود پانی کو ترس رہے ہیں،کراچی کے معروف اورصاحب ثروت تاجروں نے 1878میں جانوروں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کی روک تھام کیلیے ''سوسائٹی فار دی پریوینشن آف کریولٹی (ایس پی سی اے) قائم کی جس کے تحت شہر کے مختلف مقامات پر مال برداری کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں گھوڑوں، اونٹوں، گدھوں اور دیگر جانوروں کیلیے پینے کے پانی کیلیے پیاؤ قائم کیے گئے بعض مقامات پر مخیر حضرات نے اپنے مرحومین کے نام پر پانی کی سہولتیں تعمیر کیں، بعض حوالوں کے مطابق شہر بھر میں 30 سے زائد مقامات پر یہ پیاؤ قائم کیے گئے جہاں پانی کی دستیابی یقینی بنانے اور صفائی ستھرائی کے لیے عملہ بھی تعینات کیا گیا جس کی تنخواہیں سوسائٹی ادا کرتی تھی۔
یہ پیاؤ اس وقت کی مصروف گزرگاہوں پر قائم کی گئیں جن میں گرومندر تا ٹاور تک کے علاقے شامل ہیں۔ زیادہ تر پیاؤ سایہ دار درختوں کے نیچے پتھروں سے تعمیر کیے گئے بالخصوص تانگہ اسٹینڈ کے قریب قائم ہونے والے پیاؤ تانگوں میں جتے ہوئے گھوڑوں کو سیراب کرنے کا اہم ذریعہ بنے رہے۔ کراچی کے شہریوں میں صلہ رحمی بالخصوص جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے شعور کی علامت یہ تاریخی اسٹرکچر قیام پاکستان کے بعد کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی ذمے داری میں شامل ہوگئے تاہم کچھ ہی عرصہ چلنے کے بعد ان پیاؤ کا انتظام درہم برہم ہوگیا وقت کے ساتھ بیشتر پیاؤ بند ہو گئے، ان میں سے ایک خوبصورت اسٹرکچر سولجر بازار کو جانے والے راستے کے چوراہے پر لب سڑک واقع ہے تاہم اس پتھروں کے اس پختہ ڈھانچے کے گرد لگنے والے پتھاروں کی وجہ سے اس کے سامنے سے گزرنے والے لاکھوں شہری اس سہولت کی اہمیت اور تاریخی پس منظر سے لاعلم ہیں اسٹرکچر کے اطراف گنے کے جوس کی مشین اور پھلوں کے جوس کے ٹھیلے لگے ہوئے ہیں اسٹرکچر کے عقبی حصہ میں بھی تجاوزات قائم ہیں کے الیکٹرک نے اس تاریخی اسٹرکچر کی دیواروں پر بجلی کے میٹر نصب کرکے تجاوزات کو مستقل حیثیت فراہم کردی ہے۔
سولجر بازار میں 1924میں تعمیر ہونے والی یہ سہولت Framroze E. Punthakey سے موسوم کی گئی جنہوں نے 1878سے 1921تک سوسائٹی کے اعزازی سیکریٹری جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں اس عہد کو کراچی کا درخشاں ماضی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ سولجر بازار میں تعمیر ہونے والی پانی کی اس سہولت کا انتظام تین نسلوں سے امتیاز خان کے خاندان کے سپرد ہے ساٹھ کے لپیٹے میں آچکے امتیاز خان کے مطابق ان کے والد بہادر خان اور اس سے قبل ان کے دادا مسکین خان برٹش گورنمنٹ کے دورسے اس سہولت کا انتظام چلارہے ہیں۔ امتیاز خان کے مطابق ان کا خاندان قیام پاکستان سے قبل اس مقام پر پانی کا انتظام چلانے کے ساتھ گھاس اور چارہ فروخت کررہا ہے۔ امتیاز خان کا کہنا ہے کہ پانی کی سہولت چھ سال قبل تک بحال تھی اردگرد کے دکاندار اور رہائشی یہاں سے پانی بھرتے تھے ، سہولت تعمیر کرنے والے پارسی خاندان کی بھی تیسری نسل اب تک امتیاز خان سے رابطے میں ہے اور چھ سال قبل اس جگہ کا دورہ کیا تھا۔
بیرون ملک مقیم ہونے کے باوجود اپنے منیجر یا خاندان کے دیگر افراد کے ذریعے ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ اس سہولت کے اطراف 20سال قبل بیت الخلا تعمیر کردیے گئے جو پارسی کمیونٹی کے اثر ورسوخ بالخصوص اردشیر کا?س جی کی مداخلت پر مسمار کردیے گئے۔ امتیاز خان کے مطابق مخیر پارسی خاندان نے اس مقام پر پانی کی سہولت بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان آمد پر پانی کے کنکشن اور موٹر نصب کرنے کے علاوہ ڈھانچہ کی مرمت کا کام کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خرچ سے عمارت پر رنگ و روغن کرتے ہیں۔ بھینس کالونی میں رہائش پذیر امتیاز خان مویشیوں کا چارہ بیچ کرگزربسر کرتے ہیں ان کے چار میں سے دو بچے معذوری کا شکار تھے جن میں سے ایک بیٹا چوبیس سال کی عمر میں فوت ہوگیا جبکہ جوان بیٹی بھی اسی عمر کو پہنچ گئی جسکے بارے میں ڈاکٹر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔
نیٹی جیٹی پل سے قبل فٹ پاتھ پرقائم سبیل سوکھ گئی
میری ویدر ٹاور سے آگے نیٹی جیٹی پل پر چڑھنے سے قبل فٹ پاتھ پر ایک بے نام سبیل بھی ارباب اختیار اور تہذیبی ورثہ کے قدردانوں کی توجہ کی منتظر ہے چوکنڈی کی قبروں کی بناوٹ سے مشابہت رکھنے والی اس پانی کی سبیل کو فن تعمیر کا شاہکار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، محرابی جھروکے میں پانی کا سوکھا جھرنا کسی وقت بندرگاہ تک باربرداری کرنیوالے جانوروں کو سیراب کرتا ہوگا یا پھر یہاں سے گزرنے والے تھکن سے چور مزدور اپنی پیاس بجھاتے ہوں گے تاہم کئی دہائیوں تک لاکھوں نفوس کو تروتازہ رکھنے والی یہ سہولت اب خود برسوں سے پیاسی کھڑی ہے، شہر کی اہم ترین شاہراہ پر قائم اس اسٹرکچر کو بھی بری طرح نظر انداز کیا گیا۔
اس اسٹرکچر کے چاروں جانب خوبصورت ستون کندہ ہیں، منزل بہ منزل چھت کے نیچے پتھر کی دیدہ زیب جالیاں آج بھی اس خطے کے سنگ تراشوں کی مہارت کا خراج وصول کرتی نظر آتی ہیں، اسٹرکچر کے چاروں جانب خاص ڈیزائن کی چہار دیواری بھی قائم ہے جس میں گولائی کی شکل میں نیچے کی جانب محرابیں بنی ہوئی ہیں، پانی کی اس سہولت کے اندر گندے کپڑوں کی گٹھریاں رکھی ہوئی ہیں جو یقینا یہاں شب بسری کرنے والے افراد نے رکھی ہیں درحقیقت یہ اسٹرکچر ایک فراموش کردہ فن پارہ ہے جسے بحال کرکے آنے والی نسلوں کو شہر کے شاندار ماضی سے روشناس کرایا جاسکتا ہے۔
81سالہ شہری گرومندر پرپارک کے عقب میں قائم 125سال پرانے پیائو کے نگہبان
کورنگی کے رہائشی 81 سالہ شہری عبدالرحمن کی لگن اور کاوشوں کی بدولت گرومندر پر کے ایم سی پارک کے عقب میں قائم 125سال پرانے پیائو سے پانی کی فراہمی اب بھی جاری ہے، خوش قسمتی سے شہر میں موجود واحد سہولت ہے جس سے پانی کی فراہمی اب بھی جاری ہے۔ یہ سہولت یکم ستمبر 1893 کو دولت مند پارسی شہری Byramji Edulji نے اپنے والدین کے نام سے تعمیر کی، اس سہولت کی دیکھ بھال 81 سالہ عبدالرحمن کررہے ہیںاور انہوں نے ہی کئی مرتبہ منقطع ہونے والا پانی کا کنکشن خود اپنے خرچ پر بحال کرایا، عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ مرتے دم تک یہ ذمہ داری ادا کرتا رہوں گا۔
عبدالرحمن 35 سال سے یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں پہلے چارپائی پر چھوٹی سی لکڑی کی پیٹی رکھ کر صابن اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کرتے تھے جسے بعد میں کیبن میں منتقل کردیا۔ عبدالرحمن کے مطابق 80 کی دہائی میں متعلقہ پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والے نوجوان آئے تھے اور تصاویر بناکر گئے عبدالرحمن جانوروں کیلیے پانی کی کوئی قیمت وصول نہیں کرتے اگرچہ پیائو پر درج عبارت میں نہانے اور کپڑے دھونے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے تاہم شہر میں پانی کی قلت کی وجہ سے اس جگہ مزدور اور محنت کش نہاتے ہیں اور چھوٹی گاڑیاں بھی دھوئی جاتی ہیں۔
عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں سیوریج اور بجلی کی لائنوں کی تعمیر اور بھاری گاڑیوں کے گزرنے کی وجہ سے پانی کی سہولت کئی مرتبہ منقطع ہوئی تاہم واٹر بورڈ حکام کے تعاون سے یہ سہولت کبھی مستقل بند نہ ہوسکی، عبدالرحمن کی اپنی سرگزشت بھی کافی متاثر کن ہیں قیام پاکستان کے وقت 10سال کی عمر میں آگرہ سے احمد آباد اور پھر مونا بائو کھوکھرا پار کے راستے آگ اور خون کے دریاء عبور کرکے تنہا کراچی پہنچے دوران سفر مسلسل تین روز بھوک پیاس برداشت کی۔
سرحد پر شناختی دستاویزات نہ ہونے پر فوجی اہلکاروں نے پاکستان میں داخل ہونے سے روک دیا تاہم ایک سفید برقع پوش (جنہیں عبدالرحمن اپنی فوت شدہ ماں سمجھے )نے پلک جھپکتے انہیں پاکستان کی حدود میں پہنچادیا۔پانی کا یہ پیائو عام شہریوں کے لیے محض ایک سہولت ہے لیکن عمر کے آخری حصہ میں بھی محنت کرکے روزی کمانے والے بزرگ شہری عبدالرحمن کی زندگی میں اس پیائو کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کئی سال محنت مزدوری اور تانگہ چلانے کے بعد پینتیس سال سے پانی کے اس پیائو کی دیکھ بھال اور معمولی دکانداری سے دس پانچ روپے کی اشیا فروخت کرکے روزی کمائی اور اپنے مرحوم بھائی کی چھ بیٹیوں کی شادی کا فریضہ انجام دیا۔ عبدالرحمن کی دیرینہ خواہش بیت آ کی زیارت کرنا ہے انہیں یقین ہے کہ جس طرح وسائل نہ ہونے کے باوجود وہ چھ یتیم بچیوں کی شادی میں وسیلہ بنے اسی طرح بیت آ کی زیارت کی حسرت بھی ضرور پوری ہوگی، کراچی کی کھوئی ہوئی شان و شوکت یاد کرکے عبدالرحمن کی آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں اور وہ گہری آہ بھر کر کہتے ہیں ا ب کراچی کراچی نہیں رہا۔
پانی کی قلت سے دوچار شہر قائدکے مصروف مقاما ت پر اب ان کے آثار ہی باقی بچے ہیں جو تجاوزات کی زد میں ہیں، پارسی کمیونٹی کی شہر کیلیے بے مثال خدمات کی علامت یہ پیاؤ دہائیوں سے خود پانی کو ترس رہے ہیں،کراچی کے معروف اورصاحب ثروت تاجروں نے 1878میں جانوروں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کی روک تھام کیلیے ''سوسائٹی فار دی پریوینشن آف کریولٹی (ایس پی سی اے) قائم کی جس کے تحت شہر کے مختلف مقامات پر مال برداری کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں گھوڑوں، اونٹوں، گدھوں اور دیگر جانوروں کیلیے پینے کے پانی کیلیے پیاؤ قائم کیے گئے بعض مقامات پر مخیر حضرات نے اپنے مرحومین کے نام پر پانی کی سہولتیں تعمیر کیں، بعض حوالوں کے مطابق شہر بھر میں 30 سے زائد مقامات پر یہ پیاؤ قائم کیے گئے جہاں پانی کی دستیابی یقینی بنانے اور صفائی ستھرائی کے لیے عملہ بھی تعینات کیا گیا جس کی تنخواہیں سوسائٹی ادا کرتی تھی۔
یہ پیاؤ اس وقت کی مصروف گزرگاہوں پر قائم کی گئیں جن میں گرومندر تا ٹاور تک کے علاقے شامل ہیں۔ زیادہ تر پیاؤ سایہ دار درختوں کے نیچے پتھروں سے تعمیر کیے گئے بالخصوص تانگہ اسٹینڈ کے قریب قائم ہونے والے پیاؤ تانگوں میں جتے ہوئے گھوڑوں کو سیراب کرنے کا اہم ذریعہ بنے رہے۔ کراچی کے شہریوں میں صلہ رحمی بالخصوص جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے شعور کی علامت یہ تاریخی اسٹرکچر قیام پاکستان کے بعد کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی ذمے داری میں شامل ہوگئے تاہم کچھ ہی عرصہ چلنے کے بعد ان پیاؤ کا انتظام درہم برہم ہوگیا وقت کے ساتھ بیشتر پیاؤ بند ہو گئے، ان میں سے ایک خوبصورت اسٹرکچر سولجر بازار کو جانے والے راستے کے چوراہے پر لب سڑک واقع ہے تاہم اس پتھروں کے اس پختہ ڈھانچے کے گرد لگنے والے پتھاروں کی وجہ سے اس کے سامنے سے گزرنے والے لاکھوں شہری اس سہولت کی اہمیت اور تاریخی پس منظر سے لاعلم ہیں اسٹرکچر کے اطراف گنے کے جوس کی مشین اور پھلوں کے جوس کے ٹھیلے لگے ہوئے ہیں اسٹرکچر کے عقبی حصہ میں بھی تجاوزات قائم ہیں کے الیکٹرک نے اس تاریخی اسٹرکچر کی دیواروں پر بجلی کے میٹر نصب کرکے تجاوزات کو مستقل حیثیت فراہم کردی ہے۔
سولجر بازار میں 1924میں تعمیر ہونے والی یہ سہولت Framroze E. Punthakey سے موسوم کی گئی جنہوں نے 1878سے 1921تک سوسائٹی کے اعزازی سیکریٹری جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں اس عہد کو کراچی کا درخشاں ماضی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ سولجر بازار میں تعمیر ہونے والی پانی کی اس سہولت کا انتظام تین نسلوں سے امتیاز خان کے خاندان کے سپرد ہے ساٹھ کے لپیٹے میں آچکے امتیاز خان کے مطابق ان کے والد بہادر خان اور اس سے قبل ان کے دادا مسکین خان برٹش گورنمنٹ کے دورسے اس سہولت کا انتظام چلارہے ہیں۔ امتیاز خان کے مطابق ان کا خاندان قیام پاکستان سے قبل اس مقام پر پانی کا انتظام چلانے کے ساتھ گھاس اور چارہ فروخت کررہا ہے۔ امتیاز خان کا کہنا ہے کہ پانی کی سہولت چھ سال قبل تک بحال تھی اردگرد کے دکاندار اور رہائشی یہاں سے پانی بھرتے تھے ، سہولت تعمیر کرنے والے پارسی خاندان کی بھی تیسری نسل اب تک امتیاز خان سے رابطے میں ہے اور چھ سال قبل اس جگہ کا دورہ کیا تھا۔
بیرون ملک مقیم ہونے کے باوجود اپنے منیجر یا خاندان کے دیگر افراد کے ذریعے ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ اس سہولت کے اطراف 20سال قبل بیت الخلا تعمیر کردیے گئے جو پارسی کمیونٹی کے اثر ورسوخ بالخصوص اردشیر کا?س جی کی مداخلت پر مسمار کردیے گئے۔ امتیاز خان کے مطابق مخیر پارسی خاندان نے اس مقام پر پانی کی سہولت بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان آمد پر پانی کے کنکشن اور موٹر نصب کرنے کے علاوہ ڈھانچہ کی مرمت کا کام کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خرچ سے عمارت پر رنگ و روغن کرتے ہیں۔ بھینس کالونی میں رہائش پذیر امتیاز خان مویشیوں کا چارہ بیچ کرگزربسر کرتے ہیں ان کے چار میں سے دو بچے معذوری کا شکار تھے جن میں سے ایک بیٹا چوبیس سال کی عمر میں فوت ہوگیا جبکہ جوان بیٹی بھی اسی عمر کو پہنچ گئی جسکے بارے میں ڈاکٹر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔
نیٹی جیٹی پل سے قبل فٹ پاتھ پرقائم سبیل سوکھ گئی
میری ویدر ٹاور سے آگے نیٹی جیٹی پل پر چڑھنے سے قبل فٹ پاتھ پر ایک بے نام سبیل بھی ارباب اختیار اور تہذیبی ورثہ کے قدردانوں کی توجہ کی منتظر ہے چوکنڈی کی قبروں کی بناوٹ سے مشابہت رکھنے والی اس پانی کی سبیل کو فن تعمیر کا شاہکار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، محرابی جھروکے میں پانی کا سوکھا جھرنا کسی وقت بندرگاہ تک باربرداری کرنیوالے جانوروں کو سیراب کرتا ہوگا یا پھر یہاں سے گزرنے والے تھکن سے چور مزدور اپنی پیاس بجھاتے ہوں گے تاہم کئی دہائیوں تک لاکھوں نفوس کو تروتازہ رکھنے والی یہ سہولت اب خود برسوں سے پیاسی کھڑی ہے، شہر کی اہم ترین شاہراہ پر قائم اس اسٹرکچر کو بھی بری طرح نظر انداز کیا گیا۔
اس اسٹرکچر کے چاروں جانب خوبصورت ستون کندہ ہیں، منزل بہ منزل چھت کے نیچے پتھر کی دیدہ زیب جالیاں آج بھی اس خطے کے سنگ تراشوں کی مہارت کا خراج وصول کرتی نظر آتی ہیں، اسٹرکچر کے چاروں جانب خاص ڈیزائن کی چہار دیواری بھی قائم ہے جس میں گولائی کی شکل میں نیچے کی جانب محرابیں بنی ہوئی ہیں، پانی کی اس سہولت کے اندر گندے کپڑوں کی گٹھریاں رکھی ہوئی ہیں جو یقینا یہاں شب بسری کرنے والے افراد نے رکھی ہیں درحقیقت یہ اسٹرکچر ایک فراموش کردہ فن پارہ ہے جسے بحال کرکے آنے والی نسلوں کو شہر کے شاندار ماضی سے روشناس کرایا جاسکتا ہے۔
81سالہ شہری گرومندر پرپارک کے عقب میں قائم 125سال پرانے پیائو کے نگہبان
کورنگی کے رہائشی 81 سالہ شہری عبدالرحمن کی لگن اور کاوشوں کی بدولت گرومندر پر کے ایم سی پارک کے عقب میں قائم 125سال پرانے پیائو سے پانی کی فراہمی اب بھی جاری ہے، خوش قسمتی سے شہر میں موجود واحد سہولت ہے جس سے پانی کی فراہمی اب بھی جاری ہے۔ یہ سہولت یکم ستمبر 1893 کو دولت مند پارسی شہری Byramji Edulji نے اپنے والدین کے نام سے تعمیر کی، اس سہولت کی دیکھ بھال 81 سالہ عبدالرحمن کررہے ہیںاور انہوں نے ہی کئی مرتبہ منقطع ہونے والا پانی کا کنکشن خود اپنے خرچ پر بحال کرایا، عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ مرتے دم تک یہ ذمہ داری ادا کرتا رہوں گا۔
عبدالرحمن 35 سال سے یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں پہلے چارپائی پر چھوٹی سی لکڑی کی پیٹی رکھ کر صابن اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کرتے تھے جسے بعد میں کیبن میں منتقل کردیا۔ عبدالرحمن کے مطابق 80 کی دہائی میں متعلقہ پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والے نوجوان آئے تھے اور تصاویر بناکر گئے عبدالرحمن جانوروں کیلیے پانی کی کوئی قیمت وصول نہیں کرتے اگرچہ پیائو پر درج عبارت میں نہانے اور کپڑے دھونے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے تاہم شہر میں پانی کی قلت کی وجہ سے اس جگہ مزدور اور محنت کش نہاتے ہیں اور چھوٹی گاڑیاں بھی دھوئی جاتی ہیں۔
عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ ترقیاتی کاموں سیوریج اور بجلی کی لائنوں کی تعمیر اور بھاری گاڑیوں کے گزرنے کی وجہ سے پانی کی سہولت کئی مرتبہ منقطع ہوئی تاہم واٹر بورڈ حکام کے تعاون سے یہ سہولت کبھی مستقل بند نہ ہوسکی، عبدالرحمن کی اپنی سرگزشت بھی کافی متاثر کن ہیں قیام پاکستان کے وقت 10سال کی عمر میں آگرہ سے احمد آباد اور پھر مونا بائو کھوکھرا پار کے راستے آگ اور خون کے دریاء عبور کرکے تنہا کراچی پہنچے دوران سفر مسلسل تین روز بھوک پیاس برداشت کی۔
سرحد پر شناختی دستاویزات نہ ہونے پر فوجی اہلکاروں نے پاکستان میں داخل ہونے سے روک دیا تاہم ایک سفید برقع پوش (جنہیں عبدالرحمن اپنی فوت شدہ ماں سمجھے )نے پلک جھپکتے انہیں پاکستان کی حدود میں پہنچادیا۔پانی کا یہ پیائو عام شہریوں کے لیے محض ایک سہولت ہے لیکن عمر کے آخری حصہ میں بھی محنت کرکے روزی کمانے والے بزرگ شہری عبدالرحمن کی زندگی میں اس پیائو کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کئی سال محنت مزدوری اور تانگہ چلانے کے بعد پینتیس سال سے پانی کے اس پیائو کی دیکھ بھال اور معمولی دکانداری سے دس پانچ روپے کی اشیا فروخت کرکے روزی کمائی اور اپنے مرحوم بھائی کی چھ بیٹیوں کی شادی کا فریضہ انجام دیا۔ عبدالرحمن کی دیرینہ خواہش بیت آ کی زیارت کرنا ہے انہیں یقین ہے کہ جس طرح وسائل نہ ہونے کے باوجود وہ چھ یتیم بچیوں کی شادی میں وسیلہ بنے اسی طرح بیت آ کی زیارت کی حسرت بھی ضرور پوری ہوگی، کراچی کی کھوئی ہوئی شان و شوکت یاد کرکے عبدالرحمن کی آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں اور وہ گہری آہ بھر کر کہتے ہیں ا ب کراچی کراچی نہیں رہا۔