ادب کا جشن   ۱ 

اس جشن میں لکھنے والے تھے، پڑھنے والے تھے، کتابیں اور ملک کی مختلف ثقافتوں کا اظہارکرنے والی دستکاریاں تھیں۔


Zahida Hina February 06, 2019
[email protected]

فروری کے آغاز میں آنے والی بہار کی خوشبو فضا میں پھیل جاتی ہے ۔ اسی زمانے میں ادب ، ثقافت اور موسیقی کی محفلیں آراستہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ کراچی ، لاہور ، اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک وہ سہ روزہ ادبی جشن تھا جو کراچی میں چند دنوں پہلے ختم ہوا ہے۔ امینہ سید اور آصف فرخی برسوں سے شہر میں ادب کا جشن مناتے رہے ہیں۔

اس مرتبہ جشن کا آغازکرتے ہوئے امینہ یہ کہہ رہی تھیں کہ ہم ادب و ثقافت کی نئی شاہراہ ریشم تعمیرکر رہے ہیں ۔ جس پر چلتے ہوئے ہم ملک کی مختلف زبانوں ، ثقافتوں اور دنیا کے دوسرے ملکوں کے ادب اور تہذیب و ثقافت سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ آصف اسلم نے اس بات پر نازکیا کہ امینہ نے اور انھوں نے جشن ادب کے دس برس مکمل کرلیے ہیں ۔

اس جشن میں لکھنے والے تھے، پڑھنے والے تھے، کتابیں اور ملک کی مختلف ثقافتوں کا اظہارکرنے والی دستکاریاں تھیں۔ ہمارا ملک بھی گلوبل ولیج کا حصہ بن چکا ہے اور انگریزی اس گلوبل ولیج میں چلنے والا سکہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس جشن میں انگریزی ہماری اردو ، سندھی اور دوسری زبانوں پر چھائی ہوئی رہی ۔

گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اسٹیفن ونکلرکراچی کی ادبی اور تہذیبی زندگی میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں ۔ جشن ادب کے پہلے دن وہ اسٹیج پر موجود تھے اور وہاں موجود دوسرے لوگوں کی نسبت ان کی تقریر سیاسی کے بجائے ادبی تھی ۔ انھوں نے اقبال ، نطشے اور این میری شمل کو یاد کیا اورکہا کہ ہم آیندہ بھی پاکستان میں منائے جانے والے ادبی اور ثقافتی پروگراموں میں حصہ لیتے رہیں گے ۔

نسیم زہرا ہماری ایک مقبول اینکر پرسن ہیں لیکن اس جشن میں وہ اپنی کتاب ''فرام کارگل ٹوکو دی کو ': ایونٹس دیٹ شوک پاکستان'' کے ساتھ شریک ہوئیں ۔ اس میں حمید ہارون ، نجم الدین شیخ ، جنرل (ر) وسیم غازی ، شاہد امین ، احمد رشید اور مشرف زیدی شریک تھے ۔اس گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ کارگل جیسی ناکامیوں کو دہرایا نہیں جانا چاہیے۔

فیمینزم پر ان دنوں ہمارے یہاں بحث مباحثہ چلتا رہتا ہے،کئی کتابیں بھی شایع ہوئی ہیں جو فہمیدہ ریاض اور فاطمہ حسن کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ فیمینزم پر ہونے والے ایک سیشن میں فاطمہ حسن ، ہانی بلوچ ، منیزہ نقوی ، سائرہ شاہ حلیم ، ماہین عثمانی اور فوزیہ افضل خان شریک تھیں ۔ زور دار اور دھواں دار باتوں سے محفل گرم رہی ۔ سب سے زیادہ خوشی لیاری کی اُم ہانی کی باتیں سن کر ہوئی ۔ ان کے والد ، والدہ اور بھائی بہن بھی سامعین میں تھے ۔ ایسے ہی خاندانوں کی لڑکیوں کا ذہنی افق و سیع ہوتا ہے ۔گزشتہ چند ہفتوں سے تجاوزات گرانے کے نام پر شہر کراچی میں جو کچھ ہوا ہے ، اس پر بھی زور دار بحث مباحثہ رہا جس کی ماڈریٹر رُمانہ حسین تھیں۔ محمد توحید نے شکوہ کیا کہ جب ایمپریس مارکیٹ میں دکانوں کو گرانے اور ڈھانے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کا نشانہ 1700دکانیں اور 12مارکیٹیں بنیں۔ اس توڑ پھوڑ سے پہلے کسی قسم کا سروے نہیں کیا گیا ۔ اس مباحثے میں این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈاکٹر نعمان احمد نے بھی حصہ لیا ۔

پرانے کراچی کو اس ادبی جشن میں بہت محبت سے یاد کیا گیا ۔ 50ء اور 60ء کی دہائی کو یاد کرتے ہوئے ہمارے معروف صحافی اور کالم نگار غازی صلاح الدین نے کہا کہ اس زمانے میں کراچی میں کھلی جگہیں بہت زیادہ تھیں اور وسعت کا احساس ہوتا تھا ۔ انھوں نے کہا کہ میں نے برٹش کونسل سے انگریزی ادب سیکھا ۔ اس زمانے میں کراچی میں لگ بھگ 100سینیما گھر تھے ۔ شیر شاہ یاد کرتے رہے کہ فلم انجمن دیکھنے کے لیے وہ اسکول سے غیر حاضر ہوگئے تھے ۔ سننے والوں کو وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ان دنوں ہر جمعہ کو دن میں صرف خواتین کے لیے خصوصی فلم شو ہوتا تھا جس میں گھریلو خواتین جوق درجوق جاتی تھیں ۔ منیزہ نقوی نے بتایا کہ وہ واشنگٹن میں تھیں جب ان کی نظر سے یہ خبرگزری کہ پانیر بک شاپ بند ہورہی ہے ۔ اس خستہ حال دکان کی تصویر بھی تھی جسے دیکھ کر ان کا دل بہت اداس ہوا ۔ یہ وہ دکان تھی جس کا ان کے ناولوں میں ذکر تھا ۔ وہ کراچی آئیں اور اس دکان کے مالک کو راضی کیا کہ وہ اسے بند نہ کریں کیونکہ اس طرح شہر کی ایک پہچان کھو جائے گی ۔

ادب کا جشن مشاعرے کے بغیر ممکن ہی نہیں،اس ادبی جشن میں بھی مشاعرہ ہوا اور اس میں تقریباً تمام اہم شاعر اور شاعرات شریک ہوئے اور سننے والوں کا دل اپنے اشعار سے گرمایا ۔

جشن کے آخری دن کشور ناہید کے نئے مجموعے ''شیریں سخنی سے پرے '' پر گفتگو ہوئی جس میں اجمل سراج اور مجھ ناچیز نے حصہ لیا۔ میرا کہنا تھا کہ کشور ناہید ہم میں سے کسی کے لیے بھی ان جانی نہیں ، انھیں ان کے دشمن بھی اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں ۔ ان سے نفرت کرتے ہیں لیکن انھیں ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔ 79برس کی عمر میں انھوں نے کیا شہرت اور کیا عزت پائی ہے ۔ وہ جو ان سے ناراض رہتے ہیں ، انھیں بھی کشور سے سنبھل کر بات کرنی پڑتی ہے ۔

ان کی پہلی کتاب ''لب گویا'' 1968ء میں شایع ہوئی اور اسے آدم جی ایوارڈ ملا ۔ اس کے بعد سے آج تک وہ شعر کہہ رہی ہیں ، کتابیں اور کالم لکھ رہی ہیں ۔ انھوں نے اپنی خود نوشت '' بری عورت کی کتھا '' لکھی تو ادبی اور غیر ادبی دنیا میں سنسنی پھیل گئی ۔ پڑھنے والے اداس ہوئے کہ اس میں بری عورت سے تو کہیں ملاقات نہیں ہوتی ، ایک جفاکش اور جان پر کھیل جانے ، سچ بولنے والی عورت ضرور ملتی ہے ۔

کشور غزلوں سے شروع ہوئی تھیں اور یہ شعر کہہ رہی تھیں :

مانوس ہو چلی ہے اداسی سے زندگی

پاؤں کے آبلوں کا نظارہ تو ہے ابھی

اور پھر وہ نظموں کی طرف آئیں ۔ اس کا اعلان بھی انھوںنے غزل کے ایک شعر میں کیا :

دکھ کی گتھی کھولیں گے

اپنے آپ کو سمجھیں گے

یہ کہتے ہوئے وہ نظموں میں اپنی صنف اور اپنے وطن کے دکھوں کی گٹھری کھول کر بیٹھ گئیں ۔ ان کی شاعری میں اذیت اور حسن دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اپنے لوگوں کے پیروں میں پڑی ہوئی زنجیریں انھیں وطن کا پہناوا محسوس ہوتی ہیں اور وہ اپنے ہی وطن میں جلاوطن ہوجانے والوں کا نوحہ لکھتی ہیں ۔

لوگ انھیں عورتوں کے حقوق کی علمبردار شاعرہ کہتے ہیں لیکن وہ در حقیقت انسان پرست ہیں ۔ اگر مختاراں مائی ، ملالہ یوسف زئی اور قصور کی زینب ان کے نظموں کی ہیروئین ہیں تو وہ مشال خان اور نقیب اللہ محسود کا بھی نوحہ لکھتی ہیں ۔ وہ باچا خان کو بھی یاد کرتی ہیں ۔گھروں میں کام کرنے والی اور اذیتیں سہنے والی عورتیں اگر ان کی نظموں میں جھلک دکھاتی ہیں تو وہ اُن کان کنوں کا بھی شکوہ لکھتی ہیں جو کان کے حادثے میں ہلاک ہوئے :

اے مرے ربِ لاشریک ...... تجھ سے بس اتنا شکوہ ہے ...... تُو ہمیں واپس مٹی ہی بنا دیتا

تُو نے ہمیں کوئلہ بنا کر ...... غریبوں کو کیا سبق سکھایا ہے ؟ ''

ان کی نظم ''کاری قبرستان کی صدائیں '' پڑھنے والوں کو تھرا دیتی ہیں ۔ ان کی ایک طویل نظم ''بوڑھے بھورے ریچھ کی ایف آئی آر'' عالمی اور مقامی سیاست پر گہرا طنز ہے۔

سب کچھ بوڑھے ریچھ ...... تمہارے کہنے پر ...... ہو رہا ہے ......

اب وہ تمہارے چہیتے ہوگئے ہیں ...... جو زعفران کے کھیتوں میں:

گولیاں بو رہے ہیں....

مجھ سے پوچھیے تو یہ نظم دنیا کے حکمرانوں کے خلاف ایف آئی آر کا پلندا ہے۔ اسے ورق ورق پڑھیے اور اداسی کو اوڑھ لیجیے ۔ اور خون اگر ابھی گرم ہے تو بغاوت کا قاعدہ ابتدا سے پڑھیے ۔

یہ اعزاز کشور ناہید کے حصے میں آیا کہ ان کی نظم :

یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں ...... جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں ...... نہ سر جھکائیں :

اس ملک کی عورتوں کے لیے ترانے کا رنگ اختیار کر گئی ۔ وہ خوش رہیں اور اپنے سماج اور سرکار کے نام نظموں کی ایف آئی آر کاٹتی رہیں ۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں