ذیابیطس سے بچاؤ کیلیے نیچروپیتھی کیا کہتی ہے

ذیابیطس کی علامات پیدا کرنے والے اسباب دور کرنے سے مریض کی صحت بھی مکمل طور پر بحال ہوسکتی ہے۔

ذیابیطس کی علامات پیدا کرنے والے اسباب دور کرنے سے مریض کی صحت بھی مکمل طور پر بحال ہوسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

خالقِ کائنات نے انسان کی تخلیق فطری اصولوں کے عین مطابق کی ہے۔ جب تک وہ فطرت اور فطری طریقوں پر عمل پیرا رہتا ہے تب تک ہر دو طرح کے جسمانی وروحانی مسائل سے محفوظ رہتا ہے۔ جونہی فطرت سے متصادم راستے اپنانے کی کوشش کرتا ہے تو معلوم اور نا معلوم بے شمار مسائل میں گھر کے رہ جاتا ہے۔

انسانی جسم ایک خود کار مشین کی طرح کام سر انجام دیتا ہے۔ اس میں پائے جانے والے لا تعداد نظام اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ جب بھی کوئی بیرونی عنصر جسم کے کسی ایک نظام کی کارکردگی میں دخل اندازی کرتا ہے تو ردِ عمل کے طور پر انسانی جسم جن علامات کا اظہار کرتا ہے ماہرین اسے مرض کا نام دیتے ہیں۔

زیر نظر مضمون میں ہم نیچرو پیتھی( یادرہے کہ فطری عمل کی حد بندی میں صحت کے اصول کو 'نیچروپیتھی' کا نام دیا گیا، اس طریقہ علاج کے مطابق فطری اور سادہ غذائیں، پھل، سبزیاں، کھلی دھوپ،غسل اور ورزش وغیرہ ہی اصل صحت کے اصول ہیں۔ اس کے موجد ڈاکٹر لوئس کوہنی ہیں اس فن علاج کی تاریخ 150 سال پرانی ہے) کے حوالے سے چند معروضات سپردِ قلم کریں گے کہ ذیابیطس کیا ہے؟ اور اس سے بچاؤکیسے ممکن ہے؟

ذیابیطس کا شمارموجودہ دور کے خطرناک اور تکلیف دہ امراض میں ہوتا ہے۔لوگ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے چکر میں کڑوی اشیا کا بڑی وافر مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔ذیابیطس کے لیے استعمال کی جانے والی جڑی بوٹیوں میں چرائتہ،پنیر ڈوڈی،نیم،حنظل(تمہ) اور کریلا وغیرہ شامل ہیں۔

عوام الناس شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ تلخی اور کڑواہٹ مٹھاس کی ضد ہے۔ یوں کڑوی چیزیں کھانے سے ذیابیطس کا خاتمہ ہو جائے گاحالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ طبی ماہرین کے ایک جماعت کے مطابق ذیابیطس کسی ایک علامت یا بیماری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کئی ایک علامات اور عوارض کے مجموعے کا نام ہے جو غذائی ردِ عمل کے طور پر سامنے آتا ہے۔

یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ذیابیطس کے مریض اپنے معمولات ِ زندگی اور روز مرہ غذاؤں میں ردو بدل کرلیں تو وہ کافی حد تک اس کے مضر اثرات اور مہلک کیفیات سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ذیابیطس کی علامات پیدا کرنے والے اسباب کو دور کر دینے سے نہ صرف اس کی ظاہری علامات ختم ہوجاتی ہیں بلکہ مریض کی صحت بھی مکمل طور پر بحال ہوجاتی ہے۔ نیچرو پیتھی کی رو سے عام طور پر ذیابیطس کی پانچ اقسام ہیں: معوی ،معدی ،کبدی دماغی اور بانقراسی اور ان کے پیدا کرنے میں درج ذیل عوارض اور اعضا کی خرابی شامل ہوتی ہے۔

معوی ذیابیطس

امعاء یا انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس، انتڑیوں کی کار کردگی میں خرابی واقع ہوجانے سے بھی ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔اگر ابتدائی طور پر اس خرابی کو دور کر دیا جائے تو ذیابیطس کی علامات بھی خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔انتڑیوں کی خرابی میں دائمی قبض،انتڑیوں کی سوزش،انتڑیوں کی حرکاتِ دودیہ میں نقص واقع ہونا، انتڑیوں میں زہریلی گیسوں کا ٹھہر جانا اورخشکی کی تہہ بن جانا وغیرہ شامل ہیں۔

انتڑیوں میں فاضل مادوں کے زیادہ دیر تک رکے رہنے کی وجہ سے تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اجابت کھل کر نہیں ہوتی۔مریض پیٹ میں بھاری پن اور بوجھ سا محسوس کرتا ہے۔دن میں کئی بار رفع حاجت کی خواہش تو ہوتی ہے مگر فراغت نہیں ہو پاتی۔اکثر اوقات امراضِ امعا میں مبتلا افراد کو چھوٹا پیشاب بار بار آنے لگتا ہے اور ہر بار پاخانہ بھی قلیل مقدار میں خارج ہوتا ہے رہتا ہے۔ راقم الحروف کی ذاتی پریکٹس میں اس طرح کے بے شمار مریض آچکے ہیں جن کی انتڑیاں درست ہوتے ہی ذیابیطس بھی جان چھوڑ گئی۔

علاوہ ازیں ماہرین طب جانتے ہیں کہ انسانی جسم کی عمدہ کاکردگی میں 80% تک انتڑیوں کی بہتر کارکردگی کا عمل دخل ہوتا ہے۔انتڑیوں کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ثقیل،نفاخ اور دیر ہضم غذاؤں کا بے دریغ اور تواتر سے استعمال ہے۔انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس کو معوی شوگر کا نام دیا جاتا ہے۔

یہاں یہ امر قابل وضاحت ہے کہ جو معالجین اسبابِ مرض کو دور کرنے پر توجہ دیتے ہیں اور ظاہری علامات کی بجائے) Basic Root (جڑ کو اکھاڑنے کی تگ و دو کرتے ہیں وہ مریض کو اس کے مرض سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔مثلاََ معوی ذیابیطس کا علاج کرتے وقت اگر انتڑیوں کی کار کردگی کی درستگی پر دھیان دیا جائے گا تو خرابی دور ہو جانے کی صورت میں ظاہری علامات بھی ختم ہو جائیں گی۔

معدی ذیابیطس


بعض اوقات معدے کی خرابی کے باعث ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں جسے معدی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں سے اکثریت کو کھانے کی طلب بار بار ہوتی ہے اور یوں مریض اور معالج یہ سمجھ لیتے ہیں کہ معدہ اپنا فعل درست طریقے سے سر انجام دے رہا ہے حالانکہ یہ نظریہ یا خیال درست نہیں ہے بلکہ علمِ طب کی رو سے بار بار کھانے کی طلب اور وقت بے وقت بھوک کی شدت کا احساس ہونا الگ سے ایک بیماری ہے جسے جو ع ابقر کا نام دیا جاتا ہے۔یہ معالج کی ذمے داری ہے کہ وہ مرض کی تشخیص مکمل سوجھ بوجھ سے کرے اور اسباب کے خاتمے پر دھیان دیتے ہوئے معدے کے امراض کا علاج کرے۔انشا ء اللہ معدی ذیابیطس کی علامات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

کبدی ذیابیطس

کبد جگر کا دوسرا نام ہے لہٰذا ایسے افراد جو کافی عرصے تک جگری امراض میں مبتلا رہتے ہیں بعض اوقات ذیابیطس کی علامات انہیں بھی تنگ کرنے لگتی ہیں۔اگر امراضِ جگر کے علاج پر توجہ دی جائے تو مریض ذیابیطس کے چنگل سے چھٹکارا پانے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔عام طور پر امراضِ جگر میں غلبۂ صفرا اور سودا،جگر کے سدے، جگر کی سوزش (Hepatitis) وغیرہ شامل ہیں۔ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جگر کی خرابی میں پتے اور تلی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ صفرا کا مرکز پتہ ہے جبکہ تلی سودا کا گھر ہے۔لہٰذا ذیابیطس کے اسباب میں پتہ اور تلی بھی شامل ہو سکتے ہیں۔دورانِ علاج معالج کی معالجاتی بصیرت پر دار ومدار ہوتا ہے کہ مرض کی تشخیص کس سطح پر جا کر کرتا ہے۔

دماغی ذیابیطس

ہمارے سر میںدماغ کے قریب بلغم پیدا کرنے والا غدود پایا جاتا ہے۔ ایسے افراد جن کا مزاج بلغمی ہوتا ہے ،جسم میں بلغم کی مقدار ضرورت سے زیادہ جمع ہو جانے سے بھی بعض اوقات ذیابیطس کی علامات ستانے لگتی ہیں۔ایسی ذیابیطس کو دماغی کہا جاتا ہے۔علاوہ ازیں ذہنی امراض کے نتیجے میں حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بھی برین شوگر کہا جاتا ہے۔دماغی ذیابیطس کا رجحان ایسے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بات بے بات ٹینشن،ڈپریشن اور ذہنی اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ویسے بھی علمِ طب کی رو سے کسی ایک اخلاط کی کمی یا زیادتی امراض کا باعث بن جاتی ہے۔ بلغم کی زیادتی خون میں شامل ہوکر نظامِ دورانِ خون کو متاثر کرتی ہے جس سے بلڈ شوگر کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

جنرل ذیابیطس

عام حملہ آور ہونے والی ذیابیطس بانقراس یا لبلبہ کے فعل میں خرابی پیدا ہونے سے واقع ہوتی ہے۔ لبلبہ ایک ایسا غدود ہے جو جسم میں انسولین کی مطلوبہ ضرورت کو پوری کرتا ہے۔چکنائیوں کے بے دریغ استعمال سے اس کے فعل میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے چونکہ بدنِ انسانی میں شوگر لیول کو قابو میں رکھنا انسولین کا کام ہے۔ لہٰذا انسولین کی کمی یا زیادتی سے شوگر لیول متاثر ہو جا تا ہے اور ذیابیطس کی تکلیف دہ علامات سامنے آنے لگتی ہیں۔یاد رہے کہ بانقراس کے فعل میں خرابی غیر معیاری خوراک،سہل پسندی اور دیگر ماحولیاتی عناصر سے پید اہوتی ہے۔لبلبے کی خرابی سے حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بانقراسی یا جنرل ذیابیطس کہا جاتا ہے۔

خوراک اور روز مرہ معمولات کے حوالے سے چند معروضات

یوں تو ورزش سب کے لیے فائدہ مندہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو نے کے ساتھ ساتھ سو گنا زیادہ ضروری بھی ہے۔ ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنالیں۔ ایسے مریض جو تبخیر،گیس اور تیزابیت میں مبتلا ہوں وہ کھیرااور بند گوبھی کو بطورِ سلاد استعمال نہ کریں۔چاول،پھول گوبھی ، بیگن، مونگرے شملہ، بھنڈی اور دال ماش بھی ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

ایسے مریض جنہیں پیشاب بار بار آنے کی تکلیف لاحق ہو وہ چائے اور کولا مشروبات وغیرہ سے ممکنہ حد تک بچیں پھلوں میں خربوزہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کھانے سے پہلے نہانا اور نہانے کے فوراََ بعد کھانا بھی امراض کا سبب بنتا ہے۔علاوہ ازیں نہانے کے بعد پانی پیناتو ازحد نقصان دہ ہوتا ہے۔ شوگر کے مریضوں کے لیے کیلا بھی تکلیف بڑھانے کاذریعہ بن سکتا ہے۔

البتہ ایسے افراد جنہیں ذیابیطس غلبہ صفرا کی وجہ سے ہو ان کے لیے کیلا مفید ہوتا ہے۔ناشتے میں دہی،روغنِ بادام اور خالص شہد کو لازمی شامل کریں یہ قوتِ مدافعت میں اضافے کا قدرتی ذریعہ ہیں۔ قبض میں مبتلا افراد کو تیز جلاب آور ادویات سے پرہیز کرنا چاہیے۔کچی سبزیاں اورپھل قبض سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔بازاری مٹھائیوں با لخصوص چاکلیٹی مصنوعات سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

ذیابیطس کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ بینگن،دال مسور، چاول اور بڑے گوشت سے حتی المقدور دور رہیں۔ مولی بطورِ سلاد کھانے سے پرہیز کریں ہاں البتہ پتوں سمیت پکا کر اس کے غذائی فوائد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیابیطس سے بچاؤ اور اس کے خاتمے کے لیے سنے سنائے ٹوٹکوں اور خود معالجاتی طرزِ عمل سے بچا جائے اور کسی ماہر معالج اور نیچرو پیتھ کے مشورے سے غذا اور دوا کا استعمال کیا جائے تو ہم مکمل وثوق سے کہتے ہیں کہ ذیابیطس سے بچاؤ ممکن ہے ۔

حکیم نیاز احمد ڈیال
niazdayal@gmail.com
Load Next Story