نشانِ سقراط

ہم نے حسن ناصر اور نذیر عباسی کے لیے دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ...

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

آپ پاکستانی چینلوں پر کوئی پروگرام دیکھ رہے ہوں، بار بار تسلسل کے ساتھ کراچی کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والوں اور زخمی ہونے والوں کی پٹیاں چلتی دِکھائی دیتی ہیں۔کہیں ڈون حملے کی خبریں ہوتی ہیں اور کہیںفرقہ واریت کی اطلاعات۔ روز روز کی اس قتل و غارت گری کو دیکھ کر ہم اب اِتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ یہ خونریزی نہ ہمیں رنجیدہ کرتی ہے نہ ہمیں کسی احتجاج، کسی مزاحمت کی ترغیب فراہم کرتی ہے۔ اسے معمول کی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔

ہر روز کی طرح میں ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ 14 اگست کو دیے جانے والے سول ایوارڈ کی پٹیاں چلنے لگیں جن کے مطابق اس سال زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی 192 شخصیات کو ان کی قومی خدمات کے اعتراف میں مختلف ایوارڈ دیے گئے۔ اچانک میرے ذہن میں آیا کہ ان ایوارڈ یافتہ لوگوں کی فہرست میں وہ قابلِ فخر لوگ کیوں شامل نہیں جنھوں نے اس ملک کے غریب اور مفلوک الحال 18 کروڑ انسانوں کی تقدیر بدلنے کی جدوجہد میں زندگی کا دو تہائی حصّہ گزار دیا، بڑی قربانیاں دیں، آسودہ اور خوش حال زندگی گزارنے کے ہر موقعے کو ٹھکرا دیا اور فکر و فاقہ کی زندگی کو ترجیح دی۔شاید دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن پاکستان میں کچھ زیاد ہ ہی ہوتا ہے۔

اس سوال کا جواب یہ تھا کہ جو لوگ اس استحصالی نظام کے کسٹوڈین ہیں، وہ بھلا ان لوگوں کو کیسے ایوارڈ دے سکتے ہیں جو اس نظام کے باغی ہیں۔یہ سیدھی اور سچی بات ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں انھیں ہی نوازا جاتا ہے جو نوازنے والوں کے قریب ہوتے ہیں۔ ہم ملک کی اور سیاسی جماعتوں سے تو یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ اس کرپٹ نظام کے باغیوں کی قربانیوں کا اعتراف کر کے انھیں کوئی ایوارڈ دیں گی لیکن پیپلز پارٹی کا پہلے دن سے یہ نعرہ رہا ہے کہ وہ اس فرسودہ استحصالی نظام کو ختم کر کے مزدور کسان نظام رائج کرے گی لیکن پیپلز پارٹی کے ساڑھے چار سالہ دور میں اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور بڑی قربانیاں دینے والوں کے نام میں نے ایوارڈ پانے والوں کی فہرست میں نہیں دیکھے۔

آج جب میں 2012 کے سول ایوارڈ پانے والوں کی لمبی چوڑی فہرست دیکھ رہا تھا تو میرے ذہن میں وہ بے شمار چہرے گھومنے لگے جن میں سے بہت سوں کو اور ان کی بے مثال قربانیوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جن میں سے بہت سارے اب اس دنیا میں نہ رہے اور جو ہیں وہ اب بھی اس نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔

ذہن کے پردے پر ٹمٹماتے ان ستاروں کی جھرمٹ میں جو دو نام میرے ذہن کے پردے پر چاند کی طرح طلوع ہوئے، ان میں ایک نام حسن ناصر شہید کا تھا، دوسرا نذیر عباسی شہید کا۔ میں سوچتا رہا کہ حسن ناصر اور نذیر عباسی کس ایوارڈ کے مستحق ہیں؟ بڑی دیر تک سوچنے کے بعد میرے ذہن کے پردے پر ایک نام ابھرا ''سقراط''، میں اچھل پڑا۔ میں نے اپنے ذہن کو مبارک باد بھی دی اور فخر بھی کیا کہ اس نے ایک ایسا نام تجویز کیا جو بلاتخصیص مذہب و ملت ہر ایک کے لیے قابل احترام ہے۔ وہ نام جس کی حرمت، جس کی قربانی کے احترام میں افلاطون نے ساری دنیا کی طرف سے وہ معذرت نامہ ''اپالوجی'' لکھا جو سقراط کی قربانی سقراط کے سچ کا ایسا اعتراف ہے جس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ میں نے حسن ناصر اور نذیر عباسی کے لیے ''سقراط ایوارڈ'' تجویز کیا جو میرے خیال میں دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔


نذیر عباسی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا ہمیں زیادہ موقع نہیں ملا لیکن حسن ناصر سے ہم ملتے رہے، اس کا راستہ یوں نکلا کہ پاکستان آنے کے بعد ہم جس پہلی کچی آبادی میں فروکش ہوئے اس میں ہمارے ''محل'' کے ساتھ ہمارے دو دوستوں محمد زبیر اور رزاق میکش کا ایک کمرے کا محل تھا۔ اس محل میں حیدرآباد دکن کے جاگیردار گھرانے کا لاڈلہ حسن ناصر آیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ محمد زبیر اور رزاق میکش حسن ناصر کے ٹریڈ یونین کے ساتھی تھے۔ حسن ناصر سے یہ ملاقاتیں بیدر کے ایک زمیندار باپ کے بیٹے کے ذہن کو تبدیل کرنے کا باعث بنیں۔

پاکستان میں عوامی زندگی میں انقلاب لانے کی جدوجہد کرنے والوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔سب کے نام گنوانا بہت مشکل ہے لیکن یہ بات سچ ہے کہ ان میں بہت سارے بہادر ایسے تھے جو سچ مچ پیٹ سے پتھر باندھنے پر مجبور ہو گئے تھے لیکن انھوں نے ان مصیبتوں سے گھبرا کر اپنا مشن نہیں چھوڑااور نہ ہی کسی لالچ اور دھونس کا شکار ہوئے وہ لوگ اپنے راستے پر پوری دل جمعی سے کاربند رہے ہیں۔ ان میں بے شمار نام ہیں جن کی تفصیل اس کالم میں نہیں سماسکتی۔ کیا یہ سارے عظیم انسان کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں؟

1970ء میں جب میں ملک کے مشہور رسالے ''لیل و نہار'' کی مجلسِ ادارت میں شامل تھا۔ میجر عطا کے ہوٹل پام گرو میں اکثر بیٹھنے کا اتفاق ہوتا تھا، جہاں فیض اور سبطِ حسن بھی پابندی سے آیا کرتے تھے۔ چونکہ لیل و نہار فیض اور سبط صاحب کی ہی نگرانی میں نکلتا تھا سو عطا صاحب کی بیٹھک میں لیل و نہار پر بھی گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دن میں نے یہ تجویز ان دوستوں کے سامنے رکھی کہ ان لوگوں کی خدمات کے اعتراف میں جنھوں نے اس ظالمانہ طبقاتی نظام کے خلاف بڑی قربانیاں دیں، ایک اچھے ایوارڈ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ہماری اس تجویز سے فیض صاحب اور عطا صاحب نے اتفاق کیا لیکن اس کے کچھ عرصے بعد ہی لیل و نہار مالی دشواریوں کی وجہ سے بند ہوگیا اور ایوارڈ کی یہ تجویز نظروں سے اوجھل ہوگئی۔

ظاہر ہے کوئی حکومت ایسے باغیوں کے لیے ایوارڈ کا اعلان نہیں کر سکتی جو اینٹی اسٹیٹ رہے ہوں۔ اینٹی اسٹیٹ ان معنوں میں کہ ہماری اسٹیٹ اسی سسٹم کو سر پر اٹھاتی پھرتی ہے اور اس سسٹم کے مخالف باغی ہی کہلاتے ہیں۔ کسی حکومت سے تو یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسے انقلابیوں یا باغیوں کو کوئی بڑا ایوارڈ دے لیکن یہ ان سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے جو اس استحصالی نظام کے خلاف ہیں کہ وہ بلاتفریق ہمارے تمہارے ان بہادروں کی خدمات کے عوض انھیں ایوارڈ دینے کا اہتمام کریں۔

اگر کوئی جماعت یا ادارہ یہ ایوارڈ دینے پر تیار ہو تو ہم اسے ایوارڈ کے حق دار لوگوں کی فہرست بھی فراہم کر سکتے ہیں اور ان کی قربانیوں کی مناسبت سے ایوارڈ بھی تجویز کر سکتے ہیں لیکن ایوارڈ ان کے شایانِ شان ہونے چاہئیں، چونکہ ایوارڈ کے بہت سارے حق دار اب دنیا میں نہیں رہے لہٰذا ان کے اہل خانہ کو یہ ایوارڈ دیے جا سکتے ہیں۔ ہم نے حسن ناصر اور نذیر عباسی کے لیے دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ ''سقراط ایوارڈ'' کا اعلان کر دیا ہے۔ اس پر عمل درآمد کی کیا صورت نکلتی ہے، اس کا ہمیں فی الوقت اندازہ نہیں۔
Load Next Story