ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مایوسی
بھارت میں غریبوں اور میرٹ پر ترقی کرنے والوں کیلئے مواقع موجود...
عام طور سے قدیر خان کا لب و لہجہ پرامید اور پرحوصلہ دِکھائی دیتا تھا مگر حالیہ دنوں میں ان کے لب و لہجے اور گفتگو میں مایوسی جھلک رہی ہے، حالیہ واقعات اور پاکستان کی زبوں حالی غالباً ان کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔ اوپر سے نیچے تک مسلسل انحطاط کا عمل ان کو یہ سوچنے کے لیے مجبور کر رہا ہے کہ آخر اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا۔ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے آج تک کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی معیشت کا پہیّہ اس دور میں الٹا گھمایا گیا، معیشت صنعتوں کو قومیانے سے تباہی سے دوچار ہوئی۔
آئیے پہلے اس نکتے پر چند لمحے غور کرلیں۔ 1970ء اور اس سے قبل پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت بڑی تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ ان دنوں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت میں ایک انقلاب آیا تھا۔ مگر اچانک قومیانے کے نتیجے میں یہ صنعت غیر کاروباری گورنمنٹ ملازمین کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ نہ ہی گورنمنٹ افسران کو کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی کسی قسم کی علمی و فنی دسترس تھی۔ یہی حال بینکوں کا تھا مگر پرائیویٹ بینکار تعلیم یافتہ اور تجربہ کار تھے، وہ نہ ڈوبے۔
تعلیم کو قومیانے کے بعد تعلیمی حالات مزید بہتر ہوگئے کیونکہ محکمۂ تعلیم پر جو لوگ حکومت کر رہے تھے، وہ تعلیم یافتہ تھے مگر رفتہ رفتہ سیاسی بنیادوں پر ترجیحات نے اس محکمے کو غارت کر دیا۔ مگر سیاسی اعتبار سے اور اقتصادی حوالے سے بعض قابل ذکر باتیں سامنے آئیں۔ پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے لیے عرب دنیا کے راستے کھل گئے اور غریبوں نے بھی پہلی بار الیکٹرانک کے سامان دیکھے گو بنگلہ دیش بننے کی 100 فیصد ذمے داری بھٹو پر نہیں ڈالی جا سکتی مگر اس سے ان کو بالکل الگ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بطورِ مجموعی ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے 5 برس ترقی اور خوش حالی کی تھے مگر سیاسی حوالے سے بعض فاش غلطیاں ہوئیں۔ بنگلہ دیش بننے کے باوجود نیپ کی حکومت کا خاتمہ اور بلوچستان پر فوج کشی۔
اس کے بعد انھوں نے ضیاء الحق کی ایمان داری کو سراہا۔ ظاہر ہے ضیاء الحق کی حکومت میں کیا کرپشن ہوئی یا نہ ہوئی اس کا علم تو مجھے نہیں البتہ ضیاء الحق ملک میں افغان سیاست کو پروان چڑھانے والوں میں سے ایک ہیں اور ان کے سر پر ذوالفقار علی بھٹو کا خون ہے اور ملک میں منشیات اور اسلحے کا دور دورہ ہوا۔ افغان مہاجرین کی آمد سے ایسا لگا کہ ان کا پاکستان پر بڑا احسان ہے کہ وہ آئے اور کلاشنکوف و ہیروئن کلچر ساتھ لائے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 1951ء کے بعد ان بھارتی مسلمانوں پر پاکستان کے دروازے بند ہو گئے جنھوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دی تھیں۔
جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں تھے وہاں پر پاکستان کے لیے ووٹ دیا۔ آبائو اجداد کے گھر باغات، اثاثہ چھوڑا، قتل ہوئے، لاکھوں عورتیں اغوا ہوئیں۔ اب اگر وہ یہاں آنا چاہیں تو بھارت اور پاکستان کے تعلقات ان کے درمیان دیوار بن گئے ہیں جب کہ افغانیوں کے لیے بارڈر کھلے ہیں۔ یہی حال کراچی میں مقیم بنگالیوں کا ہے کہ وہ شناختی کارڈ سے بھی محروم ہیں جنھوں نے مسلم لیگ کے قیام میں پہل کی اور اسے مضبوط کیا۔ قدیر خان نے ایک اور بات بھارت اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے کہی کہ بھارت کی ترقی کی اصل وجہ یہ ہے کہ بھارت کی آزادی کے وقت 253 راجے اور مہاراجے تھے، سیکڑوں بڑے جاگیردار تھے، یہ سب بہ حکم قلم ختم ہو گئے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ بھوپال کا ایک چمار جگ جیون رام بھی مرکز میں وزیر بن گیا، وہاں غریبوں اور میرٹ پر ترقی کرنے والوں کو مواقع ہیں جب کہ پاکستان میں موروثی سیاست ہے۔ اہل ہوں یا نااہل، کرپشن میں مہارت رکھتے ہوں، ان کے لیے تمام مواقع ہیں۔
نصابِ تعلیم پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا تعلیم اس درجے کی ہے کہ جس پر ان کے ماضی کی چھاپ اور ثقافت کی جھلک نہیں ہے۔ بقول ان کے اچھا مسلمان ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ایک فٹ کی داڑھی ہو اور شلوار ½ فٹ اونچی ہو۔ مسلمان دِکھاوے کا نہیں عمل کا نام ہے۔ واقعی یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں اسلام کا نام سیاست کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ عمران خان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سونامی لانا چاہتے ہیں، شاید ان کو معلوم نہیں کہ سونامی جب آتا ہے اور واپس جاتا ہے تو وہ سب کچھ تباہ کر دیتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ سیٹ اپ کو انھوں نے سرے سے مسترد کر دیا۔ نواز شریف اور زرداری حکومت اور حکومت کے اتحادی سب ایک ہیں، نہ کوئی انقلاب آنے والا ہے اور نہ کوئی لانے والا۔ یہ کرپشن کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔ کراچی کے حالات اور ملک کے دیگر علاقوں کے حالات تباہ کن ہیں۔ انھوں نے اسمبلی اور چیف جسٹس کے بارے میں موازنہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کی حمایت کی کہ اگر قانون کی حکمرانی نہ ہو گی تو پھر یہی کچھ ہوگا جو ہو رہا ہے۔ ان کی گفتگو سے اس بات کی جھلک آ رہی تھی کہ جیسے آیندہ انتخاب میں وہ کوئی اہم سیاسی رول ادا کرنے والے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ملک کی ایک ایمان دار شخصیت اور ایک پُراثر قوت ہیں۔ ان کا وزن چیف جسٹس کے پلڑے میں آنے کی صورت میں عوام کی اکثریت چیف صاحب کے ساتھ ہو گی۔ اگر حکومت نے دانش مندی سے کام نہ لیا تو پھر حکومت کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ اگر حکومت نے چیف صاحب پر کوئی پابندی اور نظربندی لگائی یا عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی تو پھر ان کی حمایت میں پہلے سے بڑی تحریک کے امکانات موجود ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان کو عوام محسنِ پاکستان خیال کرتے ہیں۔ ان کا جھکائو کسی جانب نہیں ہے، نہ ان کو دائیں بازو کا ترجمان نہ بائیں بازو کا ترجمان کہا جاسکتا ہے، نہ ان کو مذہبی اور نہ ہی ان کو لبرل کہا جاسکتا ہے۔
وہ میزان کی طرح عدالت کی نگہبانی کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پُرانے کارکن، ہم خیال مخلص یہی چاہتے ہیں کہ اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر جیسے مشیر کہیں پیپلز پارٹی کو اس طرف دھکیل دیں کہ پارٹی کو وہ نقصان پہنچے جو ضیاء الحق بھی نہ پہنچا سکے۔ قدیر خان صاحب نے جن دکھوں کی جانب واضح گفتگو کی ہے، ان امور پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے اور قانون کے سامنے سر جھکا دینا پیپلز پارٹی اور کارکنوں سے وفا کا نام ہے، ورنہ آیندہ انتخاب کا تصور محض ایک خواب ہو گا اور آنے والے دن دنگے اور فساد کی نذر ہو جائیں گے۔
کیونکہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں عوامی رول ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اندھیرا اور بے روزگاری کا تحفہ عوام کو ملا ہے۔ پارٹی کے کارکن عوامی امنگوں کے خلاف کیونکر تحریک چلا سکتے ہیں۔ معاملات جب آگے بڑھیں گے تو کوئی بھی خارجی حالات ہوں، مجبوراً فوجی مداخلت ہوگی۔ جہاں تک چیف جسٹس کا رویہ ہے، وہ سب پر عیاں ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ خواہ آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے، وہ فیصلوں پر قائم رہیں گے اور انصاف کے تقاضے پورے کریں گے۔
ظاہر ہے ایسی صورت میں ملک انارکی کی طرف جائے گا اور حالات فوجی مداخلت اور ٹیکنو کریٹ گورنمنٹ کی طرف جائیں گے اور بعد ازاں انتخابات کا شیڈول سامنے آئے گا۔ سیاست دانوں کا کام محض سیاست کرنا نہیں بلکہ اس بات کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے کہ کس عمل کا کیا ردعمل ہوگا اور اس کے مضمرات کیا ہوں گے۔ پاکستان سرحدی خطرات سے دوچار ہے۔ افغانستان پاکستان کی تاک میں ہے۔ حقانی نیٹ ورک کی آڑ میں امریکا کو مسلسل اکسا رہا ہے کہ ہماری کوئی خامی نہیں۔ پورے ملک میں امن ہے، صرف حقانی نیٹ ورک کی وجہ سے یہ خون خرابہ ہے، لہٰذا پاکستان کسی طالع آزمائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آنے والا مورخ کسی اور کو نہیں سیاست دانوں پر قلم اٹھائے گا کیونکہ سیاست دان تمام وہ اسباق بھول چکے ہیں جو معمارانِ پاکستان نے تحریر کیے تھے۔
نہ رنگ ہے نہ کرن ہے نہ روشنی نہ چراغ
نہ تیرا ذکر ، نہ تیراپتہ نہ تیراسراغ
ہوا ہے خشک، کتابوں کے اڑ رہے ہیں ورق
مگر میں بھول چکی ہوں تمام ان کے سبق
(پروین شاکر)