اثاثوں کی تحقیق کا حکم
ہمارے ملک میں جتنے بڑے پیمانے پرکرپشن ہورہی ہے شاید ہی کسی پسماندہ ملک میں ایسی کرپشن ہورہی ہو۔ 82 ارب روپے کی...
ہمارے ملک میں جتنے بڑے پیمانے پرکرپشن ہورہی ہے شاید ہی کسی پسماندہ ملک میں ایسی کرپشن ہورہی ہو۔ 82 ارب روپے کی کرپشن میں ملوث اوگرا کے سابق سربراہ توقیرصادق کو مہینوں بعد بڑی مشکلوں سے دبئی سے پاکستان واپس لایا گیا ہے۔ پاکستان کا کوئی قومی ادارہ ایسا نہیں جس میں اربوں کی کرپشن نہ ہورہی ہو۔ مشکل یہ ہے کہ اس کرپشن میں ملوث ایلیٹ کو کرپشن کی سخت سزا دینے کے بجائے انھیں پلی بارگین کے نام پر ایسی قانونی سہولت فراہم کی گئی ہے کہ یہ اربوں روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کرنے والے محترم لوگ کرپشن کی بھاری رقم رعایتی قسطوں میں ادا کرکے پاک صاف ہوجاتے ہیں۔ایک ادارے کے سابق سربراہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے پلی بارگین کی سہولت استعمال کرتے ہوئے کرپشن کی بھاری رقم قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت حاصل کی۔
اوگرا کے توقیر صادق پر 82 ارب کی سب سے بڑی کرپشن کا الزام ہے توقیر صادق کا کہنا ہے کہ اس کیس میں بڑے لوگ بھی ملوث ہیں۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ ان پر صدر زرداری کے خلاف بیان دینے کے لیے تشدد کیا جارہا ہے۔ ان پر لگائے جانے والے الزامات غلط ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی اربوں کی کرپشن میں بہ ظاہر ایک یا چند افراد ملوث نظر آتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی بھاری کرپشن میں بہت سے بڑے لوگ بالواسطہ طور پر ملوث ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قسم کے بھاری کرپشن کیسز کی تحقیق کرتے وقت اس بات کو خاص طور پر پیش نظر رکھا جائے کہ فرنٹ مین کے پیچھے کون کون موجود ہیں۔
ہمیں حیرت ہے کہ بینک نادہندگان کے حوالے سے ڈھائی کھرب کا کیس سرکاری اداروں کے علم میں برسوں سے ہے لیکن اس کیس پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی اگر بینک نادہندگان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہو اور ان سے لوٹی جانے والی رقوم واپس لی جائیں تو ہمارا خیال ہے عوام پر ٹیکس لادنے اور انھیں مہنگائی میں غرق کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی لیکن سوال یہ ہے کہ بینک نادہندگان جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ جن ''اعلیٰ ترین'' عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں کیا ان سے بینکوں کا ہڑپ کیا ہوا اربوں کھربوں روپیہ واپس لینے کی کسی میں ہمت ہے؟
اسی اشرافیائی جمہوریت کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ اربوں کھربوں کی لوٹ مار بھی کرتی اور کراتی ہے اور ان کے خلاف کارروائی میں دیوار بھی بن جاتی ہے۔ ایسی کرپٹ خاندانی جمہوریت کی موجودگی میں عوامی قیادت ابھرنے، عوام کے اقتدار میں آنے کا کیا کوئی امکان رہ جاتا ہے؟ اس سوال پر ان حلقوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے جو عوامی اور اشرافیائی جمہوریت میں فرق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کیا وہ اس شرمناک حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ آج اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام جن عذابوں میں گھرے ہوئے ہیں، ملک جس طرح معاشی طور پر کنگال ہوگیا ہے، دہشت گردی اور جرائم کی بھرمار سے عوام جس طرح دہشت زدہ ہیں اس کی ساری ذمے داری ہمارے حکمرانوں پر عاید نہیں ہوتی؟ کیا جمہوریت کے نام پر ہمارے ملک میں خاندانی حکمرانی کا جو کلچر پھل پھول رہا ہے کیا وہ ماضی کے بادشاہی نظام سے معنوی طور پر مختلف ہے؟
ملک میں غریب طبقات کی زندگی کس شرمناک حد تک بدتر ہوگئی ہے اس کا اندازہ آئے دن بھوک سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی خودکشیوں اور اپنے بچوں کو بازاروں میں بیچنے سے ہوسکتا ہے ۔ایک تازہ شرمناک المیہ یہ ہے کہ رمضان سے دو تین دن پہلے کچھ مخیر اداروں کی طرف سے غریبوں کو مفت اناج فراہم کیا جارہا تھا یہ خبر غرباء میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بھوکوں کا ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ اناج کے تھیلے حاصل کرنے کی دوڑ میں دو خواتین کچل کر جاں بحق ہوگئیں پتہ نہیں غریبوں کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہانے والوں کو اس خبر پر کوئی شرم آئی یا نہیں لیکن حساس لوگ اس واقعے سے دم بخود ہوکر رہ گئے ہیں غریب طبقات کی ذلت و خواری کا یہ المیہ پہلا المیہ نہیں اس سے پہلے بھی کئی بار اس قسم کے المیے پیش آتے رہے ہیں خاص طور پر اندرون سندھ سیلاب زدگان میں امداد تقسیم کرنے کے مواقعوں پر اس قسم کے افسوسناک مناظر دیکھے جاتے رہے ہیں۔ یہ المیے اس محتاج و غنی کلچر کا حصہ ہیں جو 65 سال سے پاکستان میں پھل پھول رہا ہے جب غریبوں کے حصے کی 80 فیصد دولت مٹھی بھر لٹیروں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی تو اس قسم کے المیے جنم لینا ایک منطقی بات ہوتی ہے۔
غربت امارت، محتاج وغنی اور اشرافیہ کی شرمناک کرپشن کے اس پس منظر میں حکومت کی طرف سے ایک انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز اقدام کی خبر آئی ہے۔ خبر یہ ہے کہ حکومت نے سوئس بینکوں کے علاوہ دیگر ممالک کے بینکوں اور دیگر ممالک میں موجود سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور شہریوں کے اثاثوں کی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ایف بی آر کے ایک سینئر افسر نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ ایف بی آر کی طرف سے پہلے ہی سرکولر جاری کیا جاچکا ہے جس میں بیرون ملک کی مجاز اتھارٹیوں کو پاکستانی سیاستدانوں، بیوروکریٹس شہریوں کے اثاثوں اور دولت کی چھان بین کے حوالے سے نئی گائیڈ لائنز دی گئی ہیں ۔ اس خبرمیں ٹیپ کا بند یہ ہے کہ یہ اقدام دہرے ٹیکسوں سے بچاؤ کے ایکٹ 26 کے تحت اٹھایا گیا ہے۔ اس گائیڈ لائن کے مطابق نہ صرف ٹیکس چوروں، ٹیکس فراڈ میں ملوث غیر ملکی کمپنیوں بلکہ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، جنرلوں اور شہریوں کے بارے میں یہ معلومات حاصل کی جائیں گی کہ انھوں نے اپنی دولت اپنے اثاثوں کے مطابق ٹیکس ادا کیا ہے یا نہیں اور اپنے ٹیکس گوشواروں میں اپنے اثاثے اپنی دولت چھپائی تو نہیں؟
اس خبر کو سرسری طور پر پڑھنے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ہماری حکومت سوئس بینکوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے بینکوں اور ان ممالک میں موجود سیاستدانوں، جنرلوں، شہریوں اور بیوروکریٹس کے اثاثوں کی چھان بین اس لیے شروع کر رہی ہے کہ اس ناجائز دولت اور اثاثوں کو بحق سرکار ضبط کرکے مجرموں کو سخت سزائیں دے گی۔ ہم بذات خود بھی اس خبر کی سرخی پڑھ کر اس غلط فہمی بلکہ حیرت انگیز غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ ہماری محترم عوامی حکومت وہ کام کرنے جارہی ہے جو 65 سال سے کوئی حکومت نہ کرسکی۔ لیکن کھودا پہاڑ تو نکلا چوہا۔ ہماری ایف بی آر محض یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ اربوں ڈالر کی ناجائز دولت اور اربوں ڈالر کے خفیہ اثاثوں پر دولت اور اثاثوں کے مالکوں نے قانون کے مطابق ٹیکس ادا کیے ہیں یا نہیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔ سوال یہ ہے کہ بیرونی ملکوں میں دولت اور اثاثے رکھنے والے اس قدر بدھو نہیں ہیں کہ وہ اپنی دولت اور اثاثوں تک کسی کو پہنچنے دیں۔ دنیا کے تمام ممالک کم زیادہ کے فرق کے ساتھ ایسے ہی کرپٹ ہیں جیسے ہمارا ملک کرپٹ ہے۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ اینٹی کرپشن کا محکمہ سب سے زیادہ کرپٹ ہوتا ہے جو نظام کرپشن سے شروع ہوتا ہے کرپشن پر ختم ہوتا ہے ایسے نظام میں کرپشن کو روکنا ایسا ہی ہے جیسے ظلمت کی تاریکیوں میں کالی بلی کو تلاش کرنا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدانوں، موجودہ اور سابق حکمرانوں، جنرلوں، بیوروکریٹس اور ناجائز کمائی کرنے والے شہریوں، صنعتکاروں، تاجروں نے پاکستان کے عوام کی کھربوں کی دولت لوٹ کر بیرونی ملکوں کے خفیہ اکاؤنٹس اور بیرونی ملکوں کے علاوہ خود اپنے ملک میں جو دولت اور اثاثے کھلے اور پوشیدہ جمع کر رکھے ہیں کیا وہ اس ملک کے 18 کروڑ عوام کی ملکیت ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے ہر ملک کی دولت اور اثاثے اس ملک کے عوام کی ملکیت ہوتے ہیں لیکن اشرافیہ اس دولت کو دونوں ہاتھوں سے اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹتی ہے اس لوٹ مار کی وجہ سے 98 فیصد لوگ روٹی، کپڑے، مکان جیسی اپنی بنیادی ضرورتوں سے محروم رہتے ہیں۔ ہماری محترم جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ اشرافیہ خواہ حکومت میں رہے یا اپوزیشن میں وہ لوٹ مار کے حوالے سے ایک دوسرے کی مددگار اور رازدار ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے ایسی حکومتوں میں ناجائز دولت، ناجائز اثاثوں کا پتہ لگانا اور انھیں بحق عوام ضبط کرنا ''محال است و خیال است و جنوں''۔ اس کے لیے اشرافیہ کی بددیانت اور عوام دشمن حکومتوں اور سیاست سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔ یہ کیسے ہوگا؟ عوام کو اس کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔