غیر متوازن بھرتیاں

وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے مطابق سندھ میں زائد بھرتیوں کی وجہ سے سارا بجٹ اس پر ہی خرچ ہو جائے گا کیونکہ۔۔۔

وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے مطابق سندھ میں زائد بھرتیوں کی وجہ سے سارا بجٹ اس پر ہی خرچ ہو جائے گا کیونکہ محکمہ تعلیم اور بلدیات میں ضرورت سے زائد بھرتیاں کی گئی ہیں۔ وہ یہ بھی فرما چکے ہیں کہ پولیس کو ٹریننگ کی ضرورت ہے جب کہ سندھ میں رینجرز کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ چند ایک واقعات کی وجہ سے رینجرز کی اہلیت پر شک کرنا درست نہیں۔ شک و شبے کی گنجائش تو ہمارے ملک میں اسی وقت ختم ہو جاتی ہے جب ایک عام شہری اپنے بدن پر وردی سجاتا ہے اب کیا الٹا اور کیا سیدھا سب چلتا ہے۔

اتنا تو شاہ جی مان ہی چکے ہیں کہ محکمے بھرتیوں کے وزن کے باعث غیر متوازن ہو چکے ہیں یعنی جتنے کی ضرورت ہے اتنے سے زیادہ پر ہو چکے ہیں اور ابھی تو بہت سے منتظر بھی ہیں کہ جنہوں نے نجانے کون کون سی پوسٹوں کے لیے لاکھوں روپے کی رشوت دے رکھی ہے ہمارے ملک میں تو ایسا عام ہے بچپن سے تو ہم یہی دیکھتے آ رہے ہیں لیکن اگر کسی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہوں تو تعلیم اور سیکیورٹی کے شعبوں کو نشانے پر رکھو۔۔۔۔ کیونکہ تعلیم سے ملک باشعور ہوتا ہے اور بہترین سیکیورٹی سے پر امن صحت مند فضا میں عوام کو کام کرنے کے مواقع ملتے ہیں جن سے ملک ترقی کرتا ہے لیکن ہمارے ملک میں کچھ سوچے سمجھے بغیر کرپشن اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ جس سے ملک کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو رہی ہے۔ ایک طویل عرصے سے تعلیم کا شعبہ اسی چل چلاؤ کا شکار ہے لیکن اب سیکیورٹی کے اداروں میں بھی یہی سلسلہ چل پڑا ہے جو خاصا خطرناک ہے۔ عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنا کسی بھی ریاست کی اہم ذمے داری ہے لیکن ہمارے یہاں کیا حکومت اور کیا ریاست۔۔۔۔ جو ہو رہا ہے کچھ عرصہ پہلے بھی کچھ اسی قسم کی صورت حال تھی۔

ملک کے بہت سے علاقے حساس علاقے قرار پا چکے ہیں ان کی حساسیت کی درجہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں سیکیورٹی فراہم کرنے والوں کی کارکردگی اس صوبے اور ضلع میں کس حد تک ہے۔ ابھی الیکشن کے زمانے کی ہی بات لیجیے سیکیورٹی کی ذمے داری رینجرز اور پولیس کے کاندھوں پر تھی اور اس مسئلے کو بہت اہمیت دی جا رہی تھی کہ پر امن حالات میں پولنگ ہو، خدا نے عوام کی سن لی اور حالات کافی حد تک پر امن رہے اس میں سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ ہمارے جیسے عوام کی دعاؤں کا عمل دخل ہے۔ ورنہ بہت سے علاقوں میں جو پولیس کی زائد تعداد نجانے کدھر سے نازل ہوئی تھی صرف وردی کی حد تک ہی پولیس تھی۔


بہت سے اہلکار گیارہ مہینے سے تنخواہ سے محروم تھے انھیں یقین تھا کہ الیکشن کے بعد جنہوں نے انھیں وعدے وعید کر کے بھرتی کیا ہے وہ ضرور اپنے وعدے وفا کریں گے۔ ذرا تصور کریں بغیر ٹریننگ کے پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکار حساس علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی پر مامور۔۔۔۔ یہ کیا کھیل ہے جو ارض پاکستان میں جاری ہے۔ بہت سے اہلکار اکتائے ہوئے اپنی ڈیوٹیاں بھگتا رہے تھے۔ آپ اور میں سب ہی جانتے ہیں کہ ڈیوٹی بھگتانے سے کیا مراد ہوتی ہے۔ کچھ سوتے کچھ جاگتے۔۔۔۔۔ کچھ اونگتے کچھ جمائیاں لیتے مکھیاں جھلاتے اور بس سیکیورٹی کے نام پر یہی دستیاب ہے۔ میاں کے یہاں سب چلتا ہے اور اب جب وزیر اعلیٰ نے جنھیں اس بات کا ادراک تو پہلے ہی تھا لیکن اب احساس بھی ہو چلا ہے کہ منچلوں کی بستی میں سر پھرے بھی رہتے ہیں۔ چلیے دیر آید درست آید۔

چند برسوں پہلے کی بات ہے جب ایک عزیز کو ایک شکایت کے لیے اس سہارے کی ضرورت پڑی، بات صرف ذمے داری کی تھی کہ نئی بیاہتا دلہن کی سونے کی ساری چوڑیاں اتروا لی گئی تھیں اور گھر والے خوفزدہ اور پولیس میں رپورٹ کروانے سے بھی ڈر رہے تھے، ون فائیو پر کال کی گئی تو قریبی تھانے کا پتہ بتا دیا گیا کہ وہاں چلے جائیں اگر ایسا ہی تھا تو ون فائیو کے نمبرز کی تشہیر کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی، جب کہ قریبی تھانے میں یہ حال تھا کہ عملہ ناکافی اور دوپہر کو تو جیسے سارے ہی غائب۔ اب اگر دوپہر کے وقت کسی سائل کو پولیس کی ضرورت پڑے تو کیا کرے؟ پھر چوڑیاں اتروانے والے کیا پولیس کے منتظر تھے؟ لیکن کیا کہنے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کہ جن کی چوکیوں پر سناٹے طاری رہتے ہیں اور جب شور اٹھتا ہے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ کچھ تو ہوا ہے۔ دوبارہ ون فائیو پر کال کی گئی اور صورت حال بتائی گئی تو کہا گیا کہ اچھا انتظار کریں پٹرولنگ کی گاڑی کچھ دیر بعد آئے گی۔ یہ کچھ دیر انتظار اور توقف ہی اس قوم کی قسمت میں رہ گیا ہے، نہ چوڑیاں ملنی تھیں نہ چور پکڑے جانے تھے بس عوام ہاتھ ملتی رہ گئی۔

پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔۔۔۔سنا تو بہت ہے لیکن دیکھا کم کم ہی ہے اور جو دکھایا جاتا ہے اس کی کس کو کیا خبر؟ پھر بھی اب عوام کے سارے ضبط ٹوٹ چکے ہیں اور بات تھانوں کے گھیراؤ اور قانون نافذ کرنے والوں کی گت بنانے تک جا پہنچی ہے۔ قانون کا احترام عوام کی نظر میں بس اتنا ہی رہ گیا ہے کہ کچھ دے دلا کر قصہ ختم کراؤ اور جو سائل ہے جو حقدار ہے وہ بے چارہ ترستا ہی رہتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک عزیز کی جاننے والی خواتین اپنی کچھ رشتے دار خواتین کے ساتھ اپنی کار میں کہیں سے آ رہی تھیں کہ بیچ راستے سے کچھ اوباش قسم کے حضرات نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ اتفاق سے پولیس کی ایک موبائل کھڑی تھی، خواتین نے گاڑی موبائل کے پاس روکی اور پولیس وین میں موجود اہلکار سے شکایت کی۔ وہ اوباش حضرات جو کوئی بھی تھے بجائے اس کے کہ پولیس والے ان لوگوں کی سرزنش کرتے ان سے معذرتی انداز میں مخاطب ہوئے پہلے تو انھوں نے نظر انداز کرنے کی کوشش کی تھی یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

اس واقعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں پولیس اہلکار سے زیادہ اہم وہ وردی ہے جو عام عوام اور سرکاری اہلکاروں میں تمیز پیدا کرتی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ انھیں جرائم پیشہ حضرات سے نبٹنا آتا ہے یا نہیں انھیں اس کی تربیت ہے یا نہیں ان کے پاس بندوقیں چلتی بھی ہیں یا زنگ آلود ہیں۔۔۔۔ یا صرف دکھاوے کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔ یہ محکمہ جو اندرون ملک سیکیورٹی کا بڑا اہم ادارہ ہے اب ایک اسٹامپ بنتا جا رہا ہے کاش! ہمارے اوپر والے ذرا سنجیدگی سے اس ادارے کو لیں اور اس اہم ادارے کی ذمے داریوں اور حقوق پر غور کریں، ان کی تربیت اور ان کے ہتھیاروں پر توجہ دیں اور پاکستان کی پولیس فورس کو اس لیول کا کرنے کی کوشش کریں کہ جس سے ملک کا ایک عام شہری مصیبت اور ضرورت کے وقت بے خوفی سے اس کا رخ کرے اور ہمیں یہ نہ سننے کو ملے کہ پولیس کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہمیں بھی امید ہے کہ اس اہم ادارے کے انتخاب کے عمل کو اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر جانچا جائے گا ورنہ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو۔۔۔۔؟
Load Next Story