غیر معمولی حالات غیر معمولی فیصلے
فوجی عدالتوں کے قیام کو چار برس گزرنے کے بعد یہ دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے
7جنوری کو فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوچکی، ان کی توسیع کا معاملہ عمران خان کی حکومت کی سیاسی اہلیت کے لیے آزمایش ثابت ہوگا، کیوں کہ اب اس کی راہ میں صرف قانونی مسائل نہیں بلکہ کئی انائیں بھی حائل ہوگئی ہیں۔ حزب اختلاف سے حکومتی تعلقات میں سرد مہری کے باوجود اس معاملے پر اتفاق رائے کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔ حزب اختلاف پہلے ہی فوجی عدالتوں میں توسیع کی سوچی سمجھی مخالفت کرچکی ہے، ان کا استدلال ہے کہ یہ بندوبست جمہوریت اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اگرچہ جب یہی جماعتیں اقتدار میں تھیں تو ان کا لہجہ اور مؤقف مختلف تھا۔
فوجی عدالتوں کے قیام کو چار برس گزرنے کے بعد یہ دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کن حالات میں ہوا تھا اور سیاسی سطح پر اتفاق رائے کیسے پیدا ہوا۔ 2015ء میں آرمی پبلک اسکول کے سفاکانہ قتل عام کے بعد ان عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ چار برس بیت جانے کے بعد شاید ہم اس دن کی وحشت، اُن بچوں اور ان کے اہل خانہ کے آنسو فراموش کرچکے ہیں۔
روزمرہ کے چھوٹے موٹے مسائل میں الجھ کر یوں ہی ہم کئی مرتبہ کسی گہرے صدمے، کرب اور اضطراب کو بھُلا دیتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے ناقدین سے، جنھیں انسانی حقوق اور جمہوریت کا بہت درد اٹھتا ہے، یہ پوچھنا چاہیے کہ پھول جیسے ان بچوں کے کیا کوئی انسانی حقوق نہیں تھے؟ جہاں دہشتگردی کا عفریت پنجے گاڑے موجود ہو وہاں انسانی حقوق اور جمہوریت بھلا کیسے پنپ سکتے ہیں۔ اس آگ کی نذر ہونے والوں کے اہل خانہ یہ درد کبھی نہیں بھلا سکتے اور پوری قوم کو بھی یہ زخم یاد رہنے چاہییں، بالخصوص وہ منتخب عوامی نمایندے جن کی اوّلین ذمے داری اپنے منتخب کرنے والے شہریوں کی آزادیوں اور جان و مال کا تحفظ ہے۔ اس سانحے میں قتل ہونے والے بچوں نے نواز شریف حکومت کو تیز ترین انصاف کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر مجبور کیا اور اس کا مقصد ملک میں دہشتگردی کا سر کچلنا تھا۔
ملک میں دہشتگردی سے مقابلے کے لیے مؤثر ثابت ہونے کی وجہ سے 2017ء میں پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں کو دوسال توسیع دینے کی منظوری دی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام اور قوانین خطرناک دہشتگردوں کو سزائیں دینے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔ مزید برآں سیاسی عزم کی کمی کے باعث کیا ایسا نہیں ہوا کہ متعدد بار کراچی جیسے شہر میں دہشتگرد پولیس تھانوں سے بحفاظت نکل آئے؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے جب دہشتگردی میں ملوث افراد کو عدالتوںکے سامنے پیش کرتے ہیں تو موجودہ نظام قانون میں پائے جانے والے سقم، جان کے خطرے میں مبتلا خوفزدہ گواہوں اور قوانین کی عدم موجودگی کے باعث انھیں سزائیں نہیں ہو پاتیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو ایسے ملزمان ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں یا عدالتیں انھیں بری کر دیتی ہیں۔ سیاسی عزم نہ ہونے کی وجہ سے قانونی کمزوریوں کو دور کرنے میں پس و پیش نے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔
اپنے قیام کے چار برسوں کے دوران فوجی عدالتیں دہشتگردوں کو قانون کے شکنجے میں کسنے کے لیے مؤثر ذریعہ ثابت ہوئیں۔ وفاقی حکومت کے قائم کردہ دہشتگردی کے 717 مقدمات میں سے 310 دہشتگردوں کو سزائے موت ہوئی، فوجی عدالتوں نے ان میں سے 546 مقدمات نمٹائے جن میں سے 234 کو قید اور 310کو سزائے موت دی گئی۔ ان کاوشوں کے باوجود ملک میں دہشتگردی کا طوفان تھم تو گیا ہے لیکن اس کا مکمل خاتمہ ابھی تک نہیں ہوا۔ حال ہی میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بھارتی معاونت سے ہونے والے حملے کو یاد رکھنا چاہیے۔ اگر چہ ہم بلوچستان میں بھارت نواز گروہوں کو بڑی حد تک پسپا کر چکے ہیں لیکن پھر بھی یہ کارروائی ہوئی۔
فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کے بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے، یہ حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ چوں کہ یہ قومی اہمیت کا مسئلہ ہے اس لیے جماعتی وسیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر پاکستان کی قومی وحدت کو مستحکم کرنے کے لیے اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اور حزب اقتدار و اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں آپس میں برسر پیکار رہیں۔ جانبین کو ملک کی بہتری کے لیے باہمی معاونت پر غور و فکر کرنا چاہیے۔
شہباز شریف پہلے ہی اس قرارداد کی منظوری میں تعاون کرنے کا اشارہ دے چکے ہیں۔انھی کی جماعت کے دور اقتدار میں یہ عدالتیں قائم ہوئی تھیں۔ پیپلز پارٹی اس معاملے میں تذبذب کا شکار ہے، اس کے بعض رہنما منفی بیانات بھی جاری کر چکے ہیں۔ زرداری صاحب میڈیا کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ اگر حکومت نے رابطہ کیا تو ان کی پارٹی اس معاملے پر غور کرے گی۔جعلی اکاؤنٹس سے زرداری صاحب کا گہرا تعلق سامنے آچکا، اگر منی لانڈرنگ ثابت ہو جاتی ہے تو ان کے تمام اثاثے ضبط ہونے کا خدشہ سر پر منڈلا رہا ہے، ان حالات میں یہ اندازہ لگانا کتنا مشکل ہے کہ وہ کسی قانون سازی میں حمایت کے عوض کیا تقاضا کر سکتے ہیں؟
تحریک انصاف کی قیادت میں ایسی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کم ہی ہیں جو ایسے مواقع پر حزب اختلاف کے ساتھ سیاسی عمل آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بعض مرتبہ کسی خاص سیاسی لیڈر کی انا ایسے کسی با معنی سیاسی تعاون کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے جس سے ملک کا مفاد بھی وابستہ ہوتا ہے، اسے تبدیل ہونا چاہیے! بدعنوانی کا مقابلہ جاری رہنا چاہیے لیکن اسے مشترکہ عزائم کے آڑے بھی نہیں آنا چاہیے۔ باہم منقسم سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو پاکستان کا مفاد سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے کوشش درکار ہے، نتیجہ خیز کوشش۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف کے عدالت سے نااہل قرار دیے گئے رہنما جہانگیر ترین کو بھی بروئے کار آنا پڑے تو کوئی ہرج نہیں۔ فوجی عدالتیں 2015ء میں سیاسی اتفاق رائے سے قائم ہوئیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت حکومت اور حزب اختلاف نے متفق ہو کر یہ فیصلہ کیا اور سپریم کورٹ نے بھی ان عدالتوں کے قیام کی توثیق کی۔ اگر سابقہ حکومت اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرسکتی ہے تو موجودہ حکومت کو بھی اپنی صلاحیت ثابت کرنا ہوگی۔ جب حالات کا تقاضا تھا تو مشرف، اس کے بعد زرداری کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی ن لیگ نے برسر اقتدار آکر سوات اور فاٹا کے علاقوں سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کارروائیاں کیں، اس وقت یہاں کے لوگوں کے جمہوری اور انسانی حقوق کا خیال کیوں نہیں آیا؟ کراچی کے بارے میں کیا کہیں گے؟ آج جو کراچی کے حالات ہیں اس بہتری میں افواج نے جس مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اسے کبھی فراموش کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم جنرل اعجاز چوہدری، نوید مختار، بلال اکبر اور سعید کی کام یابیوں کو کبھی بھلا پائیں گے؟ جب شہریوں کی جان اور ملک کی سالمیت داؤ پر لگی ہو تو سیاسی کھیل نہیں کھیلنے چاہییں۔
جمہوریت میں فوجی عدالتیں ناگزیر نہیں۔ عدالتی اور قانونی نظام میں اب تک وہ اصلاحات نہیں لاجاسکیں جو عام عدالتوں کو دہشتگردی کے مقدمات سے نمٹنے کی صلاحیت مہیا کرتی ہوں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب جمہوریت کا آغاز ہوا تو اس وقت دہشتگردی موجود نہیں تھی اور اسی لیے نظام کو بنیادی طور پر اس چیلنج کے مقابلے کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔حتیٰ کہ مغربی ممالک اور جمہوریتوں نے سیکھ لیا کہ انھیں غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے از سر نو قانون سازی کرنا پڑے گی، امریکا کے ''پیٹریاٹک ایکٹ'' کو کیا کہا جائے؟ قانون سازی کے لیے وقت درکار ہے جب کہ دہشتگرد انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔
ملک کے تحفظ اور قومی وحدت کو فروغ دینے کے لیے لائحہ عمل یہی رہنا چاہیے ''غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔''