یوم یکجہتی سے زیادہ مضبوط خارجہ پالیسی ضروری ہے
ماضی کے رویوں اور پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کو نظر انداز کرنے کے متعدد واقعات کے بعد کشمیری خوف زدہ ہوگئے ہیں
کشمیر میں 1989 میں تحریک مزاحمت کا آغاز ہوا۔ اس دوران کئی بار پاک بھارت مذاکرات کی میز سجی، بڑے بڑے دعوے ہوئے، کئی اعلانات ہوئے، مگر کشمیریوں کو صرف تسلیاں ملیں۔ ہاں کچھ دکانداروں کا کاروبار خوب چمکا۔ بھارتی سرکار نے الیکشنز کشمیر ایشو پر اور پاکستان کو بدنام کرکے جیتے۔ آزاد کشمیر حکومت میں کئی خاندانوں نے اقتدار کے مزے لوٹے، پاکستانی حکمرانوں نے بھی قوم کو بھرپور انداز سے بے وقوف بنایا۔
نواز شریف نے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تو گارگل محاذ گرم ہوگیا۔ گارگل محاذ پر بھارت نے فلمیں بنائیں جبکہ پاکستان میں بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں، لیکن مسئلہ کشمیر حل نہ ہوسکا۔ وقت گزرا، نواز شریف جلاوطن ہوگئے، جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا، ابتدائی چند ماہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو خوب جِلا بخشی گئی۔ اسی دوران نائن الیون کا واقعہ ہوا اور کشمیر ایک بار پھر سرد خانوں کی نذر ہوگیا۔ بھارت نے جنرل (ر) مشرف کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر باڑ مکمل کرلی۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: گر پھیرن نہیں تو جان بھی نہیں
مشرف کی رخصتی کے بعد جمہوری حکومت آئی، آصف علی زرداری نے آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران مسئلہ کشمیر کا خوب ڈھنڈھورا پیٹا، انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد ہی حکومت پاکستان مکمل خاموش ہوگئی۔ نواز شریف کے اقتدار سنبھالتے ہی موہوم سی امید پیدا ہوئی لیکن اسلام آباد کے رنگ بدلتے ہی کشمیری مایوس ہوگئے۔
برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کے نوجوانوں کو ایک بار پھر بیدار کردیا۔ نوجوانوں نے اپنے بل بوتے پر ایسی جنگ لڑی کہ اقوام عالم کے سامنے بھارت کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کو حوصلہ پاکستانی میڈیا نے دیا۔ حکومت پاکستان تو اس بار بھی تیل کی دھار دیکھتی رہی۔ کشمیری نوجوانوں کے جوش و ولولے اور وادی میں نوجوانوں کی اس تحریک پر راقم نے ایکسپریس کےلیے متعدد مضامین بھی لکھے۔ اب ایک بار پھر مقبوضہ وادی میں ایک امید سی اٹھی ہے۔ اس امید کی وجہ سے اسلام آباد کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر مضبوط مؤقف ہے۔ حکومت پاکستان جس طرح ہر فورم پر کشمیریوں کی حمایت کےلیے آواز بلند کر رہی ہے، وہ لائق تحسین ہے۔ لیکن ماضی کے رویوں اور پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کو نظر انداز کرنے کے متعدد واقعات کے بعد کشمیری خوف زدہ ہوگئے ہیں، انہیں اندازہ نہیں کہ پاکستانی حکومت کب اپنے مؤقف سے پھر جائے۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: ہمیں بینر نہیں عمل چاہیئے!
کشمیریوں نے بھارتی تسلط کے خلاف 1989 میں تحریک مزاحمت شروع کی۔ جنوری 1989 سے 31 جنوری 2019 تک ان 30 سال کے دوران 95 ہزار 283 کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ اسی عرصے میں بھارتی عقوبت خانوں میں 7 ہزار 120 کشمیری شہید ہوئے۔ گزشتہ 30 سال کے دوران 1 لاکھ 45 ہزار 597 کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا۔ بھارتی فوج نے ایک لاکھ 9 ہزار 205 گھروں کو جلایا۔ مقبوضہ وادی میں 30 سال کے دوران 22 ہزار 898 خواتین بیوہ ہوئیں۔ گزشتہ 30 سال کے دوران ایک لاکھ 7 ہزار 756 کشمیری بچے یتیم ہوئے۔ قابض افواج نے 11 ہزار 111 خواتین کی عصمت دری کی۔
یہ اعداد و شمار کشمیر میڈیا سروس نے جاری کیے ہیں لیکن غیر جانبدار مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ دنیا کے کسی بھی علاقے میں اس سے بڑا انسانی المیہ رونما نہیں ہوا لیکن اقوام عالم نے اس انسانی المیے کی جانب توجہ نہیں دی۔ جنوری 1948 میں اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کےلیے رائے شماری کی تجویز دی، اس کےلیے قراردادیں بھی منظور ہوئیں لیکن بھارت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی وجہ، بھارت کی مارکیٹ ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک سوا ارب آبادی کے حامل بھارت سے تعلقات خراب نہیں کرے گا، دوسری سب سے اہم وجہ بھارت کی مضبوط خارجہ پالیسی اور مختلف عالمی فورمز پر بھارتی لابی کی موجودگی ہے۔ بھارت نے جہاں پاکستان کو جنگوں، ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی کی خلاف ورزی اور آبی جارحیت کے ذریعے نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے، وہیں نئی دہلی عالمی فورمز پر پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔
اس کے برعکس پاکستانی حکمرانوں نے ہمیشہ قوم کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہی کیا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں برہان وانی کی شہادت کے بعد حکومت پاکستان نے ممبران اسمبلی پر مشتمل خصوصی وفد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا، جن کے ذمے دنیا بھر میں دورے کرکے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا تھا۔ لیکن ان ممبران میں سے 90 فیصد اراکین اسمبلی مسئلہ کشمیر سے ہی ناواقف تھے۔ رہی سہی کسر اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب نے فلسطین کی تصویر کو کشمیر کے پیلٹ گن متاثرین کے نام سے یو این اجلاس میں دکھا کر پوری کردی۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: 2016ء کی کرنیں، کشمیری چناروں پر
اب حکومت پاکستان ایک نئے عزم کے ساتھ کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں موجود صحافیوں اور سیاسی و سماجی شخصیات سے رابطہ کیا، سبھی اس بات پر متفق تھے کہ مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی کشمیریوں کے مفاد میں ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے تحریک اپنے بل بوتے پر شروع کر رکھی ہے اور حکومت پاکستان کی ذرا سی غلطی جدوجہد آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کرتارپور بارڈر کھولنے کے فیصلے پر آنے والے عوامی ردعمل، معاشی بدحالی، دیگر مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کےلیے کشمیر کارڈ کا استعمال کر رہی ہے۔ اللہ کرے یہ سب افواہیں ہوں، یہ سب چہ مہ گوئیاں ہوں، سب جھوٹ ہو، ورنہ جھیل ڈل کے کنارے کھڑے ملاح، برف پوش پہاڑوں کے بکروال، پیلٹ گنوں کے سامنے سینہ سپر کشمیری نوجوان، ہاتھ میں پتھر اٹھائے آزادی کے نعرے بلند کرتی معصوم لڑکیاں مایوس ہو جائیں گی۔ ان کی آنکھوں میں سجے سپنے چکناچور ہوجائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کیا جائے، جس کے ایک اشارے پر اقوام عالم لبیک کہیں، جس کا اثر و رسوخ تمام بین الاقوامی فورمز پر ہو۔ کیوں کہ کشمیریوں کو یوم یک جہتی کی نہیں پاکستان کی مضبوط خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نواز شریف نے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تو گارگل محاذ گرم ہوگیا۔ گارگل محاذ پر بھارت نے فلمیں بنائیں جبکہ پاکستان میں بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں، لیکن مسئلہ کشمیر حل نہ ہوسکا۔ وقت گزرا، نواز شریف جلاوطن ہوگئے، جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا، ابتدائی چند ماہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو خوب جِلا بخشی گئی۔ اسی دوران نائن الیون کا واقعہ ہوا اور کشمیر ایک بار پھر سرد خانوں کی نذر ہوگیا۔ بھارت نے جنرل (ر) مشرف کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر باڑ مکمل کرلی۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: گر پھیرن نہیں تو جان بھی نہیں
مشرف کی رخصتی کے بعد جمہوری حکومت آئی، آصف علی زرداری نے آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران مسئلہ کشمیر کا خوب ڈھنڈھورا پیٹا، انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد ہی حکومت پاکستان مکمل خاموش ہوگئی۔ نواز شریف کے اقتدار سنبھالتے ہی موہوم سی امید پیدا ہوئی لیکن اسلام آباد کے رنگ بدلتے ہی کشمیری مایوس ہوگئے۔
برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کے نوجوانوں کو ایک بار پھر بیدار کردیا۔ نوجوانوں نے اپنے بل بوتے پر ایسی جنگ لڑی کہ اقوام عالم کے سامنے بھارت کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کو حوصلہ پاکستانی میڈیا نے دیا۔ حکومت پاکستان تو اس بار بھی تیل کی دھار دیکھتی رہی۔ کشمیری نوجوانوں کے جوش و ولولے اور وادی میں نوجوانوں کی اس تحریک پر راقم نے ایکسپریس کےلیے متعدد مضامین بھی لکھے۔ اب ایک بار پھر مقبوضہ وادی میں ایک امید سی اٹھی ہے۔ اس امید کی وجہ سے اسلام آباد کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر مضبوط مؤقف ہے۔ حکومت پاکستان جس طرح ہر فورم پر کشمیریوں کی حمایت کےلیے آواز بلند کر رہی ہے، وہ لائق تحسین ہے۔ لیکن ماضی کے رویوں اور پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کو نظر انداز کرنے کے متعدد واقعات کے بعد کشمیری خوف زدہ ہوگئے ہیں، انہیں اندازہ نہیں کہ پاکستانی حکومت کب اپنے مؤقف سے پھر جائے۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: ہمیں بینر نہیں عمل چاہیئے!
کشمیریوں نے بھارتی تسلط کے خلاف 1989 میں تحریک مزاحمت شروع کی۔ جنوری 1989 سے 31 جنوری 2019 تک ان 30 سال کے دوران 95 ہزار 283 کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ اسی عرصے میں بھارتی عقوبت خانوں میں 7 ہزار 120 کشمیری شہید ہوئے۔ گزشتہ 30 سال کے دوران 1 لاکھ 45 ہزار 597 کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا۔ بھارتی فوج نے ایک لاکھ 9 ہزار 205 گھروں کو جلایا۔ مقبوضہ وادی میں 30 سال کے دوران 22 ہزار 898 خواتین بیوہ ہوئیں۔ گزشتہ 30 سال کے دوران ایک لاکھ 7 ہزار 756 کشمیری بچے یتیم ہوئے۔ قابض افواج نے 11 ہزار 111 خواتین کی عصمت دری کی۔
یہ اعداد و شمار کشمیر میڈیا سروس نے جاری کیے ہیں لیکن غیر جانبدار مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ دنیا کے کسی بھی علاقے میں اس سے بڑا انسانی المیہ رونما نہیں ہوا لیکن اقوام عالم نے اس انسانی المیے کی جانب توجہ نہیں دی۔ جنوری 1948 میں اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کےلیے رائے شماری کی تجویز دی، اس کےلیے قراردادیں بھی منظور ہوئیں لیکن بھارت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی وجہ، بھارت کی مارکیٹ ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک سوا ارب آبادی کے حامل بھارت سے تعلقات خراب نہیں کرے گا، دوسری سب سے اہم وجہ بھارت کی مضبوط خارجہ پالیسی اور مختلف عالمی فورمز پر بھارتی لابی کی موجودگی ہے۔ بھارت نے جہاں پاکستان کو جنگوں، ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی کی خلاف ورزی اور آبی جارحیت کے ذریعے نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے، وہیں نئی دہلی عالمی فورمز پر پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔
اس کے برعکس پاکستانی حکمرانوں نے ہمیشہ قوم کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہی کیا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں برہان وانی کی شہادت کے بعد حکومت پاکستان نے ممبران اسمبلی پر مشتمل خصوصی وفد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا، جن کے ذمے دنیا بھر میں دورے کرکے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا تھا۔ لیکن ان ممبران میں سے 90 فیصد اراکین اسمبلی مسئلہ کشمیر سے ہی ناواقف تھے۔ رہی سہی کسر اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب نے فلسطین کی تصویر کو کشمیر کے پیلٹ گن متاثرین کے نام سے یو این اجلاس میں دکھا کر پوری کردی۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: 2016ء کی کرنیں، کشمیری چناروں پر
اب حکومت پاکستان ایک نئے عزم کے ساتھ کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں موجود صحافیوں اور سیاسی و سماجی شخصیات سے رابطہ کیا، سبھی اس بات پر متفق تھے کہ مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی کشمیریوں کے مفاد میں ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے تحریک اپنے بل بوتے پر شروع کر رکھی ہے اور حکومت پاکستان کی ذرا سی غلطی جدوجہد آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کرتارپور بارڈر کھولنے کے فیصلے پر آنے والے عوامی ردعمل، معاشی بدحالی، دیگر مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کےلیے کشمیر کارڈ کا استعمال کر رہی ہے۔ اللہ کرے یہ سب افواہیں ہوں، یہ سب چہ مہ گوئیاں ہوں، سب جھوٹ ہو، ورنہ جھیل ڈل کے کنارے کھڑے ملاح، برف پوش پہاڑوں کے بکروال، پیلٹ گنوں کے سامنے سینہ سپر کشمیری نوجوان، ہاتھ میں پتھر اٹھائے آزادی کے نعرے بلند کرتی معصوم لڑکیاں مایوس ہو جائیں گی۔ ان کی آنکھوں میں سجے سپنے چکناچور ہوجائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کیا جائے، جس کے ایک اشارے پر اقوام عالم لبیک کہیں، جس کا اثر و رسوخ تمام بین الاقوامی فورمز پر ہو۔ کیوں کہ کشمیریوں کو یوم یک جہتی کی نہیں پاکستان کی مضبوط خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔