امید کی ایک کرن بالآخر

کانگریس اور بی جے پی دونوں ہمارا مذاق اڑاتی ہیں تا کہ کشیدگی دور...

KARACHI:
بالآخر کچھ تسلیم تو کیا گیا: صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم منموہن سنگھ دونوں کا ہند پاک دوستی منچ کے لیے پیغامات بھیجنا یقیناً ایک خوش آیند پیشرفت ہے۔ یہ منچ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ 17 واں سال ہے جب منچ اور پاکستان سے سیفما کے اراکین نے 14,15 اگست 2012ء کی آدھی رات کو اٹاری واہگہ بارڈر پر موم بتیاں جلائیں یعنی عین اس لمحے جب یہ دونوں ممالک معرض وجود میں آئے تھے۔ فضا پاک ہند دوستی زندہ باد اور دونوں بھائیوں کو ملنے دو کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہی تھی۔

دونوں حکومتوں کی طرف سے پیغامات کا بھیجا جانا اس حقیقت کی دلیل ہے کہ انھوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے جس سے کہ 1995 میں کیا جانے والا وہ چھوٹا سا اقدام ناکام ہو گیا جس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے میں نمایاں کام سرانجام دیا تھا۔ صدر زرداری نے اس کوشش کی تعریف کی کہ برصغیر میں دونوں ممالک کی امن و استحکام کی منزل بہرحال مشترک ہے۔ انھوں نے ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جو برصغیر میں امن و تعاون کے فروغ کے لیے کوششیں سرانجام دے رہے ہیں۔

موجودہ جمہوری حکومت اور عوام برصغیر میں امن و تعاون کا فروغ چاہتے ہیں اور وہ اس بارے میں پُرعزم ہیں کہ دونوں ممالک پائیدار اور تعمیری ڈائیلاگ کے ذریعے تمام تنازعات کا پُرامن حل تلاش کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو دیرپا امن اور سلامتی کی اشد احتیاج ہے تا کہ وہ اپنے عوام کی سماجی اور اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کر سکیں... یہ صدر زرداری کا بیان ہے۔ منموہن سنگھ نے بھی اسی جذبے کے تحت اپنا پیغام تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جنوبی ایشیاء میں قیام امن کی خاطر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ہند پاک دوستی منچ 17واں پاک ہند امن میلہ 14,15 اگست 2012ء کو امرتسر میں منعقد کر رہا ہے۔

یہ منچ ایک نہایت اہم مقصد کے تحت اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تا کہ علاقے میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہو سکے اور دونوں ملک بھوک، غربت، جہالت اور بیماری دور کرنے پر اپنی توجہ زیادہ بہتر طور پر مرکوز کر سکیں۔

بارڈر پر موم بتیاں روشن کرنا کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہے۔ جب ہم نے سفر کا آغاز کیا تھا تو پاکستان مخالف جذبہ حاوی تھا۔ جب بھی ہم بارڈر کی طرف آتے ہیں یا سیمینار منعقد کرتے ہیں تو ہمیں دھمکیاں دی جاتی ہیں، مظاہرے کیے جاتے ہیں اور گالیاں بھرے خط لکھے جاتے ہیں، مگر ان تمام برسوں میں ہم نے اپنے اس عزم کو ترک نہیں کیا کہ عوام کا عوام سے رابطہ ہی تعلقات کو معمول پر لانے کا واحد راستہ ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہماری کوششوں کا مذاق اڑاتی ہیں اور ہمیں ''موم بتی والا'' کہتی ہیں تا کہ کشیدگی دور کرنے کی ہماری کوششوں پر پردہ ڈال سکیں۔

بھارتی حکومت کسی حد تک تعاون کرنے لگی ہے کیونکہ وہ ہمیں ''زیرو پوائنٹ'' تک جانے کی اجازت دے دیتی ہے حالانکہ بارڈر پر 8 بجے شب کے بعد کرفیو لگ جاتا ہے تاہم حکومت پاکستان نے صدر زرداری کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آدھی رات کے وقت بارڈر پر جانے کی اجازت دیدی ہے۔ بارڈر پر ہم جھنڈے اور مٹھائیاں ایک دوسرے سے تبدیل کرتے ہیں اور فیض احمد فیض کے یہ شعر گاتے ہیں ''ہم دیکھیں گے...'' ہمارے لیے یہ بے حد جذباتی سفر ہے کیونکہ ہم میں سے جو لوگ بارڈر پر آتے ہیں وہ کسی ناسٹلجیا (پرانی سہانی یادوں) کی وجہ سے نہیں بلکہ اس عزم کے باعث آتے ہیں کہ جو لکیر کھینچی گئی ہے اس نے دونوں ملکوں کے صدیوں پرانے کلچر کو تقسیم نہیں کیا۔

ہندو اور مسلمان دونوں صدیوں تک اکٹھے رہتے اور آپس میں دکھ سکھ کے شریک رہے بلکہ ایک دوسرے کے تہواروں میں بھی شامل ہوتے رہے عید اور دیوالی دونوں ہی مناتے تھے۔ آخر تقسیم کے بعد وہ کیوں ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے تھے؟ میں محسوس کرتا ہوں کہ وہی جذبہ پھر بیدار ہو سکتا ہے بشرطیکہ دونوں جانب کے لوگ تسلیم کر لیں کہ تقسیم کے موقع پر پیش آنے والے واقعات ہماری اکٹھے رہنے کی طویل تاریخ پر ایک افسوسناک دھبہ ہیں۔ اس کو فراموش کر دیا جانا چاہیے۔


اس کے باوجود میں اس بات پر بھی حیران ہوتا ہوں کہ سیکڑوں سال پر محیط رہنے والے تعلقات آخر تاش کے پتوں سے بنائے گھر کی مانند کس طرح منہدم ہو گئے۔ درست کہ تلخی کے بیج تقسیم سے بہت پہلے ہی بو دیئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود دونوں طرف سے پڑوسیوں کو قتل کرنے اور ان کی عورتوں کو اغوا کر لینے سے یہ نظر آتا تھا کہ دونوں قرون وسطیٰ کے دور کی مذہبی سوچ سے باہر نہیں نکلے۔ ہم نے ابھی تک تاریخ کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ دونوں جانب شائع ہونے والی کتابیں تقسیم کو اپنے اپنے نکتہ نظر سے دیکھتی ہیں اور مذہبی اختلاف کو بنیادی قرار دیتی ہیں۔

اسی وجہ سے یہ بات اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین سرحدوں کو نرم کیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ملک میں ویزے کے جھنجھٹ یا پولیس رپورٹ کی کلفتوں کے بغیر جا آ سکیں لیکن سب سے خراب کردار بنیاد پرستوں کا ہے۔ پاکستان میں بھارت سے بھی زیادہ۔ وہ جمہوری سیاست کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک جہاد کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شمال مشرق کی بہت سی ریاستوں سے جو لوگ نقل مکانی کر کے آسام جا رہے ہیں اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے۔

بعض بھارتی شہریوں نے بھی سرحد پار کے بنیاد پرستوں کی مدد کی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دونوں ملک قصور واروں کا کھوج لگا رہے ہیں اور ان کو سزا دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ بہرحال جس انداز میں شمال مشرق سے لوگوں کو آسام منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا وہ ہماری سیکولر سیاست کے لیے نہایت افسوسناک ہے۔ لیکن سرحد پار سے صرف دو سو پیغامات نے بھارت کے سیکولر ازم کو طشت از بام کر دیا ہے۔ فرض کریں اگلی بار دو ہزار پیغامات آ جائیں تو ملک میں کیا کیفیت پیدا ہو جائے گی۔

یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس پر سول سوسائٹی اور حکومت دونوں کو غوروخوض کرنا چاہیے کیونکہ 65 سال کی آزادی کے باوجود بھی ہم ابھی تک قومی یکجہتی حاصل نہیں کر سکے۔

میری سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ بھارت اور پاکستان ''اسٹیٹس کو'' میں پھنس کر رہ گئے ہیں دونوں ملک اسی فرسودہ روش پر گامزن ہیں جس میں کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی۔ وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کا آیندہ ماہ کے اوائل میں دورہ پاکستان دونوں ملکوں کو ایک نیا موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ کچھ فاصلہ تو طے کر سکیں، بھلے وہ کسی خصوصی معاہدے پر دستخط نہ بھی کریں۔ انھیں افغانستان پر بھی بات کرنی چاہیے۔ اگر کابل پر طالبان کا قبضہ ہو گیا تو اس سے پورے خطے میں تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

اسلام آباد کے قریب پاکستان ایئر فورس کے مستقر پر حالیہ حملہ ایک انتباہ ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان کے پاس کسی بھی جگہ پر، کسی بھی وقت، دھاوا بولنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ دوسری طرف پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ جب بھارت میں لوگ دیکھتے ہیں کہ پاکستان ممبئی پر 26/11 کے حملہ کے ذمے داروں کو سزا دینے میں پس و پیش سے کام لے رہا ہے تو انھیں حیرت ہوتی ہے کہ آیا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے بیانات قابل اعتبار بھی ہیں یا...؟ پاکستان ملے جلے پیغامات بھجوا رہا ہے۔ وہ کاروبار کو بڑھانا چاہتا ہے مگر اس کی بعض چوٹی کی فرموں نے بڑے بڑے سودے عین آخری وقت پر منسوخ کر دیئے ہیں۔ مستقبل کی امید اقتصادی تعلقات میں ہی ہے۔ دونوں ملکوں کو اس کا احساس کرنا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story