ہائے اس کا کمر توڑ بستہ

یہ جلی کٹی باتیں نہیں ہیں ، پرائمری اسکول کا یہ معصوم بچہ تعلیمی پالیسی کا ستایا ہوا ہے


Shabbir Ahmed Arman February 07, 2019
[email protected]

وہ پرائمری جماعت کا طالب علم ہے ، اس کی عمر اور جسمانی قوت کے لحاظ اس کا بستہ بہت بھاری ہے جو اس کے نازک کندھوں پر نشان ڈال دیتا ہے اورکمر توڑنے والا ہوتا ہے ۔ وہ اسے ہانپتے کانپتے اٹھا کر اسکول پہنچتا ہے اور اسی حالت میں گھر لوٹتا ہے ۔ یہ بھاری بستہ اس کے لیے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ اس کی عمرکا اگر کوئی بچہ مزدوری کرتا ہوا نظر آئے تو سب کو بڑا ترس آتا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی جاگ اٹھتی ہیں ۔

اخباروں میں خبریں بھی لگ جاتی ہیں ، عالمی سطح پر اس کے حقوق کی بابت کانفرنسیں بھی منعقد ہوتی ہیں، بچوں کے عالمی دن بھی منائے جاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے پوری دنیا، اس کے مسائل حل کرنے کے لیے متحرک ہوگئی ہے ، مگرکسی کو اس کا بستہ چھوٹا اور آسان کرنے کی فکر نہیں ہے۔ یہ بھی آخرگوشت پوست کا انسان ہے، اس کے سینے میں بھی بڑوں کی طرح ایک دھڑکتا دل ہے ۔ آخرکب تک اس کے اس مسئلے پر صرف نظرکیا جاتا رہے گا ؟ جب کہ طبی ماہرین نے بھی اس کے بھاری بستے کو اس کی عمر سے بڑا وزنی اور اس کی ذہنی وجسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے، ہسپانوی ماہرین کاکہنا ہے کہ زیادہ وزنی اسکول بیگ بچوں میں کمر دردکی تکلیف کا سبب بنتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلسل وزنی بیگ اٹھانے کا عمل ان کی کمرکے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

اس سے بچنے کے لیے وزن کے 10فیصد سے کم وزنی بیگ اٹھانے سے کئی مسائل ختم ہوسکتے ہیں ۔ اسپین کے طبی ماہرین نے اپنی تحقیق کی بنیاد پرکہا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کو اپنے وزن سے 10فیصد کم اسکول بیگ اٹھانے چاہئیں۔

وہ بچے جو اپنے ذاتی وزن سے 10فیصد زائدکا اسکول بیگ اٹھاتے ہیں انھیں کمر درد کی تکلیف ہوسکتی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادا رے کی رپورٹ کے مطابق اسپین کے ماہرین نے 1403طلباء پر تحقیق کی جن میں سے 12سال سے 17سال کی عمرکے11اسکولوں کے بچوں کو شامل کیا گیا ۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں کے اسکول بیگ کا وزن ان کے اپنے وزن کے 10فیصد سے زائد تھا ان میں سے 66 فیصد بچے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا پائے گئے ۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کوکمر درد کی زیادہ شکایت تھی ۔ پھر بھی کوئی نہیں سنتا ۔ تعلیمی میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے اگر اس کے بستے کو چھوٹا اور آسان نہیں بناسکتے تو پھر اس کے پاس کیا دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرے گا ؟

یہ جلی کٹی باتیں نہیں ہیں ، پرائمری اسکول کا یہ معصوم بچہ تعلیمی پالیسی کا ستایا ہوا ہے ۔ روزانہ ذہنی اذیت کا شکار یہ چھوٹا طالب علم ان دانشوروں کی جان کو روتا ہے جو اس کی مشکل کو مانتے ہیں مگر حل نہیں کرتے ۔ اپنے بھاری بستے کے بوجھ تلے دبے ہوئے بچے کی چیخیں کیا کان دھرنے کے لائق نہیں؟ سچ یہ ہے کہ اس معصوم طالب علم کا بستہ بڑا ہونے میں اس کے لیے نصاب سازی کرنے والوں کی سطحی سوچ اور ذہنی فراغت کا بڑا دخل ہے ۔ دنیا میں بڑے بڑے مسائل کی بابت لوگ گہرائی کے ساتھ سوچتے ہیں اور ان کے حل نکال لیتے ہیں مگر معصوم طالب علم کا بستہ چھوٹا کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی حل نہیں نظر آتا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی کاروں ، کوٹھیوں اور بنگلوں کو بڑی سرعت کے ساتھ بڑا کرنے والے بستے کو بھی اسی رو میں بہتے ہوئے بڑا کرنے میں مگن ہیں ۔ معصوم طالب علم کا بستہ اب تک کتابوں کی غذا کھا کھا کر موٹا ہوتا جارہا ہے غالبا یہ موٹے دماغوں والے کی کار ستانی ہے ۔

کسی زمانے میں انگریزی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی اور چھٹی جماعت کا بچہ قدرے بڑا ہوتا ہے اور بستے کا جسمانی اور ذہنی بوجھ کس قدر آسانی سے اٹھا سکتا ہے ۔ پہلے کم از کم ایک انگریزی کی کتاب اور اس کے ساتھ چار کاپیوں کا بوجھ تھا ۔ اب اس معصوم بچے کے بستے میں ایک انگریزی کی کتاب ، ایک الفاظ معانی کی کاپی ، ایک سبق کے آخر میں موجود مشقوں کے لیے اور ایک انگریزی خوشخطی کے لیے ہے جو کتابوں کے وزن اٹھانے کی بات ہے ۔ ایک دفعہ اسکول جاتے ہوئے اور ایک دفعہ واپس آتے ہوئے انھیں اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں ہوسکتا کہ پرائمری کے اس معصوم طالب علم کو جتنی محنت اور جتنی توانائی دوسرے تمام مضامین پر خرچ کرنی پڑتی ہے اتنی ہی توانائی انگریزی کے مضمون پر خرچ ہوتی ہے ۔

پھر بھی اسے انگریزی نہیں آتی ہے ۔رٹے کی چکی میں پس پس کر اس کا دماغ تھک جاتا ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کی سائنس کو بھی اتنا پچیدہ اور غیر فطری بنا دیا گیا ہے کہ معصوم طالب علم اسکول سے بھاگنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بستہ ساز اسے پڑھنے نہیں دینا چاہتے ۔ اخبارات میں کروڑوں روپے خرچ کرکے مہم چلائی جاتی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کروائیں ، مگر اسکول میں ایک غیر ملکی زبان اور غیر فطری سائنسی نصاب کا بوجھ ڈال کر معصوم طالب علم کی تمام دلچپسیوں کو ختم کر رہے ہیں ان حالات میں ایک معصوم طالب علم کا اسکول میں کیسے دل لگ سکتا ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ بستہ سازوں اور نصاب سازوں نے مل کر معصوم طالب علموں سے خاموش جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ملک کے کروڑوں بچوں کو بطور بیگار اس جنگ میں سپاہی کے فرائض انجام دینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے ۔

خدارا ! معصوم طالب علموں کے ماتھے پر پریشانیوں کی شکنوں میں چھپے ان کے دل کے درد کو محسوس کیا جائے ، کیا یہ جبری مشقت نہیں جو ہر روز ان سے لی جاتی ہے ؟ کیا یہ ان کا حق نہیں کہ ان کا بستہ ان کی عمر، جسمانی صحت اور ذہنی سطح کے مطابق ہو؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کرنا چاہیے؟ یہ وہ معصوم طالب علموں کے سوالات ہیں ،جن کے جواب تعلیم سازوں کو دینے ہیں ۔ قارئین کرام ! آپ کا کیا خیال ہے ؟ اپنی رائے کا اظہار کریں تاکہ معصوم طالب علم بچوں کی صدا ارباب اختیارات تک بھر پور انداز میں پہنچ سکے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ اس کار نیک کی جزا دینے والا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں