لوڈشیڈنگ
پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک اور عام آدمی سے لے کر خواص تک ہر طبقہ زندگی کے لوگ گواہ ہیں کہ مسلم لیگ (ن)۔۔۔
پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک اور عام آدمی سے لے کر خواص تک ہر طبقہ زندگی کے لوگ گواہ ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے پوری انتخابی مہم کے دوران عوام سے بلند آہنگ دعوے کرتے ہوئے ملک سے انرجی بحران کے خاتمے اور 18 کروڑ عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا تھا اور اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی کی یقین دہانیاں کرائی تھیں۔ نواز حکومت گردشی قرضوں کو بجلی کے بحران کا سبب قرار دیتی ہے، وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو پانچ سو ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے بعد لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی اور قوم کو یقین دلایا گیا کہ گردشی قرضوں کی پہلی قسط کی ادائیگی کے فوری بعد بجلی کی پیداوار میں 17 سو میگاواٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔
عوام کو اس امر کی یقین دہانی کرائی گئی کہ رمضان المبارک میں سحر و افطار کے اوقات میں پورے ملک میں کہیں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بجلی کمپنیوں کو 300 بلین کی خطیر رقم کی ادائیگی کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کمی ہونے کی بجائے مزید اضافہ کیسے ہو گیا؟ صورت حال اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ سحر و افطار کے اوقات میں بھی ملک کے بیشتر علاقے اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں جس سے لوگوں کی پریشانی میں بجائے کمی کے مزید اضافہ ہو رہا ہے نتیجتاً رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزے کی حالت میں عوام سڑکوں پر آ کر حکومت کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار اور مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
بجلی کے شدید بحران اور اس میں تسلسل سے اضافے کے بعد حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور انھیں احساس کرنا چاہیے کہ کروڑوں عوام کی جیب پر ڈاکا ڈال کر بجلی پروڈیوس کرنے والی چند مخصوص کمپنیوں کے مالکان کی جیبیں بھرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا تا وقت یہ کہ گردشی قرضوں کے اصل اسباب کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ موجودہ وفاقی وزیر بجلی و پانی خواجہ آصف نے گزشتہ دور حکومت میں راجہ پرویز اشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کئی سال تک طوفان اٹھائے رکھا اس سے بعض لوگوں کو یقین آ گیا کہ خواجہ آصف اور نواز لیگ کے دوسرے لوگوں نے بجلی کی پروڈکشن کے حوالے سے کافی اسٹڈی کی ہو گی اور (ن) لیگ برسر اقتدار آتے ہی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کرے گی مگر اب وفاقی وزیر خواجہ آصف اخبارات کے ذریعے قوم سے معافی مانگ کر اپنی شرمندگی اور شرمساری چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی گزشتہ دور حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر بڑا واویلا کیا کرتے تھے اور (ن) لیگ کو اقتدار ملنے کی صورت میں کبھی ڈیڑھ سال کبھی دو سال اور کبھی تین سال میں ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کرتے تھے اور حکومت کے خلاف بجلی بحران کے احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے تھے لیکن شاید اب انھیں بھی حالات کی سمجھ آ گئی ہے اور ان کے جذبات بھی ٹھنڈے ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے بڑے بھائی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فرمایا ہے کہ شہباز شریف جذباتی ہو کر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی تاریخیں دے دیتے ہیں جو درست نہیں یہ بحران شدید تر ہے حکومت اس کے خاتمے کی تاریخ نہیں دے سکتی۔
سچ تو یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے اپنے دعوؤں اور وعدوں کی عدم تکمیل کے باعث نواز حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے کبھی سیکریٹری پانی و بجلی کو تبدیل کیا جاتا ہے، کبھی چیئرمین واپڈا کو ہٹانے کی بات کی جاتی ہے اور کبھی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سی اوز کی تبدیلی کی خبریں آتی ہیں لیکن تمام تر اقدامات کے باوجود صورت حال حکومت کے کنٹرول سے باہر نظر آتی ہے اور چاروں صوبوں میں بجلی کا بدترین بحران جاری ہے جس سے نہ صرف عوام کے روز مرہ کے معمولات درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں بلکہ ملک بھر کی صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں چند روز قبل آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) کی جانب سے قومی اخبارات کے صفحہ اول پر رنگین اشتہار شایع ہوا جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور موجودہ نواز حکومت کے دوران بجلی و گیس فراہمی و تعطل کے حوالے سے موازنہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں فیکٹریوں کو ہفتے میں پانچ دن گیس دستیاب تھی جب کہ نواز حکومت میں فیکٹریوں کو ہفتے میں صرف دو دن گیس ملتی ہے اسی طرح پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ان دنوں بجلی کی لوڈ شیڈنگ روزانہ صرف چار گھنٹے ہوتی تھی جب کہ موجودہ دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 10 گھنٹے ہے۔
اے پی ٹی ایم اے نے حکومت پنجاب کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اس کی ضرورت کے مطابق بلاتعطل گیس و بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بصورت دیگر ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہو جائے گی، قوم کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو گا اور مزید لاکھوں افراد بھی بے روزگار ہو جائیں گے۔ابھی گردشی قرضوں کی مد میں ادا کی گئی تین سو بلین روپے کی خطیر رقم میں گھپلوں کی خبریں آ رہی تھیں کہ نندی پور پاور پروجیکٹ کی تعمیری لاگت میں اضافے کے حوالے سے موجودہ حکومت پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں کہا جا رہا ہے کہ نندی پور پاور پروجیکٹ تعمیر کرنے والی چینی کمپنی نے لاگت میں 40 ملین ڈالر کے اضافے کی ڈیمانڈ کی ہے جس سے منصوبے کی کل لاگت 400 ملین ڈالر ہو جائے گی لیکن موجودہ حکومت نے پراسرار طور پر لاگت 574 ملین ڈالرز تک پہنچا دی ہے۔ عوام نے اسے ایک وائٹ کالر کرائم قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور سپریم کورٹ سے سوموٹو ایکشن لینے کی درخواست بھی کی ہے۔
نواز حکومت جو کرپشن و بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ لگاتی ہے وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت میں کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کریں گے لیکن حکومت کے ہنی مون پیریڈ کے دوران ہی کرپشن کی خبروں سے حکومت کے مستقبل کا پتہ چل رہا ہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ حکومت کو انرجی کے بڑھتے ہوئے بحران پر قابو پانے کے لیے اپنے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا ورنہ لوڈ شیڈنگ پر عوامی ردعمل سے حکومت کو غیر معمولی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔