مہنگائی پر قابو پانے کے لئے مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے
ایکسپریس فورم میں حکومت ، اپوزیشن اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کی گفتگو
مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے معاشرے کا ہر طبقہ متاثر ہورہا ہے۔ حکومتی اقدامات اور سبسڈ یز کے باوجود مہنگائی کا جن قابوسے باہر ہوا جارہا ہے۔
عام آدمی اور کاروباری طبقہ اسے حکومت کی عدم توجہی قرار دیتا ہے اور حکومتی نمائندے وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی کو مہنگائی میں اضافے کا سبب گردانتے ہیں۔ فریقین کے موقف اپنی جگہ پر لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے اور متوسط طبقے کیلئے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل تر ہو تا جارہا ہے۔
مہنگائی میں اضافے کی وجوہات اوراس پر قابو پانے کیلئے حکومتی اقدامات کو جاننے کیلئے ایکسپریس نے فورم کا اہتما م کیا، جس میں حکومت،اپوزیشن،بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین نے شرکت کی ۔ فورم میں ہونیوالی گفتگو نذر قارئین ہے۔
چودھری محمد شفیق
(صوبائی وزیر صنعت ،تجارت و سرمایہ کاری)
آج کے فورم میں تما م مکتبہ ہائے فکر کی نمائندگی ہے جس سے تمام افراد کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع ملا ہے، یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ ہر شخص اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ مہنگائی کے خاتمے کیلئے ہم تما م سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مربوط طریقہ کار وضع کر کے اس پر عمل درآمد یقینی بنا رہے ہیں لیکن یہ ایک مسلسل عمل ہے اور مہنگائی پر بتدریج ہی قابوپایا جاسکتا ہے۔
جس کیلئے وفاقی اور مرکزی دونوں حکومتیں پرعزم ہیں۔ توانائی بحران مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ بجلی،گیس کی عدم دستیابی نے کئی مسائل کوجنم دیا ہے۔ توانائی بحران نے ہمارا معاشی و معاشرتی ڈھانچہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ انڈسٹری بند ہونے سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا، جس سے لوگوں کی قوت خرید ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
توانائی بحران کے خاتمے کیلئے حکومت انتہائی سنجیدہ ہے اور اس حوالے سے روزانہ کی بنیادوں پر اجلاس ہورہے ہیں۔ حکومت توانائی بحران کے خاتمے کیلئے کثیر الجہتی منصوبہ بندی پر کام کر رہی ہے۔ ہم سولر،ونڈ انرجی سمیت متبادل ذرائع توانائی سے بجلی پیدا کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گیس بحران کے خاتمے کیلئے قطر سے ایل این جی کی امپورٹ کا معاہدہ کیا ہے۔ جنوری 2014تک کراچی سے لاہور تک ایل این جی سپلائی کی پائپ لائن مکمل ہوجائے گی۔
جس سے گیس کی کمی کامسئلہ60فیصد حل ہوجائے گا۔اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا اہم منصوبہ ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چودھری محمد شفیق نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضے پچھلی حکومت سے وراثت میں ملے ہے ۔ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور ملکی ساکھ بچانے کیلئے نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ مسلم لیگ کے قائدین نے ہمیشہ کشکول توڑ کر ملک کو خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنے کی بات کی ہے لیکن اب غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف سے قرض لینا ناگزیر ہوگیا تھا ۔
کیونکہ عالمی اداروں سے قرض لے کر واپس کرنا ضروری ہوتا ہے دوسری صورت میں ملک کی ساکھ خراب ہوجاتی ہے۔ ہم تمام فیصلے ملک کے وسیع تر مفاد میں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو اس وقت چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ریونیوبڑھانے کیلئے ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے زراعت اور زرعی انکم پر ٹیکس لگایا ہے۔ جس سے بزنس کمیونٹی اور دیگر ٹیکس گزاروں کا یہ شکوہ ختم ہوجانا چاہئے کہ بڑی لینڈ ہولڈنگ والوں سے ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ اس طرح ہم ٹیکس گزاروں پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے بتدریج ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے۔ صوبے میں 344سستے رمضان بازاروںاور1324دستر خوانوں کا اہتما م کیا گیا ہے۔ جس میں 3ارب 80کروڑ روپے کی سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔سستے رمضان بازاروں میںسیکیورٹی اور صفائی کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔ سستے آٹے کی فراہمی کیلئے فلور ملز کو گندم پرسبسڈی دے رہے ہیں اس لیے کسی بھی قیمت پر رمضان المبارک میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنے دیں گے۔ کچھ فلور ملز ایسی ہے جو صرف رمضان المبار ک میں چلتی ہیں اس لیے ایسے منافع خوروں اور مفاد پرستوں کے محاسبے کیلئے خفیہ ایجنسیوں سے نگرانی میں کوئی قباحت نہیں۔
عرفان اقبال شیخ
(سینئر نائب صدرلاہور چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹری )
مہنگائی کا تعلق طلب و رسد سے ہے۔ جب ڈیمانڈ زیادہ اور سپلائی کم ہوگی تو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ہمہ جہت حکمت عملی بنانا ہوگی۔ پہلا اصول تو یہ ہے کہ اشیاء کی وافر سپلائی یقینی بنائی جائے جس سے ڈیماند پوری ہوسکے۔
جب طلب ورسد میں توازن ہوگا توقیمتیں بھی اعتدال پر رہیںگی۔ لیکن اس کیلئے بھرپور منصوبہ بندی کی جائے۔ مارکیٹ میں اشیاء کی فراہمی کیلئے حکومت کو بزنس کمیونٹی سے مشاورت کرنی چاہئے کیونکہ چھاپے مارنے یا پکڑ دھکڑ سے مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاسکتا اور نہ بیوروکریسی کے پاس جادو کی چھڑی ہے کہ وہ مہنگائی پر قابو پالے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبار ک میں اشیاء کی قیمتوں کو اعتدال پررکھنے کیلئے ضروری ہے کہ دو ماہ پہلے ان اشیاء کوذخیرہ کرلیا جائے کیونکہ رمضان المبار ک میں اشیاء کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات،بجلی،ڈالرکی قیمتوں اور جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی)کی شرح میں اضافہ مہنگائی بڑھنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ حکومت جی ایس ٹی شرح میں کمی کرے، سستی بجلی ،گیس کی فراہمی ، روپے کی قدر مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کرے تو مہنگائی میں کمی ہوسکتی ہے۔ خسارے میں چلنے والی کارپوریشنز سفید ہاتھی بن چکی ہیں۔ اس لیے ریلوے،پی آئی اے اور پاکستان سٹیل کی نجکاری کردی جائے یا ان کے معاملات شفاف بنائے جائیں۔ یہ ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں اور قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔ ماضی میں ان اداروں کوکھربوں روپے کی سبسڈی دی گئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ادارے اپنی کارکردگی بہتر نہیں بنا سکے۔ ملکی معیشت کو اس وقت شدید بحرانوں کا سامنا ہے ۔ ایسے میں بزنس کمیونٹی ملکی ترقی کیلئے کوشاں ہے ۔
بجلی،گیس کی عدم دستیابی کے باوجود نامساعد حالات میں بھی حکومت کو ٹیکس اداکر کے اس کے ریونیو میں اضافہ کررہی ہے ۔اس لیے حکومت کو چاہیئے کہ بزنس کمیونٹی کو مراعات دے اور اسے پالیسی سازی کے عمل میں شریک کیا جائے۔ بیوروکریسی کی بنائی ہوئی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے۔ ایسے سیکٹرز پر ٹیکس لگایا جائے جو ابھی تک ٹیکس نیٹ کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی بزنس مین محب وطن ہے، اس پر ٹیکس چور ہونے کے الزامات نہ لگائے جائیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ درجنوں ٹیکسوں کی بجائے سنگل ٹیکس سسٹم عائد کیا جائے۔کیونکہ ٹیکس سسٹم میں پیچیدگیاں ، ابہام اور کئی قسم کے ٹیکس کرپشن اور ٹیکس چوری کا سبب ہیں۔ حکومت بزنس کمیونٹی کی مشاورت سے معاشی بحالی کا روڈ میپ بنائے اور اس کی روشنی میں اپنی اقتصادی ترجیحات کا تعین کرے۔لاہور چیمبر آف کامرس نے ملک کے وسائل ،معاشی مسائل اور مستقبل کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اقتصادی ایجنڈا پیش کیا ہے جس سے حکومت استفادہ حاصل کرسکتی ہے اور اس حوالے سے لاہور چیمبر آف کامرس بھرپور تعاون کرنے کو تیار ہے۔
خورشید احمد
(جنرل سیکرٹری پاکستان ورکرزکنفیڈریشن)
غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔ حال ہی میں وزیر خزانہ کی جانب سے ملازمین کیلئے جو پالیسیاں بنائی گئی ہیں وہ حیران کن ہیں، 70فیصد آبادی ضروریات زندگی سے محروم ہے اور وہ اقتصادی اور دیگر ضروریات زندگی پوری نہ ہونے کی وجہ سے غربت ، بیروزگاری سے لوگ پریشان ہیں۔ موجودہ حکومت نے جی ایس ٹی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ حکومت کی پالیسیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی کیلئے روز بروز مشکلات بڑھتی جارہی ہیں جبکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ایسی پالیسیاں بناتی جس سے غریب آدمی خود کفیل ہوتا۔
جس ملک میں 108 پارلیمنٹیرین ٹیکس نہیں دیتے وہ ملک کیا ترقی کرے گا جبکہ41فیصد بجٹ ڈیڈ سروس میں چلاجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دس ہزار روپے تنخواہ میں غریب افراد یوٹیلیٹی بلز ادا کریں یاکہ گھر کا خرچ چلائیں ، بھلا دس ہزار روپے میں غریب آدمی کس طرح مہینے کا خرچ چلا سکتا ہے۔ محنت کشوں کی تنخواہ میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے، 36سو روپے پنشن لینے والے افراد موجود مہنگائی میں کس طرح اپنا پیٹ بھریں گے، ایسی صورتحال میں ضروریات زندگی پورا کرنا بہت مشکل ہوجائے گا ، ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے جبکہ اولڈ ایج سکیم کے40ارب روپے کھالئے گئے ، بتایا جائے اس کا کیا بنا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں عید اور دیگر تہواروں پر اشیائے خوردونوش کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہوجاتی ہے جبکہ بیرون ملک کرسمس تہوار ہو تو ان کی حکومتیں خوردو نوش اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردیتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں صورتحال کچھ اور ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام منافع خوروں کے خلاف ایکشن لے اور ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے غریب اور امیرکے درمیان فرق کم ہو۔ گزشتہ دو ماہ کے عرصہ اور ماہ رمضان المبارک میں عوام کیلئے ضروریات زندگی کی اشیاء سستی دینے کی بجائے مہنگی ہو رہی ہیں ،بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاطرخواہ کمی نہیں آئی، ہمارے پالیسی ساز غیر ملکی امداد ، آئی ایم ایف اور ہمارے مخلص دوست ملک عوامی جمہوریہ چین سے تکیہ لگائے رکھنے کی بجائے 18کروڑ عوام کی غربت دور کرنے کے لئے صدر مملکت سے لے کر نچلی سطح تک اسلامی اصولوں کے مطابق سادگی کا نفاذ کریں اور وزیراعظم، تمام وزراء اور اسمبلی کے ارکان جو اکثرکروڑ پتی بھی ہیں تمام سرکاری مراعات کو ترک کرکے قوم کیلئے مثال بنیں۔
ملک کے کثیر وسائل تعلیم پر خرچ کریں، ہر بچے اور بچی کو بامقصد مفت تعلیم دی جائے چونکہ علم اور ٹیکنالوجی سے ہی قوم ترقی کرسکتی ہے، لوڈشیڈنگ پر قابوپانے کے لئے موٹر کاروں کے لئے گیس بند کرکے بند پاور ہاؤسز کو دی جائے اور شام سات بجے کمرشل سنٹر بند کرکے یہ بچت شدہ بجلی قومی صنعت کو دی جائے۔ نئے ہائیڈل اور کوئلہ کے تھرمل بجلی گھر جنگی بنیادوں پر تعمیر کرائے جائیں تاکہ بے روزگاری کا مسئلہ دورکیا جا سکے۔
بااثر افراد کو بجلی چوری پر مثالی سزا دی جائے اور ملک کے عدالتی اور پولیس کے نظام میں قابل قدر اصلاحات کا نفاذ کیا جائے تاکہ عوام کو سستا اور جلدی انصاف مل سکے اور قومی دولت لوٹنے والوں کو مثالی سزائیں دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان دنیا میں عالمی ٹرانسپرنسی کے مطابق بدعنوانی پر بلند ترین سطح پر ہے تاکہ ملک میں رشوت اور لوٹ گھسوٹ ختم ہونے میں مدد ملے۔
قومی اقتصادی خود کفالت کی پالیسی اپناکر قومی صنعت اور زراعت کو ترقی دی جائے اور فالتو حکومتی زمین بے زمین کاشت کاروں میں تقسیم کی جائے۔ کراچی اور دوسرے شہروں میں دہشت گردی کو ہر ممکن روکا جائے۔ ملک میں امیر اور غریب ،سرمایہ داراور محنت کش ، جاگیردار اور مزارع کے مابین بے پناہ فرق کو اسلامی اصولوں کے مطابق کم کیا جائے اور تمام سرمایہ داروں جاگیرداروں اور اسمبلی کے ارکان سے ٹیکس وصول کرکے قومی خزانہ کی آمدنی بڑھائی جائے تاکہ عوام کو خوردونوش کی اشیا سستے داموں میسر ہوسکیں اور ملک مزید ترقی کرسکے۔
بیگم بیلم حسنین
(ممبر قومی اسمبلی،صدرپیپلزپارٹی شعبہ خواتین پنجاب)
مہنگائی تو ہر دور میں ہوتی ہے لیکن موجودہ حکومت کے آتے ہی مہنگائی کا طوفان اس لئے آگیا کہ انہوں نے جی ایس ٹی کا نفاذ بجٹ پیش کرتے ہی کردیا تھا اور بجٹ پاس ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا ۔ یوٹیلیٹی سٹور پر غیر معیاری اشیاء فروخت کی جارہی ہیں جس سے عوام بیمار ہوں گے اور مزید مسائل میں پڑیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ معیاری اشیاء سستے داموں عوام تک پہنچائے لیکن حکومت شائد کاروباری طبقے کو ناراض نہیں کرنا چاہتی کہ اس سے شائد انہیں بڑے نقصانات اٹھانا پڑیں۔ انرجی کا بحران تو گزشتہ دو حکومتوں کے ادوار سے چلا آرہا ہے، مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکومت کوئی اقدام نہیں کرسکی۔
دوسرے ملکوں میں جب بھی کوئی تہوار آتا ہے اشیاء کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کی قوت خرید بڑھ سکے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ یہاں مہنگائی سے تنگ آکر لوگوں کو چوریاں ، ڈکیتیاں کرنا پڑتی ہیں۔ خواتین کے پرس چھینے جاتے ہیں ۔ حکومتی کارکردگی تو لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے سے نظر آتی ہے ۔ اگر حکومت تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تو اس حکومت کا کیا فائدہ ، لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں حکومتی پیسہ اور انرجی ضائع نہیں ہوتی بلکہ گڈگورننس میں اضافہ ہوتا ہے جوکہ موجودہ حکومت میں نظر نہیں آتا۔ غریب آدمی کو بجلی اگر گزشتہ حکومت میں کم ملی تو موجودہ حکومت نے بھی آکر بیانات کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔
کھربوں روپے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو دینے کی بجائے پتہ نہیں کس کو دیدیئے گئے کیونکہ اتنے پیسے اگر بجلی بنانے والی کمپنیوں کو دیئے گئے ہوتے تو بیس بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ نہ ہوتی، اوپر سے ہر ماہ بجلی کے نرخ بڑھا کر پتہ نہیں غریبوں سے کون سا انتقام لیا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دورحکومت میں غریب لوگوں کو روزگاردیا لیکن موجودہ حکومت نے مہنگائی کے اس دور میں لوگوں کو ایک بار پھر بیروزگارکرنا شروع کردیا ہے۔
امن وامان کی صورتحال میں یہ رتی برابر بہتری نہیں لاسکے۔اچھی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھے لیکن یہاں کسی کا کسی پرکوئی کنٹرول نہیں، رمضان بازاروں میں بھی اگر قیمتیں مارکیٹ کی نسبت تھوڑی کم رکھی گئی ہیں تو بہت سی اشیاء دستیاب ہی نہیں ہوتیں یا پھر غیر معیاری بکتی ہیں۔ بیلم حسنین نے کہاکہ حکومت کو یہ بڑی اچھی طرح معلوم ہوگا کہ محض ایک فیصد سیلز ٹیکس زیادہ لینے سے پورے ملک میں مہنگائی کتنے فیصد بڑھی ہے، اس سے لوگوں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی ہے۔
حبیب الرحمن لغاری
(چیئرمین فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب)
جب بھی رمضان شروع ہوتا ہے اشیائے صرف کی قیمتوں کے حوالے سے مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں، حکومت ہر دفعہ رمضان پیکج کیلئے ساڑھے 4لاکھ ٹن گندم دیتی تھی مگر اس دفعہ صرف ڈیڑھ لاکھ ٹن گندم دی ہے۔ اس پر بھی اگر 3 یا ساڑھے 3کروڑ روپے کی سبسڈی دی ہے تو 4کروڑ اس کو چیک کرنے کیلئے خرچ کررہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صبح سے شام تک ملز میںکام کرنے والے مزدور کام کرنے پر تیار نہیں ہیں ہم مشکل سے انہیں کام کیلئے تیار کرتے ہیں تاکہ حکومت کو سپلائی کئے جانے والے آٹے میں کمی نہ آئے۔
ہم حکومت سے پورا تعاون کرتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ آٹے کے معیار اور مقدار میں کمی نہ آئے مگر اس دفعہ وزیراعلیٰ نے ایجنسیوں کو آٹے کا معیار چیک کرنے کیلئے لگادیا ہے حالانکہ ایجنسیوں کے افراد صرف سکیورٹی کے معاملات کو دیکھ سکتے ہیں انہیں کیا پتہ کہ آٹے کا معیار کیا ہے اور اسے کس طرح چیک کرنا ہے۔آٹے کا معیار سیمپل لے کر لیبارٹٰریوں میں بھیجا جاتا ہے اور یہ کام محکمہ فوڈ کا ہے جو کہ لیبارٹریوں کے ذریعے اس کو چیک کرتے ہیں۔ ایجنسیوں کے افراد فلور ملوں کے عملہ کو صرف خوفزدہ کرسکتے ہیں ۔
کیونکہ جب وہ فلور مل پر چھاپہ ماریں گے تو خوف و ہراس ہی پیدا ہوگا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود ہم کوشش کرتے ہیں کہ حکومت سے پوری طرح تعاون کریں اور میں بطور چیئرمین تمام فلور ملز مالکان کو ہدایت کرچکا ہوں کہ حکومت سے ہر طرح کا تعاون کریں۔ حکومت ہمیں دس کلو کا تھیلا بھرنے کا حکم دیتی ہے حالانکہ قانون میں یہ موجود نہیں ہے، قانون میں کم ازکم 20کلو کا تھیلہ بھرنے کا حکم ہے اور 10کلو کا تھیلہ بھرنا ہمارے لئے فیزیبل بھی نہیں ہے اس کے باوجود ہم 10کلو کی پیکنگ دیتے ہیں اس پر صورتحال یہ ہے کہ اگر 10کلو کے تھیلے کے وزن میں 10گرام کی بھی کمی ہوجائے تو جس فلو رمل کا وہ تھیلہ ہو اس کی شامت آجاتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ چھوٹی پیکنگ میں اتنی سی کمی بیشی تو ہو ہی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ تھیلہ کا وزن کرنے کے لئے ایک ایک تھیلے کی بجائے 5تھیلے اکٹھے کرکے تولے جائیں اور اگر پھر بھی وزن میں کمی ہو تو اس پر جواب طلبی ہونی چاہئے۔
دوسری طرف حکومت چیک کرنے کیلئے آٹا اس کنڈے پر تولتی ہے جس پر سونا تولا جاتا ہے جس میں تھوڑی بہت کمی تو آہی جاتی ہے۔ اس وقت یوٹیلیٹی سٹورز کو آٹے کی فراہمی میں مسائل ہیں جس وقت حکومت نے ہم سے یوٹیلیٹی سٹورز کو آٹا دینے کا معاہدہ کیا اس وقت گندم کی قیمت 12سو روپے فی من تھی جوکہ اب 13سو سے 14سو روپے فی من ہوگئی ہے اس لئے اسی قیمت پر آٹا فراہم کرنا ہمارے لئے مشکل ہورہا ہے، ہمارا مؤقف بھی یہی ہے کہ گندم کی قیمت بڑھنے کے باعث آٹے کی قیمت میں اضافہ کیا جائے اس مسئلے پر حکومت سے بات چیت جاری ہے اور امید ہے اس معاملے پر کوئی بہتر نتیجہ نکل آئے گا۔
نذیر احمدجنجوعہ
(جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی پنجاب)
مہنگائی بڑا اہم ایشو ہے۔ یہ بلاشبہ ایسا جن ہے جس پر نہ سابق حکومت قابو پاسکی اور نہ ہی موجودہ حکومت کے کنٹرول میں آرہا ہے۔ موجودہ حکومت کو عوام نے بھاری مینڈیٹ اس لئے دیا تھا کہ انہیں موجودہ حکمرانوں سے ریلیف کی کچھ توقع تھی لیکن افسوس کہ اس حکومت نے بھی آتے ہی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں اپنا سر دے دیا۔یہ بجٹ منتخب پارلیمنٹرینز نے نہیں بنایا بلکہ انہوں نے اس پر صرف مہر لگائی اور بجٹ دفاتر میں بیٹھے بیوروکریسی کے افسروں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ہدایات کی روشنی میں بنایا۔ آئی ایم ایف جو شرائط گزشتہ حکومت سے نہیں منواسکا تھا اس نے موجودہ حکومت سے منوالیں۔ مہنگائی کی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ٹماٹر 160روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔
لوگ دیکھ لیں آج تمام کام حکومتی قائدین کی الیکشن تقریروں کے برعکس ہو رہے ہیں۔ کبھی یہ کہتے تھے کہ ہم آٹے دال کی قیمتیں پرانی سطح پر لے آئیں گے اور کبھی مہنگائی کا رونا رویا جاتا تھا لیکن آج خود یہ مہنگائی کا سبب بنے ہیں ، اب انہیں غریبوں کی حالت نظر نہیں آتی، آج ایک باپ رمضان جیسے مقدس مہینے میں روٹی نہ ہونے پر تین کمسن بچوں سمیت نہر میں کود کر خودکشی کرلیتا ہے۔ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا اخبارات میں ان کی تصویر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
اس کے برعکس لاہور سے محض تیس کلومیٹر دور سستے رمضان بازارکا دورہ کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس کے ساتھ ساتھ کئی گاڑیوں کا سکواڈ بھی تھا جس پر ایک خطیر رقم سرکاری خزانے سے خرچ ہوئی، ان کا حساب کون لے گا۔ غریب عوام نے کیااس لئے انہیں منتخب کیا تھا کہ وہ خودکشیاں کرتے پھریں اور حکمران ان کے پیسے پر عیاشیاں کریں۔ حکومت سے آج تک قیمتوں پرکنٹرول کیلئے کوئی میکنزم نہیں بن سکا۔
سبزی منڈی کا ریٹ اگر کسی چیز کا 75روپے کلو ہوتا ہے تو رمضان کا الٹ فائدہ حاصل کرتے ہوئے وہی چیز 100روپے کلو میں فروخت کی جاتی ہے اور بہانہ بنادیا جاتا ہے کہ منڈی سے ہی ہمیں یہ چیز مہنگی ملی ہے تو ہم کیا کریں۔ یوٹیلیٹی سٹورز، سستے رمضان بازاروں میں مس مینجمنٹ نظر آتی ہے اور اربوں روپے کی حکومتی سبسڈی کا عوام تک کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ بجلی، گیس کے بجٹ میں کمی کرتے ہوئے قیمتوں میں استحکام پیدا کیا جائے اور سودی معیشت کا خاتمہ کیا جائے تبھی معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
عام آدمی اور کاروباری طبقہ اسے حکومت کی عدم توجہی قرار دیتا ہے اور حکومتی نمائندے وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی کو مہنگائی میں اضافے کا سبب گردانتے ہیں۔ فریقین کے موقف اپنی جگہ پر لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے اور متوسط طبقے کیلئے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل تر ہو تا جارہا ہے۔
مہنگائی میں اضافے کی وجوہات اوراس پر قابو پانے کیلئے حکومتی اقدامات کو جاننے کیلئے ایکسپریس نے فورم کا اہتما م کیا، جس میں حکومت،اپوزیشن،بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین نے شرکت کی ۔ فورم میں ہونیوالی گفتگو نذر قارئین ہے۔
چودھری محمد شفیق
(صوبائی وزیر صنعت ،تجارت و سرمایہ کاری)
آج کے فورم میں تما م مکتبہ ہائے فکر کی نمائندگی ہے جس سے تمام افراد کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع ملا ہے، یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ ہر شخص اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ مہنگائی کے خاتمے کیلئے ہم تما م سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مربوط طریقہ کار وضع کر کے اس پر عمل درآمد یقینی بنا رہے ہیں لیکن یہ ایک مسلسل عمل ہے اور مہنگائی پر بتدریج ہی قابوپایا جاسکتا ہے۔
جس کیلئے وفاقی اور مرکزی دونوں حکومتیں پرعزم ہیں۔ توانائی بحران مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ بجلی،گیس کی عدم دستیابی نے کئی مسائل کوجنم دیا ہے۔ توانائی بحران نے ہمارا معاشی و معاشرتی ڈھانچہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ انڈسٹری بند ہونے سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا، جس سے لوگوں کی قوت خرید ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
توانائی بحران کے خاتمے کیلئے حکومت انتہائی سنجیدہ ہے اور اس حوالے سے روزانہ کی بنیادوں پر اجلاس ہورہے ہیں۔ حکومت توانائی بحران کے خاتمے کیلئے کثیر الجہتی منصوبہ بندی پر کام کر رہی ہے۔ ہم سولر،ونڈ انرجی سمیت متبادل ذرائع توانائی سے بجلی پیدا کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گیس بحران کے خاتمے کیلئے قطر سے ایل این جی کی امپورٹ کا معاہدہ کیا ہے۔ جنوری 2014تک کراچی سے لاہور تک ایل این جی سپلائی کی پائپ لائن مکمل ہوجائے گی۔
جس سے گیس کی کمی کامسئلہ60فیصد حل ہوجائے گا۔اس منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا اہم منصوبہ ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چودھری محمد شفیق نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضے پچھلی حکومت سے وراثت میں ملے ہے ۔ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور ملکی ساکھ بچانے کیلئے نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ مسلم لیگ کے قائدین نے ہمیشہ کشکول توڑ کر ملک کو خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنے کی بات کی ہے لیکن اب غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف سے قرض لینا ناگزیر ہوگیا تھا ۔
کیونکہ عالمی اداروں سے قرض لے کر واپس کرنا ضروری ہوتا ہے دوسری صورت میں ملک کی ساکھ خراب ہوجاتی ہے۔ ہم تمام فیصلے ملک کے وسیع تر مفاد میں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو اس وقت چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ریونیوبڑھانے کیلئے ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے زراعت اور زرعی انکم پر ٹیکس لگایا ہے۔ جس سے بزنس کمیونٹی اور دیگر ٹیکس گزاروں کا یہ شکوہ ختم ہوجانا چاہئے کہ بڑی لینڈ ہولڈنگ والوں سے ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ اس طرح ہم ٹیکس گزاروں پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے بتدریج ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے۔ صوبے میں 344سستے رمضان بازاروںاور1324دستر خوانوں کا اہتما م کیا گیا ہے۔ جس میں 3ارب 80کروڑ روپے کی سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔سستے رمضان بازاروں میںسیکیورٹی اور صفائی کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔ سستے آٹے کی فراہمی کیلئے فلور ملز کو گندم پرسبسڈی دے رہے ہیں اس لیے کسی بھی قیمت پر رمضان المبارک میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنے دیں گے۔ کچھ فلور ملز ایسی ہے جو صرف رمضان المبار ک میں چلتی ہیں اس لیے ایسے منافع خوروں اور مفاد پرستوں کے محاسبے کیلئے خفیہ ایجنسیوں سے نگرانی میں کوئی قباحت نہیں۔
عرفان اقبال شیخ
(سینئر نائب صدرلاہور چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹری )
مہنگائی کا تعلق طلب و رسد سے ہے۔ جب ڈیمانڈ زیادہ اور سپلائی کم ہوگی تو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ہمہ جہت حکمت عملی بنانا ہوگی۔ پہلا اصول تو یہ ہے کہ اشیاء کی وافر سپلائی یقینی بنائی جائے جس سے ڈیماند پوری ہوسکے۔
جب طلب ورسد میں توازن ہوگا توقیمتیں بھی اعتدال پر رہیںگی۔ لیکن اس کیلئے بھرپور منصوبہ بندی کی جائے۔ مارکیٹ میں اشیاء کی فراہمی کیلئے حکومت کو بزنس کمیونٹی سے مشاورت کرنی چاہئے کیونکہ چھاپے مارنے یا پکڑ دھکڑ سے مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاسکتا اور نہ بیوروکریسی کے پاس جادو کی چھڑی ہے کہ وہ مہنگائی پر قابو پالے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبار ک میں اشیاء کی قیمتوں کو اعتدال پررکھنے کیلئے ضروری ہے کہ دو ماہ پہلے ان اشیاء کوذخیرہ کرلیا جائے کیونکہ رمضان المبار ک میں اشیاء کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات،بجلی،ڈالرکی قیمتوں اور جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی)کی شرح میں اضافہ مہنگائی بڑھنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ حکومت جی ایس ٹی شرح میں کمی کرے، سستی بجلی ،گیس کی فراہمی ، روپے کی قدر مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کرے تو مہنگائی میں کمی ہوسکتی ہے۔ خسارے میں چلنے والی کارپوریشنز سفید ہاتھی بن چکی ہیں۔ اس لیے ریلوے،پی آئی اے اور پاکستان سٹیل کی نجکاری کردی جائے یا ان کے معاملات شفاف بنائے جائیں۔ یہ ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں اور قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔ ماضی میں ان اداروں کوکھربوں روپے کی سبسڈی دی گئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ادارے اپنی کارکردگی بہتر نہیں بنا سکے۔ ملکی معیشت کو اس وقت شدید بحرانوں کا سامنا ہے ۔ ایسے میں بزنس کمیونٹی ملکی ترقی کیلئے کوشاں ہے ۔
بجلی،گیس کی عدم دستیابی کے باوجود نامساعد حالات میں بھی حکومت کو ٹیکس اداکر کے اس کے ریونیو میں اضافہ کررہی ہے ۔اس لیے حکومت کو چاہیئے کہ بزنس کمیونٹی کو مراعات دے اور اسے پالیسی سازی کے عمل میں شریک کیا جائے۔ بیوروکریسی کی بنائی ہوئی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے۔ ایسے سیکٹرز پر ٹیکس لگایا جائے جو ابھی تک ٹیکس نیٹ کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی بزنس مین محب وطن ہے، اس پر ٹیکس چور ہونے کے الزامات نہ لگائے جائیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ درجنوں ٹیکسوں کی بجائے سنگل ٹیکس سسٹم عائد کیا جائے۔کیونکہ ٹیکس سسٹم میں پیچیدگیاں ، ابہام اور کئی قسم کے ٹیکس کرپشن اور ٹیکس چوری کا سبب ہیں۔ حکومت بزنس کمیونٹی کی مشاورت سے معاشی بحالی کا روڈ میپ بنائے اور اس کی روشنی میں اپنی اقتصادی ترجیحات کا تعین کرے۔لاہور چیمبر آف کامرس نے ملک کے وسائل ،معاشی مسائل اور مستقبل کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اقتصادی ایجنڈا پیش کیا ہے جس سے حکومت استفادہ حاصل کرسکتی ہے اور اس حوالے سے لاہور چیمبر آف کامرس بھرپور تعاون کرنے کو تیار ہے۔
خورشید احمد
(جنرل سیکرٹری پاکستان ورکرزکنفیڈریشن)
غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔ حال ہی میں وزیر خزانہ کی جانب سے ملازمین کیلئے جو پالیسیاں بنائی گئی ہیں وہ حیران کن ہیں، 70فیصد آبادی ضروریات زندگی سے محروم ہے اور وہ اقتصادی اور دیگر ضروریات زندگی پوری نہ ہونے کی وجہ سے غربت ، بیروزگاری سے لوگ پریشان ہیں۔ موجودہ حکومت نے جی ایس ٹی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ حکومت کی پالیسیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی کیلئے روز بروز مشکلات بڑھتی جارہی ہیں جبکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ایسی پالیسیاں بناتی جس سے غریب آدمی خود کفیل ہوتا۔
جس ملک میں 108 پارلیمنٹیرین ٹیکس نہیں دیتے وہ ملک کیا ترقی کرے گا جبکہ41فیصد بجٹ ڈیڈ سروس میں چلاجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دس ہزار روپے تنخواہ میں غریب افراد یوٹیلیٹی بلز ادا کریں یاکہ گھر کا خرچ چلائیں ، بھلا دس ہزار روپے میں غریب آدمی کس طرح مہینے کا خرچ چلا سکتا ہے۔ محنت کشوں کی تنخواہ میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے، 36سو روپے پنشن لینے والے افراد موجود مہنگائی میں کس طرح اپنا پیٹ بھریں گے، ایسی صورتحال میں ضروریات زندگی پورا کرنا بہت مشکل ہوجائے گا ، ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے جبکہ اولڈ ایج سکیم کے40ارب روپے کھالئے گئے ، بتایا جائے اس کا کیا بنا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں عید اور دیگر تہواروں پر اشیائے خوردونوش کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہوجاتی ہے جبکہ بیرون ملک کرسمس تہوار ہو تو ان کی حکومتیں خوردو نوش اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردیتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں صورتحال کچھ اور ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام منافع خوروں کے خلاف ایکشن لے اور ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے غریب اور امیرکے درمیان فرق کم ہو۔ گزشتہ دو ماہ کے عرصہ اور ماہ رمضان المبارک میں عوام کیلئے ضروریات زندگی کی اشیاء سستی دینے کی بجائے مہنگی ہو رہی ہیں ،بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاطرخواہ کمی نہیں آئی، ہمارے پالیسی ساز غیر ملکی امداد ، آئی ایم ایف اور ہمارے مخلص دوست ملک عوامی جمہوریہ چین سے تکیہ لگائے رکھنے کی بجائے 18کروڑ عوام کی غربت دور کرنے کے لئے صدر مملکت سے لے کر نچلی سطح تک اسلامی اصولوں کے مطابق سادگی کا نفاذ کریں اور وزیراعظم، تمام وزراء اور اسمبلی کے ارکان جو اکثرکروڑ پتی بھی ہیں تمام سرکاری مراعات کو ترک کرکے قوم کیلئے مثال بنیں۔
ملک کے کثیر وسائل تعلیم پر خرچ کریں، ہر بچے اور بچی کو بامقصد مفت تعلیم دی جائے چونکہ علم اور ٹیکنالوجی سے ہی قوم ترقی کرسکتی ہے، لوڈشیڈنگ پر قابوپانے کے لئے موٹر کاروں کے لئے گیس بند کرکے بند پاور ہاؤسز کو دی جائے اور شام سات بجے کمرشل سنٹر بند کرکے یہ بچت شدہ بجلی قومی صنعت کو دی جائے۔ نئے ہائیڈل اور کوئلہ کے تھرمل بجلی گھر جنگی بنیادوں پر تعمیر کرائے جائیں تاکہ بے روزگاری کا مسئلہ دورکیا جا سکے۔
بااثر افراد کو بجلی چوری پر مثالی سزا دی جائے اور ملک کے عدالتی اور پولیس کے نظام میں قابل قدر اصلاحات کا نفاذ کیا جائے تاکہ عوام کو سستا اور جلدی انصاف مل سکے اور قومی دولت لوٹنے والوں کو مثالی سزائیں دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان دنیا میں عالمی ٹرانسپرنسی کے مطابق بدعنوانی پر بلند ترین سطح پر ہے تاکہ ملک میں رشوت اور لوٹ گھسوٹ ختم ہونے میں مدد ملے۔
قومی اقتصادی خود کفالت کی پالیسی اپناکر قومی صنعت اور زراعت کو ترقی دی جائے اور فالتو حکومتی زمین بے زمین کاشت کاروں میں تقسیم کی جائے۔ کراچی اور دوسرے شہروں میں دہشت گردی کو ہر ممکن روکا جائے۔ ملک میں امیر اور غریب ،سرمایہ داراور محنت کش ، جاگیردار اور مزارع کے مابین بے پناہ فرق کو اسلامی اصولوں کے مطابق کم کیا جائے اور تمام سرمایہ داروں جاگیرداروں اور اسمبلی کے ارکان سے ٹیکس وصول کرکے قومی خزانہ کی آمدنی بڑھائی جائے تاکہ عوام کو خوردونوش کی اشیا سستے داموں میسر ہوسکیں اور ملک مزید ترقی کرسکے۔
بیگم بیلم حسنین
(ممبر قومی اسمبلی،صدرپیپلزپارٹی شعبہ خواتین پنجاب)
مہنگائی تو ہر دور میں ہوتی ہے لیکن موجودہ حکومت کے آتے ہی مہنگائی کا طوفان اس لئے آگیا کہ انہوں نے جی ایس ٹی کا نفاذ بجٹ پیش کرتے ہی کردیا تھا اور بجٹ پاس ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا ۔ یوٹیلیٹی سٹور پر غیر معیاری اشیاء فروخت کی جارہی ہیں جس سے عوام بیمار ہوں گے اور مزید مسائل میں پڑیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ معیاری اشیاء سستے داموں عوام تک پہنچائے لیکن حکومت شائد کاروباری طبقے کو ناراض نہیں کرنا چاہتی کہ اس سے شائد انہیں بڑے نقصانات اٹھانا پڑیں۔ انرجی کا بحران تو گزشتہ دو حکومتوں کے ادوار سے چلا آرہا ہے، مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکومت کوئی اقدام نہیں کرسکی۔
دوسرے ملکوں میں جب بھی کوئی تہوار آتا ہے اشیاء کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کی قوت خرید بڑھ سکے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ یہاں مہنگائی سے تنگ آکر لوگوں کو چوریاں ، ڈکیتیاں کرنا پڑتی ہیں۔ خواتین کے پرس چھینے جاتے ہیں ۔ حکومتی کارکردگی تو لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے سے نظر آتی ہے ۔ اگر حکومت تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تو اس حکومت کا کیا فائدہ ، لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں حکومتی پیسہ اور انرجی ضائع نہیں ہوتی بلکہ گڈگورننس میں اضافہ ہوتا ہے جوکہ موجودہ حکومت میں نظر نہیں آتا۔ غریب آدمی کو بجلی اگر گزشتہ حکومت میں کم ملی تو موجودہ حکومت نے بھی آکر بیانات کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔
کھربوں روپے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو دینے کی بجائے پتہ نہیں کس کو دیدیئے گئے کیونکہ اتنے پیسے اگر بجلی بنانے والی کمپنیوں کو دیئے گئے ہوتے تو بیس بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ نہ ہوتی، اوپر سے ہر ماہ بجلی کے نرخ بڑھا کر پتہ نہیں غریبوں سے کون سا انتقام لیا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دورحکومت میں غریب لوگوں کو روزگاردیا لیکن موجودہ حکومت نے مہنگائی کے اس دور میں لوگوں کو ایک بار پھر بیروزگارکرنا شروع کردیا ہے۔
امن وامان کی صورتحال میں یہ رتی برابر بہتری نہیں لاسکے۔اچھی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھے لیکن یہاں کسی کا کسی پرکوئی کنٹرول نہیں، رمضان بازاروں میں بھی اگر قیمتیں مارکیٹ کی نسبت تھوڑی کم رکھی گئی ہیں تو بہت سی اشیاء دستیاب ہی نہیں ہوتیں یا پھر غیر معیاری بکتی ہیں۔ بیلم حسنین نے کہاکہ حکومت کو یہ بڑی اچھی طرح معلوم ہوگا کہ محض ایک فیصد سیلز ٹیکس زیادہ لینے سے پورے ملک میں مہنگائی کتنے فیصد بڑھی ہے، اس سے لوگوں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی ہے۔
حبیب الرحمن لغاری
(چیئرمین فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب)
جب بھی رمضان شروع ہوتا ہے اشیائے صرف کی قیمتوں کے حوالے سے مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں، حکومت ہر دفعہ رمضان پیکج کیلئے ساڑھے 4لاکھ ٹن گندم دیتی تھی مگر اس دفعہ صرف ڈیڑھ لاکھ ٹن گندم دی ہے۔ اس پر بھی اگر 3 یا ساڑھے 3کروڑ روپے کی سبسڈی دی ہے تو 4کروڑ اس کو چیک کرنے کیلئے خرچ کررہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صبح سے شام تک ملز میںکام کرنے والے مزدور کام کرنے پر تیار نہیں ہیں ہم مشکل سے انہیں کام کیلئے تیار کرتے ہیں تاکہ حکومت کو سپلائی کئے جانے والے آٹے میں کمی نہ آئے۔
ہم حکومت سے پورا تعاون کرتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ آٹے کے معیار اور مقدار میں کمی نہ آئے مگر اس دفعہ وزیراعلیٰ نے ایجنسیوں کو آٹے کا معیار چیک کرنے کیلئے لگادیا ہے حالانکہ ایجنسیوں کے افراد صرف سکیورٹی کے معاملات کو دیکھ سکتے ہیں انہیں کیا پتہ کہ آٹے کا معیار کیا ہے اور اسے کس طرح چیک کرنا ہے۔آٹے کا معیار سیمپل لے کر لیبارٹٰریوں میں بھیجا جاتا ہے اور یہ کام محکمہ فوڈ کا ہے جو کہ لیبارٹریوں کے ذریعے اس کو چیک کرتے ہیں۔ ایجنسیوں کے افراد فلور ملوں کے عملہ کو صرف خوفزدہ کرسکتے ہیں ۔
کیونکہ جب وہ فلور مل پر چھاپہ ماریں گے تو خوف و ہراس ہی پیدا ہوگا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود ہم کوشش کرتے ہیں کہ حکومت سے پوری طرح تعاون کریں اور میں بطور چیئرمین تمام فلور ملز مالکان کو ہدایت کرچکا ہوں کہ حکومت سے ہر طرح کا تعاون کریں۔ حکومت ہمیں دس کلو کا تھیلا بھرنے کا حکم دیتی ہے حالانکہ قانون میں یہ موجود نہیں ہے، قانون میں کم ازکم 20کلو کا تھیلہ بھرنے کا حکم ہے اور 10کلو کا تھیلہ بھرنا ہمارے لئے فیزیبل بھی نہیں ہے اس کے باوجود ہم 10کلو کی پیکنگ دیتے ہیں اس پر صورتحال یہ ہے کہ اگر 10کلو کے تھیلے کے وزن میں 10گرام کی بھی کمی ہوجائے تو جس فلو رمل کا وہ تھیلہ ہو اس کی شامت آجاتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ چھوٹی پیکنگ میں اتنی سی کمی بیشی تو ہو ہی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ تھیلہ کا وزن کرنے کے لئے ایک ایک تھیلے کی بجائے 5تھیلے اکٹھے کرکے تولے جائیں اور اگر پھر بھی وزن میں کمی ہو تو اس پر جواب طلبی ہونی چاہئے۔
دوسری طرف حکومت چیک کرنے کیلئے آٹا اس کنڈے پر تولتی ہے جس پر سونا تولا جاتا ہے جس میں تھوڑی بہت کمی تو آہی جاتی ہے۔ اس وقت یوٹیلیٹی سٹورز کو آٹے کی فراہمی میں مسائل ہیں جس وقت حکومت نے ہم سے یوٹیلیٹی سٹورز کو آٹا دینے کا معاہدہ کیا اس وقت گندم کی قیمت 12سو روپے فی من تھی جوکہ اب 13سو سے 14سو روپے فی من ہوگئی ہے اس لئے اسی قیمت پر آٹا فراہم کرنا ہمارے لئے مشکل ہورہا ہے، ہمارا مؤقف بھی یہی ہے کہ گندم کی قیمت بڑھنے کے باعث آٹے کی قیمت میں اضافہ کیا جائے اس مسئلے پر حکومت سے بات چیت جاری ہے اور امید ہے اس معاملے پر کوئی بہتر نتیجہ نکل آئے گا۔
نذیر احمدجنجوعہ
(جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی پنجاب)
مہنگائی بڑا اہم ایشو ہے۔ یہ بلاشبہ ایسا جن ہے جس پر نہ سابق حکومت قابو پاسکی اور نہ ہی موجودہ حکومت کے کنٹرول میں آرہا ہے۔ موجودہ حکومت کو عوام نے بھاری مینڈیٹ اس لئے دیا تھا کہ انہیں موجودہ حکمرانوں سے ریلیف کی کچھ توقع تھی لیکن افسوس کہ اس حکومت نے بھی آتے ہی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں اپنا سر دے دیا۔یہ بجٹ منتخب پارلیمنٹرینز نے نہیں بنایا بلکہ انہوں نے اس پر صرف مہر لگائی اور بجٹ دفاتر میں بیٹھے بیوروکریسی کے افسروں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ہدایات کی روشنی میں بنایا۔ آئی ایم ایف جو شرائط گزشتہ حکومت سے نہیں منواسکا تھا اس نے موجودہ حکومت سے منوالیں۔ مہنگائی کی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ٹماٹر 160روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔
لوگ دیکھ لیں آج تمام کام حکومتی قائدین کی الیکشن تقریروں کے برعکس ہو رہے ہیں۔ کبھی یہ کہتے تھے کہ ہم آٹے دال کی قیمتیں پرانی سطح پر لے آئیں گے اور کبھی مہنگائی کا رونا رویا جاتا تھا لیکن آج خود یہ مہنگائی کا سبب بنے ہیں ، اب انہیں غریبوں کی حالت نظر نہیں آتی، آج ایک باپ رمضان جیسے مقدس مہینے میں روٹی نہ ہونے پر تین کمسن بچوں سمیت نہر میں کود کر خودکشی کرلیتا ہے۔ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا اخبارات میں ان کی تصویر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
اس کے برعکس لاہور سے محض تیس کلومیٹر دور سستے رمضان بازارکا دورہ کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس کے ساتھ ساتھ کئی گاڑیوں کا سکواڈ بھی تھا جس پر ایک خطیر رقم سرکاری خزانے سے خرچ ہوئی، ان کا حساب کون لے گا۔ غریب عوام نے کیااس لئے انہیں منتخب کیا تھا کہ وہ خودکشیاں کرتے پھریں اور حکمران ان کے پیسے پر عیاشیاں کریں۔ حکومت سے آج تک قیمتوں پرکنٹرول کیلئے کوئی میکنزم نہیں بن سکا۔
سبزی منڈی کا ریٹ اگر کسی چیز کا 75روپے کلو ہوتا ہے تو رمضان کا الٹ فائدہ حاصل کرتے ہوئے وہی چیز 100روپے کلو میں فروخت کی جاتی ہے اور بہانہ بنادیا جاتا ہے کہ منڈی سے ہی ہمیں یہ چیز مہنگی ملی ہے تو ہم کیا کریں۔ یوٹیلیٹی سٹورز، سستے رمضان بازاروں میں مس مینجمنٹ نظر آتی ہے اور اربوں روپے کی حکومتی سبسڈی کا عوام تک کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ بجلی، گیس کے بجٹ میں کمی کرتے ہوئے قیمتوں میں استحکام پیدا کیا جائے اور سودی معیشت کا خاتمہ کیا جائے تبھی معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔