تماشا جو نہیں ہوا
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں<br />
کہ اکبر نام لیتا ہے...
مقابلہ بڑا سخت تھا۔ ایک طرف دو لاکھ روپے نقد سکہ رائج الوقت کا پہاڑ تھا تو دوسری طرف ہمارے نحیف و نزار، دائم بیمار اور خوار و زار ''ضمیر'' کی چیونٹی تھی۔ گویا پدی بمقابلہ باز اور ممولا ورسز شہباز والا معاملہ تھا۔ چلیے بات کو بقول چشم گل چشم عرف قہر خداوندی اس کی ''جڑ'' سے شروع کرتے ہیں اور یہ جڑ ایک ٹیلی فون کال تھی۔ پوچھا کون؟ جواب ملا ،''محکمہ اطلاعات سے بول رہا ہوں''۔
ہمارے ہاتھ لرز کر رہ گئے۔ اس محکمے کے ساتھ تو آج کل ہمارا 36 کا آکڑہ چل رہا تھا، دل میں خیر خیر کا ورد کرتے ہوئے پوچھا، جی حکم؟ حکم صادر ہوا کہ نشتر ہال میں ایک تقریب ہے جس میں ہمیں شریک ہونا ہے۔ پوچھا، کیسی تقریب؟ کم از کم ہمارے لیے تو یہ تقریب کسی صورت بھی ''سعید'' نہیں ہو سکتی تھی کیوں کہ حکومت کے پی کے (خیر پہ خیر) اور اس کے لاڈلے محکمے اطلاعات میں ہماری حیثیت ایک قلمی دہشت گرد کے طور پر متعین ہو چکی تھی کیوں کہ
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
لیکن جواب میں جو کچھ کہا گیا وہ ہاتھ پیر پُھلا دینے والا تھا،ہوش گم کر دینے والا تھا' تقریب کچھ زیادہ ہی سعید تھی یعنی کچھ سینئر صحافیوں کو ان کی خدمات کے صلے میں یا آیندہ خدمات کے لیے پیشگی میں ''نقد انعامات'' دینے کا سلسلہ تھا۔یہ ہمارے لیے بالکل نئی بات تھی اور اس لیے ناقابل یقین بھی تھی بہر حال اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اور برائے نام لعاب سے اپنا ریگستانی حلق تر کرتے ہوئے پوچھا،''ہمارا کتنا ہے ...؟ اور جو جواب ملا اس نے ہماری حالت غالب کی سی کر دی،
اسد خوشی سے میرے ہاتھ پائوں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں ''داب'' تو دے
ذرا تصور تو کیجیے جس نے کبھی ہاتھ لگانا تو کیا قریب ہونے کی بھی اجازت نہ دی ہو اور دور ہی دور سے ''دُر فٹے منہ'' کا سلسلہ رکھا ہو، وہ کہے کہ ذرا میرے ہاتھ پیر داب دو تو کیا کیفیت ہو سکتی ہے۔ سارے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اور یوں لگا جیسے منہ میں ایک ساتھ آٹھ دس نارنگیاں نچوڑ دی گئی ہوں۔ دو لاکھ روپے نقد۔
کلکتہ کا جو نام لیا تو نے ہم نشین
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
یہاں وہاں نظر کی تو بے شمار خواہشیں اپنے پنجوں پر کھڑی ہو ہو کر ہاتھ ہلا رہی تھیں جن میں وہ خواہشیں بھی تھیں جن پر کئی کئی بار ہمارا دم نکلا تھا۔ ان میں ایسی خواہشیں بھی کم نہ تھیں جو اس بچے کی طرح تھیں جسے دودھ بھی نہ ملے اور وہ بھوک سے جاں بہ لب ہو کر رونے کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو۔ اپنی ساری یتیم و یسیر غمگین و مسکین اور بے آسرا بے چاری خواہشوں پر ایک نظر ڈال کر اور دو لاکھ کے پورے چھ ہندسے تصور میں لا کر ہمارا دل گارڈن گارڈن ہو گیا،
راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے
ہم تو جاتے ہیں ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں... لیکن اچانک ہی چیں چیں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، دیکھا تو وہی ناہنجار نابکار خدائی خوار ''ضمیر'' تھا جو ہر ایسے موقع پر نہ جانے کہاں سے پیروں میں آ کر چیں چیں کرنے لگتا ہے۔ دو لاکھ نقد سکہ رائج الوقت نصف جس کے ایک لاکھ سکہ رائج الوقت ہوتے ہیں کے ''شاک'' کے بعد یہ ناہنجار ضمیر اب آفٹر شاک پر آفٹر شاک دیئے جا رہا تھا۔ اس نے ہمارا دامن پکڑ لیا جو پورے ایک سو چھیدوں سے مزین تھا اور بولا،
ہم تک کب اس کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
بظاہر تو مقابلہ صاف تھا۔ دو لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے آگے یہ پدی کیا اور اس کا شوربا کیا؟ لیکن پھر اچانک کچھ ہوا ،کیسے ہوا کیوں ہوا، اس کا پتہ نہیں لیکن شاید ویسا ہی ہوا جیسا کہ حضرت شیخ سعدی نے ایک بلی کے بارے میں بتایا تھا کہ جب اسے بھیڑیئے نے پکڑ لیا اور اس کا تیاپانچہ کرنے والا تھا، بلی بھی سمجھ گئی کہ اب گئی تو اس نے اچانک جھپٹا مارا کہ مرنا تو ویسے بھی ہے تو کیوں نہ کچھ کر کے مروں اور اپنے پنجے سے بھیڑیئے کی آنکھ نکال لی، بلی چھوٹ گئی اور بھیڑیا اپنی آنکھ بلکہ جہاں پہلے آنکھ ہوتی تھی اس جگہ اپنا پنجہ رکھے جنگل کی طرف بھاگ گیا۔
تو دانی کہ چوں گربہ عاجز شود
برآرد بہ چنگال چشم پلنگ
ہمارے ضمیر کی چیونٹی نے بھی شاید کہیں شیخ سعدی کو پڑھا تھا۔ سیدھی ہاتھی کی سونڈ پر چڑھی اور نازک مقام پر کاٹ ڈالا۔ پھر ہم نے جو دیکھا تو دو لکھیا ہاتھی کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ اور ضمیر کی چیونٹی کھڑی اپنی چھوٹی چھوٹی مونچھوں کو تاؤ دے رہی تھی،
اس گزر گاہ سے پہنچے تو کہیں منزل تک
جو بھی گزرے گی گزاریں گے گزرنے والے
طلسم ٹوٹ گیا تو ہماری کھوپڑی نے بھی کام شروع کیا۔ سینئر صحافیوں کو ان کی ''خدمات'' کے عوض نقد انعامات ؟ لیکن ہم نے یہ ''خدمات'' کب انجام دی تھیں، اگر اس لائق ہوتے اور خدمت کا جذبہ ہمارے اندر بھی کچھ صحافیوں اور لیڈروں کی طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا تو آج ہم ''مخدوم'' نہ ہوتے؟ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہر کہ خدمت کرد ا و مخدوم شد۔ خدمات گذشتہ تو ہمارے پاس کچھ بھی نہ تھیں اور ''خدمات آیندہ'' کی توقع ہم سے بھی رکھی نہیں جا سکتی تھی کیوں کہ بقول ایک مخدوم شدہ خادم کے ہم سٹھیا چکے ہیں اور اناپ شناب بک رہے ہیں۔
خدمات ہی تو ہم سے نہ ہو سکی تھیں ورنہ شہر میں ریورٹوں کی طرح بٹنے والے پلاٹوں میں کوئی ماڑا مٹھا پلاٹ ہمیں بھی ملتا۔ لیکن وہاں تو ہمارا نام ہی صحافت میں نہیں تھا۔ نہ سینئر نہ جونیئر۔ لیکن السائل و المحروم ہی رہ گئے۔ اور اب سینئر بھی، خدمات بھی اور کیش بھی ... دال میں یا تو کچھ کالا تھا یا کالے ہی میں کچھ دال تھی۔ ممکن ہے محکمہ اطلاعات میں کوئی پڑھا لکھا بھی ہو اور اس نے فارسی کا یہ مقولہ پڑھ لیا ہو کہ دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ ... شاید کہیں وہ ترکیب سن لی ہو جو مرغ کو اذان دینے سے روکنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور پھر مسئلہ ایک اور بھی ہے، ہم نے جنرل مشرف کے ستارہ امتیاز کو ٹھکرایا تھا تو کیا موجودہ حکومتیں اس حکومت سے کچھ کم ہیں۔ اس میں تو ایک ہی آمر تھا اور اس ''جمہوری دور'' میں جگہ جگہ آمریتیں قائم ہیں۔
اگر وہ حکومت کرپٹ تھی تو یہ تو مہا کرپٹ ہیں وہ تو چوری کرتے سمے چہرے کو پلو کی آڑ میں رکھتے تھے اور یہاں دھڑلے سے مونچھوں کو تاؤ دے دے کر چوری اور اس کے ساتھ سینہ زوری چل رہی ہے۔ بیٹوں نے کفن چور باپ کو بخشوا لیا ہے۔ اتنی بے دردی سے تو کوئی مفتوحہ دشمن ملک کو بھی نہیں لوٹتا جتنا یہ اپنے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ بلکہ ہمارے نزدیک تو اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ ایک ''مالیاتی گینگ وار'' چل رہی ہے اور مختلف قسم کے گینگ اور دادا لوگ لوٹ مار کر رہے ہیں۔ لیکن اصل خبر تو ابھی باقی ہے۔ کل صبح پتہ چلا کہ ''تقسیم لقمہ جات'' کی یہ تقریب ہی ملتوی ہو گئی کیوں کہ منہ زیادہ اور نوالے کم پڑ رہے تھے۔ ان مونہوں کو خبر ہو گئی جن کو خود اسی حکومت نے خون لگایا ہے۔