اپنا احتساب بھی کیجیے
اس میں شک نہیں کہ عمران خان ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔
ملک میں حال ہی میں کیے گئے گیلپ سروے کے مطابق پچاس سال سے کم عمرکے پاکستانیوں نے عمران خان کی بحیثیت وزیر اعظم کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جب کہ پچاس سال سے زائد عمر کے لوگوں نے ان کی کارکردگی کے سوال پر خاموشی اختیارکی ہے۔
دراصل سنجیدگی اور بزرگی کی عمر پچاس سال کے بعد ہی شروع ہوتی ہے اور اسی لیے صرف ہمارے ہی نہیں ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے مشوروں و تجزیات کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے چنانچہ وزیر اعظم کی کارکردگی کے سوال پر ایسے لوگوں کی خاموشی کی وجہ ہوسکتا ہے ان کی یو ٹرن پالیسی رہی ہو۔ اس سروے سے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت نوجوان طبقے کی پسند ہے اور نوجوان ہی اسے چلا رہے ہیں۔
حالیہ الیکشن میں ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ کرشمہ رونما ہوا ہے کہ دس فیصد صاحب ثروت طبقہ جو ہمیشہ ہی اقتدار سے چمٹا ہوتا تھا اس سے ہٹ کر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے عوامی ووٹوں کے ذریعے کاروبار حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔
پھر اس دفعہ یہ بھی ہوا ہے کہ حکومت میں ایسے افرادکی اکثریت ہے جنھیں حکومتی امور چلانے کا کوئی تجربہ حاصل نہیں ہے، شاید اسی وجہ سے اس وقت حکومتی کاموں میں روانی نظر نہیں آرہی ہے تاہم پھر بھی ہر حکومت کی طرح اس حکومت کو بھی اپنی مقررہ پانچ سال کی مدت پوری کرنے کا حق حاصل ہے مگر حکومت سے باہر بیٹھے پرانے روایتی سیاستدان بہ بانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ حکومت ایک سال بھی پورا کر لے تو بڑی بات ہے۔
یہ اعلان خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں تاہم اگر پرانے سیاستدان یہ بات کہہ رہے ہیں تو وہ اپنے تجربے اور حکومت کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر ہی کہہ رہے ہوں گے چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا کرے اور اپنی کارکردگی کا خود احتساب کرے تاکہ اس کی خامیوں کی نشاندہی ہوسکے اور پھر ان کی اصلاح کے لیے کام کرسکے۔
عمران خان سیاسی میدان میں کئی نشیب و فراز سے گزرے ہیں ،کبھی پرویز مشرف کا دم بھرتے رہے توکبھی ان سے اختلاف کرتے رہے ،کبھی طالبان کا دم بھرتے رہے توکبھی ان سے بھی اختلاف کرتے رہے۔ ایک یہودی لڑکی سے شادی کی مگر اسرائیل کے وجود کے خلاف رہے۔ عمران خان کو عوامی انقلابی حمایت 2008 میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی کی کمزور حکومت سے ملنا شروع ہوئی ۔
اس حکومت نے سیاست میں مصلحت آمیزی کی ایسی انوکھی روایت قائم کی کہ جمہوریت ایک تماشا بن کر رہ گئی۔ اس کے بعد 2013 میں بننے والی میاں صاحب کی اسٹیبلشمنٹ غیر موافق حکومت ملک میں اپنے پیر نہ جما سکی۔ میاں صاحب کی حکومت بے شک معاشی محاذ پرکامیاب تھی مگر بیرونی محاذ پرکوئی کارکردگی نہ دکھا سکی ، امریکا جیسے بڑے ملک سے تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ چونکہ میاں صاحب نے وزیر خارجہ کا عہدہ خود اپنے پاس رکھ لیا تھا اور وہ اندرونی مسائل میں ایسے گھرے کہ ملک خارجی طور پر لاوارث ہوکر رہ گیا۔
ان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز اس اہم وزارت کی ذمے داریوں کو نہ نبھا سکے۔ ان کے بارے میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے درست ہی کہا تھا کہ وہ اتنے بوڑھے ہوچکے ہیں کہ خارجہ امورکو چلانا ان کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ میاں صاحب اس وقت تک تبدیلی کی زد میں آچکے تھے اور اس تبدیلی نے انھیں پاناما کیس میں جکڑ دیا پھر عمران خان نے کنٹینر پر چڑھ کر طوفان برپا کردیا۔ عمران خان نے الیکشن میں کامیابی ضرور حاصل کرلی ہے مگر ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انھیں نادیدہ قوتوں نے جتایا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے بارے میں اس وقت عام تاثر یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کی جانب توجہ دینے کے بجائے چندہ اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے یا پھر سابقہ حکومت کی غلطیوں کو اجاگر کرکے عوام کو اپنے بارے میں مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ عوام اس طرح مطمئن نہیں ہوسکتے وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف الیکشن جیتنے کے لیے عوام سے ڈھیر سارے وعدے کرچکی ہے ۔ اب عوام ان وعدوں کے وفا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانوں کا وعدہ موجودہ ملکی حالات میں مشکل اہداف ہیں۔ کیا خان صاحب انھیں حاصل کرلیں گے اور اگر حاصل نہ کرسکے تو پھر آج جس طرح روٹی کپڑا مکان کا طنز پیپلز پارٹی کے لیے عذاب جاں بن چکا ہے ویسا ہی حال پی ٹی آئی کا بھی ہوسکتا ہے۔
انتخابی نعرے یقینا دلفریب رکھے جاتے ہیں تاکہ عوام ان کی وجہ سے پارٹی کی جانب متوجہ ہوں اور جیت یقینی ہوجائے جیساکہ بھارت میں مودی کے ساتھ ہوا ۔ انھوں نے الیکشن جیتنے کے لیے عوام کو ایسے ایسے سبز باغ دکھائے کہ ان کی چمک سے متاثر ہوکر عوام نے انھیں کامیاب کرا دیا مگر اب مودی کا حال برا ہے کیونکہ وہ اپنے ایک بھی وعدے کو پورا نہیں کر پائے ۔ عوام کی مایوسی کے اسی ماحول میں اب اسی سال وہاں عام انتخابات ہونے والے ہیں اب نئے الیکشن میں عوام ان کے نئے وعدوں پر کیوں کر اعتبار کریں گے۔
رام مندرکا شوشہ پہلے ہی بے جان ہوچکا ہے۔ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا پہلے ہی دعویٰ کرکے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرچکے ہیں مگر پاکستان کیا وہاں کی حزب اختلاف کی پارٹیوں نے بھی اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا ہے۔ چنانچہ اب ان کے پاس پاکستان پر حملہ کرنے کا آپشن ضرور باقی ہے اور وہ ایسا بھی کرسکتے ہیں کیونکہ ایک مذہبی جنونی انسان ہیں اور پاکستان دشمنی اور اپنی کامیابی کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ عمران خان کو ملکی دفاع کے معاملے پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عمران خان ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں مگر ملک میں گالم گلوچ اور دھمکیوں کا جو نیا کلچر ان کے بعض وزراء پروان چڑھا رہے ہیں، اس سے ملک کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔ ادھر حزب اختلاف کے رہنماؤں کوکھلے عام چور ڈاکو کا خطاب دینے کی وجہ سے ان کے رویے میں بھی سختی دیکھی جا رہی ہے اور اس سے باہر کی دنیا میں ملک کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے درمیان ہنگامہ آرائی کی وجہ سے قانون سازی کا کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے مانا کہ سابقہ حکمران خراب تھے مگر اب جب کہ نیب نے انھیں جکڑ لیا ہے اور ان پر مقدمات قائم ہوچکے ہیں۔
کچھ جیل جا چکے ہیں اور کچھ جانے والے ہیں تو پھر اب انھیں مزید ذلیل وخوار کرنے سے حکومت کی اپنی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔اس وقت حکومتی ارکان اور وزرا کا یہ حال ہے کہ جو جتنا زیادہ حزب اختلاف کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے وہ خود کو اتنا ہی زیادہ کامیاب خیال کرتا ہے۔ وزرا کے اس خطرناک رویے کو عمران خان کو فوراً روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ عمران خان نے خود اپنے وزیروں کو اس کام پر مامور کردیا ہے تاکہ اپوزیشن حکومتی دباؤ میں آکر عوامی مسائل کو اجاگر نہ کرسکے۔ خدارا ملک کو ایک نئے بحران کی جانب نہ دھکیلیے ورنہ جمہوریت پھر ڈی ریل ہوسکتی ہے اور اسے پھر دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے برسوں بھی لگ سکتے ہیں۔