آخرکب تک

میں مقامی حکومتی نظام پر دوسرا اظہاریہ لکھنے پر اس لیے مجبورہوا ہوں،کیونکہ مجھے یقین نہیں کہ مقامی حکومتوں کے...


Muqtida Mansoor July 24, 2013
[email protected]

میں مقامی حکومتی نظام پر دوسرا اظہاریہ لکھنے پر اس لیے مجبورہوا ہوں،کیونکہ مجھے یقین نہیں کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ستمبرتوکیا دسمبر میںبھی ہوسکیں۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔اول، سیاسی جماعتوں پر حاوی فیوڈل ذہنیت نہیں چاہتی کہ جواقتدار واختیار انھیں حاصل ہے، وہ نچلی سطح پرکمی اورکمداروں کے ہاتھوں میں پہنچے۔ دوئم،جنرل ضیاء الحق نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد منتخب اراکین قومی اورصوبائی اسمبلیوں کو قابو میں رکھنے کی خاطر ہر رکن اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈ اور ملازمتوںکا کوٹہ مختص کرنے کی جو بدعت شروع کی تھی،وہ آج تک جاری و ساری ہے۔یہی سبب ہے کہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی،جو ان سہولیات سے مستفیض ہوتے ہیں،کسی طور انھیں چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

یہی سبب ہے کہ مقامی حکومتی نظام کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے آتی ہے،جو اسمبلیوں میں پہنچتی ہیںاور جن میں خاندانی اور موروثی سیاستدانوں کی بہتات ہے۔اس وقت بھی صورتحال یہی ہے کہ تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے سوا باقی تمام سیاسی جماعتیں خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں حزب اقتدار جماعتیںمقامی حکومتوں کے انتخابات کے حوالے سے لیت ولعل سے کام لے رہی ہیں۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ پہلے ہی ستمبر میں انتخابات کی مخالفت کرچکے ہیں۔اب وزیراعلیٰ سندھ نے بھی ان انتخابات کو دسمبر تک ملتوی کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میںمقامی حکومتوں کے ذریعے اقتدار واختیارکی نچلی ترین سطح تک منتقلی کا مستقبل قریب میںکوئی امکان نظر نہیں آرہا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے علاوہ جو پہلی بار قومی اسمبلی میں پہنچی اور ایک صوبے میں اقتدار میں آئی ہے،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں وہی سیاسی جماعتیںموجودہیں، جو پچھلی مدت کے دوران بھی ایوانوں میںموجود تھیں۔اپنے پچھلے دور میں ان میں سے کسی بھی جماعت نے سنجیدگی کے ساتھ مقامی حکومتی نظام کی تشکیل پر توجہ نہیں دی۔حالانکہ ان جماعتوں نے اٹھارویں، انیسویںاور بیسویں آئینی ترامیم اورمتفقہ NFCایوارڈ جیسے کارنامہ سرانجام دیے۔مگر چونکہ مقامی حکومتی نظام میں ان کی دلچسپی نہیں تھی،اس لیے اس کی تشکیل کے حوالے نہ مشترکہ کمیشن تشکیل دیا اور نہ ہی انفرادی طور پر کسی جماعت نے اس پر ہوم ورک کیا۔ سندھ میںصورتحال اور بھی زیادہ مضحکہ خیز رہی، جہاں حزب اقتدار پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف متحدہ قومی موومنٹ مقامی حکومتی نظام کے کسی ایک خاکہ پرمتفق نہ ہوسکیںاور پانچ سال برباد کردیے۔اس کے علاوہ سندھ میں قوم پرست جماعتیں بھی فیوڈل معاشرت کو بچانے کے لیے مقامی حکومتی نظام کے خلاف صف آراء ہیں۔

اس وقت یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں میں یہ تصور موجود ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ نے مقامی حکومتی نظام کے انتخابات کے لیے دبائو برقرار رکھا، توعدلیہ سے ٹکرائو کے بجائے لولے لنگڑے انتخابات کراکے جان چھڑالی جائے۔یا پھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ تک اس معاملے کو الجھائے رکھا جائے۔شاید دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کو دسمبر تک ملتوی کرنے کے پیچھے یہی تصور موجود ہے۔کیونکہ بیشتر حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ نیا چیف جسٹس شاید مختلف ریاستی امور میںاس طرح دبائو نہ ڈال سکے،جس طرح مسٹر جسٹس افتخارمحمد چوہدری ڈالتے رہے ہیں۔لیکن ان تمام مزاحمتوں اور رکاوٹوں کے باوجود یہ طے ہے کہ مقامی حکومتوں کا قیام اب پاکستان کامقدر ہوچکاہے۔ جلد یا بدیر ،خوش دلی یا بددلی سے بہر حال تمام سیاسی جماعتوں کو اس جانب بڑھنا پڑے گا۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔اول، پاکستانی عوام کا سیاسی وسماجی شعوراس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اب انھیں مختلف حیلوں بہانوں سے بہلانا ممکن نہیں رہاہے۔دوئم، وہ جانتے ہیں کہ سڑکیں بنوانا اور نالیاں صاف کرانا قومی اور صوبائی اسمبلی کی ذمے داری نہیں ہے،بلکہ ان کا اصل کام قانون سازی ہے۔لہٰذا انھیں ایسے نظام کی ضرورت ہے، جس تک ان کی فوری رسائی ہوسکے اور جو فوری ریلیف دے سکے۔لہٰذا اب اس نظام کے حوالے سے پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔

سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی قانون شکنی، جرائم کی شرح میں اضافہ اور کرپشن اور بدعنوانیوںجیسے مسائل کی کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ اقتدار واختیار کی غیر فطری مرکزیت بھی ہے۔ جدید دنیا نے اس قسم کے مسائل پراختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے ذریعے خاصی حد تک کامیابی سے قابو پایاہے۔دورکیوں جائیں،پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیتے ہیںجہاںبلدیاتی قوانین میں وقتاً فوقتاً ترامیم ہوتی رہتی ہیںاور انھیں بہتر سے بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔1990ء میں یہ طے کیا گیا کہ وہ تمام شہر جن کی آبادی 10لاکھ نفوس یااس سے زائدہو،انھیںمیٹروپولیٹن کادرجہ دیا جائے گا۔ان شہروں کے لیے شہری حکومتی طرز پر علیحدہ انتظامی ڈھانچہ ہوتاہے۔چونکہ وہاں تسلسل کے ساتھ مردم شماری ہوتی ہے اور سیاسی جماعتیں اس عمل میں مداخلت کرنے کے بجائے اسے مانیٹر کرتی ہیں،اس لیے وہاں وسائل کی تقسیم اور انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی جیسے انتظامی عمل کو (Politicise) کرنے کاکوئی رجحان نہیں ہے اور ہر چند برس بعد ایک یا دو شہر کارپوریشن کی سطح سے میٹروپولیٹن کی سطح پر چلے جاتے ہیں۔بہت کم قارئین کے علم میں یہ بات ہوگی کہ ممبئی اور کولکتہ جیسے شہروں میں آزادی سے بہت پہلے نوآبادیاتی دور میں بھی الگ پولیس کمشنریٹ قائم تھا،تاکہ شہر کے انتظام کو بہتر اندازمیں چلایاجاسکے۔جب کہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں ایسا نظام قائم نہیں ہونے دیا گیا۔

ایک اور بات جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،وہ یہ کہ سرکاری اداروں اور نیم سرکاری کارپوریشنوں کی کارکردگی میں پیدا ہونے والی خامیوں اور نقائص کا اصل سبب میرٹ سے روگردانی اور سفارش اور رشوت کی بنیاد پر نااہل افرادی قوت کی ضرورت سے زیادہ بھرتی ہے۔ریلوے،اسٹیل مل اور قومی ائیر لائین کے تباہی کے دہانے تک پہنچنے کا سبب یہ ہے کہ ہر دور میں سیاسی جماعتوں نے ان منفعت بخش اداروں میں اپنے کارکنوں کو بے حساب بھرتی کیا اور انھیں ان گنت مراعات دیں۔جس کا بوجھ ان اداروں کی مالی حالت پر پڑا اور یہ خسارے میں چلے گئے۔اصولی طورپرکسی سیاسی جماعت یا اس کے اراکین اسمبلی کویہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ میرٹ کا گلاگھونٹ کر ناجائز طورپر ملازمتیں بانٹتے پھریں۔

دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں سرکاری اور نیم سرکاری محکموں اور شعبہ جات میںتقرری سروسز کمیشن یا بورڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، جس میں سیاسی مداخلت کی گنجائش نہیں ہوتی۔اس کے برعکس پاکستان میں سروسز کمیشن اور ہر ادارے میں تقرری بورڈ ہونے کے باوجود تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔یہی سبب ہے کہ طاقتور سیاسی حلقے خاص طورپر اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک میٹروپولس میںہائی اسکول کی سطح تک تعلیم،محکمہ صحت وسماجی ترقی اور خاص طورپر پولیس میں تقرریاں مقامی سطح پرکی جاتی ہیں ۔جس کی وجہ سے ان کے لیے ان محکموں میں اپنے افراد کو بھرتی کرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتاہے۔لہٰذا وہ اس نظام کو ہی نہیں چلنے دیناچاہتے۔

اب ایک اور پہلو کی طرف آئیے۔ اس میں شک نہیں کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد مقامی حکومتی نظام صوبائی معاملہ(Subject)ہوچکاہے۔لیکن ہر صوبہ اگر اپنا الگ نظام وضع کرے گا تو اس سے الجھنوں میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان ابھی امریکا کی سطح پر نہیں پہنچاہے کہ ہر صوبہ اپناالگ بلدیاتی نظام قائم کرے۔ پاکستان میں اسوقت اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں یکساں بلدیاتی نظام قائم ہو۔جیسا کہ پچھلے اظہاریے میں تحریر کیا جاچکاہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے انتظامی ڈھانچہ کو دو درجاتی کے بجائے تین درجاتی(Three tier)نظام میں تبدیل کیا جائے اور ضلع کو بھی ایک مکمل انتظامی یونٹ کا درجہ دیا جائے۔ضلع سے اختیارات مزیدنچلی سطح پر یعنی تحصیل/ٹائون اور پھر یونین کونسل تک منتقل کیے جائیں۔یونین کونسل کی جسامت کو بھی کم کیا جاسکتا ہے اور اس کی جگہ بھارت کی طرح پنچائیت کا تصور بھی لایا جاسکتاہے۔

اس سلسلے میں وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غورکریں اورتمام صوبوں میں یکساںمقامی حکومتی نظام نافذ کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی وصوبائی اور ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن قائم کریں جو ایک ماہ کے اندراب تک رائج رہنے والے چاروں بلدیاتی نظاموں کا تقابلی جائزہ لے کر ان کے قابل قبول نکات کو یکجا کرکے ایک نیا نظام وضع کرے ۔اس نظام کے تحت فوری طورپر انتخابات کرائے جائیں،تاکہ نچلی سطح پر مقامی حکومت قائم ہوکر عوام کے مسائل کو حل کرنے میں معاون ہوسکے ۔جس سے وفاقی اور صوبائی حکومت کا بوجھ بھی کم ہوگا اور عوام کو بھی فوری ریلیف مل سکے گی۔سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں آخر کب تک اختیارات کی عدم مرکزیت کا راستہ روک کرعوام کودھوکا دیتی رہیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں