وادیٔ سون سے لاہور تک

میری بدقسمتی کہ میں ایسے دلفریب نظاروں کو چھوڑ کر لاہور کی گندگی میں پھنسا ہوا ہوں۔


Abdul Qadir Hassan February 06, 2019
[email protected]

چٹھی آئی ہے کہ بالآخر اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر رحم آگیا ہے اور وادیٔ سون کے پہاڑوں پر سردیوں کی پہلی بارش ہو رہی ہے۔ میں یہاں لاہور میں کوئی تین سو کلومیٹر دور بیٹھا اس بارش کا مزا لے رہا ہوں اور ہزار مرتبہ دیکھے ہوئے اس منظر کو چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں۔

جب پہاڑوں کی چوٹیوں پر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے درختوں پر بارش ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی بال کھولے آبشار کے نیچے کھڑا ہے ۔پہاڑوں کی بارش کا پانی پہاڑوں کے قدموں سے نکل کر کھیتوں کی راہ لے رہا ہے اور کھیت جو ان دنوں گندم کی فصل سے سبزہ زار بنے ہوئے ہیں اس پانی کی راہ تک رہے تھے لیکن اب وہ پہاڑوں سے آنے والے اس بارشی پانی سے بھرتے جا رہے ہیں۔

بارانی علاقے کے کاشتکار کے لیے اس منظر سے خوبصورت کوئی منظر نہیں ہو سکتا، اس میں نظارہ بھی ہے زندگی کی امنگ بھی ہے اور مستقبل بھی ہے۔ سخت سردیوں کی برستی بارش میں کاشتکار اپنے کندھوں پر کدالیں اٹھائے زمینوں کی جانب رواں ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ قدرت کی نعمت بارش کی اصل اہمیت سے آگا ہ ہیں اور اپنی بارانی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے قدرت کے اس انمول تحفے کا ایک قطرہ بھی ضایع کرنے پر تیار نہیں ہوتے اس لیے وہ اپنے کھیتوں میں پانی کے داخلے کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں اور کھیت سے فالتو پانی نکال کر اگلے کھیت تک پہنچانے کے لیے راستے بناتے ہیں۔

میں نے ان بھیگے ہوئے بلکہ پانی سے شرابور وادیٔ سون کے کاشتکاروں پر برستی بارش میں بھی پانی کو کھیتوں میں پہنچانے کے بعد ان کے مطمئن چہروں پر تازگی دیکھی ہے اور دہکتی آگ پر پانی سے شرابور کپڑوں کو سکھانے کے عمل کے دوران ان کو اپنے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے بھی سنا ہے کہ ان کی بارانی فصلوں کے لیے اللہ کی رحمت نازل ہوئی ہے۔

ہم شہروں میں بیٹھ کر گائوں کے ان بارانی کاشتکاروں کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو اللہ کی رحمت کی امید میں اپنا سب کچھ اچھے مستقبل کی آس میں فصل کی کاشت کی صورت میں مٹی کے سپر کر دیتے ہیں اور پھر اللہ کی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ بارش ہو تو ان کی فصل کے بیجوں میں کچھ جان پڑے اور وہ اس قابل ہوں کہ زمین سے باہر آسکیں۔ بارانی علاقے کی تمام تر کاشتکاری کا دارومدار بارش پر ہوتا ہے اور بارشیں ہی بارانی علاقے کے باشندوں کی زندگی کی نوید ہوتی ہیں۔ بارانی کے معنی ہی یہ ہیں کہ آسمانی پانی سے کھیت سے سیراب ہوں۔

بارشیں تو شہروں میں بھی ہوتی ہیں لیکن یہ بارشیں بعض اوقات شہریوں کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہیں لیکن ہم بارانی علاقے کے رہنے والے ان بارشوں کے پیاسے ہوتے ہیں اور جتنی بھی بارشیں برسیں ہم ان کو کم سمجھتے ہیں ۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بارشیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ فصلیں خراب ہو جاتی ہیں لیکن ہمارے کاشتکار اس کو بھی اللہ کی رحمت گردانتے ہیں اور آنے والی فصل کے لیے اس بارش کو بہتر سمجھ کر اپنے موجودہ نقصان پر صبر شکر کر لیتے ہیں ۔ میں عرض کروں گا کہ بارانی کاشتکاروں سے زیادہ اللہ توکل میں نے کسی انسان میں نہیں دیکھا جتنا توکل ایک بارانی کاشتکار کرتا ہے آج کی دنیا میں اتنا توکل رکھنے والے انسان کم ہی ہوں گے، وہ اپنا سب کچھ مٹی میں ملا کر اللہ کی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اللہ اس کی محنت کو ضایع نہیں کرے گا اور اس کی محنت کو سر سبز و شاداب فصل میں بدل دے گا۔

بات ہو رہی تھی کہ وادیٔ سون کے پہاڑوں پر سردیوں کی پہلی بارش ہو رہی ہے ان بارشوں کے بعد جب بہار کا موسم آئے گا تو ایک قیامت کا منظر ہو گا کیونکہ ان بارشوں کے نتیجے میں اس خطے کو جو حیات نو ملی ہے وہ بہار کے موسم میں سبزو گل کی صورت میں نمودار ہو گی۔ جنگلی درخت پھلاہی کی خوشبو ہر سو پھیل جائے گی اور جنگل کے پرندوں اور شکاریوں سے بچ جانے والے ہرنوں پر وجد طاری ہو جائے گا ۔

چیتر کا مہینہ وادیٔ سون میں بہار کی آمد کا رسمی اعلان ہوتا ہے ۔ مجھے بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب بہار کی کسی صبح کو میری آنکھ پھولوں کی خوشبو سے کھلتی تھی ۔ گائوں کے ''دادا'' چیتر لگانے صبح صبح آ جاتے تھے، ان کے ہاتھوں میں جنگلی اور سرسوں کے پھول ہوتے تھے اور یہ پھول وہ بچوں کو پیش کرتے جب کہ بڑوں کے لیے ان کے پاس پتاشے ہوتے تھے ۔ کیا خوبصورت زندگی ہے جو کہ ابھی باوجود زمانے کی نئی جدتوں کے اپنی پرانی روایتوں پر چل رہی ہے اور ہم جیسے بد نصیب اس راحت بھری زندگی سے دور لاہور میں گٹروں کی بد بو سونگھنے پر مجبور ہیں۔

کئی دفعہ میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ کیا مجبوری ہے کہ اتنی بڑی محرومی کے دن بسر کر رہا ہوں؟ کالم کی صورت میں چند الفاظ نہ بھی لکھوں گا تو کوئی دوسرا میری جگہ لکھ دے گا بلکہ بہتر لکھ دے گا مگر شہر میں آ کر ایک ایسے دائرے میں گھوم رہا ہوں ایک ایسے چکر میں پھنس گیا ہوں کہ اس سے نکلنا بہت ہی دشوار دکھائی دیتا ہے۔ میں اس لاہور شہر کی مصنوعی روشنیوں سے بھاگنا چاہتا ہوں جو اس لاہور کا اب عکس بھی نہیں رہیں جس کے رومانس نے مجھے مسحور کر دیا تھا، وہ لاہور کہ:

ایہہ کہندیاں نے کندھاں پشور دیاں

نئیں ریساں شہر لہور دیاں

اب خواب و خیال ہو گیا ہے اور خواب و خیال بھی ان خوش نصیبوں کا جنہوں نے برسوں پہلے اس شہر طرب انگیز کو دیکھا تھا ۔

میں نے شروع میں چٹھی آنے کا محاورتاً ذکر کیا ہے، اب تو ٹیلی فون آتا ہے اور وہ بھی بغیر تار والا فون یعنی موبائل فون۔ پہلے زمانوں میں میرے گائوں سے کوئی آٹھ دس میل دور دو تار گھر ہوتے تھے اور جب کسی گھر میں تار آتا تھا تو گویا موت کی خبر ہوتی تھی، مجھے معلوم نہیں کہ کسی دوسرے گائوں میں تار کیسے پہنچایا جاتا تھا لیکن راتوں کو بھی تار پہنچتا تھا، یہ انگریز انتظامیہ کی کارکردگی تھی۔ آج ٹیلی فون ہے، بجلی ہے، اس بجلی کی برکت سے ٹیلی ویژن ہے اور اس ٹیلی ویژن کی برکت سے فیشن ہے، دنیا بھر کی خبریں ہیں اور اس کے ساتھ بجلی کے دوسرے آلات بھی پہنچ چکے ہیں ۔

روایتی مدھانی کی آواز کہیں معدوم ہو چکی ہے، بچپن میں صبح آنکھ مدھانی کی آواز پر کھلتی تھی لیکن اب نہ چکی ہے نہ مدھانی ہے کسی نے سویرے سویرے اٹھنا ہو تو گھڑی میں الارم لگتا ہے، کسی کو اب یہ معلوم نہیں کہ آسمان پر کون سے ستارے کہاں ہوں تو رات کا کیا وقت ہوتا ہے۔ کیا کیا یاد کریں اور کون کون سی بات سنائیں ۔ بہرکیف اللہ کی رحمت وادیٔ سون کے پہاڑوں پر برس رہی ہے اور پہاڑوں سے شور مچا کر اترتا پانی کھیتوں کو سیراب کر رہا ہے۔ جب بارش رکتی ہے تو جنگلوں میں چھپے ہوئے پرندے باہر نکلتے ہیں اور گنگناتے ہوئے چلتے چلتے سبزے کے پتوں پر رکے ہوئے پانی کے قطروں کو چونچ میں بھر کر پیاس بجھاتے ہیں اور بولیاں بولتے ہیں اور بچ جانے والے ہرن چوکڑیاں بھرتے ہیں۔

میری بدقسمتی کہ میں ایسے دلفریب نظاروں کو چھوڑ کر لاہور کی گندگی میں پھنسا ہوا ہوں۔یہ میری بدقسمتی ہے جو میں نے خود قبول کی اور پیدا کی ہے لیکن پھر بھی لاہور ''لاہور'' ہے ۔ ملکہ عالم نورجہان کا لاہور جنہوں نے لاہور کے عشق میں مغلوب ہو کر کہا تھا کہ میں نے لاہور کو گویا اپنی جان کے عوض خریدا ہے اور یوں جان دے کر ایک جنت لے لی ہے ۔ یہ ملکہ عالم نورجہان کا لاہور تھا اور ایک وہ لاہور ہے جو ہمارے حصے میں آیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور اس کے گلی کوچوں میں گندگی بکھیرتے ہیں، اس کے سوا کوئی مجبوری نہیں کہ ہم خود گندے ہیں اور لاہور کے قابل نہیں مگر لاہور پھر بھی ہمیں برداشت کر رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں