آخری فتح

عوام اور فقط عوام ہی وہ متحر ک قو ت ہیں جو عالمی تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں پاکستان کے عوام نے اپنی 65 سالہ جدو جہد کے۔۔۔


Aftab Ahmed Khanzada July 24, 2013

چینی زبان میں ایک لو ک کہانی ہے جس کا نام ہے '' وہ بیوقوف بوڑھا جس نے پہاڑوں کو ہلا دیا '' یہ ایک ایسے بوڑھے سے متعلق ہے جو بہت مدت ہوئی شمالی چین میں رہتا تھا اور شمالی پہاڑ کا بیوقوف بوڑھا پکارا جاتا تھا۔ اس کے گھر کا منہ جنوب کی جانب تھا اور اس کے مکان کے قریب تائی ہانگ اور ولینگو نامی دو بڑے پہاڑ تھے جو اس کے گھر کے راستے میں حائل تھے۔ ایک دن وہ مصمم ارادے کے ساتھ اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں کدالیں دے کر ان پہاڑوں کو کھودنے اور اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے چل پڑا۔ اس علاقے کے ایک دوسرے آدمی نے جو عقل مند بوڑھے کے نام سے مشہور تھا، اسے پہاڑوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر از راہ تمسخر کہا ۔''تم کتنے احمق ہو تم دو چار آدمی اتنے بڑے پہاڑوں کو کسی طرح کھود سکو گے'' احمق بوڑھے نے جواب دیا ''جب میں مر جائوں گا تو میرے بیٹے یہ کام جاری رکھیں گے۔ جب وہ مر جائیں گے تو میرے پوتے پہاڑوں کو کھودتے رہیں گے اور ان کے بعد ان کے بیٹے اور ان کے پوتے یہ ہی کام کرتے رہیں گے یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا اگر چہ پہاڑ اونچے ہیں مگر یہ مزید اونچے نہیں ہو سکتے انہیں آہستہ آہستہ کھودتے رہنے سے ایک دن انہیں زمین کی سطح کے ساتھ ملا یا جا سکتا ہے ۔''

آج بھی 3 بڑے پہاڑ پاکستان کے عوام کو دبائے ہوئے ہیں ان میں سے ایک اشرافیہ ، دوسرا آمریت ، اور تیسرا مذہبی انتہا پسند ی کا پہاڑ ہے۔ پاکستان کے عوام نے ان پہاڑوں کو کھود کر اپنے راستے سے ہٹانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور پاکستان کے عوام آہستہ آہستہ اپنا کا م کر رہے ہیں۔ ہماری تاریخ محدود اور سمٹی ہوئی تاریخ ہے۔ اس میں حکمران طبقہ کی تاریخ تو ہے عوام کی نہیں، زمین داروں کی ہے کسانوں کی نہیں، صنعت کاروں کی ہے مزدوروں کی نہیں۔ فرانسیسی مورخ مشلے نے فرانسیسی انقلاب پر ایک پر اثر کتاب لکھی اس نے کہا ہے ''میں جتنی زیادہ گہرائی میں گیا اتنے ہی یقین کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا کہ جو کچھ بہتر ہے و ہ زمین کے نیچے ہے جو گمنا می میں روپوش ہے رہنما عنصر عوام ہیں۔ ''

عوام اور فقط عوام ہی وہ متحر ک قو ت ہیں جو عالمی تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں پاکستان کے عوام نے اپنی 65 سالہ جدو جہد کے نتیجے میں ابتدائی کا میابی حاصل کر لی ہے پاکستان کو جمہوری، تمام تعصبات سے پاک خوشحال اور مضبو ط بنا نے کے لیے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے اتحاد کی ضرورت ہے۔ مشکلات بہت ہیں لیکن ہمیں اپنی فتو حات کو بھی نہ بھو لنا چاہیے اور ہمت اور جرأت قائم رکھتے ہوئے روشن مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے۔ مارکس نے کہا ہے کہ ساری تبدیلیوں کی بنیاد ایک مادہ ہے یعنی دنیا کی ساری تبدیلیاں مادی کشمکش کی وجہ سے ہوتی ہیں لہذا ا س نے نظریہ قائم کیا کہ دنیا میں ساری تبدیلیاں معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ موجودہ معاشروں کی تاریخ دراصل طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے آزاد و غلام ، امیر و غریب کارخانہ دار اور مزدور ، جاگیر دار و کسان، ظالم و مظلو م اور ان کے درمیان مسلسل جنگ جاری ہے۔

غرض غذا اور مکان کے لیے کشمکش ہر جگہ موجود ہے اور انسانی معاملات کی ہر چیز کا فیصلہ اسی کی بناء پر ہوتا ہے انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایک طبقہ دوسرے طبقے سے ناجائز فائدہ اٹھاتا رہا ہے تاریخ سے پیشتر کے دور میں قبائلی معاشرہ موجود تھا جس کے متعلق کہنا چاہیے کہ اس میں کوئی طبقہ نہ تھا جب تاریخ کا دور شروع ہوا تو طبقات بھی نشوونما پا گئے اور عالم انسانیت کے زیادہ تر افراد پہلے غلام اور پھر جاگیرداری کے نظام میں جاگیرداروں کے غلام بن گئے ۔

سرمایہ داروں کا زمانہ آیا تو انھوں نے ایسے غلاموں کی حیثیت اختیار کر لی جن کے پاس کوئی جائیداد نہیں تھی اور وہ صرف اپنے کام کی اجرت پاتے تھے۔ انقلاب دو مرحلوں سے گذرتا ہے انقلاب کی پہلی منزل وہ ہے کہ جس میں سیاسی انقلاب متوسط طبقے کی رہنمائی کی وجہ سے رونما ہوتا ہے اس کا خاص مقصد یہ ہوتا ہے کہ

جاگیرداروں اور پادریوں یامذہبی رہنمائوں کی سیاسی فوقیت کو ختم کر دے اور سیاسی اقتدار پہلے طبقے کو اور اس کے بعد عوام کو عطا کر دے ۔ سیاسی انقلاب یکساں سیاسی آزادی عطا کر تا ہے۔ اور مراعات کو بالکل ختم کر دیتا ہے لیکن اس کا مقصد معاشی نابرابری یا معاشی عدم مساوات کو ختم کر نا نہیں ہوتا۔ انگلستان کا 1688ء کا انقلاب اس کی بہترین مثال ہے۔ دوسرا انقلاب روس کا 1917ء کا انقلاب ہے جو جبر و تشدد کی وجہ سے رونما ہوا۔ سیاسی انقلاب کے بعد دوسری منزل معاشی انقلاب ہے جب یہ انقلاب رونما ہوتا ہے تو پیداوار کے سارے طریقے پورے طور سے پرولتاریہ کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں اور نظام سر مایہ داری اور اس کی وجہ سے تمام پھیلی ہوئی نا انصافیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے لیکن یہ انقلاب اس وقت رونما ہو تا ہے کہ جب نظام سرمایہ داری کے فطر ی تضاد کی وجہ سے فضا پرولتاری کے بالکل مو افق ہو جائے۔

ارسطو کے نزدیک مملکت کا قیام اس لیے عمل میں آیا کہ لوگ مل جل کر اچھی زندگی گذار سکیں اور اس کے قیام کا خاص مقصد پورے سماج کی فلاح و بہبود ہے اور اس کے ذریعے افراد کو ترقی کر نے اور اپنی شخصیت کی تکمیل کرنے کے لیے مواقعے ملتے ہیں اس سے نہ صرف افراد کی شخصیتوں کی تعمیر ہوتی ہے بلکہ انسانی تہذیب اور تمدن کی ترقی ہوتی ہے۔ ملیئر کہتا ہے مذہب اور اقتدار دو جیب کترے ہیں جو مل کر لوگوں کو لوٹتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں پر ممتا ز ہونے اور زندگی کی تمام اچھی چیزوں سے لطف اندوز ہونے کا واحد مقصد لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس دوسرے لوگ غربت زدہ، دھتکارے ہوئے اور آلام زدہ لوگ کمر توڑ مشقت اور تذلیل کے بو جھ تلے اپنی زندگیوں کو سڑانے، گلا نے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

ایسی نا برابری یقینا غیر منصفانہ ہے سارے لوگ برابر پیدا ہوئے ہیں زندہ رہنا کا ان سب کا برابر کا حق ہے انہیں آزادی اور زندگی کے اچھی چیزوں کے حقدار ہونے کا حق ہے زندگی کی اچھی چیزوں کی غیر منصفا نہ تقسیم کی فراڈ، خیانت، ٹھگی، ڈاکا، قتل اور دیگر جرائم کی ذمے دار ہے برائی اس حرکت سے جنم لیتی ہے لوگ زمین کے وسائل اور اس کی نعمتوں کو جائیداد کی حیثیت سے ذاتی ملکیت بنا لیتے ہیں جب کہ یہ ساری نعمتیں سانجھی ہونی چاہیے۔ زندگی عمل ہے اور عمل جدوجہد ہے بغیر جدوجہد کے کوئی خو بی پیدا نہیں ہو سکتی بغیر خوبی کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اور بغیر عمل کے زندگی ممکن نہیں۔ اشرافیت، رجعت پرستی، بنیاد پرستی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے آخری فتح ہمیشہ عوام کو ہی حاصل ہوئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں