ٹرمپ کا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا اظہار
طالبان افغان حکومت سے کسی طور بھی مذاکرات کے لیے آمادہ نظر نہیں آ رہے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ افغان طالبان امن چاہتے ہیں اور ہم بھی نا ختم ہونے والی جنگ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اتوار کو ایک انٹرویو میں افغان جنگ میں جان ومال کی صور ت میں بھاری قیمت ادا کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہم دیکھیں گے طالبان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، وہ امن چاہتے ہیں، وہ تھک چکے ہیں بلکہ ہرکوئی تھک چکا ہے۔ ٹرمپ نے کہا افغانستان میں ہماری انٹیلی جنس رہے گی اور اگر کوئی مسئلہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے، ہم اس وقت اپنے فوجیوںکو گھروں کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ شام کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا کہ دوہزار امریکی فوجی وہا ں سے جلد ہی نکال لیے جائیں گے تاہم اسرائیل کے تحفظ اور مقاصدکو سامنے رکھا جائے گا، دوسرا عراق میں اپنے اڈے ختم نہیں کریں گے کیونکہ ہم ایران پر نگرانی قائم رکھنا چاہتے ہیں اور پھر یہاں سے ہماری پورے مشرق وسطٰی پر نظر رہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ داعش نے جس خلافت کا دعویٰ کیا تھا اس پر مکمل طور پر قابو پا لیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان باتوں سے صورت حال واضح ہو گئی ہے کہ امریکا اب تھک چکا اور وہ بہرصورت افغانستان کی جنگ سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے' طالبان سے مذاکرات کا آغاز بھی اسی جانب ایک قدم ہے کہ امریکا اپنی فوجوں کا افغانستان میں مزید قیام نہیں چاہتا۔ تجزیہ نگار ماضی کے تجربات اور موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ابھی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں لیکن امریکا اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے کیا نتائج نکلتے ہیں اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کیا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے ابھی اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے لیے کیا شیڈول اور ٹائم لائن طے کرتا ہے اور خانہ جنگی کے شکار اس ملک کو کس حالت میں چھوڑنے اور اقتدار کس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
چند روز قبل قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے چھ روزہ مذاکرات میں 17سال سے افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کے ایک ڈرافٹ پر اتفاق ہوا تھا جس میں یہ طے کیا گیا کہ غیرملکی فوجیں 18ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی' طالبان افغانستان کی سرزمین القاعدہ یا داعش کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات پر حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پہلی بار ان مذاکرات میں افغانستان کے مسئلے کے حل کے بارے میں اہم پیشرفت ہوئی جو اس امر کی عکاس ہے کہ امریکا دبے لفظوں میں اپنی شکست تسلیم کر چکا اور وہ اس نا ختم ہونے والی اور تھکا دینے والی جنگ سے اُکتا چکا ہے۔ امریکا کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف مزید دس سال بھی لڑتا رہا تو اس کا اس کے حق میں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا اور بالآخر اسے طالبان سے مذاکرات ہی کرنا پڑیں گے' جو فیصلہ اس نے آج سے دس سال بعد بھاری جانی و مالی نقصان اٹھا کر کرنا ہے کیوں نہ آج ہی اس پر عملدرآمد کر لیا جائے۔
امریکا نے نہ صرف افغانستان بلکہ شام سے بھی نکلنے کا اعلان کیا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اب امریکا کسی جنگ میں شریک ہو کر مزید جانی و مالی نقصان اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت اور افغانستان کا مستقبل کیا ہو گا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے سب سے زیادہ پریشان موجودہ افغان صدر اشرف غنی نظر آتے ہیں۔ رواں برس جولائی میں ہونے والی صدارتی انتخابات پر سب کی نظریں ہیں' اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا طالبان کابل کی انتظامیہ کے ساتھ اختیار میں شراکت داری کے لیے آمادہ ہو جائیں گے، اب تک طالبان افغان حکومت سے کسی طور بھی مذاکرات کے لیے آمادہ نظر نہیں آ رہے۔
اگر فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پا جاتا ہے تو افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے کیا لائحہ عمل بروئے کار لایا جائے گا،یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کے بارے میں اشرف غنی حکومت پریشان ہے۔ اب تک طالبان کے رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر صورت امریکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں کیونکہ اگر افغان آرمی تحلیل کر دی جاتی ہے تو موجودہ افغان حکومت طالبان کا مقابلہ کرنے کی کسی طور سکت نہیں رکھتی۔ ایسی صورت میں طالبان ایک طاقتور فریق کے طور پر سامنے آ جائیں گے اور اقتدار میں بھی وہ سب سے زیادہ بااختیار ہوں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان باتوں سے صورت حال واضح ہو گئی ہے کہ امریکا اب تھک چکا اور وہ بہرصورت افغانستان کی جنگ سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے' طالبان سے مذاکرات کا آغاز بھی اسی جانب ایک قدم ہے کہ امریکا اپنی فوجوں کا افغانستان میں مزید قیام نہیں چاہتا۔ تجزیہ نگار ماضی کے تجربات اور موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ابھی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں لیکن امریکا اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے کیا نتائج نکلتے ہیں اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کیا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے ابھی اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے لیے کیا شیڈول اور ٹائم لائن طے کرتا ہے اور خانہ جنگی کے شکار اس ملک کو کس حالت میں چھوڑنے اور اقتدار کس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
چند روز قبل قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے چھ روزہ مذاکرات میں 17سال سے افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کے ایک ڈرافٹ پر اتفاق ہوا تھا جس میں یہ طے کیا گیا کہ غیرملکی فوجیں 18ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی' طالبان افغانستان کی سرزمین القاعدہ یا داعش کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات پر حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پہلی بار ان مذاکرات میں افغانستان کے مسئلے کے حل کے بارے میں اہم پیشرفت ہوئی جو اس امر کی عکاس ہے کہ امریکا دبے لفظوں میں اپنی شکست تسلیم کر چکا اور وہ اس نا ختم ہونے والی اور تھکا دینے والی جنگ سے اُکتا چکا ہے۔ امریکا کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف مزید دس سال بھی لڑتا رہا تو اس کا اس کے حق میں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا اور بالآخر اسے طالبان سے مذاکرات ہی کرنا پڑیں گے' جو فیصلہ اس نے آج سے دس سال بعد بھاری جانی و مالی نقصان اٹھا کر کرنا ہے کیوں نہ آج ہی اس پر عملدرآمد کر لیا جائے۔
امریکا نے نہ صرف افغانستان بلکہ شام سے بھی نکلنے کا اعلان کیا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اب امریکا کسی جنگ میں شریک ہو کر مزید جانی و مالی نقصان اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت اور افغانستان کا مستقبل کیا ہو گا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے سب سے زیادہ پریشان موجودہ افغان صدر اشرف غنی نظر آتے ہیں۔ رواں برس جولائی میں ہونے والی صدارتی انتخابات پر سب کی نظریں ہیں' اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا طالبان کابل کی انتظامیہ کے ساتھ اختیار میں شراکت داری کے لیے آمادہ ہو جائیں گے، اب تک طالبان افغان حکومت سے کسی طور بھی مذاکرات کے لیے آمادہ نظر نہیں آ رہے۔
اگر فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پا جاتا ہے تو افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے کیا لائحہ عمل بروئے کار لایا جائے گا،یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کے بارے میں اشرف غنی حکومت پریشان ہے۔ اب تک طالبان کے رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر صورت امریکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں کیونکہ اگر افغان آرمی تحلیل کر دی جاتی ہے تو موجودہ افغان حکومت طالبان کا مقابلہ کرنے کی کسی طور سکت نہیں رکھتی۔ ایسی صورت میں طالبان ایک طاقتور فریق کے طور پر سامنے آ جائیں گے اور اقتدار میں بھی وہ سب سے زیادہ بااختیار ہوں گے۔