مہنگائی پریشان حال مڈل کلاس اور بے خبر وزیر اعظم
کیا کوئی وزیر اعظم کو بتا سکتا ہے کہ ان کا دور حکومت عوام کے لیے مہنگائی کا طوفان لے آیا ہے۔
لاہور:
ملک میں گیس کے ہوش ربا بلوں نے صف ماتم بچھا دی ہے۔ ہر گھر میں چیخ و پکار ہے۔لوگ پریشان ہیں۔ کیا گیس بھی سونے کی قیمت میں ملے گی؟ کیا گیس کا ریٹ بھی ڈالروں میں کر دیا گیا ہے؟ ریاست مدینہ کے ذمے داران نے تو گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت یقین دلا یا تھا کہ یہ ا ضافہ صرف امیروں کے لیے کیا گیا ہے۔ اب ہر گھر کئی گنا زائد بل وصول ہونے کے بعدحیران ہے کہ ریاست مدینہ کی حکومت نے کب سے اس کو امیروں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
ایک طرف ریاست مدینہ کے وزیر اعظم ملک میں بارشوں، سردی اور شمالی علاقوں میں برف باری پر قوم کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ دوسری طرف گیس کے بل اس سردی کا مزہ خراب کر رہے ہیں۔ وزیر پٹرولیم کہہ رہے ہیں کہ گیس کے ہیٹر اور گیزر استعمال کرنے کی وجہ سے گیس کے بل زیادہ آئے ہیں۔ جس طرح حج صرف صاحب استطاعت افراد پر حج فرض ہے۔شاید موجودہ حکومت کے کرتا دھرتا بھی یہ سمجھ رہے کہ گیس کے ہیٹر اور گیزر غریبوں کے لیے ضروری نہیں ہیں، صرف صاحب استطاعت کو ہی یہ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
لوگوں کو چاہیے تھا کہ سردی برداشت کرتے، یہ ہیٹر اور گیزر استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پچھلی چور ڈاکو حکومتوں نے عوام کو سہولت پسند بنا دیا ہے۔ حکومت کے خرچے پر عیاشی نہیںچلے گی، سستی گیس سے ہیٹر اور گیزر نہیں چلنے دیے جائیں گے۔ بند کرو یہ عیاشی اور اگر کسی کو بہت شوق ہے تو پورے پیسے دے۔یہ الگ بات ہے کہ ایک طرف عوام کو اس بار گیس ملی بھی کم ہے اور اس کم گیس کے بل اتنے زیادہ ہیں۔ خدانخواستہ اگر گیس پوری مل جاتی تو کتنے بل آتے ۔
ایک طرف گیس کے بلوں نے عوام کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں۔ دوسری طرف نیپرا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ ادھر اب سردیاں ختم ہو رہی ہیں اور سورج اپنی گرمی برسانا شروع کرے گا تو بجلی کے بلوں کی گرمی اور تپش سورج کی گرمی سے زیادہ ہی ہوگی۔ مجھے نہیں پتہ سورج سوا نیزے پرآتا ہے کہ نہیں لیکن اس بار بجلی کے بل سوا نیزے پر ضرور آئیں گے۔ویسے تو پوری امید ہے کہ جس طرح اس سردی میں گیس نایاب تھی، اسی طرح گرمیوں میں بجلی نایاب ہو گی۔ جیسے گیس کی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی گئی ہے اس طرح گرمیوں میں بجلی کی بھی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوگی ۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عوام مایوس اورپریشان ہیں لیکن وزیر اعظم بے خبر ہیں۔ ہر ظلم ہونے کے بعد انھیںپتہ چلتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس ظلم پر نوٹس لے لیتے ہیں۔ جب روپے کی قدر میں کمی ہوئی، ڈالر نے اڑان پکڑی تو وزیر اعظم لا علم تھے۔ اسی طرح انھیں گیس کے نرخوں کا بھی علم نہیں تھا وہ تو جب عوام نے گیس کے ہوش ربا بلوں پر چیخ و پکار شروع کی تو وزیر اعظم نے مشیر خاص سے پوچھا کہ عوام کیوں چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ وہ تو اللہ بھلا کرے مشیر خاص کا اس نے سچ بتا دیا کہ عوام گیس کے بلوں پر پریشان ہیں تو وزیر اعظم نے فوری طور پر گیس کے اضافی بلوں پر نوٹس لے لیا۔
وزیر اعظم کے نوٹس کے بعد مجھ سے کچھ دوستوں نے پوچھا کہ جب وزیر اعظم نے ان اضافی بلوں پر نوٹس لے لیا تو کیا اب یہ بل جمع نہ کرائیں تو میں نے کہا نوٹس لیا ہے، انھوں نے بل واپس لینے کا اعلان نہیں کیا ۔ دوست پوچھ رہے ہیں، یہ نوٹس کیا ہوتا ہے۔ میں نے انھیں سمجھایا ہے کہ یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ بات وزیر اعظم کے نوٹس میں آگئی ہے۔ اس سے پہلے وہ اس سے لا علم تھے۔
ملک میں گیس کا بحران کوئی نیا نہیں ۔ پوری سردیاں گیس کی شدید قلت رہی ہے۔ جب گیس کی قلت پر شور مچا تھا تب بھی وزیر اعظم نے نوٹس لیا تھا۔ لیکن جب شور بڑھ گیا تو دو ایم ڈی فارغ کر دیے، وہ ویسے بھی فارغ کرنے ہی تھے کیونکہ وہ سابقہ حکومت نے لگائے ہوئے تھے۔ موقع اچھا تھا اس لیے فارغ کر دیے۔ لیکن گیس کی کمی دور نہیں ہوئی۔ اب بھی سابقہ حکومت کا لگایا ہوا کوئی اہلکار فارغ کیا جا سکتا ہے لیکن بل واپس نہیں ہو سکتے۔
وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ وہ ایک طرف ملک سے غربت ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں، دوسری طرف مہنگائی اور بے ورزگاری میں اتنی تیزی سے اضافہ کر رہے ہیں کہ مڈل کلاس کے لیے زندگی مشکل سے مشکل ہو گئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر ملک میں معاشی ڈپریشن کی یہی صورتحال رہی، اداروں میں ڈائون سائزنگ کی یہی صورتحال رہی تو مڈل کلاس غریبوں میں شمار ہو جائے گی۔ یہ حکومت اپنے ہر قدم سے مڈل کلاس کے لیے زندگی مشکل کرتی جا رہی ہے۔
لیکن مصیبت یہ ہے کہ وزیر اعظم ان کی کابینہ اور مشیر خاص کو کوئی احساس نہیں ہے۔ بہت شور ہے کہ ملک کی معاشی حالت خراب ہے اس لیے عوام کو سبسڈی نہیں دی جا سکتی ہے۔ میرا سوال ہے کہ جب ملک کی معاشی حالت خراب ہے تو سارے حکومتی ذمے دار سرکار ی گاڑیاں استعمال کرناکیوں نہیں بند کردیتے۔ یہ وزیر مشیر سرکاری گاڑیاں اور گھر کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ کیا ان کے پاس اپنی گاڑیاں اور گھر نہیں ہیں۔
کیا یہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ نہیں ہے۔ کیوں اس بات کا جواب نہیں دیا جاتا کہ آج بھی وزیر اعظم وہی گاڑی استعمال کر رہے ہیں جو سابقہ وزیر اعظم استعمال کر رہے تھے۔ کیوں وزیروں اور وزیر اعلیٰ کے ساتھ پروٹوکول کی گاڑیاں چل رہی ہیں۔ کیوں سرکاری جہاز استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مجھ یعنی عوام سے تو ہر سبسڈی واپس لی جا رہی ہے لیکن حکومتی ارکان کی عیاشیاں جاری ہیں۔
یہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں کیوں بند نہیں کی جا رہی ہیں۔ کم از کم تحریک انصاف کے پارلیمنٹیرینز ہی تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا اعلان کر دیں۔ میری اس تجویز پر میرے دوست ہنستے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ شائد تم بھول گئے ہو کہ تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ نے تو دھرنے اور کنٹینر کے دنوں کی تنخواہیں بھی وصول کر لی تھیں۔ حالانکہ انھوں نے ان دنوں جعلی استعفیٰ بھی دیے ہوئے تھے تو آج یہ کیسے تنخواہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز کے مفت گھر کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔صرف عوام سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھینا جا سکتا ہے۔
کیا کوئی وزیر اعظم کو بتا سکتا ہے کہ ان کا دور حکومت عوام کے لیے مہنگائی کا طوفان لے آیا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مڈل کلاس کے لیے زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ بجلی گیس اور ڈالر کے ساتھ ساتھ ضرورت زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ سبسڈی نہ دیں لیکن زندہ رہنے کا حق تو دیں لیکن ریاست مدینہ کا وزیر اعظم بے خبر ہے، اسے تو بعد میں پتہ چلتا ہے اور وہ نوٹس لینے کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتا۔