ایک مشہور مگر مشکوک بیان

میں نے کئی دفعہ لوگوں کو اس طرح بحث کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ دونوں ایک ہی بات کر رہے ہوتے ہیں مگر لگتا ہے کہ ...


Tariq Mahmood Mian July 24, 2013
[email protected]

میں نے کئی دفعہ لوگوں کو اس طرح بحث کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ دونوں ایک ہی بات کر رہے ہوتے ہیں مگر لگتا ہے کہ ابھی ایک دوسرے کا گریبان پھاڑ ڈالیں گے۔ وہ دوسرے کی سنتے ہی نہیں۔ بس بولنا چاہتے ہیں اور بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ بے بنیاد اور فضول بحثوں کی اور بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ اب میں آپ کو تفصیل کیا بتاؤں۔ ان کے انتہائی اعلیٰ درجے کے بے وقار نمونے آپ بھی آئے دن ملاحظہ کرتے ہیں۔ آج میرا موضوع ایک ایسی ہی بحث ہے۔ اس کی بنیاد ایک ایسا مشہور و معروف بیان ہے جس کا ایک طویل عرصے سے ذکر ہو رہا ہے۔ جب بھی کسی کو موقع ملتا ہے اس بیان کا درہ بنا کے روشن خیالی کی کمر پر برسانے لگ جاتا ہے۔ اس کا تازہ ترین حوالہ طالبان کمانڈو عدنان رشید نے ملالہ یوسفزئی کے نام لکھے جانے والے خط میں دیا ہے۔ یہاں مجھے کسی کی برائی یا دفاع نہیں کرنا ہے۔ بس ایک حقیقت بیان کرنی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ لارڈ میکالے نے ایک بیان 2 فروری 1835ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں دیا تھا جس میں اس نے برصغیر کے لیے بہت دور رس تعلیمی اصلاحات تجویز کی تھیں۔ یہ سب زہر میں بجھی ہوئی تھیں۔ بیان یہ ہے:

''میں نے ہندوستان کے طول وعرض کا سفر کیا ہے اور مجھے ایک شخص بھی ایسا دکھائی نہیں دیا جو فقیر ہو یا چور ہو۔ میں نے وہاں ایسی اعلیٰ اخلاقی قدریں دیکھی ہیں اور ایسے اعلیٰ پایے کے عوام دیکھے ہیں کہ میں تصور نہیں کر سکتا کہ ہم کبھی اس ملک کو فتح کر سکتے ہیں۔ جب تک کہ ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ دیں اور یہ اس قوم کی روحانی اور ثقافتی میراث ہے۔ اس لیے میرا یہ مشورہ ہے کہ ہم ان کا پرانا تعلیمی نظام بدل ڈالیں کیونکہ جب ہندوستانی اس بات کا یقین کر لیں گے کہ بیرونی اور انگلستان سے آئی ہوئی چیز ان کی اپنی چیزوں سے بہتر ہے تو وہ اپنی خود اعتمادی اور خود ارادی کھو دیں گے۔ اپنی ثقافت کھو دیں گے اور پھر وہی بن جائیں گے جیسا ہم چاہتے ہیں۔ یعنی ایک حقیقی محکوم قوم۔''

لارڈ میکالے جس کا پورا نام تھامس ببنگٹن میکالے تھا 1800ء میں پیدا ہوا اور 1859ء میں وفات پا گیا۔ وہ شاعر بھی تھا، تاریخ داں بھی اور بعد میں سیاستدان بھی ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے کئی دوسرے درجے کے سیاسی عہدے اس کے پاس رہے۔ اس نے لاتعداد مضامین لکھے اور برطانیہ کے پارلیمانی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے تقاریر کر کے شہرت پائی۔ پھر وہ لیڈر سے پارلیمنٹ کا ممبر بھی منتخب ہو گیا۔ میکالے کے مضامین اور تقاریر کے کئی مجموعے آج بھی دستیاب ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اوپر درج کیا گیا بیان ان میں سے کسی میں بھی موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی ایسا کھلم کھلا اور سازشی بیان کسی پارلیمانی گفتگو میں دیا جانا بعید از قیاس ہے۔ یہ میکالے کی دیگر تحریروں اور تقاریر کے انداز سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ نہ ہی اس زمانے میں اس قسم کے ٹی وی ٹاک شوز ہوتے تھے کہ ''ماہرین'' اپنے سر اور بریکوں کو استعمال کیے بغیر بولتے ہی چلے جائیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس بیان کی تاریخ پیدائش 2 فروری 1835ء بتائی جاتی ہے اور جائے پیدائش ہے برطانوی پارلیمنٹ یعنی برطانیہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پورے سال کے اندر لارڈ میکالے ہندوستان میں موجود تھا اور وہ برطانیہ گیا ہی نہیں۔ یوں اس بیان کی ولدیت ہی مشکوک ہے۔

اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں حکومتی حلقے اس سے ملتی جلتی حکمت عملی پر غور کرتے تھے۔ ان کے رویوں اور اعمال کی سمت بھی اسی طرف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوگ اس بیان کو بنیاد بناکر مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو اسے عمومی طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس پر ٹھوک پٹخ کرنے سے ہمارے جذبات کو بھی کچھ تسکین مل جاتی ہے۔ ایسا صرف ہمارے ہی ملک میں نہیں ہو رہا بلکہ بھارت میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ وہاں بھی اس بیان کی صحت کے بارے میں محققین نے سوالات اٹھائے ہیں لیکن اس کا استعمال بھی جاری ہے۔

ستمبر 2004ء میں بھارت کے نامور سائنسدان اور اس وقت کے بھارتی صدر عبدالکلام، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کونووکیشن میں شرکت کرنے کے لیے گئے۔ وہ اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ تقاریر ہو رہی تھیں کہ اچانک انھیں کچھ سوجھا اور انھوں نے اپنا لیپ ٹاپ سامنے رکھ لیا۔ تھوڑی دیر اس پر انگلیاں گھمائیں اور پھر کچھ تلاش کر کے اس کے نوٹس لے لیے۔ یہ لارڈ میکالے کا وہی بیان تھا جس پر آج ہم بات کر رہے ہیں۔ جب بطور مہمان خصوصی صدر عبدالکلام کی باری آئی تو انھوں نے اس بیان کو پڑھ کر سنایا اور اسی کو بنیاد بناکر ایک دھواں دھار تقریر کر ڈالی۔ عبدالکلام صاحب ایک بڑے سائنسدان ہیں۔ عقلمند بھی ہوں گے مگر ظاہر ہے وہ تاریخ دان تو نہیں ہیں۔ انھوں نے بھی اسی طرح کا کام کر ڈالا جو دیگر صاحبان عقل بغیر جانے بوجھے کرتے رہتے ہیں۔

بھارت کے ایٹمی سائنسدان کے بعد اب پاکستان کے ایٹمی سائنسدان کا ذکر کرتا ہوں۔ 21 جون 2010ء کو محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک مضمون لکھا۔ اتفاق سے انھوں نے بھی اس میں لارڈ میکالے کے اسی مبینہ بیان کا حوالہ دیا اور اپنا موقف بیان کیا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب سے محبت ہے۔ خصوصاً ان کے اخلاص اور سادہ دلی سے۔ ان کا موقف بھی درست تھا اور قائل کرنے کا انداز بھی لیکن تاریخ دان تو وہ بھی نہیں ہیں۔ انھوں نے بھی اسی بیان کے حوالے سے بات کر ڈالی جس کی بنیاد مشکوک ہے۔

اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی میں نے جا بجا اس کا حوالہ دیکھا ہے۔ خصوصاً سوشل میڈیا پر تو اسے طرح طرح کے طغروں میں سجا کے پیش کیا جاتا ہے اور پھر ایک طبقے کو مغرب زدہ کہہ کے خوب لتاڑا جاتا ہے۔ یوں جیسے آزاد خیال اور رجعت پسند طبقوں کے درمیان میں رکھی ہوئی کوئی شے ہو اور اس پر لوگ چاند ماری کر رہے ہوں۔ البتہ طالبان کمانڈر عدنان رشید نے ملالہ کے نام لکھے ہوئے خط میں اس بیان کا جس طرح حوالہ دیا ہے اس نے مجھے قدرے حیران کر دیا ہے۔ وہ ملالہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے ''۔۔۔۔۔میں آپ کی توجہ ایک تحریر کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو سر ٹی بی میکالے نے برطانوی پارلیمنٹ کو برصغیر میں تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے ارسال کی۔ 2 فروری 1835ء کو لکھے گئے اس مراسلے میں میکالے نے واضح کیا کہ۔۔۔۔''۔

آپ نے دیکھا، عدنان رشید نے میکالے کے برطانوی پارلیمنٹ میں ''بیان دینے'' کا ذکر نہیں کیا ہے۔ بیان کی تاریخ وہی ہے یعنی 2 فروری 1835 لیکن اس نے پارلیمنٹ کو ''لکھے جانے والے'' ایک مراسلے کا ذکر کیا ہے۔ گویا یہ لوگ اس فرق کی نزاکت سے باخبر ہیں۔ باقی نتیجہ آپ خود اخذ کرلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں