میرے بدن میں ایک آؤٹ آف ڈیٹ روح ہے امتیاز علی کاشف
لڑکپنے کا آوارہ گرد آج بھی مجھ میں موجود ہے، رائیٹر کو معاوضہ دینے کا رواج ڈالا، اب تک سات سو کردار
KARACHI:
شوق کوئی بھی ہو جب اپنی حدوں سے باہر نکل جائے تو اُسے پاگل پن سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن فن کی دنیا میں اِس پاگل پن کی وجہ سے جو آب یاری ہوتی ہے، سیانے اُسے جنون اور عشق کا نام دیتے ہیں۔
خطۂ پوٹھوار میں اداکاری کے شعبے میں نام کمانے والے باصلاحیت اداکار امتیاز علی کاشف کی کتھا بھی پاگل پن کے اسی کوچے سے ہو کر گزرتی ہے جہاں بڑی مشکل گھاٹیوں کی مسافت درپیش ہوتی ہے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ ان گھاٹیوں سے صرف دیوانے ہی گزرا کرتے ہیں۔
اداکار امتیاز علی کاشف عام زندگی میں اداکار نہیں لگتے، ان کو پہلی مرتبہ ملنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کیا یہ وہی آدمی ہے جو اسٹیج یا ٹی وی سکرین پر کام کرتا ہے؟ اپنی شخصیت کے اِس پہلو پر باتوں باتوں میں خود ہی کہنے لگے ''اداکار شرمیلا نہیں ہوتا مگر میرے ساتھ المیہ یہ ہے کہ 700 مختلف کردار ادا کرنے کے باوجود میں اپنے شرمیلے آدمی کو اپنی زندگی سے الگ نہیں کرسکا، مجھے میرے رب نے پیدا ہی اداکاری کے لیے کیا ہے اور ساتھ ساتھ میرے اندر شرمیلا پن بھی رکھ دیا ہے، اب میں اپنے وجود اور اپنی شخصیت کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا، جو مجھے بنا دیا گیا ہے میں اُسی پر متشکر ہوں، ماضی پر کڑھتا نہیں، کل کا سوچتا نہیں، شاید اِسی لیے زندگی سکون سے گزر رہی ہے۔''
''ضلع چکوال کی تحصیل ڈھڈیال کے ایک پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھا کہ والد صاحب، جو فوج میں لانس نائیک تھے، کا کراچی تبادلہ ہو گیا اور یوں میں نے کراچی میں مولوی تمیزالدین روڈ کے نزدیک ہجرت کالونی میں ایک چھوٹے سے مکان میں ہوش سنبھالا، بائیس سال تک کراچی کے آب و دانے میں زندگی گزاری، جب کراچی میں لسانی بنیادوں پر فسادات شروع ہوئے تو میری والدہ نے مجھے ماموں کے پاس راول پنڈی بھیج دیا اور یوں میں ہمیشہ کے لیے خطۂ پوٹھوار کا باسی ہوگیا''۔
اداکار امتیاز علی کاشف سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ واقعی پیدائشی اداکار ہے جو اسکول کے زمانے میں ہی گلیوں اور بازاروں میں بھرے مجمع کے سامنے اداکاری کرتے ہوئے ہرگز نہیں گھبراتا تھا لیکن بھوک میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اسے انتہائی شرم آتی تھی، اپنے دکھ درد سنا کر ہم دردیاں بٹورنا اسے ازحد سفلہ عمل لگتا تھا۔
ہائی اسکول میں ہی اداکار بننے کا شوق اس قدر بڑھا کہ میٹرک سے پہلے ہی تعلیم کو خیرباد کہا، انگریزی فلموں کے چسکے کے باعث کراچی کے نشاط سینما میں الیکٹریشن بن گئے ''میں نے جب یہ نوکری کی تو مجھے بجلی کی گرم، ٹھنڈی تار تک کا علم نہیں تھا، میری ڈیوٹی یہ تھی کہ شام کو سینما کی تمام بتیاں جلاؤں اور آخری شو کے بعد بتیاں بند کر دوں، تینوں شوز الف سے ی تک دیکھا کرتا، مجھے انگریزی فلموں کے مکالمے بالکل سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن اداکاروں کے لہجے، چہرے کے اتار چڑھاؤ، اٹھنے بیٹھنے کے انداز اور آنکھوں کی حرکات کا گہرائی کے ساتھ مشاہدہ کیا کرتا، آج میں جو کچھ بھی ہوں اِس میں میرے اس دورکا بڑا ہاتھ ہے''۔
ایک سوال کے جواب میں کہا ''اداکار بنائے جاتے ہیں، میں اِس سے اتفاق نہیں کرتا، اداکار تو بس پیدا ہوتے ہیں، زمانہ ان کو پالش کرتا ہے، جو اداکار بنائے جاتے ہیں، اُن کی ایک حد ہوتی ہے، جیسے کوئی پراڈکٹ اپنی مقررہ تاریخ کے بعد ایکسپائر ہو جاتی ہے، اسی طرح ایسے فن کار بھی ایک مقام پر جیتے جی ایکسپائر ہوجاتے ہیں، بائی برتھ اداکار ہر آنے والے دن کے ساتھ نکھرتے چلا جاتا ہے''۔
امتیاز علی کاشف کو بھی دوسروں کی طرح گھر والوں کی مخالفت کا سامنا رہا۔ اِن مشکلات میں ان کو بھی حسب روایت والدہ کی حمایت حاصل رہی اور والد صاحب کی تمام تر سختی کے باوجود ماں نے شجرِسایہ دارکی طرح اپنی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹے کے شوق کو پروان چڑھنے میں مدد دی۔ کراچی میں سب سے پہلے امتیاز علی کاشف کے شوق کواداکار رزاق راجو نے پہچانا اور وہی امتیاز علی کاشف کے پہلے استاد بھی ٹھہرے۔
زندگی کے پچھتاووں کے حوالے سے کہا ''میرے فن کار بننے کی تمام ترمشکلات شادی سے پہلے میرے والد اور میری والدہ نے اور شادی کے بعد میری ''بھلی لوکے'' (بیوی) نے جھیلیں۔ کبھی کبھی مجھے بہت
افسوس ہوتا ہے کہ آج جب میں نام ور ہو گیا ہوں تو میری والدہ اور والد دنیا میں نہیں ہیں۔'' میں اکثر رات کو دیر سے گھر آتا تو پٹائی کے علاوہ کھانا بھی نہ ملتا، ایسے میں والدہ، والد صاحب کے تمام تر غصے کا سامنا کرکے مجھے کھانا کھلا دیتیں۔ میرے دو ماموں بھی تھے وہ بھی میرے میں والد صاحب کو کسی نہ کسی طرح منا ہی لیا کرتے''۔
امتیاز نجی ٹی وی کے ایک معروف پروگرام میں اب تک سات سو سے زیادہ مختلف کردار ادا کر چکے ہیں مگر کہتے یہ ہیں ''میں خود کو ورسٹائل اداکار ہرگز نہیں کہتا، لوگ جب مجھے صرف مزاحیہ اداکار کے خانے میں قید کر دیتے ہیں تو میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں درست ہوں یا لوگ؟''۔
جوانی میں اداکار امتیاز علی کاشف کو اداکاری کے علاوہ فٹ بال کھیلنے کا بھی جنون تھا، کہتے ہیں ''پاکستان میں اگر اِس کھیل کو سرکاری سرپرستی مل جائے تو یہاں سے عالمی سطح کے کھلاڑی نکل سکتے ہیں''۔
کراچی سے راول پنڈی آنے کے بعد اداکار کاشف کو پوٹھواری ٹیلی فلموں کے ڈائریکٹر ریاض سلیمی اور اداکار ناصر ولیئم مل گئے، ان کی رفاقت میں سفر آگے بڑھا تو اداکار افتخار ٹھاکر سے بھی شناسائی ہو گئی اور یوں جہدمسلسل کی یہ کہانی ایک نئے موڑ پر آ گئی۔ راول پنڈی صدر میں حیدر روڈ پر ایک کیفے جانا شروع کر دیا، وہاں مقامی اداکار بیٹھا کرتے تھے۔ ان کی حلیم الطبعی نے دوستوں کے دلوں مین گھر کر لیا یوں وہ جلد ہی لیاقت ہال کے تھیٹر میں پہنچ گئے۔ وہاں انہیں اداکار سلیم خواجہ، جہانگیر جانی، باطن فاروقی، مسعود خواجہ، تنویر خواجہ، احسان قریشی، مشتاق ندیم اور سجاد کشور جیسے فن کاروں کی رفاقت میسر آئی۔
اسٹیج کے یہ بڑے فن کار ان کی صلاحیتوں اور ان کی ملائم طبیعت کے مداح ہوگئے۔ پھرایک وقت آیا کہ ایک ڈراما پروڈیوسر نے، جو نئے فن کاروں سے رقم اینٹھ کر کام دیا کرتا تھا، اُس نے ان کے کام سے مسحور ہو کر اپنی جیب سے اِنہیں 150 روپے معاوضہ دیا، تب یہ رقم آج کے 10 ہزار روپے کے برابر تھی، امتیاز علی کاشف کے بہ قول ''یہ رقم میرے لیے آج بھی اعزاز کا درجہ رکھتی ہے، جو میرے پہلے کمرشل ڈرامے کا معاوضہ تھا''۔
کاشف کو اداکاری کا شوق سلور سکرین سے ہوا تھا مگر یہ عجیب بات ہے کہ کبھی فلم میں کام کرنے کا شوق پیدا نہ ہوا، اِس بارے میں بتایا ''مجھے اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کام سے فرصت ہی نہیں ملی، دوسری بات یہ کہ فلم میں اداکاری میرے مزاج سے لگا بھی نہیں کھاتی، ایک سین آج شوٹ ہوا ہے تو دوسرا دو ماہ بعد، جب کہ میں اتنے طویل وقفے کا قائل نہیں، اِس لیے فلم کی طرف جانے کا شوق ہی نہیں ہوا۔''
امتیاز علی کاشف کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ایشیا میں طویل عرصہ تک چلنے والے ایک معروف پروگرام ''خواجہ آن لائن'' کے قریباً تمام پروگراموں میں حصہ لیا اور 100 کے قریب اسٹیج ڈراموں میں اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کرکے حاضرین اور ناظرین سے داد وصول کی لیکن مزے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ اسکرپٹ کی لائنیں اکثر بھول جاتے ہیں، فی البدیہ جملوں پر انہیں ملکہ حاصل ہے اور اکثر یوں بھی ہوا کہ پورا پروگرام فی البدیہ ہی ریکارڈ ہو گیا اور ناظرین میں مقبول بھی ہوا۔ پی ٹی وی کے پروگرام ''کلیاں'' کے خالق فاروق قیصر کی ٹیم کے ساتھ بھی کاشف کو کام کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنے کردار ''گل خان'' کے حوالے سے خوب نام کمایا، کاشف فاروق قیصر کو اپنے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں۔
کاشف کے مطابق ''رنگ، قد کاٹھ، فٹ ورک، آئی موومنٹ، ری ایکشن اور اداکاری کی دیگر جملہ ضروریات کو سمجھے بغیر اداکاری ممکن نہیں لیکن جنون یہ سب کچھ سکھا دیتا ہے، جسے جنون نہیں اس کے ڈھول کا پول جلد ہی کھل جاتا ہے''۔
کاشف کی صلاحیتوں کا ناظرین اور حاضرین نے تو اعتراف کیا ہی ہے لیکن یہ عمر شریف اور معین اختر مرحوم سے بھی خراجِ تحسین وصول کر چکے ہیں۔ کہا ''ایک بار اسلام آباد ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہوئے اچانک معین اختر صاحب سے ملنے کا موقع مل گیا، اُس وقت میرے ساتھ دسورے سینیئر فن کار بھی موجود تھے، معین مرحوم سب سے ملے، میری باری آئی تو مجھے گلے لگا لیا اور میرا ماتھا چوم کر میرے کام کی اتنی تعریف کی کہ میں نادم سا ہوگیا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے، اسی طرح عمر شریف صاحب نے مجھے تلقین کی کہ پنڈی میں خود کو ضائع ہو مرنے کی بہ جائے میرے پاس آ جاؤ، ان کی یہ پیش کش بھی میرے لیے ''پرائیڈ آف پرفارمنس'' ہے۔ عمر شریف اور معین اختر مرحوم ان کے بارے میں مشترکہ رائے رکھتے تھے کہ ''ان کے کام میں کمال کا بے ساختہ پن ہے''۔
نائن الیون سے پہلے ان کے ایک مہربان استاد ناصر اقبال نے انہیں امریکا کی راہ دکھائی، ان دنوں گھر سے ٹی وی اسٹیشن تک جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا لیکن قسمت مہربان ہوگئی، ویزا نہایت آسانی سے مل گیا، اداکار افتخار ٹھاکر ان دنوں امریکا میں تھے، ان کو خبر ہوئی تو انہوں نے بلاتاخیر ایک لاکھ 10 ہزار روپے ارسال کر دیے اور یہ مریکا جاپہنچے۔ وہاں ایک ''پیزا پارلر'' پر کاؤنٹر کی ملازمت مل گئی ساتھ ہی پیزا پارلر کے مینیجر رویندر کمار سے دوستی ہو گئی۔
بہ قول کاشف ''میں اُسے بے تکلفی میں روی شاہ کہا کرتا، جواباً وہ مجھے کاشی رام کہا کرتا، میں وہاں اڑھائی سال رہا، پیزا بنانے، کاؤنٹر جاب اور دیگر کھانے پکانے کا کام میں نے روی سے ہی سیکھا، اُس نے میرا سگے بھائیوں کی طرح خیال رکھا، ایک دن کہنے لگا کاشی تیرا اپنا گھر نہیں تو پاکستان میں اپنی چھت تو بنا لے، میں نے کہا پیسے کہاں سے لاؤں؟ کہنے لگا کہ اس کا بندوبست ہو جائے گا، میں اُس کا احسان نہیں لینا چاہتا تھا سو کہ دیا کہ میرا یہاں دل نہیں لگتا، میں اداکار ہوں، وطن جا کر اداکاری کرنا چاہتا ہوں، وہ ناراض ہو کر کہنے لگا یہاں آنے کے لیے لوگ لاکھوں خرچ کرتے ہیں، تمہاری تو دمڑی بھی خرچ نہیں ہوئی، تمہیں تو لوگوں کی محبت یہاں تک لے آئی ہے،
اب کم از کم اپنے بچوں کے لیے چھت تو بنا لو، میں پھر بھی نہ مانا تو اس نے باقاعدہ میرے پاؤں پکڑ لیے اور کہا صرف ایک سال خوب محنت کر لو، گھر بن جائے گا، میں اُس کی محبت کے سامنے ڈھیر ہو گیا اور پھر واقعی میں اس قابل ہو گیا کہ میں نے پنڈی میں اپنا گھر خرید لیا، آج سوچتا ہوں اگر روی نہ ہوتا تو آج میرے بچوں کا کیا ہوتاکیا میں۔ نائن الیون کے بعد جب پاکستانیوں کے حالات خراب ہونے لگے تو میں بھی لوٹ آیا، ایک بات ضرور کہوں گا کہ امریکا بہت ہی اچھا ملک ہے مگر پاکستان کا ہم پلہ نہیں۔''
کاشف کو کھانے پینے اور پہننے میں ''رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ہماری گائے بنائی'' کے قائل ہیں، کہتے ہیں بھوک لگے تو بیوی سے نہیں کہتا، اپنے اور بچوں کے لیے خود ہی پکا لیتا ہوں، اللہ نے ہاتھ میں خاصی لذت رکھ دی ہے، رہا پہننے کا مسئلہ تو موٹا جھونٹا جیسا مل جائے پہن لیتا ہوں، کبھی استری اور کلف لگے کپڑوںکی تمنا نہیں کی۔ آج بھی کراچی میں گزرے اپنے بچپن میں زندہ رہنے والا انسان ہوں، وہ میری آوارہ گردی کا عروج تھا اور وہی آوارہ گرد آج بھی میرے اندر زندہ ہے۔ آج بھی گھر سے سبزی خریدنے نکلتا ہوں تو بھول جاتا ہوں کہ کس کام سے نکلا تھا،
بیوی بچے اب میری غائب الدماغی سے سمجھوتا کر چکے ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنا ہی دیا ہوا آئیڈیا یاد نہیں ہوتا، کاش میں اپنے آئیڈیاز لکھنے کی عادت ڈال لیتا، ایک مرتبہ لکھنے کی کوشش کی تو لکھتے لکھتے آمد رک گئی، میں الجھ گیا، لکھنا بند کیا تو پھر آمد ہو گئی، یہ تماشا تادیر جاری رہا تو میں نے اس کام سے توبہ ہی کر لی، اب میں بولتا ہوں اور میرے ساتھی اُسے لکھ لیتے ہیں ان ہی آئیڈیاز پر مبنی میرے لکھے متعدد ڈرامے کام یاب بھی ہو چکے۔ ایک زمانہ تھا جب اسکرپٹ رائیٹر کو معاوضہ دینے کا رواج نہیں تھا، لوگ شہرت کے لیے لکھ دیا کرتے تھے مگر میں نے اپنے پروڈیوس کیے ہوئے ڈراموں میں رائیٹر کو معاوضہ دینے کا رواج ڈالا جو اب باقاعدہ ایک پروفیشن بن چکا ہے۔''
کاشف کو عام زندگی میں دیکھنے والے اور کبھی کبھار ملنے والے اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ وہ بہت لیے دیے سا آدمی ہے، چھوئی موئی سا شرمیلا، اس پر کاشف یوں گویا ہوئے ''شاید یہ بات درست بھی ہو، میں ''شوخا'' نہیں ہوں، بس جو ہوں سو ہوں، عام زندگی میں مجھ سے اداکاری نہیں ہوتی''۔
کاشف اپنے بچوں کو کچھ بنانے کے قائل نہیں، کہتے ہیں ''بچہ ڈاکو بننا چاہے تو بننے دیں البتہ یہ ضرور ہوکہ ڈاکااس فن کاری سے ڈالے کہ رابن ہُڈ کی یاد تازہ ہوجائے، اب میرے بڑے بیٹے نے ویڈیو ایڈیٹر بننے کی خوہش ظاہر کی تو میں نے نہیں روکا، بس اتنا کہا ہے کہ مزہ جب ہے کہ اس کام میں کمال حاصل کرکے دکھا دو''۔
کاشف نے اپنے پسندیدہ فن کار کا نام لینے سے صاف انکار کر دیا ''فن کار، گل دستہ ہوتے ہیں، ہر پنکھڑی اور پتے کی اپنی جاذبیت ہے، مجھے تو آج تک کوئی بھی فن کار برا نہیں لگا مگر مجھے وہ اداکار زہر لگتے ہیں جو شہرت و دولت پانے کے بعد پہلے اپنی بیوی کو چھوڑ دیتے ہیں، جس نے ان کو فن کار بنانے کی بہت بڑی قیمت چکائی ہوتی ہے، برے وقت کے ساتھی کو نہ بھولنے والا چاہے فن کار ہو یا کوئی اور، مجھے بہت اچھا لگتا ہے، میں شاید اسی لیے نئے نئے دوست نہیں بنا سکا،
اسے میری شخصیت کاالجھاؤ کہ لیں مگر میں ایسا ہی ہوں مجھ میں ایک ایسی روح ہے جو ''آؤٹ آف ڈیٹ'' ہے، مجھے تو کئی صدیاں پہلے پیدا ہونا چاہیے تھا، ماڈرن عہد میں بالکل ''مِس فٹ'' ہوں لیکن مطمئن بہت ہوں البتہ ایک خیال آج بھی دل کو چیر جاتا ہے کہ اے کاش میرے ماں باپ آج میرے ساتھ ہوتے اور مجھے اور میرے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتے، میں ان کی اتنی خدمت کرتا کہ وہ میرے دیے ہوئے سب دکھ بھول جاتے، یقین کریں میں خود باپ بنا ہوں تو مجھے والدین کے مرتبے کا صحیح ادراک ہوا ہے''۔
جنوں، خرد کے مقابل ہے کیا کیا جائے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا پہلا بیٹا اڑھائی سال کا تھا، بیوی گائوں میں تھی کہ بیٹا ڈائریا میں مبتلا ہو کر قریب المرگ ہوگیا، فوری طور پر اُسے راول پنڈی کے ایک اسپتال لایا گیا، میں اُس وقت لیاقت ہال میں اپنے لکھے ہوئے ڈرامے ''چیف صاحب'' کے پہلے شو میں مصروف تھا، اُس میں میرا کردار بہت اہم تھا، میں اپنے بچے کی بیماری سے لاعلم تھا کہ اتنے میں میرا ایک دوست لیاقت ہال پہنچا اور پردے کے پیچھے مجھے صورت حال سے آگاہ کیا، کہنے لگا تیرا پورا خاندان پریشان ہے، تیری بیوی نے رو رو کر برا حال کر لیا ہے، فوری طور پر میرے ساتھ اسپتال چلو، میں نے اُسے کہا کہ پندرہ بیس منٹ ٹھہر جائو ڈراما ختم ہو گا تو چلتے ہیں،
وہ غصے میں آ گیا اور جذباتی ہو کر اُس نے مجھے تھپڑ رسید کر دیا، میں کچھ نہ بول سکا، ایک طرف پیشہ وارانہ ذمہ داری تھی اور دوسری جانب میری پہلی اولاد موت اور زندگی کی کش مہ کش میں، میرا دوست گالیاں دیتا چلا گیا، ڈرامہ ختم ہوا تو میں اسپتال پہنچا، میرا بیٹا انتہائی نگہ داشت کے وارڈ میں تھا، بیٹے کو دیکھا تو اس نے مڑ کر کچھ ایسی نظر سے دیکھا جیسے کہ رہا ہو، ''بابا خدا حافظ'' اور واقعی وہ مجھے خدا حافظ کہ چکا تھا، میرے سامنے اُس نے آخری ہچکی لی۔ اُس کی آخری نظر کا کی پھانس آج تک دل سے نہیں نکلی، شاید کبھی نہ نلکے، اسپتال سے نعش لے کر ایمبولینس میں بیٹھا تو بیوی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ یہ چپ کیوں ہے اور میں کھڑکی کی طرف منہ کرکے زندگی میں پہلی مرتبہ اداکاری کرتے ہوئے کہ رہا تھا، ڈاکٹر نے نیند کا ٹیکہ لگا دیا ہے، گھر جا کر اسے ہوش آئے گا، گھر پہنچے تو کہرام مچ گیا،
صبح تک اُسے دفن کیا اور سہ پہر کو تعزیت والے لوگ آنے لگے، میں مسلسل رو رہا تھا، ایسے میں خیال آیا کہ کل تو جن ہزاروں لوگوں کو اسٹیج پر ہنسا کر آیا ہے، آج وہ تیرے نہ ہونے کی وجہ سے پروڈیوسر کا سر پھاڑ دیں گے، بس 4 بجے کے قریب میں نے اپنی ساس سے ہمت کرکے کہ دیا کہ میں ایک اداکار ہوں، دو نہیں تین دن بعد میں نے پھر یہ ہی کام کرنا ہے، جانے والا تو چلا گیا، تو پھر میں آج سے ہی یہ کام دوبارہ کیوں نہ شروع کر دوں، پہلے تو وہ حیران ہوئیں مگر میری بات پر کچھ دیر سوچ کر کہنے لگیں تو ٹھیک کہتا ہے چپکے سے رات کو نکل جانا اور صبح تک واپس آ جانا،
میں گائوں سے نکل کر جب راول پنڈی لیاقت ہال پہنچا تو سب پریشان ہو گئے، مجھے ڈانٹا بھی میں نے نہایت خاموشی سے گٹ اپ کیا اور مقررہ انٹری پر اسٹیج پر چلا گیا، میری آنکھوں میں آنسو تھے مگرلوگ میرے مکالموں پر ہنس ہنس کر داد دے رہے تھے، ڈرامہ ختم ہوا تو ایک ساتھی نے حاضرین کو اعلان کرکے تمام ماجرا سنا دیا، تو ایسا ہوا کہ ابھی جو لوگ ہنس رہے تھے، اب دھاروں دھار رو رہے تھے، ہال سے نکل کر میں بھی خوب رویا، دل ہلکا ہوا تو گائوں چلا آیا، باقی شو میں نے اسی طرح مکمل کرائے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جس پروڈیوسر نے مجھ پر لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں میری وجہ سے خسارے میں جائے''۔
شوق کوئی بھی ہو جب اپنی حدوں سے باہر نکل جائے تو اُسے پاگل پن سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن فن کی دنیا میں اِس پاگل پن کی وجہ سے جو آب یاری ہوتی ہے، سیانے اُسے جنون اور عشق کا نام دیتے ہیں۔
خطۂ پوٹھوار میں اداکاری کے شعبے میں نام کمانے والے باصلاحیت اداکار امتیاز علی کاشف کی کتھا بھی پاگل پن کے اسی کوچے سے ہو کر گزرتی ہے جہاں بڑی مشکل گھاٹیوں کی مسافت درپیش ہوتی ہے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ ان گھاٹیوں سے صرف دیوانے ہی گزرا کرتے ہیں۔
اداکار امتیاز علی کاشف عام زندگی میں اداکار نہیں لگتے، ان کو پہلی مرتبہ ملنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کیا یہ وہی آدمی ہے جو اسٹیج یا ٹی وی سکرین پر کام کرتا ہے؟ اپنی شخصیت کے اِس پہلو پر باتوں باتوں میں خود ہی کہنے لگے ''اداکار شرمیلا نہیں ہوتا مگر میرے ساتھ المیہ یہ ہے کہ 700 مختلف کردار ادا کرنے کے باوجود میں اپنے شرمیلے آدمی کو اپنی زندگی سے الگ نہیں کرسکا، مجھے میرے رب نے پیدا ہی اداکاری کے لیے کیا ہے اور ساتھ ساتھ میرے اندر شرمیلا پن بھی رکھ دیا ہے، اب میں اپنے وجود اور اپنی شخصیت کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا، جو مجھے بنا دیا گیا ہے میں اُسی پر متشکر ہوں، ماضی پر کڑھتا نہیں، کل کا سوچتا نہیں، شاید اِسی لیے زندگی سکون سے گزر رہی ہے۔''
''ضلع چکوال کی تحصیل ڈھڈیال کے ایک پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھا کہ والد صاحب، جو فوج میں لانس نائیک تھے، کا کراچی تبادلہ ہو گیا اور یوں میں نے کراچی میں مولوی تمیزالدین روڈ کے نزدیک ہجرت کالونی میں ایک چھوٹے سے مکان میں ہوش سنبھالا، بائیس سال تک کراچی کے آب و دانے میں زندگی گزاری، جب کراچی میں لسانی بنیادوں پر فسادات شروع ہوئے تو میری والدہ نے مجھے ماموں کے پاس راول پنڈی بھیج دیا اور یوں میں ہمیشہ کے لیے خطۂ پوٹھوار کا باسی ہوگیا''۔
اداکار امتیاز علی کاشف سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ واقعی پیدائشی اداکار ہے جو اسکول کے زمانے میں ہی گلیوں اور بازاروں میں بھرے مجمع کے سامنے اداکاری کرتے ہوئے ہرگز نہیں گھبراتا تھا لیکن بھوک میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اسے انتہائی شرم آتی تھی، اپنے دکھ درد سنا کر ہم دردیاں بٹورنا اسے ازحد سفلہ عمل لگتا تھا۔
ہائی اسکول میں ہی اداکار بننے کا شوق اس قدر بڑھا کہ میٹرک سے پہلے ہی تعلیم کو خیرباد کہا، انگریزی فلموں کے چسکے کے باعث کراچی کے نشاط سینما میں الیکٹریشن بن گئے ''میں نے جب یہ نوکری کی تو مجھے بجلی کی گرم، ٹھنڈی تار تک کا علم نہیں تھا، میری ڈیوٹی یہ تھی کہ شام کو سینما کی تمام بتیاں جلاؤں اور آخری شو کے بعد بتیاں بند کر دوں، تینوں شوز الف سے ی تک دیکھا کرتا، مجھے انگریزی فلموں کے مکالمے بالکل سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن اداکاروں کے لہجے، چہرے کے اتار چڑھاؤ، اٹھنے بیٹھنے کے انداز اور آنکھوں کی حرکات کا گہرائی کے ساتھ مشاہدہ کیا کرتا، آج میں جو کچھ بھی ہوں اِس میں میرے اس دورکا بڑا ہاتھ ہے''۔
ایک سوال کے جواب میں کہا ''اداکار بنائے جاتے ہیں، میں اِس سے اتفاق نہیں کرتا، اداکار تو بس پیدا ہوتے ہیں، زمانہ ان کو پالش کرتا ہے، جو اداکار بنائے جاتے ہیں، اُن کی ایک حد ہوتی ہے، جیسے کوئی پراڈکٹ اپنی مقررہ تاریخ کے بعد ایکسپائر ہو جاتی ہے، اسی طرح ایسے فن کار بھی ایک مقام پر جیتے جی ایکسپائر ہوجاتے ہیں، بائی برتھ اداکار ہر آنے والے دن کے ساتھ نکھرتے چلا جاتا ہے''۔
امتیاز علی کاشف کو بھی دوسروں کی طرح گھر والوں کی مخالفت کا سامنا رہا۔ اِن مشکلات میں ان کو بھی حسب روایت والدہ کی حمایت حاصل رہی اور والد صاحب کی تمام تر سختی کے باوجود ماں نے شجرِسایہ دارکی طرح اپنی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹے کے شوق کو پروان چڑھنے میں مدد دی۔ کراچی میں سب سے پہلے امتیاز علی کاشف کے شوق کواداکار رزاق راجو نے پہچانا اور وہی امتیاز علی کاشف کے پہلے استاد بھی ٹھہرے۔
زندگی کے پچھتاووں کے حوالے سے کہا ''میرے فن کار بننے کی تمام ترمشکلات شادی سے پہلے میرے والد اور میری والدہ نے اور شادی کے بعد میری ''بھلی لوکے'' (بیوی) نے جھیلیں۔ کبھی کبھی مجھے بہت
افسوس ہوتا ہے کہ آج جب میں نام ور ہو گیا ہوں تو میری والدہ اور والد دنیا میں نہیں ہیں۔'' میں اکثر رات کو دیر سے گھر آتا تو پٹائی کے علاوہ کھانا بھی نہ ملتا، ایسے میں والدہ، والد صاحب کے تمام تر غصے کا سامنا کرکے مجھے کھانا کھلا دیتیں۔ میرے دو ماموں بھی تھے وہ بھی میرے میں والد صاحب کو کسی نہ کسی طرح منا ہی لیا کرتے''۔
امتیاز نجی ٹی وی کے ایک معروف پروگرام میں اب تک سات سو سے زیادہ مختلف کردار ادا کر چکے ہیں مگر کہتے یہ ہیں ''میں خود کو ورسٹائل اداکار ہرگز نہیں کہتا، لوگ جب مجھے صرف مزاحیہ اداکار کے خانے میں قید کر دیتے ہیں تو میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں درست ہوں یا لوگ؟''۔
جوانی میں اداکار امتیاز علی کاشف کو اداکاری کے علاوہ فٹ بال کھیلنے کا بھی جنون تھا، کہتے ہیں ''پاکستان میں اگر اِس کھیل کو سرکاری سرپرستی مل جائے تو یہاں سے عالمی سطح کے کھلاڑی نکل سکتے ہیں''۔
کراچی سے راول پنڈی آنے کے بعد اداکار کاشف کو پوٹھواری ٹیلی فلموں کے ڈائریکٹر ریاض سلیمی اور اداکار ناصر ولیئم مل گئے، ان کی رفاقت میں سفر آگے بڑھا تو اداکار افتخار ٹھاکر سے بھی شناسائی ہو گئی اور یوں جہدمسلسل کی یہ کہانی ایک نئے موڑ پر آ گئی۔ راول پنڈی صدر میں حیدر روڈ پر ایک کیفے جانا شروع کر دیا، وہاں مقامی اداکار بیٹھا کرتے تھے۔ ان کی حلیم الطبعی نے دوستوں کے دلوں مین گھر کر لیا یوں وہ جلد ہی لیاقت ہال کے تھیٹر میں پہنچ گئے۔ وہاں انہیں اداکار سلیم خواجہ، جہانگیر جانی، باطن فاروقی، مسعود خواجہ، تنویر خواجہ، احسان قریشی، مشتاق ندیم اور سجاد کشور جیسے فن کاروں کی رفاقت میسر آئی۔
اسٹیج کے یہ بڑے فن کار ان کی صلاحیتوں اور ان کی ملائم طبیعت کے مداح ہوگئے۔ پھرایک وقت آیا کہ ایک ڈراما پروڈیوسر نے، جو نئے فن کاروں سے رقم اینٹھ کر کام دیا کرتا تھا، اُس نے ان کے کام سے مسحور ہو کر اپنی جیب سے اِنہیں 150 روپے معاوضہ دیا، تب یہ رقم آج کے 10 ہزار روپے کے برابر تھی، امتیاز علی کاشف کے بہ قول ''یہ رقم میرے لیے آج بھی اعزاز کا درجہ رکھتی ہے، جو میرے پہلے کمرشل ڈرامے کا معاوضہ تھا''۔
کاشف کو اداکاری کا شوق سلور سکرین سے ہوا تھا مگر یہ عجیب بات ہے کہ کبھی فلم میں کام کرنے کا شوق پیدا نہ ہوا، اِس بارے میں بتایا ''مجھے اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کام سے فرصت ہی نہیں ملی، دوسری بات یہ کہ فلم میں اداکاری میرے مزاج سے لگا بھی نہیں کھاتی، ایک سین آج شوٹ ہوا ہے تو دوسرا دو ماہ بعد، جب کہ میں اتنے طویل وقفے کا قائل نہیں، اِس لیے فلم کی طرف جانے کا شوق ہی نہیں ہوا۔''
امتیاز علی کاشف کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ایشیا میں طویل عرصہ تک چلنے والے ایک معروف پروگرام ''خواجہ آن لائن'' کے قریباً تمام پروگراموں میں حصہ لیا اور 100 کے قریب اسٹیج ڈراموں میں اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کرکے حاضرین اور ناظرین سے داد وصول کی لیکن مزے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ اسکرپٹ کی لائنیں اکثر بھول جاتے ہیں، فی البدیہ جملوں پر انہیں ملکہ حاصل ہے اور اکثر یوں بھی ہوا کہ پورا پروگرام فی البدیہ ہی ریکارڈ ہو گیا اور ناظرین میں مقبول بھی ہوا۔ پی ٹی وی کے پروگرام ''کلیاں'' کے خالق فاروق قیصر کی ٹیم کے ساتھ بھی کاشف کو کام کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنے کردار ''گل خان'' کے حوالے سے خوب نام کمایا، کاشف فاروق قیصر کو اپنے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں۔
کاشف کے مطابق ''رنگ، قد کاٹھ، فٹ ورک، آئی موومنٹ، ری ایکشن اور اداکاری کی دیگر جملہ ضروریات کو سمجھے بغیر اداکاری ممکن نہیں لیکن جنون یہ سب کچھ سکھا دیتا ہے، جسے جنون نہیں اس کے ڈھول کا پول جلد ہی کھل جاتا ہے''۔
کاشف کی صلاحیتوں کا ناظرین اور حاضرین نے تو اعتراف کیا ہی ہے لیکن یہ عمر شریف اور معین اختر مرحوم سے بھی خراجِ تحسین وصول کر چکے ہیں۔ کہا ''ایک بار اسلام آباد ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہوئے اچانک معین اختر صاحب سے ملنے کا موقع مل گیا، اُس وقت میرے ساتھ دسورے سینیئر فن کار بھی موجود تھے، معین مرحوم سب سے ملے، میری باری آئی تو مجھے گلے لگا لیا اور میرا ماتھا چوم کر میرے کام کی اتنی تعریف کی کہ میں نادم سا ہوگیا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے، اسی طرح عمر شریف صاحب نے مجھے تلقین کی کہ پنڈی میں خود کو ضائع ہو مرنے کی بہ جائے میرے پاس آ جاؤ، ان کی یہ پیش کش بھی میرے لیے ''پرائیڈ آف پرفارمنس'' ہے۔ عمر شریف اور معین اختر مرحوم ان کے بارے میں مشترکہ رائے رکھتے تھے کہ ''ان کے کام میں کمال کا بے ساختہ پن ہے''۔
نائن الیون سے پہلے ان کے ایک مہربان استاد ناصر اقبال نے انہیں امریکا کی راہ دکھائی، ان دنوں گھر سے ٹی وی اسٹیشن تک جانے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا لیکن قسمت مہربان ہوگئی، ویزا نہایت آسانی سے مل گیا، اداکار افتخار ٹھاکر ان دنوں امریکا میں تھے، ان کو خبر ہوئی تو انہوں نے بلاتاخیر ایک لاکھ 10 ہزار روپے ارسال کر دیے اور یہ مریکا جاپہنچے۔ وہاں ایک ''پیزا پارلر'' پر کاؤنٹر کی ملازمت مل گئی ساتھ ہی پیزا پارلر کے مینیجر رویندر کمار سے دوستی ہو گئی۔
بہ قول کاشف ''میں اُسے بے تکلفی میں روی شاہ کہا کرتا، جواباً وہ مجھے کاشی رام کہا کرتا، میں وہاں اڑھائی سال رہا، پیزا بنانے، کاؤنٹر جاب اور دیگر کھانے پکانے کا کام میں نے روی سے ہی سیکھا، اُس نے میرا سگے بھائیوں کی طرح خیال رکھا، ایک دن کہنے لگا کاشی تیرا اپنا گھر نہیں تو پاکستان میں اپنی چھت تو بنا لے، میں نے کہا پیسے کہاں سے لاؤں؟ کہنے لگا کہ اس کا بندوبست ہو جائے گا، میں اُس کا احسان نہیں لینا چاہتا تھا سو کہ دیا کہ میرا یہاں دل نہیں لگتا، میں اداکار ہوں، وطن جا کر اداکاری کرنا چاہتا ہوں، وہ ناراض ہو کر کہنے لگا یہاں آنے کے لیے لوگ لاکھوں خرچ کرتے ہیں، تمہاری تو دمڑی بھی خرچ نہیں ہوئی، تمہیں تو لوگوں کی محبت یہاں تک لے آئی ہے،
اب کم از کم اپنے بچوں کے لیے چھت تو بنا لو، میں پھر بھی نہ مانا تو اس نے باقاعدہ میرے پاؤں پکڑ لیے اور کہا صرف ایک سال خوب محنت کر لو، گھر بن جائے گا، میں اُس کی محبت کے سامنے ڈھیر ہو گیا اور پھر واقعی میں اس قابل ہو گیا کہ میں نے پنڈی میں اپنا گھر خرید لیا، آج سوچتا ہوں اگر روی نہ ہوتا تو آج میرے بچوں کا کیا ہوتاکیا میں۔ نائن الیون کے بعد جب پاکستانیوں کے حالات خراب ہونے لگے تو میں بھی لوٹ آیا، ایک بات ضرور کہوں گا کہ امریکا بہت ہی اچھا ملک ہے مگر پاکستان کا ہم پلہ نہیں۔''
کاشف کو کھانے پینے اور پہننے میں ''رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ہماری گائے بنائی'' کے قائل ہیں، کہتے ہیں بھوک لگے تو بیوی سے نہیں کہتا، اپنے اور بچوں کے لیے خود ہی پکا لیتا ہوں، اللہ نے ہاتھ میں خاصی لذت رکھ دی ہے، رہا پہننے کا مسئلہ تو موٹا جھونٹا جیسا مل جائے پہن لیتا ہوں، کبھی استری اور کلف لگے کپڑوںکی تمنا نہیں کی۔ آج بھی کراچی میں گزرے اپنے بچپن میں زندہ رہنے والا انسان ہوں، وہ میری آوارہ گردی کا عروج تھا اور وہی آوارہ گرد آج بھی میرے اندر زندہ ہے۔ آج بھی گھر سے سبزی خریدنے نکلتا ہوں تو بھول جاتا ہوں کہ کس کام سے نکلا تھا،
بیوی بچے اب میری غائب الدماغی سے سمجھوتا کر چکے ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنا ہی دیا ہوا آئیڈیا یاد نہیں ہوتا، کاش میں اپنے آئیڈیاز لکھنے کی عادت ڈال لیتا، ایک مرتبہ لکھنے کی کوشش کی تو لکھتے لکھتے آمد رک گئی، میں الجھ گیا، لکھنا بند کیا تو پھر آمد ہو گئی، یہ تماشا تادیر جاری رہا تو میں نے اس کام سے توبہ ہی کر لی، اب میں بولتا ہوں اور میرے ساتھی اُسے لکھ لیتے ہیں ان ہی آئیڈیاز پر مبنی میرے لکھے متعدد ڈرامے کام یاب بھی ہو چکے۔ ایک زمانہ تھا جب اسکرپٹ رائیٹر کو معاوضہ دینے کا رواج نہیں تھا، لوگ شہرت کے لیے لکھ دیا کرتے تھے مگر میں نے اپنے پروڈیوس کیے ہوئے ڈراموں میں رائیٹر کو معاوضہ دینے کا رواج ڈالا جو اب باقاعدہ ایک پروفیشن بن چکا ہے۔''
کاشف کو عام زندگی میں دیکھنے والے اور کبھی کبھار ملنے والے اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ وہ بہت لیے دیے سا آدمی ہے، چھوئی موئی سا شرمیلا، اس پر کاشف یوں گویا ہوئے ''شاید یہ بات درست بھی ہو، میں ''شوخا'' نہیں ہوں، بس جو ہوں سو ہوں، عام زندگی میں مجھ سے اداکاری نہیں ہوتی''۔
کاشف اپنے بچوں کو کچھ بنانے کے قائل نہیں، کہتے ہیں ''بچہ ڈاکو بننا چاہے تو بننے دیں البتہ یہ ضرور ہوکہ ڈاکااس فن کاری سے ڈالے کہ رابن ہُڈ کی یاد تازہ ہوجائے، اب میرے بڑے بیٹے نے ویڈیو ایڈیٹر بننے کی خوہش ظاہر کی تو میں نے نہیں روکا، بس اتنا کہا ہے کہ مزہ جب ہے کہ اس کام میں کمال حاصل کرکے دکھا دو''۔
کاشف نے اپنے پسندیدہ فن کار کا نام لینے سے صاف انکار کر دیا ''فن کار، گل دستہ ہوتے ہیں، ہر پنکھڑی اور پتے کی اپنی جاذبیت ہے، مجھے تو آج تک کوئی بھی فن کار برا نہیں لگا مگر مجھے وہ اداکار زہر لگتے ہیں جو شہرت و دولت پانے کے بعد پہلے اپنی بیوی کو چھوڑ دیتے ہیں، جس نے ان کو فن کار بنانے کی بہت بڑی قیمت چکائی ہوتی ہے، برے وقت کے ساتھی کو نہ بھولنے والا چاہے فن کار ہو یا کوئی اور، مجھے بہت اچھا لگتا ہے، میں شاید اسی لیے نئے نئے دوست نہیں بنا سکا،
اسے میری شخصیت کاالجھاؤ کہ لیں مگر میں ایسا ہی ہوں مجھ میں ایک ایسی روح ہے جو ''آؤٹ آف ڈیٹ'' ہے، مجھے تو کئی صدیاں پہلے پیدا ہونا چاہیے تھا، ماڈرن عہد میں بالکل ''مِس فٹ'' ہوں لیکن مطمئن بہت ہوں البتہ ایک خیال آج بھی دل کو چیر جاتا ہے کہ اے کاش میرے ماں باپ آج میرے ساتھ ہوتے اور مجھے اور میرے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتے، میں ان کی اتنی خدمت کرتا کہ وہ میرے دیے ہوئے سب دکھ بھول جاتے، یقین کریں میں خود باپ بنا ہوں تو مجھے والدین کے مرتبے کا صحیح ادراک ہوا ہے''۔
جنوں، خرد کے مقابل ہے کیا کیا جائے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا پہلا بیٹا اڑھائی سال کا تھا، بیوی گائوں میں تھی کہ بیٹا ڈائریا میں مبتلا ہو کر قریب المرگ ہوگیا، فوری طور پر اُسے راول پنڈی کے ایک اسپتال لایا گیا، میں اُس وقت لیاقت ہال میں اپنے لکھے ہوئے ڈرامے ''چیف صاحب'' کے پہلے شو میں مصروف تھا، اُس میں میرا کردار بہت اہم تھا، میں اپنے بچے کی بیماری سے لاعلم تھا کہ اتنے میں میرا ایک دوست لیاقت ہال پہنچا اور پردے کے پیچھے مجھے صورت حال سے آگاہ کیا، کہنے لگا تیرا پورا خاندان پریشان ہے، تیری بیوی نے رو رو کر برا حال کر لیا ہے، فوری طور پر میرے ساتھ اسپتال چلو، میں نے اُسے کہا کہ پندرہ بیس منٹ ٹھہر جائو ڈراما ختم ہو گا تو چلتے ہیں،
وہ غصے میں آ گیا اور جذباتی ہو کر اُس نے مجھے تھپڑ رسید کر دیا، میں کچھ نہ بول سکا، ایک طرف پیشہ وارانہ ذمہ داری تھی اور دوسری جانب میری پہلی اولاد موت اور زندگی کی کش مہ کش میں، میرا دوست گالیاں دیتا چلا گیا، ڈرامہ ختم ہوا تو میں اسپتال پہنچا، میرا بیٹا انتہائی نگہ داشت کے وارڈ میں تھا، بیٹے کو دیکھا تو اس نے مڑ کر کچھ ایسی نظر سے دیکھا جیسے کہ رہا ہو، ''بابا خدا حافظ'' اور واقعی وہ مجھے خدا حافظ کہ چکا تھا، میرے سامنے اُس نے آخری ہچکی لی۔ اُس کی آخری نظر کا کی پھانس آج تک دل سے نہیں نکلی، شاید کبھی نہ نلکے، اسپتال سے نعش لے کر ایمبولینس میں بیٹھا تو بیوی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ یہ چپ کیوں ہے اور میں کھڑکی کی طرف منہ کرکے زندگی میں پہلی مرتبہ اداکاری کرتے ہوئے کہ رہا تھا، ڈاکٹر نے نیند کا ٹیکہ لگا دیا ہے، گھر جا کر اسے ہوش آئے گا، گھر پہنچے تو کہرام مچ گیا،
صبح تک اُسے دفن کیا اور سہ پہر کو تعزیت والے لوگ آنے لگے، میں مسلسل رو رہا تھا، ایسے میں خیال آیا کہ کل تو جن ہزاروں لوگوں کو اسٹیج پر ہنسا کر آیا ہے، آج وہ تیرے نہ ہونے کی وجہ سے پروڈیوسر کا سر پھاڑ دیں گے، بس 4 بجے کے قریب میں نے اپنی ساس سے ہمت کرکے کہ دیا کہ میں ایک اداکار ہوں، دو نہیں تین دن بعد میں نے پھر یہ ہی کام کرنا ہے، جانے والا تو چلا گیا، تو پھر میں آج سے ہی یہ کام دوبارہ کیوں نہ شروع کر دوں، پہلے تو وہ حیران ہوئیں مگر میری بات پر کچھ دیر سوچ کر کہنے لگیں تو ٹھیک کہتا ہے چپکے سے رات کو نکل جانا اور صبح تک واپس آ جانا،
میں گائوں سے نکل کر جب راول پنڈی لیاقت ہال پہنچا تو سب پریشان ہو گئے، مجھے ڈانٹا بھی میں نے نہایت خاموشی سے گٹ اپ کیا اور مقررہ انٹری پر اسٹیج پر چلا گیا، میری آنکھوں میں آنسو تھے مگرلوگ میرے مکالموں پر ہنس ہنس کر داد دے رہے تھے، ڈرامہ ختم ہوا تو ایک ساتھی نے حاضرین کو اعلان کرکے تمام ماجرا سنا دیا، تو ایسا ہوا کہ ابھی جو لوگ ہنس رہے تھے، اب دھاروں دھار رو رہے تھے، ہال سے نکل کر میں بھی خوب رویا، دل ہلکا ہوا تو گائوں چلا آیا، باقی شو میں نے اسی طرح مکمل کرائے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جس پروڈیوسر نے مجھ پر لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں میری وجہ سے خسارے میں جائے''۔